سیدالشہداء کے لئے گریہ و بکاء کے آثار و برکات
گریہ انسان کے حالات اور انفعالات میں سے ہے جو دکھ، صدمے اور نفسیاتی اندوہ کے نتیجے میں فطری طور پر ظہور پذیر ہوتا ہے؛ اور کبھی ہوسکتا ہے کہ بعض شدید جذباتی کیفیت اور نفسیاتی ہیجان کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوجائے؛ مثال کے طور پر انسان اپنے محبوب کو ایک عرصہ دوری اور فراق کے بعد دیکھ لے اور دیدار کا شوق گریہ و بکاء کا سبب بن جائے اس کو گریۂ شوق بھی کہا جاتا ہے۔ کبھی گریہ انسان کے مذہبی عقائد کی بنا پر ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہ یوں کہ چونکہ گریہ ایک طبیعی اور اکثر اوقات غیر ارادی قعل ہے لہذا گریہ کے اوپر امر و نہی اور حسن (اچھائی) اور قبح (برائی) کے احکامات جاری نہیں کئے جاسکتے بلکہ جس چیز پر حسن و قبح اور اچھائی اور برائی کا نشان لگایا جاسکتا ہے یا ان کا حکم دیا جاسکتا ہے یا ان سے روکا جاسکتا ہے وہ گریہ کے مقدمات و تمہیدات ہیں جیسا کہ کہا گیا ہے کہ "تو وہی ہے جس کی قید میں ہو"۔
یہاں ہم جاننا چاہتے ہیں کہ سیدالشہداء (ع) کے لئے گریہ و بکاء کا حکم کیا ہے اور اس کے اثرات اور برکات کیا ہیں؟ بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں رونے کی اقسام کا جائزہ لیں تا کہ معلوم ہوجائے کہ امام حسین علیہ السلام کے گریہ و بکاء کا حکم کیا ہے اور اس کے آثار کیا ہیں؟:
1- طفولیت کا گريہ: انسان کی زندگی کا آغاز گریہ و بکاء سے ہوتا ہے۔ بچہ جب دنیا میں قدم رکھتا ہے اور روتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بچہ صحتمند اور تندرست ہے۔ اور اس کے بعد بچپن کے زمانے میں گریہ و بکاء بچے کی زبان ہے اور بچہ اپنی ماں سے رونے کی زبان میں بات کرتا ہے۔
2- گريۂ شوق: ماں طویل عرصے کے بعد اپنے گمشدہ یا پردیسی فرزند کو دیکھ لیتی ہے تو رونے لگتی اور اپنے جذبے کا اظہار کرتی ہے۔ یہ گریہ وحد و ہیجان اور شوق کا گریہ کہلاتا ہے جو در حقیقت خوشی کا انتہائی اظہار بھی ہے [اور پھر انسان کے جذبات چاہے غم کے ہوں چاہے خوشی کے، جب انتہا کو پہنچتے ہیں تو رونے کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں، یا یوں کہئے کہ انسان کے پاس جذبات کے اظہار کے لئے آنسو بہانے کے سوا کوئی اور اوزار نہيں ہے]۔
3- جذبات و محبت کا گریہ: محبت حقیقی انسانی جذبات میں سے ہے اور گریہ کے ساتھ انسان کا ساتھ دیرینہ ہے۔ مثال کے طور پر خداوند متعال کے ساتھ حقیقی محبت حسن آفرین ہے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے رونا چاہئے اور اشک بہانا چاہئے۔
صنما با غم عشق تو چه تدبير كنم
تا به كى در غم تو ناله شبگير كنم
میرے محبوب تیرے غم عشق کے لئے کیا تدبیر کروں
کب تک تیرے غم میں پوری رات نالہ و فریاد کروں
4- گريۂ معرفت و خشيت: خالصانہ عبادات، عالم خلقت کی عظمت اور اللہ کے مقام کبریائی نیز انسانی فرائض اور ذمہ داریوں کی اہمیت کے بارے میں غور و تفکر انسان کے اندر ایک خاص قسم کے خوف کا سبب بنتا ہے اور یہ خوف ایسا خوف ہے جو خدواند متعال کی معرفت اور تہذیب و تزکیۂ نفس کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے جس کو قرآنی اصطلاح میں "خشیۃ" کہا جاتا ہے۔
5- گريۂ ندامت: انسان مؤمن جب جرم و گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ حزن و اندوہ سے دوچار ہوجاتا ہے اور اس حزن و اندوہ کے خاتمے کے لئے انسان محاسبۂ نفس یا خود احتسابی کا سہارا لیتا ہے اور یہی محاسبۂ نفس سبب بنتا ہے کہ انسان اپنے ماضی کے افعال و اعمال میں غور و تدبر کرے اور خود احتسابی کرکے اپنی کوتاہیوں اور خطاؤں کی تلافی کرنے کی کوشش کرے اور اپنی آنکھوں سے ندامت کے اشک جارے کرے۔ یہ گریہ توبہ اور اللہ کی طرف بازگشت کا نتیجہ ہے۔
اشك ميغلتد به مژگانم به جرم رو سياهى
اى پناه بى پناهان، مو سپيد روسياهم
7روز و شب از ديدگان اشك پشيمانى فشانم
تا بشويم شايد از اشك پشيمانى گناهم
اشک لڑھکتے ہیں میرے بھنؤوں پر روسیاہی کے جرم میں
اے بے پناہوں کی پناہ عمر گذر گئی اور روسیاہ ہوں
سات شب و روز اپنی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہا رہا ہوں
تا کہ پشیمانی کے آنسؤوں سے شاید دھو سکوں اپنے گناہ
6- گريہ ہدف کے ساتھ پیوند: کبھی انسان کے اشکوں کے قطرے ہدف (اور مشن) کا پیام لے کر آنکھوں سے جاری ہوتے ہیں۔ شہید پر گریہ اسی قسم کا گریہ ہے۔ شہید کے لئے گریہ انسان میں جہاد و استقامت کے احساسات جگا دیتے ہیں اور سیدالشہداء علیہ السلام کے لئے گریہ و بکاء، انسان میں خوئے حسینی کو جنم دیتا ہے۔ خوئے حسینی ایک ایسا وصف ہے جو نہ ستم کرتا ہے اور نہ ہی ستم قبول کرتا ہے۔ وہ شخص جو حادثۂ کربلا کو سن کر اپنے دل کے گوشے سے آنسو کا قطرہ آنکھوں کے راستے چہرے پر روانہ کردیتا ہے وہ در حقیقت سیدالشہداء کے اعلی ہدف سے اپنا پیوند پوری سچائی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
7- ذلت و شكست کا گریہ: یہ گریہ اہداف و مقاصد کے حصول میں ناکام ہونے والے کمزور اور ضعیف انسانوں کا گریہ ہے وہی جو پیشرفت و ترقی کی روح سے عاری اور محنت و کوشش سے غاجز و بے بس ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے لئے گریہ و بکاء کی نوعیت کیا ہے؟ تھوڑی سی توجہ سے ہی یہ جاننا آسان ہوجاتا ہے کہ سیدالشہداء کے لئے گریہ محبت کا گریہ ہے۔ وہ محبت جو سیدالشہداء کے عاشقوں کے دلوں پر ثبت ہوئی ہے۔ سیدالشہداء کے لئے گریہ گریۂ شوق ہے کیونکہ کارنامۂ کربلا کے اکثر واقعات شوق آفرین ہیں اور جوش و خروش پیدا کردیتے ہیں اور کربلا کے مردوں اور خواتین کی اس قربانی، اس عظمت و کمال عقلیت اور غروج قربانی و ایثار اور بظاہر اسیر مردوں اور خواتین کے آتشین خطبوں کو دیکھ کر اور سن کر اور ان کی یاد تازہ کرکے، جس کے بعد اشک شوق کا سیلاب جاری ہوتا ہے اور یہ گریہ درحقیقت معرفت کا گریہ اور ان کے اعلی انسان ساز ہدف اور مکتب سے پیوند اور تجدید عہد کا گریہ ہے اور مجدد اعظم حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق: "امام حسین علیہ السلام کے لئے گریہ سیاسی گریہ ہے"، فرماتے ہیں: "ہم سیاسی گریہ کرنے والی ملت ہیں، ہم وہ ملت ہیں کہ ان ہی اشکوں سے سیلاب جاری کرتے ہيں اور ان بندوں کو توڑ دیتے ہیں جو اسلام کے سامنے کھڑے کئے گئے ہیں"۔
امام خمينى رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "گریہ اور بکاء سیاسی ہے" : "ہم سیاسی گریہ و بکاء کرنے والی ولت ہیں، ہم ایسی ملت ہیں جو ان ہی اشکوں سے سیلاب جاری کرتے ہیں اور اسلام کے سامنے کھڑے کئے گئی بندوں کو توڑ دیتے ہیں"۔
هزار سال فزون شد ز وقعه عاشورا
ولى ز تعزيه هر روز، روز عاشور است
ہزار سال سے بھی زیادہ گذرے واقعہ کربلا سے
لیکن تعزیہ حسین کی وجہ سے ہر روز عاشورا ہے
ہیہات کہ حسین (ع) پر گریہ، ذلت اور شکست کا گریہ ہو، یہ گریہ تو عزت کے سرچشمے سے اتصال اور پیوند کا گریہ ہے۔ یہ بندگی اور غلامی کا گریہ نہیں ہے، خاموشی کا گریہ نہیں بلکہ یہ گریہ بولتا گریہ ہے...
بزدلوں کا گریہ نہیں ہے بلکہ شجاعوں اور بہادروں کا گریہ ہے۔ یہ گریہ ناامیدی اور مایوسی کا گریہ نہیں ہے بلکہ امید کا گریہ ہے۔ اور بالآخر یہ گریہ معرفت کا گریہ ہے اور عزائے حسین (ع) میں معرفت کا گریہ آپ (ع) کے قیام کے انحراف و تحریف کا سدباب کرتا ہے اور شاید اسی وبہ سے سیدالشہداء علیہ السلام کے لئے گریہ کرنے کی فضیلت میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ ان ہی روایات میں سے ایک وہ روایت ہے جس میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: گریہ اور بے چینی ہر مصبیت میں بندے کے لئے مکروہ ہے لیکن حسین بن علی علیہما السلام کے لئے گریہ اجر و ثواب بھی رکھتا ہے۔ (1)
سیدالشہداء علیہ السلام کے لئے گریہ کے اہم آّثار وبرکات ہیں جن میں سے بعض کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے:
1- تحریک حسینی کے رموز کا تحفظ
ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی مجالس عزاداری اور آپ (ع) کے لئے گریہ تحریک حسینی کے رموز کا تحفظ ہے۔
سوال یہ ہے کہ سلاطین اور بادشاہوں کے منحوس دور میں عزائے اہل بیت علیہم السلام کی مجالس کو ممنوع کیوں قرار دیا جاتا رہا؟ کیا اس کی وجہ یہی نہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام اور دوسرے ائمہ علیہم السلام کی عزاداری کی مجالس کے بموجب آگاہ علماء و خطباء اور با بصیرت اور انقلابی دانشور اپنی تقاریر اور خطابات میں عوام کو حکومتوں کے مظالم سے آگاہ کرتے ہيں اور انہیں بتاتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا اصل محرک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تھا؟
ہاں، اس طرح کی مجالس، تربیت گاہیں اور جامعات ہیں و مدارس ہیں جو بہترین روش اور خوبصورت ترین اسلوب سے لوگوں کو دین کی طرف بلاتی ہیں اور انسانی جذبات و عواطف کو آمادہ کرتی ہیں اور جاہلوں اور بے خبروں کو غفلت کی بھاری نیند سے بیدار کرلیتی ہیں نیز ان ہی مجالس میں ہی لوگ مکتب امام حسین (ع) سے دیانت وہ سیاست کے ہمراہ، سیکھتے ہیں۔
وہ کونسا اجتماع ہے جو اس عالم میں اس طرح کا اثر مرتب کرسکے؟ کونسا واقعہ ہے جو کربلا کے جانسوز واقعے کی مانند اپنے وقوع کے زمانے سے لے کر اب تک انسانی معاشروں کو متأثر کرتا رہا ہو اور اس کی تأثیر کی حدود روز بروز بڑھتی رہی ہوں اور اس کی پیروی میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا ہو؟ اسی رو سے کہا جاسکتا ہے کہ عزاداری کی مجالس امام حسین علیہ السلام کی تحریک کا تحفظ کرتی ہیں اور نتیجۃً اسلام کا تحفظ کرتی ہیں اور اس کی بقاء کی ضامن ہے۔
سیدالشہداء علیہ السلام پر گریہ اور عزائے حسینی کی مجالس کا انعقاد نہ صرف مکتب کی اساس کا تحفظ کرتی ہیں بلکہ ان مجالس میں شرکت کرنے والے شیعیان آل محمد (ص) والاترین اسلامی تربیت سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور نشوونما پا کر حسینی بن جاتے ہیں۔
"موریس دوکبری" لکھتا ہے: "اگر مؤرخین، اس دن کی حقیقت کو سمجھتے اور اس بات کا ادراک کرتے کہ عاشورا کتنا عظیم دن ہے تو وہ عزاداری کو جنون آمیز قرار نہ دیتے۔ کیونکہ حسین کے پیروکار حسین کی عزاداری کرکے سمجھ لیتے ہیں پستی اور محکومیت اور استعمار کو ہرگز قبول نہ کرین کیونکہ ان کے پیسرو اور آقا کا شعار یہی ہے کہ ظلم و ستم کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرنا چاہئے۔ حسین کی عزاداری کی مجالس میں تھوڑے سے غور و تدبر سے معلوم ہوتا ہے کہ کیا دقیق اور حیات بخش نکتے ان مجالس میں بیان کئے جاتے ہیں۔ حسین کی مجالس عزاداری میں کہا جاتا غہے کہ حسین نے لوگوں کے شرف و ناموس اور اسلام کے مقام و مرتبت کے تحفظ کے لئے اپنی جان و مال و اولاد کی قربانی دی اور یزیدی استعمار اور اس کی مہم جوئیوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے پس آیئے ہم بھی ان کا شیوہ اپنے لئے سرمشق قرار دیں اور استعماری قوتوں کی ماتحتی سے چھٹکارا پائیں اور عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجح دیں۔۔۔۔"۔ (2)
2- امام حسین کی محبت اور ان کے دشمن سے نفرت میں اضافہ
جو سوز و گداز سیدالشہداء علیہ السلام کے دلسوختہ عاشقوں کے جلے دلوں سے ان کی آنکھوں کے راستے اشکوں کی صورت میں ان کے صفحۂ رخسار پر ثبت ہوتا ہے خاندان رسالت سے دلبستگی، اخلاص اور محبت کا اظہار ہے اور یہ عمل موت کی بقاء اور محبت کی زیادتی میں خاص کردار ادا کرتا ہے۔
سیدالشہداء علیہ السلام کے لئے لئے گریہ ان جانسوز مصائب کا نتیجہ ہے جو خاندان رسالت پر وارد ہوئے اور یہ ایسے مصائب ہیں جس کو سن کر ہر انسان کی حالت بدل جاتی ہے اور تحمل و بردباری کو کھو دیتا ہے اور یہ گریہ اور بے چینی اگر ایک طرف سے امام حسین علیہ السلام اور خاندان وحی و رسالت سے مجبت اور دلبستگی میں اضافے کا باعث ہے تو دوسری جانب سے یہ عمل خاندان سیدالمرسلین (ع) کے دشمنوں اور ان کے قاتلوں سے نفرت و بیزاری میں اضافے کے اسباب بھی فراہم کرتا ہے۔
بے شک اگر امام حسین علیہ السلام پر گریہ آگاہی اور معرفت کے ہمراہ ہو تو یہ در حقیقت امام (ع) کے قاتلوں سے بیزاری اور نفرت کا اعلان ہے اور یہ تبرا امام حسین علیہ السلام کے لئے گریہ و بکاء کے اہم اور نمایاں آثار میں سے ہے۔ کیونکہ لوگ بالخصوص وہ لوگ جو معاشرے میں حیثیت اور آبرو کے مالک ہیں وہ عام طور پر لوگوں کے سامنے رونے سے پرہیز کرتے ہیں اور جب تک ان کا اندرونی غم دھماکے کی حد تک نہیں پہنچتا وہ لوگوں کے سامنے رونے کے لئے تیار نہیں ہوا کرتے۔ یہ گریہ اور عزاداری تعدی، تجاوز، جارحیت اور ظلم و ستم اور معاشرے کے حقوق کی پامالی نیز ظالمان کے مسند حکومت پر ناحق براجماں ہونے کے مقابلے میں اظہار نفرت و برائت و بیزاری کی انتہا ہے۔
3- حقیقت دین کی شناخت اور اور اس کی ترویج
سیدالشہداء (ع) کی مجالس عزاداری کی دیگر آثار و برکات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ ان مجالس اور مراسمات کے سائے میں حقیقت اسلام سے آشنائی پیدا کرتے ہیں اور ان مراسمات اور مجالس میں ہونے والی وسیع تبلیغات کی وجہ سے عوام کی آگاہیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور دین حنیف سے ان کا رابطہ زیادہ مجکم اور زیادی قوی ہوجاتا ہے۔ کیونکہ قرآن و عترت رسول اللہ (ص) دو بھاری امانتیں ہیں جو کبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوا کرتیں اور یہ آگہی ماتم و عزا کی مجالس کی پرپائی بالخصوص عترت رسول (ع) بالاخص امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزاداری اور ماتم و سوگواری کے ذریعے ہر مسلمان فرد کو ملتی رہتی ہے۔
4- گناہوں کی مغفرت
امام رضا علیہ السلام نے ریان بن شیبب سے مخاطب ہوکر فرمایا: "يا ابن شبيب إن بكيت على الحسين عليه السلام حتى تصير دموعك على خديك غفر الله لك كل ذنب أذنبته صغيرا " كان أو كبيرا " قليلا " كان أو كثيرا "یابنَ شبیب! جب تم امام حسین علیہ السلام کے لئے روتے ہو اور تمہارے آنسو تمہارے رخساروں پر جاری ہوتے ہیں خداوند متعال تمہارے تمام گناہ بخش دے گا چاہے وہ کبیرہ ہوں چاہے صغیرہ ہوں چاہے کم ہوں چاہے زیادہ ہوں۔ (3)
نیز فرمایا: رونے والوں کو حسین (ع) کی طرح کے انسان پر گریہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ (ع) کے لئے رونا گناہ کبیرہ کو مٹا دیتا ہے۔ (4)
5- جنت میں سكونت
امام محمد بن علی الباقر علیہ السلام نے فرمایا: "جو صاحب ایمان امام حسین (ع) کے سوگ میں آنسو بہائے اور آنسو اس کے چہرے پر جاری ہوجائیں خداوند متعال اس کو طویل عرصے تک جنت کے غُرفوں (کمروں) میں بسا دے گا۔ (5)
امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص حسین (ع) کی شان میں شعر کہے اور روئے اور ایک شحض کو رلائے جنت ان دونوں کے لئے لکھی جاتی ہے۔ جس شخص کے سامنے امام حسین (ع) کا ذکر کیا جائے اور اس کی آنکھ پرنم ہوجائے اتنی کہ اس نمی سے ایک مچھر کا پر تر ہوسکے، اس کا اجر اللہ تعالی کے پاس ہے اور خدا اس کو اجر دیتے ہوئے جنت سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوگا۔ (6) نیز فرمایا: جو شخص عزائے حسین علیہ السلام میں گریہ کرے یا کسی کو رلائے یا رونے کی صورت بنائے جنت اس پر واجب ہوجاتی ہے۔ (7)
6- شفا يابی
حضرت سیدالشہداء علیہ السلام کی مجالس عزاداری کے آثار و برکات میں سے ایک، شفا اور تندرستی و صحت ہے۔ جیسا کہ ہم سب نے بارہا دیکھا یا سنا ہے کہ بعض عزادار ان مجالس میں شفا پا کر صحتباب ہوگئے ہیں۔
مروی ہے کہ بزرگ شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید حسین بروجردی رضوان اللہ تعالی علیہ کی آنکھیں نوے سال کی عمر میں بھی صحیح و سالم تھیں اور عینک کے بغیر چھوٹے چھوٹے حروف کو بھی پڑھ لیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: میں اس نعمت کے حوالے سے حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کا مرہون منت ہوں اور اپنے شفایابی کی حکایت یوں بیان کیا کرتے تھے:
میں بروجرد میں تھا اور آنکھوں کے شدید درد میں مبتلا ہوچکا تھا اور آشوب چشم نے مجھے فکرمند کردیا تھا۔ ڈاکٹروں کے علاج سے افاقہ نہ ہوسکا تھا اور درد میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا۔ محرم کے ایام کی آمد پر میرے گھر میں عزاداری کی مجالس کا انعقاد ہوا کرتا تھا اور عزاداروں کے دستے ان مجالس میں شرکت کیا کرتے تھے
روز عاشورا مجتہد کے گھر میں داخل ہونے والے دستوں میں ایک دستہ "گِلگیروں کا دستہ" تھا۔ یہ دستہ سادات، اہل علم اور محترم افراد پر مشتمل تھا۔ ان میں سے ہر ایک سفید تولیہ کمر پر باندھ کر سر اور سینے پر گارا مَلتے ہیں اور بہت رقت بار اور جذباتی انداز اور سوز و گداز اور جانسوز ذکر کے ساتھ ظہر عاشورا تک عزاداری کیا کرتے تھے۔ اس روز جب یہ دستہ میرے گھر میں داخل ہوا تو مجلس کی صورت حال بدل گئی، حاضرین پورے جوش و خروش اور چذبےکے ساتھ عزاداری کررہے تھے اور میں بھی ایک گوشے میں بیٹھا آہستہ آہستہ آنسو بہا رہا تھا اور اسی اثناء میں اسی دستے کے ایک عزادار کے پیر پر لگا تھوڑا سے گارا لے کر میں نے اپنی ملتہب اور بیمار آنکھوں پر مل لیا اور امام حسین علیہ السلام سے توسل کیا چنانچہ میری آنکھیں اسی وقت ٹھیک ہوئیں اور میں صحتیاب ہوگیا۔ اور اس روز سے آج تک نہ صرف میں آنکھوں کے درد میں مبتلا نہیں ہوا بلکہ مکمل بینائی اور بصارت کی نعمت سے بہرہ مند ہوں اور امام حسین علیہ السلام کی برکت سے مجھے عینک کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ العظمی بروجری جسمانی لحاظ سے بالکل ضعیف ہوگئے تھے لیکن ان کی آنکھیں زندگی کے آخری لمحوں تک سو فیصد صحی و سالم رہیں۔
7- امام حسین (ع) کے لئے گریہ کرنے والا قیامت کے دن گریاں نہ ہوگا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے فرمایا: قیامت کے دن ہر آنکھ اشکبار ہے سوائے اس آنکھ کے جو امام حسین علیہ السلام کے لئے روئی ہو، ایسا شخص قیامت کے روز ہنستا مسکراتا اور جنت کی نعمتوں کی وجہ سے شادماں ہے۔ (8)
آن روز ديدهها همه گريان شود ز هول
جز چشم گريه كرده بسوگ و عزاى او
اس روز تمام آنکھیں ہول و وحشت سے گریاں ہونگی
سوائے اس آنکھ کے جو آپ کے سوگ و عزا میں اشکبار ہوئی ہو
8- سکرات موت اور آتش دوزخ سے امان
مسمع کہتے ہیں: حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم کبھی یاد کرتے ہو کہ انھوں نے (یزید بن معاویہ) نے حسین (ع) کے ساتھ کیا کیا؟
میں نے عرض کیا: ہاں
فرمایا: کیا جزع و بے چینی اور گریہ و بکاء کرتے ہو؟
عرض کیا: ہاں، خدا کی قسم! اس واقعے کے لئے آنسو بہاتا ہوں اور طعام کھانے سے امتناع کرتا ہوں حتی کہ اہل خانہ میرے چہرے پر غم و اندوہ کے آثار دیکھ لیتے ہیں۔
فرمایا: خدا تمہاری آنکھوں کے اشکوں پر رحم کرے۔ جان لو کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جو ہمارے لئے جزع کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہو جو ہماری خوشی میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے غم و حزن میں محزون و مغموم ہوتے ہیں اور ہمارے خوف میں خائف ہوجاتے ہیں اور امن کا احساس کرتے ہیں جب ہم امن میں ہوتے ہیں۔ جان لو کہ عنقریب وفات کے وقت میرے آباء و اجداد کو اپنی بالین پر حاضر پاؤگے جبکہ وہ ملک الموت کو تمہاری سفارش کریں گے اور تم کو بشارتيں دیں گے ایسی بشارتیں جو موت سے قبل تمہاری آنکھوں کو ٹھنڈک نہیں پہنچائیں گی۔ پس ملک الموت ملک الموت اپنے بچے پر مہربان ماں سے بھی زیادہ مہربان، زیادہ شفیق و رحمدل اور شدید رحمت سے پیش آئے گا۔
مسمع کہتے ہیں: اس کے بعد امام (ع) روئے اور میں بھی ان کے ساتھ رویا اور فرمایا: اے مسمع! ... زمین و آسمان امیرالمؤمنین علیہ السلام کی شہادت کے وقت سے رو رہے ہیں اور ہمارے لئے فرشتے دوسروں کی نسبت زیادہ روئے ہیں اور ہمارے قتل سے قبل ملائکہ کی آنکھوں سے آنسو جاری نہیں ہوئے تھے کوئی بھی ہمارے ساتھ ہمدردی اور ہمارے اوپر وارد ہونے والے مصائب کے لئے نہیں روتا مگر یہ کہ اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے قبل اس کے کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری بوجائیں اور جب اس کی چہرے پر آنسو جاری ہوجائیں، پس اگر اس کے آنسوؤں کا ایک قطرہ جہنم پر پھینکا جائے تو خداوند متعال اس کی حرارت ٹھنڈی کردے گا حتی کہ پورے جہنم میں کہیں حرارت باقی نہ رہے گی۔ اور جس کا قلب ہمارے لئے دکھے وہ فرخان و شاداں ہوگا جب موت کے وقت ہمارے دیدار سے بہرہ مند ہوگا اور اس کو ملنے والی فرحت و شادمانی اس کے قلب میں اس وقت تک باقی رہے گی جب وہ حوض کے کنارے ہمارے پاس آپہنچے گا اور حوض کوثر ہمارے حبدار کے آنے پر مسرور ہوگا...۔ (9)
بے شک دنیا کی آگ جہنم کی آگ سے قابل قیاس نہیں ہے اور اس حدیث شریف کے مطابق جب جہنم کی آگ امام حسین علیہ السلام کے لئے بہائے گئے آنسؤوں کے ایک قطر سے ٹھنڈی ہوسکتی ہے پس اگر کسی وقت دنیا کی کمزور آگ حسینی عزادار کو نہ جلائے تو حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔
سید جلیل القدر مرحوم ڈاکٹر اسماعیل مجاب (دندان ساز) نے اپنے سفرِ ہندوستان کے دور سے بعض عجیب واقعات نقل کئے ہیں۔ ڈاکٹر مجاب کہتے ہیں: بعض ہندو تاجر حضرت سیدالشہداء علیہ السلام کے معتقد ہیں اور آپ (ع) سے محبت کرتے ہیں اور سال میں اپنی آمدنی کا کچھ حصہ امام حسین علیہ السلام کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے مال میں برکت کی خاطر مجالس میں شرکت کرتے ہيں۔ ان میں سے بعض، عاشورا کے روز شیعہ افراد کے ذریعے شربت اور فالودہ تیار کرکے عزاداروں میں تقسیم کرتے ہيں اور خود بھی عزا اور سوگ کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ رقم شیعوں کو دیتے ہیں جو انھوں نے پہلے سے عزاداری کے لئے مختص کی ہوئی ہے تا کہ یہ رقم عزاداری کے مراکز میں صرف کی جائے۔
ان ہندؤوں میں سے ایک کی عادت تھی کہ سینہ زن عزاداروں کے ساتھ جلوس میں نکلتا اور ان کے ساتھ سینہ زنی کیا کرتا تھا۔ جب یہ شخص دنیا سے رخصت ہوا تو ہندو رسم کے مطابق اس کے مردہ جسم کو شمشان گھاٹ میں جلا دیا گیا اور اس کا پورا بدن راکھ ہوگیا لیکن اس کےا ہاتھ اور سینے کےا ایک حصے کو آگ نہ جلا سکی تھی۔ کیونکہ وہ اسی ہاتھ سے سینے کے اسی حصے پر ماتم کرتا رہا تھا۔
ڈاکٹر مجاب کہتے ہیں کہ انجہانی ہندو کے کے اہل خانہ اس کے جسم کے وہ دو حصے شیغہ قبرستان کے پاس لائے اور شیعوں سے کہا کہ جسم کے ان حصوں کا تعلق ہمارے امام حسین (ع) سے ہے۔ (10)
9- عزائے حسینی میں شاعری کی تأثیر
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص حسین (ع) کی شان میں شعر کہے اور روئے اور ایک شخص کو رلائے جنت ان دونوں کے لئے لکھی جاتی ہے۔ (11)
ایک سخن امام حسین (ع) کے ساتھ
حسین! اے پرچم خونین کندھے پر رکھے ہوئے
حسین! اے انقلابی مرد
حسین! اے حریت کی رأیت ہاتھ میں لئے ہوئے
اس سرخ اور آتشین صحرا میں
آپ کی قامت کا قیام خون میں تڑپ گیا
اس طوفانِ "طف" سے روز عاشورا
دشتِ" نینوا میں حقیقت کا اظہار کرنے والا گلا "نوا" سے بے بس ہوگیا
لیکن ...
ظلم کی تاریکیوں میں حق کی صدا اٹھانے والا پرندہ "حق حق" کی فریاد اٹھانے والا پرندہ نوا سے بے بس نہیں ہوا کرتا
سلام ہو آپ پر اے حسین!
سلام کربلا کے شفق کی مانند خط، جس نے آپ کے خون کو، اے خون خدا ـ مسلسل افق کے چہرے پر ملتا ہے، مغرب کے آسمان کی سرخی کو گواہ بنا دیتا ہے۔
تا کہ یزیدیوں کے اس ہولناک جرم کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرکے نمایاں کردے اور تاریخ کی آنکھوں کے ہمیشہ کے لئے اس خونی حادثے پر مرکوز کردے اور زمانوں کی سماعتوں کو زمانہ ساز عاشوار کی بجلی کی سی کھڑکتی صداؤں سے پر کردے۔
اے حسین! ۔۔۔ ہے عارف مصلح!
آپ کی کربلا نے عشق کی تفسیر کردی اور آپ کے انقلاب نے اسلام کو زندہ کیا ہو اور آپ کی شہادت، تمام زمانوں میں اور تمام زمینوں پر دائمی اور ابدی موجودگی کا اظہار تھا۔
اے حسین ... اے ایمان کی کرن!
اے حسین! اے ستم کی سرخ خاموشی میں شہر آشوب!
آپ نے خاموشی اور خوف کی حیرت میں فریاد کا تلخ گھونٹ تاریک شب کے حلق میں انڈیل دی اور جرائم پیشہ اشخاص کے ساتھ مردانہ وار الجھ پڑے۔
آپ کا عاشورا، نور کا انفجار اور حق کی تابش تھا جو افکار کے "طور" پر متجلی ہوا اور ظالم کے ظلم کی پہاڑی پر پھنسے ہوئے "موسی کے بہی خواہوں" کو حیرت و سرگردانی سے نجات بخشی۔
میں کیا کہہ رہاہوں؟ ... آپ نے تاریخ کو متحرک کیا اور زمانے کی زبان کو ایثار و جہاد و شہادت کے خوبصورت رزمیئے کہنے پر آمادہ کیا۔ آپ نے تاریخ کے ہر لمحے کو عاشورا بنا دیا اور تمام سرزمینوں کے تمام ٹکڑوں کو کربلا ... ہم سوئے ہوئے تھے اور بے خبر ... اور ہاں! آپ، اے "مصباح ہدایت" اور اے "کشتیِ نجات" آپ نے ہمارے تھکے ہوئے قدموں کو حرکت اور کوشش پر آمادہ کیا اور ہماری مایوسی کی افسردگی کو جوش امید میں بدل دیا اور خاموشی اور توق اور وحشت کو فریاد، یلغار اور شجاعت تک پہنچا دیا اور ہمارے آبلہ زدہ اور زخمی پیروں کو، آگاہی کے بام اور بیداری کے برج تی لے گئے۔
"اے حسین" ...
آپ درس تاریخ کا خلاصہ ہیں
آپ کی کربلا، میدان جنگ نہیں
عالم وجود کا عظیم منظومہ ہے،
طواف ہے۔
انتہائے سخن
میری انتہا ہے
آپ کی کوئی انتہا نہیں...
..........
مآخذ
1. وسائل الشيعه , شيخ حر عاملى , ج 10 ص 393.
2. بحارالانوار , علامه مجلسى , ج 44 ص 284۔
3. منتخب كامل الزيارات , ابن قولويه , ص 165۔ بحارالانوار علامہ محمد باقر مجلسی، ج98 ص103۔
4. منتخب كامل الزيارات , ابن قولويه , ص 168۔
5. جلاء العيون , علامهء مجلسى , ص 462۔
6. بحارالانوار , علامه مجلسى , ج 44 ص 293۔
7. وسائل الشيعه , شيخ حر عاملى , ج 10 ص 397۔
8. داستانهاى شگفت , آيت الله شهيد دستغيب , ص 9۔
9. بحارالانوار , علامه مجلسى , ج 44 ص 289۔
10. خلاصه اى از مقالهء <عاشورا> نوشتهء جواد محدثى .
11. <خط خون > موسوى گرمارودى .
Add new comment