سورۂ یاسین کی عظمت
سورۂ یاسین کی عظمت
سورۂ یاسین کے سلسلہ میں زیادہ تر مومنین کی معرفت نہیں ہے اس سورہ کے فضائل و مناقب اور اس کے دنیوی و آخروی آثار سے بہت سارے مومنین غافل ہیں ۔اسی وجہ سے وہ لوگ ،دشواریوں،غم و الم کی الجھنوں کے دام میں گرفتار رہتے ہیں لیکن مقربان درگارہ الٰہی کی انس و محفل میں اس سورہ کے حوال سے گفتار و سخن بہت زیادہ ہیں۔پیغمبر اکرم ،ایمہ اطہار،بزرگان دین او سیر و سلوک و مکاشفہ سے مربوط افراد کے بیانات کی طرف تھوڑی سی توجہ کے ذریعہ ایک انسان اس سورہ کی حقیقت کی طرف ملتفت ہو سکتا ہے کہ سورۂ یاسین ایک خاص مرتبہ کا حامل سورہ ہے اور اس کی شان و شوکت اور اس کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر انسان اس سورہ کے فضائل و مناقب سے آشنا ہو جائے تو یقیناً اس کے کامل ترین فوائد کو اپنی زندگی کا حصہ بنا سکتا ہے۔
اس سورہ کی والا ترین عظمت جو فضاہل کے ایک پوشیدہ پہاڑ کی طرح ہے۔سے آشنا کرنے کے لئے پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے : یاسین قلب قرآن ہے ۔
انسان کے بدن میں قلب کا درجہ اور اس کی انفرادی حیثیت و برتری کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ اس نسبت کی بنیاد پر سورہ یاسین بھی قرآن مجید کے دیگر سوروں کے درمیان اسی درجہ کا حامل ہے جو ایک بدن اور قلب کو حاصل ہے۔آنحضرت نے ایک دوسری جگہ فرمایا : خدا کی قسم میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ سورہ میری امت کی ہر فرد کے قلب میں جا گزیں اور محفوظ ہو۔
لہذا مناسب ہے کہ عمومی سطح سے تھوڑا سا اوپر اٹھ کر قلب قرآن کے بعض فضائل و مناقب سے آشنائی حاصل کی جائے ۔ امید ہے کہ جو حقیقت کے متلاشی ہیں وہ اپنا گمشدہ خزانہ سورہ یاسین کے سلسلے میں روایتوں اور اہل دل اور صاحبان معرفت کے بیانات کی روشنی میں حاصل کر لیں گے ۔ہاں بس اس کے لئے ایک توفیق درکار ہے جو خدا ہی دے سکتا ہے۔
شان نزول یاسین
ایک دن پیغمبر اکرم نے ناگہاں اپنے گھرے کے باہر شور و غل کی آواز سنی،دریچہ سے باہر کی طرف نگاہ کی تو کیا دیکھا کہ دشمنان اسلام اکٹھا ہو کر آپ کے قتل کے درپے ہیں اور غیط و غضب کے عالم میں آپ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں ۔آنحضرت اس فکر میں تھے کہ باہر نکلیں یا نہ نکلیں کبھی آپ اپنا قدم دروازے کی طرف آگے بڑھاتے اور پھر واپس لوٹ آتے تھے اسی وقت جبرئیل خدا وند متعال کی طف سے نازل ہوئے اور سورۂ یاسین کی آیتیں آنحضرت کی خدمت میں پیش کیں اور پیغمبر اکرم سے درخواست کی کہ اس سورہ کی آیتوں کو پڑھتے ہوئے آپ باہر گھر سے نکل جائیں ۔ پیغمبر اکرم بھی بغیر کسی توقف کے اس سورہ کی آیتوں کو پڑھتے ہوئے اپنے گھر سے باہر نکل آئے لیکن کفار و قریش آپ کو دیکھ نہیں سکے پیغمبر اکرم بھی آہستہ آہستہ اپنا قدم اٹھا رہے تھے اور ان کے درمیان کھڑے ہوئے ایک ایک شخص کو بغور دیکھ رہے تھے پھر آپ نے ایک مٹھی خاک اٹھائی اور ان کے سروں پر پھینک دی ۔ شاید یہ خاک ان کے لئے موت کا پیغام تھی کیونکہ جن لوگوں کے سروں پر یہ خاک پڑی تھی وہ سب کے سب جنگ بدر میں ہلا ک ہو گئے مشرکین اپنے سروں پرپڑی خاک کو تو دیکھ رہے تھے لیکن پیغمبر اکرم کو نہیں دیکھ پا رہے تھے ۔ وہ لوگ اپنے سروں سے خاک کو صاف کرتے جا رہے تھے اور پیغمبر اکرم کو برا بھلا بھی کہے جا رہے تھے۔اس طرح پیغمبر اکرم کسی خطرے سے دوچار ہوئے بغیر مسجد الحرام پہنچ گئے ۔ ایک شخص جو ان لوگوں کے درمیان سے گذر رہا تھا اس نے ان لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر ان سے پوچھا : تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : کہ ہم آج محمد کا کام تمام کرنے آئے ہیں وہ شخص کہتا ہے : تو پھر کیوں بیٹھے ہو میں نے ان کو مسجد الحرام میں دیکھا ہے یہ سن کر وہ لوگ ایک دوسرے کی طرف شرمندگی کے ساتھ دیکھنے لگے اور اس جگہ کو ترک کر دیا۔
اس واقعہ میں غور وخوض کرنے سے دو نکتہ کی طرف ہماری رہنمائی ہوتی ہے :
1۔ سورۂ یاسین کی شان نزول میں جس واقعہ کو بیان کیا گیا اس میں اس سورہ کی اعجاز آفرینی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے یعنی جب سے یہ سورہ پیغمبر اکرم کی زبان پر جاری ہوا اسی وقت سے اعجاز آفرین اور حل مشکلات کے لئے کلید واقع ہوتا رہا ہے اور اس سورہ کی شان و مرتبت فقط اسی دن اور اس واقعہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سورہ کی قرآت ہمیشہ مشکل کشا رہی ہے۔
2۔ سورۂ یاسین ہمیشہ سے بہت سارے امراض کے لئے اکسیر اور مثبت آثار کا حامل ہے مثلا زندگی کے بند راستوں کا آسانی کے ساتھ کھل جانا۔ سخت و دشوار امور کا آسان ہو جانا۔ مصیبت و پریشانی ، کا مضبوط سہارا ،فقر و احتیاج سے نجات کا راستہ،مال و دولت،علم و دانش اور عمر میں برکت کا نسخۃ ۔ صفحہ دل اور زندگی کے ہر میدان میں لطف ور حمت خدائے متعال کی تابندگی ،احتیاج و ضرورت کے وقت فوری فریاد رس ، دشمنوں کو ذلیل و رسوا کرنے والا اور ان کے منصوبوں پر پانی پھیرنے والا ہے ۔
Add new comment