حزب اللہ نے اس زمانے کے سب سے بڑے طاغوت صہیونیت، براہمنیت اور سعودیت کو سرنگوں کر دیا ہے

حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس اصل طاقت تقویٰ ہے، تقویٰ کی طاقت اسی وقت آسکتی ہے جب آپ کا ایمان پختہ ہو۔ حزب اللہ نے دنیا کو دکھلا دیا ہے کہ طاغوت اور اہل تقویٰ کا جب مقابلہ ہوتا ہے، تو اہل طاغوت سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ آل سعود نے شام میں بے تحاشہ وسائل جھونکے ہیں، جتنی خباثت کرنا چاہتے تھے انہوں نے کی ہے۔ الجزائر میں آل سعود کے ہاتھوں چھ لاکھ آدمی شہید کئے گئے، چونکہ وہاں ووٹ کے ذریعہ اسلامی انقلاب آرہا تھا۔ الجزائر میں سب سنی مسلمان تھے کوئی شیعہ نہیں تھا۔
آغا مرتضی پویا معروف اسلامی اسکالر اور دانشور ہیں، آپ نے میدان صحافت میں بھی نام پیدا کیا۔ ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ آغا مرتضٰی پویا کے والد گرامی آیت اللہ آقا حاجی مرزا مہدی پویا یزدی 1947ء میں کراچی آئے، وہاں علمی و دینی کام کی سرپرستی کرتے رہے اور ایک مدرسہ جعفریہ کی تشکیل کی، جو ابھی تک کام کر رہا ہے۔ مرتضٰی پویا نے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور 1957ء سے عملی زندگی میں سرگرم عمل ہیں۔ عملی سیاست کا آغاز مرتضٰی پویا نے 1975ء سے کیا اور آج تک اس میں مصروف ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ملی یکجہتی کونسل کے تحت اسلام آباد میں منعقدہ یوم القدس و یوم آزادی پاکستان سیمینار کے موقع پر مرتضٰی پویا کے ساتھ ملکی و بین الاقوامی موضوعات پر ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔

جہان اسلام کے سلگتے مسائل میں فلسطین کی بجائے شام سرفہرست ہوگیا ہے، امت مسلمہ کو اس کے حل کیلئے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہییں۔؟
مرتضٰی پویا: پتہ نہیں تاریخ کا باب کہاں سے کھولیں اور کہاں سے شروع کریں۔ دو سو سال کی تاریخ ملحوظ رکھیں، سو سال کی تاریخ ملحوظ رکھیں، یا چالیس سال کی تاریخ۔ بظاہر جو ہر ایک آدمی مانتا ہے، چاہے اسے اسلامی انقلاب اور اسلامی سوچ سے اتفاق ہو یا نہ ہو۔ سب ایک چیز کا اعتراف کرتے ہیں۔ جس انقلاب کا آغاز امام خمینی (رہ) امام راحل نے کیا، وہ آج اپنے کامیاب ترین دور سے گزر رہا ہے اور حزب اللہ نے اس میں شرکت کرکے ایک نیا باب رقم کیا کہ تعداد امپارٹنٹ نہیں ہے، نہ دشمن کی طاقت امپارٹنٹ ہوتی ہے بلکہ عقیدہ امپارٹنٹ ہوتا ہے، ایمان امپارٹنٹ ہوتا ہے اور شہادت طلبی جو صرف اہل ایمان کا نصیب ہوتی ہے۔ شہادت طلبی کی طاقت بہت بڑے بڑے طاغوتوں کو سرنگوں کر دیتی ہے۔ میرے ایک دوست تھے آئی ایس آئی میں کسی زمانے میں، وہ کہا کرتے تھے۔ ایک مسلمان دو سو صہیونیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اور ایک صہیونی دو سو عربوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اب جو کارنامہ شام میں اور دوسرے محاذوں پر اسلامی انقلاب کے ماننے والوں نے اور خاص طور پر امام خمینی (رہ) کی قیادت کو ماننے والے اور حزب اللہ کی قیادت کو ماننے والوں نے شروع کر دیا ہے کہ تعداد امپارٹنٹ نہیں ہے۔
حزب اللہ نے اس زمانے کے سب سے بڑے طاغوت اور طاغوتی سوچ رکھنے والے، صہیونیت، براہمنیت اور سعودیت، یعنی آل سعود کو سرنگوں کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں صہیونی اب مقابلے کی بجائے راستہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ ہم زیست ہوں۔ بہرحال یہ ہر کسی کے لئے قابل قبول ہے، جو رہنا چاہتا ہے فلسطین میں رہے، جو آنا چاہتا ہے آئے۔ اسلامی انقلاب کے بعد کہاں وہ ماسکو جس نے افغانستان میں لشکر کشی کی اور اب وہ کہہ رہا ہے کہ کوئی شام میں آکر تو دیکھے۔ تو دیکھیں چالیس سال میں کتنا فرق پڑا۔ چین جو غیر جانبدار تھا۔ وہ شام کے ساتھ ایسے کھڑا ہے جیسے شام ان کے لئے مہم ترین محاذ ہو۔ گذشتہ سال یوم القدس کے موقع پر لندن میں اظہار خیال کیا تھا کہ صہیونی تکیہ آل سعود پر بڑھ گیا ہے، اور امریکیو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آل سعود کو ہٹانا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آل سعود آخری لمحات میں ہیں، اگر وہ جائیں گے تو اسرائیل بھی نابود ہوجائے گا اور امریکہ ایک نئے ہم زیستی کے پروگرام کے تحت اہل تقویٰ کے ساتھ ناطہ استوار کرے گا۔

آپ نے ایک گذشتہ انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے بعد اس وقت قومے کی حالت میں ہے اور کسی بھی وقت نابود ہوسکتا ہے، تو اس وقت تک اسرائیل کیسے زندہ ہے۔؟
مرتضیٰ پویا: جی اسرائیل اب بھی قومے کی حالت میں، بلکہ اس سے بھی بدتر حالت میں ہے۔

کیا سید حسن نصر اللہ کا یہ اعلان کہ ہم دنیا بھر کے دہشت گردوں اور امریکہ و اسرائیل کے آلہ کاروں کو خیبر یاد دلا دیں گے، اسرائیل کی نابودی اور تباہی کا عندیہ نہیں دے رہا۔؟
مرتضٰی پویا: اسرائیلی بھی حزب اللہ کی ساکھ کے بارے میں معترف ہیں۔ حزب اللہ والے کبھی دھمکی نہیں دیتے، جو کہتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں۔ حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس اصل طاقت تقویٰ ہے۔ تقویٰ کی طاقت اسی وقت آسکتی ہے جب آپ کا ایمان پختہ ہو۔ حزب اللہ نے دنیا کو دکھلا دیا ہے کہ طاغوت اور اہل تقویٰ کا جب مقابلہ ہوتا ہے، تو اہل طاغوت سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ اب جتنے وسائل آل سعود نے شام میں جھونکے ہیں، جتنی خباثت کرنا چاہتے تھے انہوں نے کی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شیعہ سنی مسئلہ ہے۔ اب الجزائر میں آل سعود کے ہاتھوں چھ لاکھ آدمی شہید کئے گئے، چونکہ وہاں ووٹ کے ذریعہ اسلامی انقلاب آرہا تھا۔ الجزائر میں سب سنی مسلمان تھے کوئی شیعہ نہیں تھا۔ اسی لئے میں مثال بھی دیتا ہوں کہ مجاہدین خلق سب شیعہ تھے لیکن طاغوت سے بدتر۔ طاغوت منش شیعہ ہو اور طاغوت منش سنی ہو۔ اس کی خسرت دنیا والاخرہ۔ امریکہ تیس چالیس سال تک جرائم کرکے اب تھک چکا ہے، اور یہ جان چکا ہے کہ اہل تقویٰ کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔

آج کے سیمینار کے بارے میں بتائیں، یوم القدس و یوم آزادی پاکستان ایک ساتھ منایا جا رہا ہے۔؟
مرتضٰی پویا: بہت ہی اچھا ہے، بہت ہی کامیاب ہے۔ جو بھی قدم امام راحل (رہ) نے اٹھایا وہ عظیم تھا، اس وقت لوگ کہتے تھے کہ اس کا کیا اثر ہوگا لیکن جن کا عقیدہ تھا امام راحل (رہ) اور امام حسن نصر اللہ کی سوچ پر، انہوں نے ہار و جیت کی فکر کئے بغیر اس بات کو سامنے رکھا کہ ہم مستضعفین کے لئے لڑ رہے ہیں، اور جہاد صرف مستضعفین کو نجات دلانے کے لئے ضروری ہے۔ اب مستضعف مسلمان ہو، عیسائی ہو، یہودی ہو کچھ بھی ہو مستضعف ہونا شرط ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ امام راحل نے کیا، پھر امام خامنہ نے اور اب حزب اللہ اس کے عملی مظاہرے کے لئے میدان عمل میں ہے۔  مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنے والے اردوغان ترکی کے وزیراعظم بے نقاب ہوچکے ہیں۔ جو لوگ طاغوتی افکار سے شرشار ہیں، مثلاً روس اور چین وہ اس سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ ہم نے مکتب الہی، ادیان الہی، ادیان ابراہیمی پر عمل پیرا ہونا ہوگا، وہ جان چکے ہیں کہ اگر ہم انسباط اور مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ان ادیان پر چلنا واجب ہے۔

دنیا کے کسی بھی ملک میں جیلیں تب ٹوٹتی ہیں جب وہاں انارکی اور افراتفری کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ لیکن وطن عزیز میں حالت امن میں ہی پے در پے دو جیلیں توڑی جاچکی ہیں اور خطرناک دہشتگرد آزاد کرائے گئے ہیں۔ اس حوالہ سے کیا کہیں گے۔؟
مرتضٰی پویا: ان کو شام بھیج رہے ہیں، پاکستان کی تو جان چھوٹی، اب وہاں جاکر ان کے ساتھ جو حشر ہونا ہے، پہلے بھی گئے ہیں اور خمیازہ بھگت چکے ہیں۔ پاکستان کے معاملات میں ہمیں کسی سے گلہ نہیں ہے۔ سوائے وہ انتظامیہ جس کی پہلی ذمہ داری یہی ہے کہ امن و امان کو مضبوط رکھے، اب معلوم نہیں وہ نااہل ہیں، پیسے کھاچکے ہیں یا خوفزدہ ہیں یا تینوں جرائم کے مرتکب ہیں۔ اب یہ آخری ایام ہیں، ہمارا ارمان کہ ہم مقتدر اسلامی پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ جس کے لئے ہم پینسٹھ سالوں تک مایوس ہیں، لیکن اب جس پروگرام کا آغاز ڈاکٹر طاہر القادری نے کیا ہے، وہ اب اپنے تتمہ پہ پہنچنے والا ہے اور مقتدر اسلامی پاکستان کا ارمان پورا ہو کر رہے گا۔

 

www.abna.ir+www.islamtimes.org

Add new comment