حسین علیہ السلام وارث حق
انسانی نجات کی کشتی کو کسی سمندر کی ضرورت نہیں، وہ امام حسین علیہ السلام کی یاد میں بہائے گئے آنسووں کے قطروں پر حرکت کرے گی، وہ اشک جو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتے ہیں وہ دل و جان کو پاک کر کے خداوند عالم کے حضور پہنچ جاتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں ایسے واقعات کی تعداد شاید انگلیوں پر گنی جا سکے جسکے بارے میں ہر مکتب، مسلک، مذھب اور دین کے دانشوروں نے اپنے اپنے انداز فکر کے مطابق لکھا ہو، ان گنے چنے واقعات میں کربلا اور قیام امام حسین علیہ السلام ایک ایسی حقیقت ہے جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے۔
قیام امام حسین علیہ السلام کے اھداف سے لے کر انسانیت کی ذمہ داری تک کے موضوعات پر اہل فکر و نظر نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس عظِم واقعہ میں شریک امام حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ واقعہ کربلا کو سمجھنے اور اسکے حقیقی اھداف تک رسائی کیلئے کچھ مقدمات اور ذہنی آمادگی ضروری ہے۔ کربلا کے واقعات کیسے ہوئے اس پر بہت لکھا اور پڑھا گیا لیکن یہ سانحہ کیوں ہوا، اسکے بارے میں جو آگہی، آمادگی، دینی غیرت و حمیت اور دین شناسی چاہئے اسکا فقدان اس عظیم کام کے راہ میں حائل ہوتا رہا۔
واقعہ ” واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی نے انسانی زندگی کے مفاہیم کو نئے معانی بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ حقیقی مفہوم عطا کر دیا۔ “ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی نے انسانی زندگی کے مفاہیم کو نئے معانی بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ حقیقی مفہوم عطا کر دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے زندگی و حیات، موت و شہادت، دنیا و آخرت، عزت و شرافت، ذلت و عظمت، آزادی و اسیری، شکست و فتح، طاقت و قدرت، سعادت و سیادت اور حق و باطل کے مفاہیم کو حقیقی معانی عطا کئے اور اپنے عمل و کردار سے ان کو تاریخ میں ہمیشہ کیلئے ثبت کر دیا۔ تاریخ میں انسانیت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ مذکورہ مفاہیم کو سطحی اور بعض اوقات بالعکس سمجھنا ہے۔
زندگی و حیات کیا ہے؟، امام حسین علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں بھی یہ کہ کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ظلم اور ظالموں کے ساتھ زندگی ننگ و عار ہے۔ یعنی زندگی کا حقیقی مفہوم عزت و شرافت کے ساتھ آزاد رہنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس ظاہری زندگی کو موت سے تعبیر کرتے ہیں جو ظلم کی حمایت اور ظالموں کے خلاف قیام سے عاری ہو۔ امام حسین علیہ السلام عزت و منزلت کو ظاہری اقتدار اور دنیوی طاقت میں محدود نہیں سمجھتے بلکہ وہ تلوار پر خون کی کامیابی اور آزادی و حریت کو عزت و منزلت سمجھتے ہیں۔
آپ کے ہاں شکست و فتح کا تصور بھی یکسر مختلف ہے۔ آپ انسانوں کے لشکروں اور فوجی ساز و سامان کے ذریعے دشمن کے بدن کو ختم کر ” امام حسین علیہ السلام نے سخت ترین حالات میں بھی یہ کہ کر سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ ظلم اور ظالموں کے ساتھ زندگی ننگ و عار ہے۔ “ کے فتح حاصل کرنے کو کامیابی نہیں سمجھتے بلکہ آپ قلب و ذہن کو شکست دے کر اور ان میں موجود باطل نظریات کو ختم کر کے ضمیر اور وجدان کی بیداری کو فتح اور کامیابی سمجھتے ہیں۔
آپ کے ہاں آزادی اور اسیری کا مطلب انسانی بدن کی آزادی یا اسکا قید و بند میں ہونا نہیں ہے بلکہ آپ قلب و نظر کی آزادی اور حریت فکر کو حقیقی آزادی قرار دیتے ہیں جبکہ ظاہری طور پر آزاد ہونے کے باوجود فکری اور نظریاتی طور پر خودمختار نہ ہونے کو آزادی نہیں بلکہ اسیری سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ نے کربلا کے میدان میں فتح و شکست اور عزت و شرافت کے جو معیار مقرر کئے ہیں اور اسکے جو حقیقی مظاہر سامنے لائے ہیں اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں یزید اور یزیدیت کو ایسی شکست فاش دی کہ سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود آج بھی کوئی اس ظاہری فاتح لشکر کے ساتھ شامل ہونے کو تیار نہیں جبکہ دوسری جانب آج بھی ہر باضمیر انسان “یا لیتنا کنا معکم فنفوز فوزاً عظیماً” کا نعرہ بلند کر رہا ہے اور اس ظاہری شکست خوردہ لشکر میں شامل ہو کر عظیم کامیابی پر فائز ہونے کیلئے بے چین ہے۔
کربلا کے لق و دق صحرا میں حسینی لشکر کے تمام افراد کی شہادت اور اہل خانہ کی اسیری آج بھی کیوں نمونہ عمل بنی ہوئی ہے؟، وہ کونسا عنصر ہے جو اس واقعہ کو ہمیشہ ” آپ کے ہاں آزادی اور اسیری کا مطلب انسانی بدن کی آزادی یا اسکا قید و بند میں ہونا نہیں ہے بلکہ آپ قلب و نظر کی آزادی اور حریت فکر کو حقیقی آزادی قرار دیتے ہیں۔ “ کیلئے ایک آئیڈیل اور مثالی بنا گیا ہے؟، اس سانحے میں ایسے کونسے عوامل تھے جو اسے ہر آنے والے زمانے میں روشن سے روشن تر کر رہے ہیں؟۔
تاریخ میں ایسی ہزاروں بلکہ لاکھوں جنگیں ہوں گی جس میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ کربلا میں صرف 72 افراد کی شہادت ہوئی۔ ان 72 افراد کی شہادت میں ایسا کونسا عامل پوشیدہ ہے کہ تاریخ کا ہر باضمیر انسان ان افراد کے ساتھ شامل ہونے کو اپنے لئے باعث فضیلت سمجھتا ہے اور ببانگ دہل یہ کہتا نظر آتا ہے:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین ع
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے انسانی اقدار کی حفاظت کی جنگ لڑی ہو، آپ نے انسانی حیثیت و مقام انسانی کرامت و شرافت اور انسانیت کو ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے کربلا کا معرکہ لڑا۔ آپ نے مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف قیام کر کے انسانیت کو ایک ایسے راستے کی نشاندھی کر دی جس میں شکست کا تصور ہی نہیں ہے۔ آپ خود تو درجہ معصومیت پر فائز ہیں لیکن آپکے جانثار ساتھی بھی ایمان کے عروج، عشق خدا میں سرشار، دینی ذمہ داری کو صدق دل سے ادا کرنے والے اور لقاء خدا کیلئے بے تاب و بے چین تھے۔ ان 72 کا انتخاب بھی اپنے اندر ایک عجیب داستان لئے ہوئے ہے۔ شب عاشور کے واقعات اور ان جانثار ساتھیوں کا تجدید عہد ایک ایسی انمٹ ” آپ نے مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف قیام کر کے انسانیت کو ایک ایسے راستے کی نشاندھی کر دی جس میں شکست کا تصور ہی نہیں ہے۔ “ داستان اور حقیقت ہے کہ اہل عشق و معرفت اصحاب امام حسین علیہ السلام کے جملوں کو اپنے لئے راہ ہدایت قرار دیتے رہیں گے۔ بجھے چراغ پہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے جو بیعت لی، تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ حسینی لشکر میں شامل ایک سپاہی کی ماں کا دشمن کی طرف سے پھینکے گئے اسکے بیٹے کا سر واپس دشمن کی طرف اچھالنا اور یہ کہنا کہ ہم راہ خدا میں دی گئی چیز واپس نہیں لیتے، ایک معمولی سی مثال ہے جو اس لشکر میں شامل ایک شہید کی ماں کی ہے، ورنہ اس لشکر میں شامل ایک ایک فرد اور اسکے اہل خانہ نے راہ خدا میں جس انداز سے اپنی قربانیاں پیش کی ہیں اسکی مثال ڈھونڈنا ناممکن ہے۔
امام حسین علیہ السلام اور آپکے باوفا اصحاب نے اس شجر تقوی و فضیلت کی آبیاری کی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے لگایا تھا۔ انہوں نے اپنے مقدس لہو سے اس خشک ہونے والے درخت کی آبیاری کی اور اسے حیات نو بخشتے ہوئے سرزمین بشریت کو ہمیشہ کیلئے خشک سالی سے نجات دلا دی۔ کربلا میں حسینیوں کا بہایا گیا خون آب حیات تھا جس نے اسلام کو جاویدانی زندگی عطا کر کے عالم انسانیت کیلئے حق و حقیقت کی معرفت کے دروازے وا کر دیئے۔ امام حسین علیہ السلام اور آپکے ساتھیوں ” یزید باطل قوتوں یعنی قابیل، فرعون، شداد، معاویہ، ابوسفیان اور طاغوتی قوتوں کا وارث تھا جبکہ حسین علیہ السلام ہابیل، موسی، محمد ص، علی ع اور حسن ع کے وارث ہیں۔ “ نے سالکان طریقت کو ایسا راستہ دکھا دیا اور حق و حقیقت کے طلبکاروں کو ہمیشہ کیلئے اپنا مرہون احسان بنا دیا۔
شہید کی شہادت انسان کو جھنجھوڑ کر غفلت سے نجات دلاتی ہے۔ شہادت وہ نور ہے جو تاریک دلوں کو روشن، سونے والوں کو بیدار اور مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ شہادت بشریت کا آب حیات ہے اور شہید وہ خضر ہے جو سماج اور معاشرے کو آب حیات عطا کر کے اس کے ہدف کو دائمی کر دیتا ہے۔ شہادت کی اگر یہ عظمت ہے تو امام حسین علیہ السلام سیدالشھدا ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کی یزیدیت کو اپنے مقدس خون میں غرق و نابود کر دیا۔
یزید کا نعرہ “لا خبر جاء و لا وحی نزل” یعنی “نہ کوئی فرشتہ آیا ہے اور نہ کوئی وحی” جبکہ حسین علیہ السلام کا نعرہ “ان کان دین محمد لم یستقم الا بقتلی فیا سیوف خذینی خذینی” یعنی “اگر دین محمد صلی اہ علیہ و آلہ وسلم میرے قتل کے بغیر پائدار نہیں ہو سکتا تو اے تلوارو آو مجھ پر ٹوٹ پڑو” تھا۔
یزید معاویہ اور ابوسفیان کا پیروکار تھا اور حسین علیہ السلام علی ابن ابیطالب علیہ السلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے تھے۔ یزید باطل قوتوں یعنی قابیل، فرعون، شداد، معاویہ، ابوسفیان اور طاغوتی قوتوں کا وارث تھا جبکہ حسین علیہ السلام ہابیل، موسی، محمد ص، علی ع اور حسن ع کے وارث ہیں۔
دونوں نے اپنی وراثتیں آئندہ نسلوں تک بھی منتقل کی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ہم کس کے وارث ہیں؟۔
Add new comment