رواں سال کے ابتدائی دو ماہ میں 800 افغان فوجی ہلاک
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی تعمیر نو کیلئے امریکا کے خصوصی انسپکٹر جنرل (ایس آئی جی اے آر) نے بتایا کہ یکم جنوری سے 24 فروری کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز کے 807 اہلکار ہلاک ہوئے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 'افغانستان میں ہلاکت خیز جنگ جاری ہے، طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے والے افغان فورسز کی ہلاکتوں میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے'۔
خیال رہے کہ ہر سال موسم سرما کے دوران افغان طالبان کے حملوں میں تیزی آجاتی ہے جبکہ رواں سال افغان طالبان نے اپنے حملے اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور 19 اپریل کو صوبہ مزار شریف میں ایک فوجی کیمپ پر سب سے بڑا حملہ کیا گیا تھا۔
اس حملے کے حوالے سے امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ہتھیاروں سے لیس خود کش بمباروں نے 144 افغان فوجی ہلاک کیے تاہم دیگر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
گذشتہ ہفتے افغان طالبان نے 'موسم بہار کے حملوں' کے آغاز کا اعلان کیا تھا انھوں نے ان حملوں کومنصوری حملے قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں امریکی اور نیٹو فورسز افغانستان سے چلی گئیں تھی اور جاتے ہوئے تمام سیکیورٹی انتظامات افغان حکومتی فورسز کے حوالے کردیئے تھے۔
تاہم یہاں اب بھی افغان فورسز کی تربیت اور اسپیشل آپریشنز کیلئے 10000 سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں۔
ایس آئی جی اے آر کے مطابق گذشتہ سال یکم جنوری سے 12 نومبر کے دوران 6785 افغان فوجی ہلاک ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 11777 ہے۔
افغان حکومت نے گذشتہ سال کے آخری 7 ہفتوں کے اعداد و شمار افغانستان میں موجود امریکی فورسز سے شیئر نہیں کیے لیکن دیگر ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق اس عرصے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2015 میں ہلاک ہونے والے افغان فوجیوں سے 35 فیصد زائد تھی۔
امریکی کانگریس نے ایس آئی جی اے آر کو اس لیے تعینات کیا تھا کہ معلوم کیا جاسکے کہ 2002 سے اب تک افغانستان کی تعمیر نو میں 100 ارب ڈالر کہا خرچ کیے گئے ہیں۔
ایس آئی جی اے آر کی رپورٹ میں اقوام متحدہ کو یہ نشاندہی کی گئی ہے کہ 2009 کے بعد 2016 میں افغان شہریوں کی ہلاکت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2016 میں 11418 افغان شہری اس لڑائی سے متاثر ہوئے جن میں 3498 ہلاک اور 7920 زخمی ہوئے۔
Add new comment