رسول اعظم (ص)حضرت امام علی(ع)کی نظر میں رسول اعظم (ص)حضرت امام علی(ع)کی نظر میں
رسول اعظم (ص)حضرت امام علی(ع)کی نظر میں رسول اعظم (ص)حضرت امام علی(ع)کی نظر میں
قال رسول الله(ص):
{انا و على حجة الله على العباد}[1]
رسول خدا (ص)نے فرمایا:
میں اور علی علیہ السلام لوگوں پر خدا کی حجت ہیں۔
شیرین ترین کلام اور تمام مقالات , محاورات اور مولّفات کا افتتاح و آغاز اور اس حسین کائنات کے تمام اجزاء کا محبوب ترین اور شیرین ترین ذکر جو آسمان عقل کی رفعتوں , عظمتوں اور بلندیوں کو چھورہا ہو خالق کون و مکان , ذات اقدس احدّیت کی بے حد و حصر حمد و ثنا ہے۔اور بے پناہ درود و سلام ہوں شمس نبوت, خورشید رسالت, آسمان عصمت و طہارت کے تابندہ و روشن چاند, سلسلہ انبیاء و رسل اور ہادیان الٰہی کے سید و سردار ختمی مرتبت حضرت محمدمصطفی(ص)پر اور لاکھوں کروڑوں صلوۃ و سلام ہوں فلک امامت کے درخشندہ ستاروں, عصمت و معرفت کےپاکیزہ گوہروں, ہدایت الٰہی کے روشن چراغوں, بحر امامت و ولایت کے نایاب موتیوں آپ (ص)کے اہل بیت^پر۔
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام لوگوں کو پیامبر اکرم(ص)پر دوروسلام بھیجنے کا طریقہ سکھاتے ہوئے اپنی لسان طاہرہ سے اس طرح آنحضرت(ص)پر درود و سلام بھیجتے ہیں:
خدایا: اپنے پاکیزہ ترین درودو سلام اور عظیم وبہترین برکات اپنے بھیجے ہوئے برگزیدہ ترین بندے حضرت محمد(ص) کے لئے قرار دے۔ وہی رسول(ص) جس پر تو نے سلسلہ نبوت و رسالت کو اختیام بخشا, جو سعادت بشری کے بند دروازوں کو کھولنے والا, حق و برہان کے ذریعے دین حق کو روشن و آشکار کرنے والا, باطل کے لشکروں کو دورکرنے والا اور گمراہوں کی شان و شوکت اور رعب و دبدبہ کو ملیامیٹ کردینے اور شکست دینے والا ہے ۔ عہدہ رسالت و نبوت کی جو سنگین ذمہ داریاں ان کے کاندہوں پر ڈال دی گئی ھیں پوری قوت و طاقت کے ذریعے ان کو نبھایا اور انجام دیا اور تیرے فرمامین کے اجراء کے لئے قیام فرمایا: اور تیری خوشنودی کی راہ میں تیزی سے قدم بڑھائے یہاں تک کہ اس مشن میں ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے اور ان کے مضبوط و محکم ارادے میں کبھی بھی سستی نہ آئی۔ تیری وحی اور رسالت کو بخوبی اور باَحسن وجہ دریافت فرمایا اور تیرے عہد و پیمان رسالت کے محافظ اور نگہبان رہے۔
اور تیرے احکام و فرامین کے نافذ کرنے کے لئے اس قدر انتھک کوششیں کیں یہاں تک کہ نور حق کے ساتھ کائنات کو روشن اور منور فرما دیا, اور جاہل و نادان اور جادہ حق سے گمراہ لوگوں کے لئے راہ مستقیم کو آشکار فرما دیا اور تیرے اسی عظیم رسول(ص) کے وسیلہ سے وہ دل جو فتنہ و فساد کی گھٹاٹوپ تاریکیوں اور گناہوں کی آلودگیوں مین گھر چکے تھے ہدایت پا گئے۔جس نے عَلَمِ حق کو بلند اور اسلام کے نورانی احکام کو زندہ اور نافذ فرمایا۔ پس وہ تیرے مورد اعتماد اور امین پیغمبر(ص), تیرے مخفی علوم کے خزانہ دار, روز محشر تیری وحدانیت کے گواہ, حق کے ساتھ مبعوث ہونے والے تیرے نبی اور تیری طرف سے خلق کی ہدایت کے لئے بھیجے گے رسول ہیں۔[2]
سیرہ[3] نبوی(ص) کے متعلق کامل اور جامع الاطراف شناخت و معرفت کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟ کس صحیح ترین اور بے عیب ترین منبع کے ذریعے پیغمبر اسلام(ص) کی خصوصیات اور آپکی منحصر بہ فرد صفات کو درک اور حاصل کیا جاسکتا ہے؟ صدّف نبوت کے درّ نایاب, وجہ خلقت کائنات, فلک رسالت کے نیّراعظم, بحر معرفت کے انمول موتی خاتم الانبیاء کا مقدس وجود کس انسان کامل کے نورانی کلمات کی روشنی میں کامل تر مشہود اور محسوس ہوگا؟
پیغمبر اعظم(ص) کے مبارک وجود کے خورشید تاباں کی ادنیٰ سی تجلی کی توصیف و تمجید بیان کرنے سے ہمارے قلم قاصر اور زبانیں گنگ ہیں۔ پس اس نیّر اعظم اور تاریخ بشریت کے درخشندہ ستارے کی عظمتوں اور فضیلتوں کو کس لسان طاہرہ کے ذریعے بہتر پہچانا اور دنیا والوں کے سامنے متعارف کرایا جا سکتا ہے؟
نبی مکرّم اسلام(ص) کی شناخت و معرفت کا اصیل, مطمئن, جامع اور پربار ترین منبع قرآن کی آیات میں تحقیق, تامّل و تفکر اور ان احادیث و روایات کےبارے میں صحیح تجزیہ و تحلیل ہے جو اہل بیت^ بالخصوص حضرت امام علی علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں۔
امیرالمؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کی نظر میں ختم رسالت, پیامبر اعظم(ص) کی والٰی مقام شخصیت کے مختلف پہلوؤں اوران کے مقدس وجود کے آثار و برکات کے بارے میں تحقیق و جستجو اس لئے بھی حائز اورقابل اہمیت ہے چونکہ براہین قاطع اور وافر دلائل کی بنا پر آپ کے نورانی کلمات انسان ساز, طبیعت میں نئی روح پھونکھنے والے اور امت مسلمہ کی ہدایت کا سبب ہیں۔
وہ علی علیہ السلام فصاحت و بلاغت جس کی جنبش لسانی کی ادنیٰ سی جھلک تھی, جو متکلمین کی کلام کا مرکز و محور, قدرۃ و کمال کا مہیب سائباں, طاقت و اقتدار کا زرّ افشاں, عوام کی نافرمانی کے سیلاب پر قدرۃ پانے والا, خوّاص کے عیوب کو چھپانے والا, ملوک و خاقان کے مفاسد و مظالم کو دفع کرنے والا, ظالموں اور جابر و ظالم بادشاہوں کےمظالم کو روکنے والا۔ ایک جملے میں یوں بیان کر دوں وہ علی علیہ السلام جو ہر وقت خالق کی رضایت و خوشنودی اور مخلوقات کی اصلاح و ہدایت میں کوشاں رہتے۔
فضائل و کمالات کے مظہر وہ علی علیہ السلام بشریت کی تمام صفات حمیدہ جن کا طواف کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔خدا پرستی میں جن کا شیوہ و روش قابل تعریف اور لائق تحسین ہے۔ خالق کائنات کی عظمت کے بارے میں جن کا فہم و ادراک مذہب و اعتقادات کی تصحیح کا موجب ہے۔ جن کا ہم و غم خلائق عالم کی اصلاح و ہدایت ہے, وہ عظیم انسان جن کا ظاہر و باطن پاک و پاکیزہ اور صاف و شفاف ہے, توحید کے بارے میں ان کا ایمان محکم, مضبوط اور قابل تقلید ہے, جن کے علم و عمل کی عظمت و رفعت پیغمبر اعظم(ص) کے ساتھ ان کے گہرے تعلق کا پتہ دیتی ہے۔ ایسی عظیم المرتبت شخصیت کے ذریعے پیغمبر اکرم(ص) کی سیرہ مبارکہ کو بیان کرنا علم و معرفت اور عرفان و آگاہی کا موجب اور دنیا والوں بالخصوص امت مسلمہ کے افکار و اذہان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راسخ و ماندگار رہنے کا سبب ہوگا۔نبی مکرّم اسلام(ص) کی شخصیت و سیرۃ سے عالم ترین اور آگاہ ترین وہ شخص ہوگا جو تمام انسانوں سے زیادہ آنحضرت(ص) کے نزدیک ترین اور آپ کے بعد امت میں عالم ترین ہو۔
پیامبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:
{اَعلَمُ اُمَّتِي من بعدي علي ابن ابي طالب علیہ السلام }[4]
میرے بعد امت میں عالم ترین انسان حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام علوم و معارف الٰہی کے بحر بیکراں ہیں کون ہے جس کی کلام علی علیہ السلام کی کلام سے زیادہ دل نشین , جس کی زبان علم و معارف الہی کے مخزن و منبع سے متصل اور حضرت علی علیہ السلام سے زیادہ نبی اکرم(ص) کی سیرت پاک سے آگاہ ہو؟
امام علی علیہ السلام خود فرماتے ہیں:
{و قد علمتم موضعى من رسول الله(ص) باالقربة القريبة و المنزلة الخصيصة}[5]
تم لوگ رسول خدا(ص) کی نسبت میری, رشتہ داری, قربت, منزلت اور مقام سے بخوبی آگاہ ہو۔
حضرت علی علیہ السلام بچپن سے ہی پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ رہے۔ آپ نے رسول خدا(ص) کے گھر میں پرورش پائی اور اسی خانہ وحی میں جوان ہوئے۔آپ علیہ السلام پیغمبر اکرم(ص) کی تربیت کے زیرسایہ پروان چڑھے اور اعلان نبوت کے آغاز سے ہی پہلے مسلمان, پہلے نمازی, پیغمبر اکرم(ص) کی آواز پر لبیک کہنے والے پہلے انسان , آپ(ص) کے نزدیک پہلے محبوب, پہلے عالم اور پیغمبر اسلام(ص) کے شہر علم کا درواز ہیں۔ پیغمبر اسلام(ص) کے داماد اور آپ کے پہلے صحابی, آپ(ص) کے لشکر کے پہلے عظیم اور دلاور سپہ سالار, پیامبر اعظم(ص) کے خلف صالح اور آپ(ص) کے ہمیشگی یاور و مددگار ہیں۔
آپ علیہ السلام ہی آخری ہستی ہیں جنہوں نے پیامبر اکرم(ص) کے ساتھ وداع فرمایا اور غسل و کفن اور دفن کے آخری لمحے تک آپ(ص) کے ساتھ رہے۔اس بنا پر جو ہستی بھی ابتداء سے لے کر رسول خدا(ص) کی شہادت نما رحلت تک اس نیّر اعظم کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ رہی ہوگی وہی سب سے زیادہ آپ علیہ السلام کی شخصیتِ عظمٰی اور سیرہ طیّبہ کے بارے میں اعرف, اعلم, آگاہ اور جانتی ہوگی۔
حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کی ذات اقدس پر کامل اور قوی ایمان رکھتے تھے اور ہمیشہ آپ(ص) کی تصدیق فرماتے, چنانچہ رسول خدا(ص) بھی آپ سے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے آپ علیہ السلام رسول خدا(ص) کے نزدیک خاص اہمیت و مقام کے حامل تھے۔ آپ دونوں میں اس قدر محبت پائی جاتی تھی گویا ایک روح دو بدن ہیں یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کو اپنے تمام رشتہ داروں ,والدین بلکہ خود اپنے اوپر بھی مقدم فرماتے تھے۔
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
(پیغمبر اسلام(ص) کی رکاب میں آپ کے اہداف کی کامیابی کے لئے ہم لوگ کسی بھی چیز سے ٹکرانے میں قطعاً خوف و ہراس یا باک محسوس نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ اس راہ میں اپنےوالدین, بیٹوں, بھائیوں اور چچاؤں کے ساتھ جنگ اور انہیں نابود کرنے کے لئے تیار تھے۔ جبکہ یہ پیکار ہمارے ایمان اور تسلم و رضا میں اضافے کا موجب تھی, اور حق , صبر, بردباری کی عظیم راہ اور جنگ و جہاد میں پیش آنے والی ناگواریوں اور مصائب میں دشمن کے سامنے ثابت قدم رکھتی تھی۔[6]
شیعوں کے یہ عظیم امام علیہ السلام پیغمبر اسلام علیہ السلام کی عمر مبارک کے آخری لمحات تک آپ کے ہمراہ رہے اور وداع کے وقت جبکہ آپ علیہ السلام رسول خدا علیہ السلام کو غسل دے رہے تھے فرمایا:
{بابي انت و امي لقد انقطع بموتک ما لم ينقطع بموت غيرک من النبوة و الأنباء و اخبار السماء}[7]
اے اللہ کے رسول(ص) آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوجائیں۔ آپ کی رحلت سے ہم سے وہ چیز منقطع ہو گئی جو دوسروں کی موت سے منقطع نہیں ہوئی اور وہ نبوت, وحی, عالم غیب کی اطلاع رسانی اور آسمانی خبریں ہے۔
اس بنا پر پیغمبر اسلام(ص) کے خلف صالح, امامت و ولایت کے عظیم علمدار, عصمت و طہارت کے دوسرے تاجدار سے مدد لیتے ہوئے اور آپ کے مقدس وجود کے ذریعے ہی نیّر اعظم, سرور دو جہان, عصمت و طہارت کے پہلے نامدار حضرت رسول خدا(ص) کی کامل, بہتر اور صحیح معرفت و شناخت حاصل کی جاسکتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں رسول خدا(ص) کی مقدس ذات منحصر بہ فرد خصوصیات اور خصوصی صفات کی حامل ہونی چاہئے تاکہ عہدہ رسالت و نبوت اور امت کی ہدایت کی ذمہ داریوں کو بخوبی اور بہتر طور پر انجام دے سکیں امامت کے خورشید درخشناں, آسمان ولایت کے ماہ تاباں تشیّع کے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم(ص) کے آباءو اجداد کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرماتے ہیں:
{فاستودعهم في افضل مستودع و اقرّهم فى خير مستقرّتنا سختهم کرايم الاصلاب الي مطهّرات الارحام کلّما مضى سلف قام منهم بدين الله خلف حتّى افضت کرامة الله سبحانه الى محمد(ص) فاخرجه من افضل المعادن منبتاً و اعزّ الأرومات مغرساً من شجرة التى صدع منها انبياء و انتخب منها امنائه عترته خير العتر و اسرته خير الاسر و شجرته خير الشجر}[8]
خداوند متعال نے (انوار) انبیاء^ کو بہترین اور افضل ترین مقامات میں بطور امانت رکھا جو ان کے آباءکرام کے طاہر اصلاب تھے اور پھر خدا نے انبیاء^ کو منزہ اور طاہر مقامات یعنی پاک و پاکیزہ ارحام میں قرار دیا۔ اور پھر ان کو پاک و پاکیزہ اصلاب سے طاہر ارحام میں منتقل فرمایا۔ ان ابنیاء عظام کے آباءاکرام میں سے جب بھی کوئی سلف صالح دنیا سے رحصت ہوتا تو دین کے قوّام و ترویج کے لئے ان میں سے دوسرا خلف صالح یہ عہدہ اپنے ذمہ لے لیتا, یہاں تک کہ پروردگار عالم کی یہ کرامت جو منصب عظمٰي نبوت ہے پیغمبر اسلام خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی(ص) تک پہنچی۔پس آنحضرت(ص) کو افضل ترین اور بہترین معدن سے جو طیّب و طاہر طینت نبوت ہے دنیا میں بھیجا۔ جو عزیز ترین اصل ہے۔ اور وہ پاک و پاکیزہ عنصر ہے جو عہدہ دار منصب عظمٰی رسالت ہے۔ اس شجرہ طیّبہ نبوت سے آپ کی ذات اقدس کو ہویدا و آشکار فرمایا۔ اسی شجرہ طیبہ نبوت اور سعید ترین و امین ترین درخت سے اپنے انبیاء عظّام کو منتخب فرمایا, اس شجرہ طیبہ سے خلق کی گئی آپ کی عترت بہترین عترت, آپ کی ذریت بہترین ذریت اور آپ کا خاندان بہترین خاندان ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں پیغمبر اسلام(ص) کا پاک خاندان اور آپ کے آباءواجداد خدا پرست, موحد اور یکتا پرست تھے زندگی میں ہرگز شرک نہیں کیا اور ہر قسم کی پلیدی و رجس اُن سے دور تھی
نسب شناسوں نے اور علم رجال کے معتبر منابع میں آپ کا سلسلہ نسب اس طرح نقل ہوا ہے۔
محمد(ص) بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم, بن عبدمناف, بن قصی, بن کلاب, بن مرّہ بن کعب, بن لؤی, بن غالب, بن فہر, بن مالک, بن نضر, بن کنانہ بن خزیمہ, بن مدرکہ, بن الیاس, بن مضر, بن نزار, بن معد, بن عدنان, بن ادّ بن ادد, ابن الیسع, بن الہمیس, بن بنت, بن سلامان, بن حمل, بن قیدار, بن اسماعیل, بن ابراہیم خلیل اللہ, بن تارخ, بن تاحور, بن شاروع, بن ابرغو, بن تالغ, بن عابر, بن شالح, بن ارفخشد, بن سام, بن نوح, بن لمک, بن متوشلخ, بن اخنوخ, بن یارد, بن مہلائل, بن قینان, بن انوش, بن شیث بن آدم ابی البشر^[9]
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ پیغمبر اسلام(ص) کا پاک اور شریف نسب کس طرح اور کس عظمت کے ساتھ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تک پہچتا ہے۔ اور پھر نسل در نسل پاکی و شرافت میں شہرت پاتا ہوا آخر کار ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی ذات اقدس پر اختیام پذیر ہوتا ہے آپ(ص) کے تمام اجداد طاہرین موّحد اور خدا پرست تھے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا(ص) کی مخصوص تربیّت خدا کی طرف سے ہوئی ہے:
{لقد قرن الله به(ص) من لدن ان کان عظيماً اعظم ملک من ملائکته يسلک به طريق المکارم و محاسن اخلاق العالم ليله و نهاره}[10]
جب پیغمبر اسلام(ص) نے دودھ پینا ختم کیا تو اسی وقت سے خداوند متعال نے اپنے افضل فرشتوں میں سے ایک عظیم فرشتے کو مامور فرمایا تاکہ وہ دن رات مکارم اخلاق, عظیم راہوں, اور نیک و احسن اخلاق کی طرف آپ کی راہنمائی کرے۔
جب پیغمبر اسلام(ص), ختمی مترتبت حضرت رسول خدا(ص)ملائکہ اللہ کے تحت تربیت اور ذات احدیت کی راہنمائی کے ساتھ کمال کی حد تک پہنچ گئے تو بعثت کا زمانہ شروع ہوگیا۔ چنانچہ آنحضرت(ص) اُن قبیح کاموں سے جو جاہلیت کے اس دور میں انجام دیئے جا تھے منع فرماتے تھے پیغمبر اسلام(ص) کی شخصیت اور بعثت کی عظمت یہاں سے زیادہ ظاہر و آشکار ہوتی ہے کہ اس وقت معاشرہ میں جاھلیتِ محض کار فرما تھی اور جھالت کا دور دورہ تھا۔ رسول خدا(ص) اور ان سے پہلے آنے والےپیغمبران^ کے درمیان زیادہ فاصلہ زمانی کی وجہ مختلف ممالک, معاشرہ اور لوگ دینی اور اعتقادی حوالے سے انتہائی پست اور ضعیف تھے اس حوالے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔
{ارسله على حين فترة من الرسل و طول هجعة من الامم قد درست منار الهدى و ظهرت اعلام الردي و...}[11]
جس وقت خداوند متعال نے عہدہ رسالت پیغمبر اسلام(ص) کے دوش مبارک پر رکھا اس وقت گذشتہ انبیاء کی بعثت سے مدتتیں گزر چکی تھیں اور قومیں غلفت کی نیند سو رہی تھیں۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں جس وقت رسول خدا(ص) مبعوث ہوئے تو معاشرے میں بت برستی کا ملا رائج تھی, اعراب میں سے کوئی بھی نہ صرف آسمانی کتاب نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر طرف جہالت اور گمراہی چھائی ہوئی تھی, لوگ رشتہ داروں سے قطع تعلق کئے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے۔خانہ کعبہ در حقیقت اعراب کے مختلف خداؤں کا بت خانہ بنا ہوا تھا اس میں ہر قبیلے کا ایک بت رکھا ہوا تھا, اور360سے زیادہ تعداد میں مختلف شکلوں کے بت خانہ کعبہ میں موجود تھے۔[12]
حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
جب خداوند متعال نے رسالتمآب(ص) کو عہدہ رسالت پر فائز فرمایا تو اس وقت گزشتہ انبیاء کی بعثتوں اور نبوتوں سے مدتیں گزر چکی تھیں اور قومیں غفلت کی گہری نیند سو رہی تھیں, فتنہ و فساد نے دنیا کو اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا, لوگوں میں نافرمانیاں اور بدکاریاں عام تھیں, ہر طرف آتش جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے دنیا بے نور اور اس کی روشنی کجلائی ہوئی تھی اور مکر و فریب سے بھر چکی تھی, شجر زندگی کے پتے زرد ہو چکے تھے اور ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی, آب حیات تہہ تشین ہو چکا تھا, ہدایت کے منار ویران اور مٹ چکے تھے, ہلاکت, بدبختی اور گمراہی کے نشانات نمایاں تھے, دنیا انتہائی مکروہ چہرے اور تُرش روئی سے اہل دنیا کی طرف دیکھ رہی تھی, اور اپنے طبلکاروں کے سامنے منہ بگاڑے کھڑی تھی, شجر دنیا کا میوہ فتنہ اور اس کی خوراک مردار تھی, دنیا کے اندر وحشت و اضطراب اور باہر تلوار حکومت کررہی تھی۔
زمانہ جاہلیت میں جبکہ ہر طرف سے فتنہ و فساد کی نجس بارش برس رہی تھی اور بے ہنگم رسومات نے معاشرے کو اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ جزیرۃ العرب میں رسول خدا(ص) کے مبعوث ہونےسے فیوضات الٰہی کے ابر رحمت, آپ(ص) کے پاک و پاکیزہ اور ترتازہ و تفکر کے پھوٹتے ہوئے چشمہ فیض نے مردہ زندگی کی سوکھی رگوں میں امید کی نئی لہر دوڑا دی اور آپ(ص) کے وجود اقدس کی برکات سے بندگی اور حق پرستی کے آداب کا جھنڈا لہرا اٹھا يا۔
بعثت کے زمانے میں رسول خدا(ص)کے بابرکت وجود کے بعض زوایا کی معرفت و شناخت بے انتہا اور نامحدود آثار و برکات کی حامل تھی۔ آپ(ص) کا کردار و رفتار, طرز تفکر, آپ(ص) کی کشتی حیات کی حرکت غرض حیات طیبّہ کا ہر لمحہ اطاعتِ شریعت, وحدانیت کے پرچار, انجام واجبات و ترک محرمات اور مخلوقات کے خالق یکتا کے سامنے سر تسلیم خم کرانے کی حد و جہد میں گذار۔
کشور امکان کے شہنشاہ, ختم نبوت کے مقدس گوہر, انبیاء و مرسلین کے سید و سردار, امہات دہر کی تاریخ کے منور و مقدس وجود, خالق لم یزل کی عظیم نعمت اور یگانہ بشریت کا عالم امکان میں مقدس قدم رکھنا پروردگار عالم کی بے شمار نعمتوں کا خزانہ, جادہ حق سے منحرف بھٹکی اور گمراہ انسانیت پر عظیم احسان اور بنی نوع انسانیت کی ہدایت و راہنمائی کے لئے مہم ترین تاریخی واقعہ ہے۔
خلائق کے بشیر و نذیر حضرت ختمی مرتبت(ص) کے مواعظہ حسنہ کی شیرینی اور مٹہاس ہر درد مند کی دوا, عبودیت و بندگی کی لذت سے محروم لوگوں کے لئے بندگی کا میٹھا مزہ تمام روحانی و غیر روحانی امراض اور ہر علیل فراج کا علاج ہے۔
خیر البشر حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی وحی کے پاک و پاکیزہ پانی سے دھلی کلام نرم گفتاری, خوش زبانی, شیرین کلامی, دلکش اور فرحت بخش انداز تکلم, حکمت بالغہ اور موعظہ حسنہ کی وجہ سے نسیم جان ہدایت , شریعت کے احکام و مسائل کے بیان اور دین مبین اسلام کے آئین کے فروغ کے لئے سنگ میل ثابت ہوئی۔حضرت علی علیہ السلام کی روایات و احادیث کے آئینہ میں نیّراعظم, رسول مکرّم حضرت ختمی مترتبت(ص) کے کچھ اوصاف اور خصوصیات, حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
پیغمبر اسلام(ص) مجسمہ عصمت و طہارت, اسوہ حسنہ[13], منادی توحید, خدا محور, فضیلتوں اور عظمتوں کے ملاک و معیار[14],سب سے بڑے امانتدار[15] شجاع اور فداکار,[16] قوی پایدار اور با استقامت,[17] اولعزم ترین اور عظیم ترین پیغمبر[18] خاتم الانبیاء,[19] رسول رحمت, امت کے لئے سعادت اور خوش بختی لے کر آنیوالے, حجت بالغہ اور خداوندمتعال کے حبیب تھے
خیر البشر حضرت رسالتمآب(ص) کی طرف حضرت علی علیہ السلام کی توجہ کامل, جامع الاطراف, واقع بین, عمیق و دقیق اور پیغمبر اسلام(ص) کی لامحددو و بے انتہا عظمت, فضلیت اور بزرگی پر مشتمل تھی۔
حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں پیغمبر اسلام(ص) کی تعلیمات اور آپ(ص) کی سیرت مبارکہ پوری کائنات اور عالم بشریت کے لئے سعادت آفریں, خوش بختی اور تکامل کا موجب ہے آپ علیہ السلام پیغمبر اسلام(ص) کو وہ خیر کامل سمجھتے ہیں جو تمام نیک, پسندیدہ اور ہردلعزیز خصال و خصوصیات کا منشاء ہے۔
آپ علیہ السلام توحید کے بعد مسلمانوں کی عزت و عظمت کی مہمترین اور اہم ترین اصل پیغمبر اسلام(ص) کا مبارک وجود سمجھتے ھیں اور آپ(ص) کی تعالیم اور فرامین کو امت اسلام کے ایمان و اعتقادات کے ثبات اور تحقق کا قوی ترین عامل قرار دیتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ دنیا والے تاریخ کے اس عظیم انسان کی دقیق اور کامل معرفت و شناخت سے آگاہ ہوں۔
حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں پیغمبر اسلام(ص) کی حیات طیبہ اور پر برکت زندگی کے بارے میں عمیق و دقیق تحقیق و جستجو بالخصوص بعثت کی ابتداء سے لے کر آپ(ص) کی شہادت نما رحلت تک آنحضرت(ص) کی حیات طیبہ کے مختلف فردی و اجتماعی زوایا مثلاً آپ(ص) کی علمی و عملی سیرت کی تجزیہ و تحلیل, عالم اسلام کی پہلی شخصیت کی اسلام کے بارے میں دعوت کی روش اور طریقہ امت میں سے بعض مخالفین کے ساتھ آپ(ص) کا برتاؤ, حربی و غیر حربی یہود و نصاری اور مشرکین کے ساتھ آپ(ص) کا مقابلہ, آپ (ص)کی خارجہ سیاسی پالیسوں کے اصول و ضوابط اور ٹیکنیک, زمانہ بعثت کے وقت دنیا کے حالات اور شرائط, اندرونی سیاست کے اعتبار سے آپ(ص) کے مختلف اقدامات, عام مسائل, آپ (ص)کی حکومت کے کارکناں, آپ(ص) کا کارکنوں کو معزول یا منصوب کرنا, آپ(ص) کے نزدیک لوگوں کا مقام و منزلت, امت مسلمہ کے با صلاحیت و ممتاز افراد, آپ(ص) کی شخصیت اور اخلاق, تبلیغ اسلام میں آپ کی سیرت, شوری و مشورت, آپ کے خطوط اور پیغامات کی تجزیہ و تحلیل, دوسرے ممالک اور ریاستوں میں بھیجے گئے آپ کے نمائیندے اور سفراء,اجتماعی بے ضابطگیوں اور مختلف گروہوں بالخصوص مخالفین اور منافقین کے ساتھ آپ کا برتاؤ اور حُسنِ سلوک۔۔۔۔۔ اوراس کے علاوہ مدینہ و مکہ میں حکومت اور قدرت اسلامی کی مختلف جہات و زوایا کی شناخت, مدیریت نظارت اور کنڑول کے نمونے, اجتماعی امنیت کی بحالی میں آپ(ص) کا طریقہ و روش, سیاسی, تہذیبی دینی, اقتصادی۔۔۔۔اور نیر اعظم رسول مکرّم(ص) کی حیات طیبہ اور تمام صفات حمیدہ کے دیگر زوایا کی حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں کاملاً معرفت اور شناخت ایک ایسا عظیم وظیفہ ہے جو محقیقن, دانشمندوں اور صاحب فکر حضرات کی وسیع اور فراگیر جدوجہد اور تحقیق کامحتاج ہے[20]
اس گراں قدر کتاب میں حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں پیغمبر اسلام(ص) کی سیرت مبارکہ کو مورد تحقیق و تتبع قرار دیا گیا ہے۔
نیّر اعظم(ص), حبیب دو عالم حضرت رسول خدا(ص) کی سیرت مبارکہ اس با عظمت امام علیہ السلام کی نگاہ مبارک میں جن کا نورانی کلام معدن سخن کے لعل و جواہر, اعجاز بیان کا ہلال شعلہ ور, لسان اللہ سے نکلنے والے درّ غلطان, لؤلؤ و المرجان کے نایاب موتی, قوت بیان اور سلیقہ بیان کا حسین امتزاج ہے۔جس کے مواعظ حسنہ انسان کو انوارحقائق کا اداراک عطا کرتے ھیں اوہام کو عقول میں تبدیل کردیتے ھیں اور نور ولایت, رسالت و امامت سے پیچھے رہ جانے والوں کو منزل ہدایت تک پہنچا دیتے ہیں۔
یہ نفیس کتاب محقق ارجمند, دانشمند محترم, استاد معظم جناب حجۃ الاسلام و المسلمین الحاج ڈاکڑ سید محمد مرتضوی (دامت افاضاتہ و ادام اللہ ظلہ) کی پر تاثیر قلم سے تدوین و تالیف ہوئی ہے۔ آپ ورلڈ شیعہ شناسی سینڑ (مجمع جہانی شیعہ شناسی) کی انجمن علمی کے برجستہ اعضاء و اراکین میں سے ہیں۔بہترین اسلوب تحریر اور اعلیٰ ذوق تصنف کے آئینہ میں آپ نے شمس نبوت, نیّر اعظم حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی سیرہ طیبہ اور آپ کی صفات حمیدہ کو حضرت علی علیہ السلام کے نورانی کلام سے الہام لیتے ہوئے نفیس الفاظ کا جامہ پہنا کر تاج سخن میں جَڑے حسین موتیوں اور نگینوں کی صورت میں آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔دانشمد محترم جن کی پاکیزہ فکر و بصیرت, لطافت طبع اور عالمانہ تالیف و تصنیف نے شیر و شکر کی مانند باہم ممزج ہو کر بحر معارف و معانی کو خوبصورت, فرحت بخش بیان اور حسین انداز تکلم و تخاطب کے ساتھ بیان کرکے رسالت و امامت کے عاشقوں اور منجلے شیداؤں کے دلوں کو ایک نیا سرور و مسرّت اور شادمانی عطا کی ہے۔
جزاه الله عن الاسلام اجراً و کثر الله امثالهم فی الاسلام
اس خداوند کریم کی حمد و ثناء ہے جس نے توفیق مرحمت فرمائی اور ورلڈ شیعہ شناسی سنیٹر (مجمع جہانی شیعہ شناسی) اس نفیس اور گران سنگ کتاب کو جامعہ اسلامی بالخصوص دانشور اور محقق طبقہ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
[1]. محب الدين طبري ”ذخائر العقبی“ ص۷۷.”مناقب ابن مردويه“ ص ۶۷؛ متقی ہندی”کنزالعمال”ج ۱۱, ص ۶۲۰, چاپ بیروت؛ ابن عساکر”ترجمة الامام علی“ ص ۲۷۴, چاپ بیروت؛ محب الدین طبری”رياض النضرہ“ج ۲, ص ۲۰۳؛ علامہ عینی”مناقب سيدنا علی(ع)“ص۲۷؛ علامہ مناوی”کنوز الحقايق“ ص ۴۳؛ علامہ حضرمی”وسيلة المآل“ ص ۲۴۱؛ علامہ مغازلی”مناقب“ص ۴۵ و۱۹۷؛ حافظ ابن عبدالبرّ اندلسی”الاستيعاب“ج ۳, ص ۱۰۹؛ “تاریخ خطیب بغدادی” ج ۲, س ۴۵؛ علامہ ذہبی”ميزان الاعتدال“ج ۲, ص ۴۵؛ علامہ دیلمی ”فردوس الاخبار“؛ امام احمد حنبل”مسند“ ج ۱, ص ۱۵۹؛ علامہ گنجی شافعی”کفاية الطالب“ص ۲۰۶؛ ابی جعفر محمد بن جریر طبری”تاريخ طبری“ج ۲, ص ۶۲؛ شیخ سلیمان حنفی”ينابيع المودہ“ ص ۱۷۹, چاپ اسلامبول و ج ۲, ص ۶۳, چاپ بیروت؛ علی بن حسام الدین”منتخب کنز العمال“ ج ۵, ص ۳۴ و ج ۴, ص ۶۴۶, بیروت۔
[2]؎ ”نهج البلاغه“ خطبہ ۷۲۔
[3]؎ ”لسان العرب“ ج 6, ص 454،پر ابن منصور لکھتے ہیں کہ اہل لغت نے سیرہ کا مفہوم و معنی حرکات و سکنات اور رفت و آمد کا انداز بیان کیا ہے۔ بعبارۃ بہتر یعنی انسان کی رفتار و کردار کا انداز سیرہ کہلاتا ہے۔سیرہ لغوی اعتبار سے باب سار, یسیر, سیرا کا اسم مصدر ہے اسی طرح فعلۃ کے وزن پر آتا ہے اور سیر سے مشتق ہے سیرہ کا اصطلاحی معنی علامہ طباطبائی ”تفسير الميزان“ ج ۱, ص ۱۷۸, پر لکھتےہیں: اصطلاح میں سیرہ کا معنی انسان کی حالت اور طریقہ ہے یعنی انسان کی رفتار و کردار البتہ مورخین کی اصطلاح میں سیرۃ کا معنی پیغمبر اسلام(ص) کی تاریخ اور ان کی حیات طیبہ کی تشریح و تفسیر بیان کرنا ہے۔شہید مطہری اپنی کتاب ”سيری در سيره نبوی“ انتشارات صدرا کے ص ۵۳ پر تحریر فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام(ص) کی سیرت یعنی وہ طریقہ اور انداز جو پیغمر(ص) اسلام اپنے مقاصد کو بیان کرنے لے کئے اپناتے تھے۔ اس بنا پر سیرہ نبوی سے مراد وہ رفتار و کر دار, شیوہ اور طریقہ ہے جو مختلف مقامات مین پیغمبر اکرم(ص) اپناتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔
[4]. شيخ الاسلام جويني” فرائد السمطين“ج ۱, ص 97, چاپ بیروت؛ محمد بن جریر طبری, ”کتاب فضائل علی(ع)“ و ”کتاب الولايه“ ص 49؛ قاضی نعمان, ”شرح الاخبار“ ج ۱, ص 126؛ دیلمی”فردوس الاخبار“ ج ۱, ص ۳۷۰۷ ح ۱۴۹۱؛ علامہ خوازمی”مقتل الحسين“ ج ۱, ص 75؛ علامہ خوارزمی,”مناقب“ س 40 و 41 و82, چاپ قم؛ شیخ سلیمان حنفی ”ينابيع المودة“ ص 179, چاپ اسلامبول و ج ۱, ص 69 و ج 2, ص 59, چاپ بیروت؛ علامہ کشفی ترمذی”مناقب مرتضويه“ ص 81؛ علامہ مناوی”کنوز الحقائق“ ج ۱, ص 34؛ متقی ہندی”کنوز العمال“ ج ۱۱, ص 614؛ علی بن حسام الدین”منتخب کنز العمال“ ج ۵, ص 33, مصر و ج 4, س 644, بیروت؛ شافعی ہمدانی”السبعين“ ص 510, چاپ پاکستان; علامہ ذہبی”اخبار القضاه“ ج ۱, ص 88؛ علامہ عینی,”مناقب سيدنا علی(ع)“ ص 16 و 25, چاپ حیدر آباد؛ علامہ گنجی شافعی”کفايه الطالب“ ص 190؛ آیت اللہ العظمی سید محمد ہادی میلانی,””قادتنا کيف نعرفهم“ ج ۲, ص 393, چاپ بیروت؛ حکیمی”سلونی“ ج ۱, ص 53, چاپ بیروت؛ آیت اللہ سید ہاشم حسینی,”بوستان معرفت“ ص 621؛ آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی,”ملحقات احقاق الحق“ ج 4, س 318, چاپ قم؛ صابری یزدی”الحکم الزاہرہ” ص 84, چاپ قم؛ نجم الدین عسکری”علی(ع) و الخفاء“ ص 3, چاپ نجف؛ علامہ اربلی”کشف الغمه“ج ۱, ص 150؛ نجم الدین عسکری ”علی و اوصيه“ ص 60, چاپ بیروت؛ علامہ امنی”الغدير“ ج 3, ص 96, چاپ بیروت؛ ”الوصول“ ص 35؛ شیخ صدوق”امالی“ ص 548؛ حجۃ الاسلام احسان بخش”آثار الصادقين“ ج 14, ص 64؛ مجلسی”بحارالانوار“ ج 38, ص ۱, بیروت۔
[5]۔ ” نهج البلاغه“صبحي صالح, خطبه 192.
[6]۔ امام علی(ع)”نهج البلاغه“خطبہ 56۔
[7]۔ امام علی(ع)”نهج البلاغه“خطبہ 235۔
[8]. امام على(ع)”نهج البلاغه“ خطبہ 105 و 94۔
[9]۔ موسوی, سید محمد ”سلطان الواعظين“ ج 2, ص 257 دار الابصار, چاپ سوم, 1384۔
[10]. امام علي(ع)”نهج البلاغه“خطبہ 192.
[11]۔ ”نهج البلاغه“صحبی صالحی, خطبہ ۸۹۔
[12]۔ کلبی”کتاب الاصنام“ ص 206۔
[13]۔ ”نهج البلاغه“ خطبہ، 160۔
[14]۔ گذشتہ منبع۔
[15]۔ ”نهج البلاغه“خطبہ، 26۔
[16]۔ وہی مآخذ۔
[17]۔ ”نهج البلاغه“ خطبہ، 116۔
[18]۔ ”نهج البلاغه“ خطبہ، 213 و 178۔
[19]۔ ”نهج البلاغه“ خطبات72، 78, اور 235۔
[20]۔ البتہ مسلّم ہے آپ(ص) کی حیات طیبہ کے مذکورہ تمام زوایا اور ابعاد میں سے سے ہر بُعد مستقلا الگ موضوع کے طور پر قابل تحقیق و جستجو ہے۔
Add new comment