جاویدانگی عاشورا کے اسباب
یوں توخلقت عالم وآدم سے لیکرآج تک اس ر وئے زمین پر ہمیشہ نت نئے حوادث و وقائع رونما ہوتے رہے ہیں اورچشم فلک بھی اس بات پر گواہ ہے کہ ان حوادث میں بہت سے ایسے حادثے بھی ہیں جن میں حادثہ کربلا سے کہیں زیادہ خون بہائے گئے ، اور شہدائے کربلا کے کئی برابر لوگ بڑ ی بے رحمی ا ور مظلومی کے ساتھ تہ تیغ کر دئے گئے ، لیکن یہ تمام جنگ وجنایات مرور زمان کے ساتھ ساتھ تاریخ کی وسیع وعریض قبر میں دفن ہوکر رہ گئیں مگران حوادث میں سے فقط واقعہ کربلا ہے جوآسمان تاریخ پر پور ی آب و تاب کے ساتھ بدر کامل کی طرح چمک رہا ہے ، باوجود اس کے کہ دشمن ہر دور میں اس حادثے کو کم رنگ یا نابود کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے ، مگر یہ واقعہ ان تمام مراحل سے گزرتا ہوا آج چودہویں صدی میں بھی اپنا کامیاب سفر جاری رکہے ہوئے ہے ، آخر سبب کیا ہے ؟آخروہ کون سے عناصرہیں جو اس واقعے کوحیات جاویدانہ عطا کرتے ہیں ؟مذکورہ سوال کومدّنظر رکہتے ہوئے چندموارد کی طرف مختصرطورسے اشارہ کیا جا رہا ہے جو قیام امام کو زندہ رکہنے میں موثرثابت ہوتے ہیں ۔
وعدہ الہی : جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال اپنے بندوں سے یہ وعدہ کر رہا ہے کہ تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا۔ہر منصف نظراس آیت کو اور ۶۱ہ کے پرآشوب دور کو ملاحظہ کر نے کے بعد یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ چونکہ اس دور میں جب نام و ذکر خدا کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا تھاتو صرف امام حسین (ع) تہے جو اپنے اعزاء واقرباء کے ہمراہ وارد میدان ہوئے اور خدا کے نام اور اس کے ذکر کو طوفان نابودی سے بچاکر ساحل نجات تک پہونچایا ، لہذا خداوند متعال نے بھی اپنے وعدے کے مطابق ذکر حسین کو اس معراج پر پہونچادیا کہ جھاں دست دشمن کی رسائی ممکن ہی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کی انتھائی کوششوں کے باوجود بھی ذکر حسین آج تک زندہ وسلامت ہے ۔
٭قیام الہی :امام کا قیام ایک الہی قیام تھا جو حق اور دین حق کو زندہ کرنے کے لیے تھا چنانچہ آپ کا جھاد ، آپ کی شھادت ، آپ کے قیام کا محرّک سب کچہ خدائی تھا ، اور ہر وہ چیز جوﷲہو اور رنگ خدائی اختیارکر لے وہ شے جاوید اور غیر معدوم ہوجاتی ہے ، کیونکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ جو کچہ خداکے پاس ہے وہ باقی ہے اور دوسری آیت کہہ رہی ہے ہر شی فنا ہو جائے گی سوائے وجہ خداکے ، جب ان دونوں آیتوں کو ملا تے ہیں تو نتیجہ ملتا ہے کہ نہ خدا معدوم ہو سکتا ہے اور نہ ہی جو چیز خدا کے پاس ہے و ہ معدوم ہو سکتی ہے ۔
٭ارادہ الہی :خداوندعالم کا ارادہ ہے کہ ہر وہ چیزجو بشر اور بشریت کے حق میں فائدہ مند ہو اسے حیات جاویدانہ عطا کرے اوراس کو دست خطر سے محفوظ رکہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ دشمن یہ کوشش کر رہا ہے کہ نور خدا کو اپنی پہونکوں کے ذریعہ سے خاموش کر دے لیکن خدا کا نور خاموش ہونے والا نہیں ہے ، امام حسین (ع) چونکہ نورخدا کے حقیقی مصداق ہیں ، اور قیام امام بھی ہر اعتبار سے بشر اور بشریت کے لئے سود مند ہے لہذا ارادئہ الہی کے زیر سایہ یہ قیام تا ابد زندہ رہے گا؛
٭ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مورد ہیں مثلا قیام امام کی جاویدانی زندگی اور اس کے دائمی سفر پرخود پیغمبر بھی اپنی مہر تائید ثبت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شھادت حسین کے پرتو قلوب مومنین میں ایک ایسی حرارت پائی جاتی ہے کہ جو کبھی سرد نہیں ہو سکتی۔ اس حدیث کے اندر اگرغور وخوض کیا جائے تو بخوبی روشن ہوجاتا ہے کہ رسول ا کرم (ص)نے اس حادثے کے وقوع سے پہلے ہی اس کے دائمی ہونے کی خبر دیدی تھی ۔
٭:یا اس کے علاوہ واقعہ کربلا کے بعد جب امویوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ دین خدا مٹ گیا ، نام پیامبر وآل پیامبر(ص) نیست ونابود ہو چکا ہے اور اسی وقتی فتح یابی کی خوشی کے نشے میں مخمور جب یزید نے کھا کہ کو ئی خبر نہیں آئی کوئی وحی نازل نہیں ہوئی یہ تو بنی ھاشم کا حکومت اپنانے کا محض ایک ڈہونگ تھا ، تو اس موقعہ پر علی کی بیٹی زینب اور امام سجادکے شر ربار خطبوں نے یزید کے نشے کو کافور کرتے ہوئے دربارمیں اپنی جیت کا ڈنکابجایا اور بہرے دربار میں جناب زینب ؑ نے حاکم وقت کو مخاطب کر کے کھا کہ اے یزید تیری اتنی اوقات کہاں کہ علی ؑکی بیٹی تجہ سے بات کرے لیکن اتنا تجہے بتادیتی ہوں تو جتنی کوشش اور مکاریاں کرسکتا ہے کر لے ، لیکن یاد رکہ تو ہر گز ہماری محبوبیت کو لوگوں کے دلوں سے نہیں مٹا سکتا ۔ جناب زینب کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے یہ کلمات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ حسین اور اہلبیت کے نام کی محبوبیت کو خدانے لوگوں کے دلوں میں ودیعت کر رکھا ہے اورجب تک اس صفحہ ہستی پر لوگ رہیں گے ذکر حسین اور نام حسین کو زندہ رکھیں گے.
Add new comment