ملیشیا کے کداہ میں شیعہ مخالف بل نافذ

ملائیشیا میں حالیہ دنوں شیعہ مخالف سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ روز اس ملک کی ریاست "کداہ" کے حکمران نے اتحاد بین المسلمین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شیعہ مخالف قدم اٹھا کر ملائیشیا کے شیعوں پر مزید پابندیاں عائد کردی ہیں۔

ملیشیا کے کداہ میں شیعہ مخالف بل نافذ

{بنا} ملائیشیا میں حالیہ دنوں شیعہ مخالف سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے۔ گزشتہ روز اس ملک کی  ریاست "کداہ" کے حکمران نے اتحاد بین المسلمین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شیعہ مخالف قدم اٹھا کر ملائیشیا کے شیعوں پر مزید پابندیاں عائد کردی ہیں۔


ملائیشیا کی ریاست "کداہ" Kedah کے ریاستی حکومت کونسل کے چیئرمین ’’ٹینگو ٹین سری انور‘‘ نے گزشتہ روز اتوار کو ریاست کے تیرھویں اجلاس کے افتتاح کے دوران، ریاست کداہ کی حکومت کو دستور دیتے ہوئے کہا کہ شیعی تعلیمات کی نشر و اشاعت پر مکمل طور پر پابندی لگا دی جائے۔
"سری انور" نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ اہلسنت و الجماعت کی تعلیمات کے علاوہ کسی دوسرے اسلامی فرقے کی تعلیم و تبلیغ ممنوع ہے ملائیشیا کی دیگر ریاستوں کے حکام کو بھی دستور دیتے ہوئے کہا کہ مکتب تشیع کی تبلیغ ممنوع کرنے کے قانون کو پاس کرنے میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔
سری انور نے مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام مساجد کی فعالیتوں پر روک لگا دی جائے جن سے اہلسنت کو خطرہ ہے۔
ملائیشیا کے حکام کی طرف سے اس شیعہ مخالف اقدام کے خلاف ملکی سطح پر بوال  ہونے کے علاوہ مختلف علمی، مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی طرف سے منفی اور مثبت رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔
’’جوہور‘‘ ریاست کے ایک عہدہ دار نے کہا ہے کہ شیعہ تحریکوں کا قلع قمع کرنا ضروری ہے اس لیے کہ شیعہ ملک کے منافع کی راہ میں خطرہ ہیں۔
"عبد المطلب عبد الرحیم" نے کہا ہے کہ ابھی تک ریاست جوہور کے مغربی علاقے میں ایک ہزار شیعوں کی پہچان کر لی گئی ہے اور ان کی مذہبی سرگرمیوں کو زیر نظر رکھنے کے لیے افراد معین کر دئے گئے ہیں۔

ملائیشیا کے برجستہ عالم دین: شیعہ سنی کے درمیان اختلاف، اسلامی بیداری کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
حکومتی عہدہ داروں کی طرف سے شیعہ مخالف اقدام کے بعد اس ملک کے ایک برجستہ عالم دین نے ملائیشیا کے مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ شیعہ سنی تفرقہ پھیلانے سے پرہیز کریں۔
شیخ عبد الہادی اوانگ نے کہا: شیعہ سنی اختلاف ایک پرانا حربہ ہے جو دشمنان اسلام کی طرف سے اسلام کو کمزور کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اسلام کے اختلافی مسائل کا تعلق علمائے اسلام سے ہے نہ جاہل عوام سے کہ وہ ان مسائل میں الجھ کر اسلامی سماج کے اندر فتنہ پھیلائیں۔
انہوں نے کہا: ملائیشیا میں اہل تشیع ایک صدی سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں لہذا ان کے خلاف کسی قسم کا ناجائز اقدام ناقابل برداشت ہے۔
اہلسنت کے اس عالم دین نے مزید تاکید کی: ہم اس وقت اسلامی بیداری کے زمانے میں جی رہے ہیں مسلمان سامراج کے مقابلے میں بیدار ہو رہے ہیں اور غلامی کی زندگی سے نجات پا رہے ہیں لہذا سامراج مختلف بہانوں سے اسلامی ممالک کے اندر نفوذ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بنابر ایں یہ محض حماقت ہے کہ ہم شیعہ سنی اختلاف کے مردے کو دوبار قبر سے نکالیں اور اسلامی بیداری کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کریں۔

 شیعہ مخالف سرگرمیوں میں تیزی
گزشتہ تین سال سے ملائیشیا کے شیعوں پر دباو میں شدت آ گئی ہے۔ تین سال پہلے ریاست سلانگور میں سیکیورٹی فورسز نے شب عاشور کو حوزہ علمیہ امام رضا (ع) کی امام بارگاہ پر حملہ کر کے مراسم عزاداری کو درہم برہم کیا اور ۲۰۰ سے زیادہ عزاداروں کو گرفتار کر لیا تھا۔
اس کاروائی کے بعد شیعوں کے خلاف جھوٹی تبلیغ شروع ہو گئی اور "سلانگور" کی مذہبی امور تنظیم نے ایک بیان جاری کر کے ملائیشیا کے شیعوں پر یہ الزام عائد کیا کہ اس ملک کے شیعہ بادشاہی نظام کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں!
ملائیشیا کی اس ریاست میں شیعوں پر دباو کی بنیادی وجہ وہابی تفکر سے متاثر فتویٰ ہے جو سلانگور کے انتظامیہ ایکٹ کی شق © 12 کا حصہ ہے جس کے مطابق اہل تشیع تعلیمات اہلسنت یا حقیقی اسلام کی تعلیمات سے منحرف ہیں!
اس واقعہ کے بعد حکومت سلانگور نے شیعوں کے لیے ایک مخصوص جیل تیار کروائی جس میں اہل تشیع کو گرفتار کر کے بند کیا جاتا ہے چونکہ اگر عام جیلوں میں شیعوں کو دیگر افراد کے ساتھ رکھا جائے تو ممکن ہے جیل میں موجود دیگر افراد بھی شیعہ تفکر اختیار کر لیں اور شیعہ ہو جائیں۔
حالیہ دنوں میں ملائیشیا کے حکام نے مختلف ریاستوں کے عہدہ داروں پر دباو بڑھا دیا ہے کہ وہ شیعت کے خلاف سخت سے سخت قوانین پاس کریں اور اہل تشیع کے خلاف تبلیغ کرنے کے لیے کچھ بجٹ مخصوص کریں۔
 

Add new comment