کیا واقعۂ غدیر صرف اعلانِ دوستی کے لئے تھا؟
کیا واقعۂ غدیر صرف اعلانِ دوستی کے لئے تھا؟
علماء اہل سنّت نے روزِ غدیر سے لے کر آج تک اس موضوع پر مختلف قسم کے نظریات کا اظہار کیا ہے، بعض نے خاموشی اختیار کی تاکہ اس خاموشی کے ذریعے اس عظیم واقعہ کو بھول اور فراموشی کی وادی میں ڈھکیل دیا جائے، اور یہ حَسین یاد لوگوں کے ذ ہنوں سے محوہو جائے ،لیکن ایسا نہ ہو سکا ، بلکہ سینکڑوں عرب شاعروں کے اشعار کی روشنی میں جگمگا تا گیا جیسے عرب کا مشہور شاعر فرزدق رسولِ خد ا ا [ص] کی خدمت میں موجود تھا ۔
اس نے ا پنی فنکارانہ شاعری میں نظم کر کے اس عظیم واقعہ کو دنیا والوں تک پہنچا دیا، اور بعض نے حکّامِ وقت کی مدد سے سقیفہ سے اب تک تذکرہ غدیر پر پابندی لگا دی ا س کو جرم شمار کیا جانے لگا !کوڑوں ،زندان اور قتلِ عام کے ذریعے چاہا کہ اس واقعہ کو لوگ فرموش کر ڈالیں۔لیکن اپنی تمام تر کوششوں کی باوجود ناکام رہے ، ولایت کے متوالوں پر ظلم ڈھایا گیا انھیں قتل کیا گیا ،تازیانوں کی زد پررکھا گیا ، جتنا راہ غدیر کو خونی بنا یا گیا اُتنا ہی مقامِ غدیر اُجاگر ہوتا گیا اور آخر کار ان کا خون رنگ لایا اور شفق کی سرخی کے مانند جاوید ہو گیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلامُ اﷲِ علَیہا کی ہمیشہ یہ کوشش رہی بحث و مباحثہ اور مناظرات کے دوران غدیر کے موضوع پر بات کریں ، خود حضرت علی ۔ نے غدیر کی حساس سیاسی تبدیلیوں سے ،متعلق گفتگو کی اور میدان غدیر میں حاضر چشم دید گواہوں سے غدیر کے واقعہ کا اعتراف لیا، اور دوسرے ائمّۂ معصومین ؑ اور ولایت کے جانثاروں نے ا س دن سے لے کر آج تک ہمیشہ غدیرِ خُم کو اُجاگر کیا، اور پیامِ غدیر کو آ ئندہ نسلوں تک پہنچایا اب کوئی غدیر میں شک و تردد کا شکار نہیں ہو سکتااور نہ ہی اس کو جھٹلا سکتا ہے ۔
۱ ۔ دوستانہ نظریات
بعض اہل سنت مصنِّفین جو اس بات کو سمجھتے تھے کہ واقعۂ غدیر سورج کی طرح روشن و منوّر ہے اور جس طرح سورج کو چراغ نہیں دکھایا جاسکتا اُسی طرح اس کا انکار بھی ممکن نہیں ہے اور اگر اِس کو نئے رنگ میں پیش نہیں کیا گیا تو غدیر کی حقیقت بہت سے جوانوں اور حق کے متلاشیوں کو ولایتِ علی ۔ کے نور کی طرف لے جائے گی ،تو وہ حیلہ اور مکر سے کام لینے لگے اور حقیقت غدیر میں تحریف کرنے لگے ،اور کہا کہ ! ہاں واقعۂ غدیر صحیح ہے اور اس کا انکار ممکن نہیں ہے لیکن اس دن رسولِ خداؐ کا مقصد یہ تھا کہ اس بات کا اعلان کریں کہ (علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں) اور یہ جو آپ [ص] نے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلٰاہُ آپ [ص] کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ( جو بھی مُجھے دوست رکھتا ہے ضروری ہے کہ علی ۔ کو بھی دوست رکھے )۔
اور یہیں سے وہ الفاظ کی ادبی بحث میں داخل ہوئے لفظِ ’’ ولی ‘‘ اور ’’ مولیٰ ‘‘ کاایک معنیٰ ( دوستی )اور( دوست رکھنے ) کے ہیں لہذا غدیر کا دن اس لئے نہیں تھا کہ اسلامی دنیا کی امامت اور رہبری کا تذکرہ کیا جائے بلکہ روزِ غدیر علی ۔ کی دوستی کے اعلان کا دن تھا۔
اُنہوں نے اس طرح پیغامِ غدیر میں تحریف کر کے بظاہر دوستانہ نظریات کے ذریعہ یہ کوشش کی کہ ا ہلسُنّت جوانوں اور اذہانِ عمومی کو پیغامِ غدیر سے منحرف کیا جائے ،چنانچہ اپنی کتابوں میں اس طرح بیان کیا کہ اہلِسُنّت مدارس کے طالبِ علموں اور عام لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ روزِ غدیر علی ۔ کی دوستی کے اعلان کا دن ہے ، پس کوئی غدیر کا انکار نہیں کرتا اور رسولِ خدا [ص]نے اُس دن تقریر کی لیکن صرف علی ۔ کی اپنے ساتھ دوستی کا اعلان کیا اور اس بات کی تاکید کی کہ مسلمان بھی حضرت علی ۔ کو دوست رکھیں۔
۲ ۔ حقیقتِ تاریخ کا جواب:
واقعۂ غدیرکی صحیح تحقیق کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ غدیر خم صرف اعلان دوستی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔
۱۔واقعۂ روزِغدیر کی تحقیق:
حقیقتِ غدیر تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ یہ ہے کہ غدیر کی تاریخی حقیقت اورواقعیّت میں تحقیق کی جائے ، حجۃُالوداع رسولِ گرامیِ اسلام [ص]کا آخری سفرِ حج ہے اس خبرکے پاتے ہی مختلف اسلامی ممالک سے جوق در جوق مسلمان آپ [ص] کی خدمت میں آئے اور بے مثال و کم نظیر تعداد کے ساتھ فرائض حج کو انجام دیا اور اسکے بعد سارے مسلمان شہرِ مکّہ سے خارج ہوئے اور غدیر خُم پر پہنچے کہ جہاں سے اُنہیں اپنے اپنے شہرو دیار کی طرف کوچ کرنا تھا ۔
اہلِ عراق کو عراق کی طرف ، اہلِ شام کو شام کی طرف ،بعض کو مشرق کی سمت اوربعض کو مغرب کی سمت ،ایک تعدادکو مدینہ ، اور اسی طرح مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قبیلوں اور دیہاتوں کی طرف لَوٹنا تھا،رسولِ خدا [ص]ایسے مقام کا انتخاب کرتے اور توقّف کرتے ہیں شدید گرمی کا عالم ہے ، سائبان اور گرمی سے بچنے کے دوسرے وسائل موجود نہیں ہیں اور عورتوں اور مردوں پر مشتمل ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹہرنے کا حکم دیتے ہیں یہاں تک کہ(۱) پچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیاجائے ،آگے چلے جانے والوں کو واپس بلایا جائے اور پھر آپؐ نے اُونٹوں کے کجا ووں اور مختلف وسائل سے ایک اُونچی جگہ بنانے کا حکم د یا تاکہ سب لوگ آپؐ کو آسانی سے دیکھ سکیں، اور اسلامی ممالک سے آ ئے ہو ئے حاجیوں کے جمع ہونے تک انتظار کیا گیا، گرمی کی شدّت سے پسینے میں شرابور لوگ صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] کا پیغام غور سے سنیں اور آپ [ص] یہ فرمائیں!
( ۱ ) واقعۂ غدیر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت حاجیوں کا جمع غفیر تھا جوکہ مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے تھے جنکی تعداد مؤرّخین نے نوّے ہزار (۰۰۰،۹۰) سے ایک لاکھ بیس ہزار (۰۰۰،۱۲۰)تک نقل کی ہے اورحج کی ادائگی کے بعد اپنے اپنے وطن لَوٹتے ہوئے ۱۸؍ ذی الحجہ کے دن خدا کے حکم سے سرزمینِ غدیر خُم پر جمع ہوئے اور جنہوں نے رسولِ خد اؐکے پیام کو سُننے کے بعدحضرت علی ۔ کی بیعت کی،غدیر کے دن لوگوں کی اس عام بیعت کا اعتراف بہت سارے مؤرِّخین نے کیا ہے ۔جو مندرجہ ذیل ہیں!
۱ ۔ سیرۂ حلبی ، ج ۳ ص ۲۸۳ : حلبی :
۲ ۔ سیرۂ نبوی ، ج ۳ ص ۳ : زینی دحلان
۳ ۔ تاریخُ الخُلَفاء ، ج ۴ : سیوطی (متوفّٰی ۹۱۱ ہجری)
۴ ۔ تذکرۃُخواص الاُمّۃ ، ص ۱۸ : ابنِ جَوزی(متوفّٰی ۶۵۴ ہجری)
۵ ۔ احتجاج ، ج ۱ ص ۶۶ : طبرسی (متوفّٰی ۵۸۸ ہجری)
۶ ۔ تفسیرِ عیّاشی ، ج ۱ ص ۳۲۹/۳۳۲ حدیث ۱۵۴ : ثمر قندی
۷ ۔ بحارُا لا نوار ، ج ۳۷ ص ۱۳۸ حدیث ۳۰ : علّامہ مجلسی
۸۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج ۳ حُرِّعاملی ص ۵۴۳ /۵۴۴ حدیث ۵۹۰/۵۹۱/۵۹۳ :
۹ ۔ تفسیرِبرہان ، ج ۱ ص ۴۸۵ حدیث ۲ ، ص ۴۸۹ حدیث ۶ :بحرانی
۱۰ ۔ حبیبُ السَّیر ، ج ۱ ص ۲۹۷/۳۷۵/۴۰۴/۴۱۲/۴۴۱ : خواند میر
’’اے لوگو !میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ‘‘
پھر آپ [ص]کی لوگوں سے بار بارتاکید کی کہ آج کے اس واقعہ کو اپنی اَولادوں،آئندہ آنے والی نسلوں اور اپنے شہرودیار کے لوگوں تک پہنچادیں۔
یہ اہم واقعہ کیا ہے؟
کیا صرف یہ ہے کہ آپ [ص] یہ فرمائیں ! میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ؟
کیا ایسی حرکت کسی عام شخص سے قابلِ قبول ہے ؟
کیا ایسی حرکت بیہودہ ،اذیّت ناک اور قابل مذمّت نہیں ہے ؟
پھر کسی نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟
کیا مسلمان یہ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبراکرم [ص] حضرت علی ۔ کو دوست رکھتے ہیں ؟ کیا علی ۔ ایسے صف شکن مجاہد کی محبّت پہلے سے مسلمانوں کے دلوں میں نہیں بسی ہوئی تھی؟
۲۔فرشتۂ وحی کا بار بار نزول:
اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو ایسا کیوں ہواکہ جبرئیل امین جیسا عظیم فرشتہ تین بار آپ [ص] پر نازل ہو اور پیغامِ الٰہی سے آپ [ص] کو آگاہ کرے؟! جیسا کہ آنحضرت [ص]نے خود ارشاد فرمایا!۔
’’إِنَّ جِبْرَئےْلَ۔ھَبَطَ إِلَیَّ مِرٰاراً ثَلٰاثاً یَأْ مُرُنِیْ عَنِ السَّلٰامِ رَبِّیْ وَھُوَالسَّلٰامُ أَنْ أَقُوْمَ فِی ھٰذا الْمَشْہَدِ، فأُعْلِمَ کُلَّ أَبْےَضٍ وَ أَسْوَدٍ أَنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِیْ طٰالِبٍ أَخِیْ وَ وَصِییّ وَ خَلِیفَتِی عَلٰی أُمَّتِیْ وَ الْإِمٰامُ مِنْ بَعْدِیْ أَلَّذِی مَحَلَّہٗ مِنِّیْ مَحَلَُ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلّٰا إنَّہٗ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ ھُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَ قَدْ أَنْزَلَ اﷲ تَبٰارَ کَ وَ تَعٰا لٰی عَلَیَّ
بِذٰ لِکَ آیَۃً مِنْ کِتٰابِہٖ!‘‘
(إِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اﷲُ وَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْ تُوْن الزَّکٰوۃَ وَ ھُمْ رٰاکِعُوْنَ )(۱)
وَعَلِیُّ بْنَ أَبِیْطالِبٍ أَلَّذِیْ أَ قٰامَ الصَّلٰوۃَوَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَھُوَرٰاکِعٌیُرِیْد اﷲَ عزَّ وَجَلَّ فِیْ کُلّ حٰالٍ (۲)
جبرائیل ۔ تین بار وحی لے کرمجھ پرنازل ہو ئے اور درود و سلام کے بعد فرمایا کہ یہ مقام غدیرہے یہاں قیام فرمائیں اورہر سیاہ و سفید،یہ بات جان لے کہ حضرت علی ۔ میرے بعد
(۱)مائدہ، ۵/ ۵۵
(۲) حجّۃُالوداع کے موقع پر آپ [ص] کا خطبہ ( کتاب احتجاج طبرسی ،ج ۱، ص۶۶)
خطبہ کے مدارک و اسناد :
(۱) ۔ احتجاج ، ج ۱، ص ۶۶ : طبرسی
( ۲)۔ اقبا ل الاعمال ،ص۴۵۵: ابن طاؤوس
( ۳)۔ کتاب الیقین،باب۱۲۷: ابن طاؤوس
( ۴) التحصین ، باب۲۹: ابن طاؤوس
(۵)۔روضۃُالواعظین ،ص۸۹ :قتال نیشابوری
(۶)۔ البرہان،ج۱ ص۴۳۳:بحرانی
(۷)۔ اثباتُ الہُداۃ ، ج۳ ص۲ : عاملی
(۸)۔ بحارُالانوار ، ج۳۷ص ۲۰۱:بحرانی
( ۹)۔ کشف المہم،ص ۵۱:بحرانی
(۱۰)۔تفسیرِ صافی،ج۲، ص۵۳۹:فیض کاشانی
آپ کے وصی خلیفہ اورتمہارے پیشوا ہیں ، انکا مقام میری نسبت ایسا ہی ہے جیسا مقام ہارون کا موسٰی ؑ کی نسبت تھا ،بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گاعلی ۔ خدا اور رسول [ص] کے بعد تمہارے رہنما ہیں خدا وندِ صاحب عزّت و جلال نے اپنی پا ک وبابرکت کتاب قرآنِ مجید میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔
اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہارے ولی اور سرپرست خدا،رسول [ص] اوروہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں ،نماز بپا کریں اور حالتِ رکوع میں زکٰوۃ ادا کریں یہ بات تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو کہ علی ۔ نے نماز بپا کی اور حالتِ رکوع میں زکٰوۃ ادا کی اور ہر حال میں مرضیِ خدا کے طلبگار رہے ۔
۳۔ پیغمبر اکرم [ص] کی پریشانی:
اگر غدیر کا مقصد صرف علی ۔ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تواس پیغامِ الٰہی کے پہنچا دینے میں آپ [ص] کی پریشانی کا کیا سبب ہے؟آپ [ص] نے تین بار پس و پیش کیوں کی؟ اور جِبرَئیل ۔ کا مسلسل اصرار کرنا اور اس آیت کاپڑھناکہ(یٰا أَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکْ وَإِنْ لَمْ تَفْعَل فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ)(۱)
( اے پیغمبر [ص] !جو حکم خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیں اگر آج آپنے یہ کام انجام نہیں دیا تو گویا آپنے اپنی رسالت کو ادھورا چھوڑ دیا ۔(۲)
(۱) مائدہ ۵/۶۷
(۲)بہت سارے مسلمان عُلماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ! یہ آیۂ مبارکہ غدیر کے دن حضرتِ علی ۔ کی ولایت کے ا علان کے لئے نازل ہوئی۔
۱۔ الولایۃ فی طرق حدیث الغدیر : طبری
۲۔ ما نزل القرآن فی امیرالمؤمنین ۔ : ابو بکر فارسی E
.................................................................................................................
F۳۔ ما نزل القرآن فی علی ۔ : ابو نعیم
۴۔ الدرایۃ فی حدیث الولایۃ : سجستانی
۵۔ الخصائص العلویّۃ : نطنزی
۶۔ تفسیر شاہی : محبوب العالم
۷۔ ارجح المطالب ، ص ۶۷/۶۸/۲۰۳/ ۵۶۶ : امرتسری
۸۔ اسباب النزول ، ص ۱۳۵ : واحدی
۹۔ تاریخ دمشق ، ج ۲ ، ص ۸۵ : ابن عساکر
۱۰۔ فتح القدیر ، ج ۳ ، ص ۵۷ : شوکانی
۱۱۔ مفاتیحُ الغیب ، ج ۱۲ : فخر رازی
۱۲۔ تفسیر المنار ، ج ۶ ، ص ۴۶۳ : رشید رضا
۱۳۔ حبیبُ السَّیر، ج ۲ ،ص ۱۲ : خواند میر
۱۴۔ الدرّ المنثور ، ج ۲ ص ۲۹۸ : سیوطی
۱۵۔ شواھدالتنزیل ، ج ۱، ص ۱۸۷ / ۱۹۲ : حسکانی
۱۶۔ فرائد ا لسّمطین : حموینی
۱۷۔ فصول المہمّۃ ، ص ، ۲۳ /۷۴ : ابن صبّاغ
۱۸۔ مطالب السؤول : ابن طلحہ
۱۹۔ ینا بیع المودّۃ : ص ،۱۲۰ قندوزی
۲۰ ۔ روح المعانی : ج ۲ ص، ۳۴۸ آلوسی
۲۱۔ عمدۃ القاری ، ج ۸ ، ص۵۸۴: عینی
۲۲۔ غرایب القرآن ، ج ۶، ص ۱۷۰ : نیشا بوری
۲۳ ۔: مودّۃ القربی : ھمدانی
یہ اتنا بڑااور اہم کام کیا تھا؟حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام تو کوئی اتنا بڑا کام نہیں تھا !اور یہ کام کسی خاص خطرہ کا حامل بھی نہیں تھا کہ رسول خدا [ص] کو اتنا پریشان کرتا یہاں تک کہ ۳ بار حضرت جبرئیل ۔ نازل ہوں اور آپ [ص] اس کام کو انجام دینے سے عذر خواہی کریں ،اس بات کا اظہا ر خود آپ [ص] نے اس دن کے خطبہ میں کیا !
وَسَأَلْتُ جِبْرَءِیْل ۔أَنْ یَسْتَعْفِیَ لِیَ السَّلٰامَ عَنْ تَبْلِیْغِ ذٰلِکَ إِلَیْکُمْ؛ أَیُّہَاالنّٰاسُ؛ لِعِلْمِیْ بِقِلَّۃِ الْمُتَّقِیْنَ وَکَثْرَۃِالْمُنٰافِقِیْنَ ، وَإِدْغٰالَ الا ثْمِیْنَ وَحِیَلِ الْمُسْتَہْزِءِیْنِ بِالاِسْلٰامِ أَلَّذِیْنَ وَصَفَھُم ُ اﷲ فِیْ کِتٰابِہ:
(بِأَنَّہُمْ یَقُوْ لُوْنَ بِأَلْسِنَتِہِمْ مٰالَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَیَحْسَبُوْنَہ ھَیِّناً وَ ھُوَ عِنْدَاﷲِ عَظِیْمٌ)(۱)
وَکَثْرَ ۃِ أَ ذٰا ھُمْ لِیْ غَیْرَ مَرَّۃِ ، حَتّیٰ سَمُّوْنِی أُذُناً، وَزَعَمُوْاأَنِّیْ کَذٰلِک لِکَثْرَۃِ مُلٰازِمَتِہ اِ یّٰایَ، وَإِقْبٰالِیْ عَلَیْہِ، وَھَوٰاہُ وَقَبُوْلِہٖ حَتّیٰ أَنْزَلَ اﷲُ عَزَّ وجَلَّ َفِیْ ذٰلِکَ قُرْآناً
( وَمِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیََقُوْلُوْنَ ھُوَأُذُ نٌ قُلْ أُذُنٌخَیْرٍلَکُم )(۲)
وَلَوْ شِءْتُ أَنْ أُسَمِّیَ القٰاءِلیْنَ بِذٰلِکَ بِأَسْمٰءِھِمْ لَسَمَّیْتُ، وَإِنْ أَوْمَیءَ إِلَیْھِمْ بِأَعْیٰانِھِمْ لاَوْمأْتُ،وَأَنْ أَدُلَّ عَلَیْھِمْ لَدَلَلْتُ،وَلٰکِنِّیْ وَاﷲِ فِیْ أُمُوْرھِمْ قَدْ تَکَرَّمْتُ۔
میں نے جبرَئیل ۔ سے درخواست کی کہ مجھے علی ۔ کی ولایت کے اعلان سے معاف رکھے کیوں کہ اے لوگو !میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ،پرہیزگار بہت کم اور منافقوں کی تعداد
(۱) نور،۲۴/۱۵
(۲) توبہ / ۶۱
بہت زیادہ ہے ، مکّار گنہگار اور اسلام کا مذاق اڑانے وا لے موجود ہیں وہ لوگ کہ جن کے بارے میں خدا وندِعالم نے اپنی کتاب میں فرمایا: (وہ لوگ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جن پر دل میں یقین نہیں رکھتے اور انکا خیال یہ ہے کہ یہ آسان اور بہت سادہ سی بات ہے جبکہ منافقت خدا کے نزدیک سب سے بڑاگناہ ہے )
ان منافقوں نے بارہا مجھے تکلیف پہنچائی یہاں تک کہ مجھ پر تہمتیں لگائیں اور کہا کہ ( پیغمبر ؐ معاذاﷲ دوسروں کے کہنے پر عمل کرتے ہیں اور اس میں انکا اپنا کوئی ا رادہ شامل نہیں ہوتا) کیونکہ! میں ہمیشہ علی ۔ کے ساتھ تھا اور وہ زیادہ تر میری توجّہ کے مرکز تھے لہٰذا منا فقین حسد کی وجہ سے اس بات کو تحمّل نہ کر سکے یہاں تک کہ خداو ندِ بزرگ و بر تر نے ایک آیت نازل کی جسکے ذریعہ اُنکی ان بیہودہ باتوں کامُنہ توڑ جواب دیا فرمایاکہ:( بعض منافقین ، پیغمبر [ص] کو تکلیف پہنچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سرا پاگوش ہیں، اے رسول کہدو کہ پیغمبر اچھی باتیں سننے والا ہے یہی تمہارے لئے بہتر ی ہے) اگر ابھی چاہوں تو منافقوں کونام اور پتے کے ساتھ پہچنوا دوں، یا انکی طرف ا نگلی کا اشارہ کر دوںیا لوگوں کو انکو پہچاننے کے لئے راہنمائی کردوں توجو چاہوں کر سکتا ہوں لیکن خداکی قسم میں ان کیلئے کریم ہوں اور بزرگواری سے کا م لیتا ہوں(۱)
اگر اُس دن پیغمبر [ص] حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام نہ پہنچاتے تو آپ [ص] کی رسالت پر کیا حرف آتا ؟یہ کام ایسا کونسا کام ہے کہ اگر پیغمبر گرامی [ص] انجام نہ دیں تو انکی رسالت نا مکمّل رہ جائے گی؟ اور پھر فرشتۂ وحی آ نحضرت [ص] کی تسلّی کے لئے پیغام الٰہی لے کر آئے کہ ( وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )(۲)
۱۔ یہ آنحضرت [ص] کے حجّۃُ الوداع کے موقع پر معروف خطبہ کا کچھ حصّہ ہے مکمّل خطبہ اس کتاب کے آ خر میں اسناد و مدارک کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے رجوع فرمائیں:
(۲)مائدہ ۵/۶۷
( خدا آپ [ص] کو انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا )
وہ رسول جن پر آغاز بعثت سے لے کر حجّۃُ الوداع تک کبھی بھی خوف غالب نہیں آیا ،ہمیشہ میدان جنگ میں موجود رہے (۱) کارِ رسالت کے مشکل اور کٹھن راستے میں آپ [ص] کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہوئے اب آ پ [ص] کو کیا بات پریشان کئے ہوئے ہے ؟
آپ [ص] کو کونسا کام انجام دینا ہے کہ جسکے انجام دینے میں آپ [ص] دشمن کے مخالفانہ پروپیگنڈے، منکروں کے انکار ،کافروں کے کفر اور منافقوں کے نفاق سے خوفزدہ ہیں اور تین بارجبرَئیل ۔ سے اس کام کو انجام نہ دینے کی درخواست کرتے ہیں ؟
پیغمبر [ص] تو کبھی خوف میں مبتلا نہیں ہوتے تھے ،اور وحیِّ الہی کے پہنچانے میں ایک لحظہ پس و پیش سے کام نہیں لیتے تھے،حقیقت میں پیغمبر [ص] أُمّت کے بکھر جانے سے خوفزد ہ تھے،رسولِ اکرم [ص] کوداخلی اختلاف اور جھگڑوں کا ڈر تھاکہ کہیں لوگ آپ [ص] کے مقابلہ میں کھڑے نہ
۱ ۔آنحضرت [ص] کی شجاعت اور خط شکنی کے سلسلے میں امیرُالمؤمنین ۔ نے فرمایا:
( کُنَّا إِذَا أحْمَرَّالْبَأْسُ أتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ اﷲِ [ص]،فَلَمْ یَکُنْ أَحَدٌ مِنَّاأَقْرَبَ إِلَیٰ الْعَدُوِّمِنْہُ )
(جب بھی شعلۂ جنگ بھڑکتا ہم رسولِخدا [ص] کی پناہ میں چلے جاتے تھے کیوں کہ ایسے نازک وقت میں ہم لوگوں میں سب سے زیادہ رسولِخدا [ص] دشمن کے نزدیک ہوتے تھے ۔ )
۱۔ کشف الغمۃ : مرحوم اربلی( متوفیٰ ۶۸۹ ھ)۔۔۔
۔۔۔۲۔غریب الحدیث ، ج۲ ص۱۸۵ : ابن سلام ( متوفیٰ ۲۲۳ھ )
۳۔کتاب النہایۃ ، ج۱ ص ۸۹ ، ۴۳۹ : ابن اثیر ( متوفیٰ ۶۳۰ھ )
۴۔تاریخ طبری ، ج۲ ص۱۳۵ : طبری ( متوفیٰ ۳۱۰ھ )
۵۔بحار الانوار ، ج۵ ص ۲۲۰ : مرحوم مجلسی ( متوفی۱۱۱۰ھ )
۶۔بحار الانوار ، ج۱۶ص ۱۱۷، ۲۳۲، ۳۴۰ : مرحوم مجلسی ( متوفی۱۱۱۰ھ )
ہوجائیں اور آپ [ص] کی کہیں موجودگی میں امّت کے درمیان خونریزی شرو ع نہ ہو جائے، احترام جاتا رہے،جو کچھ جہاد کی قربانیوں اور شہادتوں سے حاصل ہوا تھا بھلا دیا جائے آیا یہ سب کچھ حضرت علی ۔ سے دوستی کے اعلان کی وجہ سے تھا ؟ پیغمبر اکرم [ص]نے ماضی میں آغاز بعثت سے لے کر غدیر کے موقع تک بارہا و بارہا فرمایا تھا کہ میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ۔
یہ تو کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں تھا کہ امّت مسلمہ کی صفوں میں تزلزل اور دراڑ کا باعث ہو دوستی کا اعلان کوئی خاص اہمیت کا حامل مسئلہ نہ تھا کہ صاحب عزّت و جلال خدا اپنے پیغمبر اکرم [ص] کو اطمینان دلائے اور کہے کہ ( وَ اﷲُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)
اور تم ڈر و نہیں خداوند عالم آپ کو لوگوں کے شر سے محفو ظ رکھے گا اگر ہدف صرف یہ تھا کہ ’’دوستی کا ابلاغ ‘‘ ہو جائے تو پیغمبر اسلام [ص] نے حضرت علی ۔کا ہاتھ بلند کرکے انکی بیعت کیوں کی ؟ اور تمام مسلمانوں کو بیعت کا حکم کیوں دیا کہ حضرت علی ۔ کی بیعت کریں !! اور حاضرین میں سے مرد آدھی رات تک اور خواتین اگلے دن کی صبح تک حکم بیعت کی بجاآوری میں مشغول رہیں ۔ حضرت علی ۔ کی د وستی یا اسکا ابلاغ تو اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ بیعت طلب کی جائے اور لوگ بھی امتثال حکم کرتے ہوئے مشغول ہوجائیں ۔
پیغمبر اسلام [ص] مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے ایک لاکھ بیس ہزار حجاج کو ایک دن اور رات کے لئے غدیر خم کے میدان میں روکے رہیں صرف یہ کہنے کے لئے کہ ( اے لوگو ! میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ) آیا یہ دعویٰ قابلِ قبول ہے ؟
یہاں ایک سوا ل اور پیدا ہوتا ہے کہ آیا حضرت علی ۔کی دوستی کے اعلان کے ساتھ دین کامل ہو جائے گا؟اگر پیغمبر گرامیِ اسلام [ص] روزِغدیر اپنے ساتھ علی ۔ کی دوستی کا اعلان نہ کرتے تو کیا دین ناقص تھا ؟ اور چونکہ اُس دن آپ [ص] نے لوگوں سے کہا کہ ( میں علی ۔ کو دوست رکھتا ہوں ) تو دینِ خدا کامل ہو گیا ؟ اور خدا کی نعمتیں لوگوں پر تمام ہو گئیں ؟ اور جیسا کہ بہت سارے شیعہ اور سُنّی علماء (۱) نے اس بات کااعتراف کیا ہے
غدیر کے دن آپ [ص] کے اعلانِ ولایت اور لوگوں کے بیعت کر لینے کے بعد ختمی مرتبت [ص] پر یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی !
( ا لْیَوْ مَ یَءِسَ ا لَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِ یْنِکُمْ ، فَلاَ تَخْشَوْ ھُم وَاخْشَوْنِ،الْیَوْمَ أَکْمَلْت لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتٖی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلٰامَ دِیْناً )(۲)
(مسلمانوں ) اب تو کفّار تمہارے دین سے( پھر جانے سے ) ما یوس ہو گئے ہیں ، لھذا تم ان سے تو ڈرو ہی نہیں بلکہ صرف مجھ سے ڈرو آج ( غدیر کے دن )میں نے تمہارے دین کو مکمّل کر دیا اور تم لوگوں پر اپنی نعمتیں پوری کر دیں ،اور تمارے اس دین اسلام کو پسندکیا غدیر کے دن ایسا کونسا کام انجام پایا کہ فرشتۂ وحی مذ کورہ آیت کوبشارت و خوشخبری کے سا تھ لیکر نازل ہوا ؟
وہ عظیم واقعہ کیا تھا کہ جس کی وجہ سے
الف۔ کافر دین کی نابودی سے مایوس ہو گئے ۔
۱۔تمام مؤرّخوں اور بہت سارے اہلِ سنّت مفسِّروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سورۂ مبارکۂ مائدہ کی آیت شمارہ /۳ (الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) غدیر کے دن حضرت علی ۔ کی اعلانِ ولایت اور لوگوں کی بیعتِ عمومی کے بعدآنحضرت ؐپر نازل ہوئی ۔مورخوں اور مفسّروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں !
۱۔تاریخ دمشق ، ج۲ ص ۷۵ و ۵۷۷ : ابن عساکر شافعی ( متوفّیٰ ۵۷۱ ھ )
۲۔ شواہدُ التنزیل ، ج۱ ص ۱۵۷ : حسکانی حنفی ( متوفّیٰ ۵۰۴ ھ ) E
.................................................................................................................
F ۳۔ مناقب ،ص۱۹ : ابن مغازلی شافعی
۴۔ تاریخ بغداد ، ج۸، ص ۲۹۰ :خطیبِ بغدادی ( متوفّیٰ ۴۸۴ ھ )
۵۔ تفسیرِدرّالمنثور ،ج۲، ص ۲۵۹ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ھ )
۶۔ الإِتقان ، ج ۱، ص ۳۱ و۵۲ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ۹۱۱ ھ )
۷۔ مناقب ،ص۸۰ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ھ )
۸۔تذکرۃُ الخواص ، ص ۳۰ و ۱۸: ابن جوزی حنفی ( متوفّیٰ ۶۵۴ ھ )
۹۔ تفسیرِ ابن کثیر ، ج۲ ،ص ۱۴ : ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ھ )
۱۰۔ مقتلُ الحُسین،ج۱ ، ص۴۷ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ۹۹۳ ھ )
۱۱۔ینابیعُ المودۃ، ص۱۱۵ : قندوزی حنفی
۱۲۔ فرائدُ السّمطین ،ج ۱ ،ص، ۷۲ و ۷۴ و۳۱۵: حموینی ( متوفّیٰ ۷۲۲ ھ )
۱۳۔ تاریخ یعقوبی ،ج ۲، ص ۳۵ : یعقوبی ( متوفّیٰ ۲۹۲ ھ )
۱۴۔ الغدیر ، ج ۱، ص ۲۳۰ : علّامہ امینی
۱۵۔ کتاب الولایۃ : ابن جریر طبری ( متوفّیٰ ۳۱۰ ھ )
۱۶۔ تاریخ ابن کثیر،ج۵، ص ۲۱۰ : ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ھ )
۱۷۔ مناقب ،ص ۱۰۶: عبداﷲِ شافعی
۱۸ ۔ ارجح المطالب ،ص ۵۶۸ : عبداﷲِ حنفی
۱۹۔ تفسیرِ روحُ المعانی ، ج۶ ص۵۵: آلوسی
۲۰ ۔ البدایۃ والنہایۃ ،ج۵، ص۲۱۳وج۷ ص ۳۴۹ :ابن کثیرِ شافعی ( متوفّیٰ ۷۷۴ ھ )
۲۱۔ الکشف و البیان :ثعلبی ( متوفّیٰ ۲۹۱ ھ ) ۲۲۔بحارُ الانوار ،ج۳۷ باب ۵۲ : علّامہ مجلسی
اور بہت ساری تفاسیر اہل سنّت ، اور تمام شیعہ علماء کی تفاسیر جن کے ذکر کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔
(۲) مائدہ ۵/ ۳
ب ۔ جس کے بعد کافروں کی سازشوں سے نہ ڈرا جائے ۔
ج ۔ دین اسلام کامل ہوگیا۔
د۔ اﷲ کی نعمتیں پوری ہو گئیں ۔
ھ ۔ اسلام کے پائندہ رہنے کی ضمانت دی گئی ۔
کیا یہ سب کچھ صرف دوستی کا پیغام پہنچانے کے لئے تھا ؟
آیا اس قسم کے دعوے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول ہیں ؟
ہم غدیر کے پر نور خورشید کے مقابلے میں جہل کی تاریکی اور کینہ پروری کی پناہ کیوں لیں؟
بلکہ غدیر کاواقعہ تو کوئی بہت بڑا واقعہ ہونا چاہیے کہ جس نے آیاتِ الٰہی کے( بہت سی بشارتوں اور پیغاموں کے ساتھ) نزول کی راہ ہموار کی۔
اُس واقعہ کو تو بہت اہم واقعہ ہونا چا ہیے کہ جسکا نتیجہ ’’اکمالِ دین ‘‘ اور ’’ اتمامِ نعمت ہو۔
ایسا واقعہ کہ جس نے راہ رسالت کو رنگ جاویدانی بخشا اور آپ [ص] کی آغازِ بعثت سے لے کر ہجرت اور اسکے بعد کی زحمتوں کا پھل دیا۔
آیا یہ عظیم واقعہ ’’ عام مسلمانوں کا حضرت علی ۔ کی بیعت کرنے‘‘ کے علاوہ کچھ اور ہے؟ آیا یہ عظیم واقعہ ’’ حضرت علی ۔ اور انکے گیارہ بیٹوں کی ‘‘قیامت تک کے لئے بیعت عمومی کے علاوہ کچھ اور ہے ؟
کیایہ عظیم واقعہ پیغمبر [ص]کے بعدسے قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے رہبراور پیشوا معیّن ہونے کے علاوہ کچھ اور ہے؟
یہ اہل سنّت مصنّفین، تاریخ کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے کہ روزِ غدیر کے بعد کس قسم کے تلخ حوادث رونما ہوئے ؟
۵۔ آپ [ص] کے قتل کی نا کام سازش :
اگر پیغمبر [ص] کا ہدف غدیر کے دن صرف حضرت علی ۔ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تو ایک گروہ نے آپ [ص] کے قتل کا ارادہ کیوں کیا ؟ اور مدینے کے راستے میں اپنے اس باغیانہ ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کیوں کی لیکن خدا وند عالم نے آپ [ص] کی حفاظت کی ؟ دوستی کا پیغام تو آپ [ص] کے قتل کا سبب نہیں ہو سکتا ؟
امیرُ المؤمنین ۔ کی ولایت کے مخالفوں نے سوچا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپؐ کو قتل کر دیا جائے ، اور اس قتل کوطبیعی موت ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوں نے آپس میں سازش یہ کی کہ جب آپ [ص] کی سواری ’’ عقبہ‘‘ (جو کہ پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں بہت گہری گہری کھائیّاں ہیں) کے قریب پہنچے تو پتھر اور لکڑیاں وغیرہ ان کھائیّوں میں پھینکی جائیں جن سے مختلف قسم کی خوفناک آوازیں پیدا ہو ں گی جن آوازوں سے ڈر کر آپ [ص] کی سواری کسی گہری کھائی میں جا گرے گی۔ اور ہم تاریکی شب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے فرار ہو جائیں گے پھر کل سب لوگوں میں یہ بات مشہور کر دیں گے کہ آپ [ص] کی وفات کا سبب طبیعی حادثہ ہے ۔
پھر یہ سارے مخالفین تیزی سے اس مقام پر جمع ہوکر گھات لگا کر بیٹھ گئے اور آپ [ص] کی سواری کا انتظار کرنے لگے ،لیکن خدا وندِ عالم نے فرشتۂ وحی کو نازل کرکے اپنے حبیب [ص] کو دشمن کی اس سازش سے آگاہ فرما دیا،جب آپ [ص] کی سواری اس مقام کے نزدیک پہنچی تو آپ ؐ نے حذیفۂ یمانی اور عمّار یاسر سے کہا کہ اُن میں سے ایک اونٹ کی مھار تھامے اور ایک سواری کو ہنکائے، گھات لگائے ہوئے منافقوں نے جو کچھ بھی ہاتھ میں آیا کھائی کی طرف پھینکنا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی خوفناک آوازوں سے اُونٹ کو ڈرانے کی کوشش کی ، لیکن خدا کی مدد آپ [ص] کے شامل حال رہی اور اُونٹ پر کوئی اثر نہ ہوا ۔
اور اس طرح دشمن کی سازش ناکام ہوئی ، مگر یہ منافقین اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور جب اس سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو تلواریں لے کر پیغمبر گرامیِ اسلام ؐپر حملہ آور ہو گئے لیکن ان کے سامنے حذیفۂ یمانی اور عمارِ یاسر جیسے عاشقانِ ولایت تھے جن کے بے نظیر اور شجاعت سے بھرپور دفاع کے سبب اس سازش میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، اب اگر یہ منافقین تھوڑی سی دیر کرتے تو قافلے میں شامل عاشقانِ ولایت سر پر پہنچ جاتے اور منافقوں کا کام تمام کر دیتے ۔
لہٰذا اب منافقین کے پاس فرار کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں تھا ، حذیفۂ یمانی نے پوچھا یا رسول اﷲ [ص] یہ کون لوگ تھے ؟ آپ [ص] نے فرمایا خود ہی دیکھ لو، اُس وقت بجلی چمکی اور منافقوں کے چہرے تاریکی کے پردے سے بے نقاب ہوئے اور حذیفہ نے اُن افراد کو آسانی سے پہچان لیا ! جن کی تعداد پندرہ (۱۵) ہے اور ان کے نام در ج ذیل کتب میں درج ہیں۔(۱)
۶۔ نفرین آمیز طو مار کا انکشاف :
روزِ غدیر پیغمبر [ص] کا ہدف صرف حضرت علی ۔ کی دوستی کا اعلان اور لوگوں سے حضرت علی ۔ کی بعنوان امام اور رہبربیعت لینا نہیں تھا تو ایک گروہ نے اس دن کے بعد اُمّتِ اسلامی کی امامت اور رہبری کے متعلّق مخفیانہ تحریر کیوں لکھی کہ جسکے ذریعہ رسولِ خدا [ص] کے بعد قدرت و حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں ؟
جب یہ گروہ آنحضرت [ص] کو قتل کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو انہوں نے احتیاط کا دامن تھاما اور تا حیاتِ رسول خدا [ص] اس قسم کی حرکتوں
(۱) کشف الیقین ، ص ۱۳۷ : علّامہ حلّی ۲۔ ارشادالقلوب ، ص ۱۱۲ و ۱۳۵ : دیلمی ۳۔ بحارالانوار ، ج۲۸ ص ۸۶ و ۴ ۱۱ : علّامہ مجلِسی
سے اجتناب کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ایک دوسرے گر وہ نے ولایتِ علی ۔ کی کھلّم کھلّا مخالفت کی ا ور اس طرح ایک تحریر لکھی جس پر بہت سارے لوگوں کے دستخط لئے تاکہ یہ ظاہر کر سکیں کہ ہمار ی مخالفت بہت منظّم اور مستحکم ہے ۔
اس مقصد کے لئے ابو بکر کے گھر پر جمع ہوئے باہم گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک عہد نامہ لکھا جائے ،چنانچہ سعید بن عاص نے ایک عہد نامہ لکھا ، اس عہد نامے پر جن لوگوں نے دستخط کئے ان کے ناموں سے قریش اور امیرُالمؤ منین ۔ کے مخالفوں کے سینوں میں کینے اور بغض کی شدت ثابت ہو جاتی ہے ،ان ناموں میں سرِ فہرست ابو سفیان ، فرزندِ ابی جہل اورصفوان بن أُمیّہ جیسے نام دیکھنے میں آتے ہیں، یعنی مشرکوں اور کافروں کے سردار منافقوں ( نام نہاد مسلمانوں ) کے ہاتھوں میں ہاتھ دئے ہوئے ہیں تاکہ خورشیدِ ولایت کا انکار کیا جاسکے ۔
……………………………………………………………….
ماخذ: کتاب منزلت غدیر,حجۃ الاسلام والمسلمین محمد دشتی ؒ
مترجم : ضمیرحسین آف بہاول پور,مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام
Add new comment