ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیتمصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور
بعد اَز ممات اِستغاثہ کا جواز
اِستغاثہ کے جواز پر قرآن و سنت کے جمیع اَحکام اور عملِ صحابہ رضی اللہ عنھم سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دُنیوی زِندگی میں تو ایک دُوسرے کے کام آنا ممکن ہے لہٰذا مدد مانگنا اور مدد کرنا بھی جائز ٹھہرا، لیکن موت کے بعد تو بندہ اپنے بدن پر بھی قادِر نہیں ہوتا، تب اُس سے کیونکر مدد طلب کی جا سکتی ہے؟ اور چونکہ وہ مدد پر قدرت نہیں رکھتا لہٰذا یہ شِرک ہے۔
اِس کج فہمی کے بارے میں ہم دو چیزوں کی وضاحت بطورِ خاص کرنا چاہیں گے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک طے شدہ اَمر ہے کہ بندہ زِندہ ہو یا قبر میں آرام کر رہا ہو دونوں صورتوں میں وہ اپنے وُجود پر قطعاً قادرِ مطلق نہیں ہوتا۔ یہ محض اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ وہ اِختیارات ہوتے ہیں جنہیں ہم حیاتِ دُنیوی کے دوران اِستعمال کرتے اور دُنیا بھر کے معاملات سراِنجام دیتے پھرتے ہیں۔ یہ اِختیار اﷲ ربّ العزّت کی عطا سے قائم ہے، اور اگر اِس ظاہری حیات میں بھی اﷲ تعالیٰ اپنا دِیا ہوا یہ اِختیار چھین لے تو بندہ ایک تنکا توڑنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ سوجس طرح اِس عالمِ اَسباب میں بندے کے جملہ اِختیارات کا حقیقی مالک اﷲتعالی ہے اور اِس کے باوجود بھی اُس سے مدد طلب کرنا شِرک نہیں بلکہ حکمِ خداوندی ہے، بالکل اِسی طرح موت کے بعد بھی اگر کسی بندۂ بشر سے اِمداد طلب کی جائے تو اُسے اللہ تعالی ہی کی طرف سے مختار مانا جائے گا۔ جس طرح زِندگی میں کسی بھی صورت میں بندے کو مُستغاث و مختارِ حقیقی ماننا شِرک ہے لیکن مجازاً اُسے مدد کے لئے پُکارا جا سکتا ہے اِسی طرح بعداَز موت اولیاء و صلحاء کو مُستغاثِ مجازی مان کر اُن سے اِستغاثہ کرنا بھی جائز ہے۔ شِرک زِندہ سے ہو یا فوت شدہ سے شِرک ہی ہے اور مجازی مالک مان کر مدد مانگنا زِندہ سے ہویا اہلِ مزار سے دونوں صورتوں میں شِرک نہیں ہوگا۔ اِسلام کے معیار دُہرے نہیں کہ مسجد میں تو شِرک نہ ہو اور مندر میں جاکر وہی عمل کریں تو شِرک ہو جائے۔ اِسلامی اَحکام اور اُن سے ثابت ہونے والے نتائج ہر جگہ یکساں نتائج ظاہر کرتے ہیں۔ سو اگر کسی ڈاکٹر کو مستغاثِ حقیقی سمجھ کر اُس سے علاج کروایا جائے تو یہ شِرک قرار پائے گا جبکہ دُوسری طرف اللہ ربّ العزّت ہی کو مستغاثِ حقیقی جان کرکسی بزرگ کی دُعا یا کسی صاحبِ مزار کے وسیلے کو علاج کا ذریعہ بنایا جائے تو وہ بھی عین رَوا ہے اور ہرگز خلافِ شریعتِ اِسلامی نہیں ہے۔
اَب رہا یہ اِعتراض کہ اہلِ قبور کو مدد کی اِستعداد نہیں ہوتی تویہ بھی ایک لغو اِستنباط ہے کیونکہ اللہ تعالی نے خود قرآنِ مجید میں متعدّد مقامات پر اَہل اللہ کی برزخی حیات کا ذِکر فرمایا ہے۔ حیاتِ شہداء کے بارے میں تو کسی مسلک و مذہب کے پیروکاروں میں بھی اِختلاف نہیں ہے۔ جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَدنیٰ اُمتی مرتبۂ شہادت پا کر قیامت تک کے لئے زِندہ ہیں اور اُنہیں اللہ تعالی کی طرف سے رِزق بھی بہم پہنچایا جاتا ہے، اُس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی حیاتِ برزخی کی لطافتوں کا عالم کیا ہوگا! پس سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حیات بعداَز ممات کے عقیدے کے تحت مستغاثِ مجازی قرار دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستعانت و اِستمداد کرنا بالکل اُسی طرح سے درُست ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں جائز تھا۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ برزخی کا تو یہ عالم ہے کہ اُمت کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درُود و سلام کے جو نذرانے پیش کئے جاتے ہیں، وہ بھی فرشتے شب و روز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچانے پر مامور ہیں۔
اگر طلبِ شفاعت، اِستغاثہ اور توسل کفر و شِرک کے قبیل سے ہوتا تو پھر دنیا میں، حیاتِ برزخی میں اور آخرت میں ہر جگہ اِسے کفر و شِرک ہی ہونا چاہیئے تھا۔۔۔ کیونکہ شِرک تو اللہ تعالی کو ہر حال میں ناپسند ہے۔۔۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تعلیماتِ اِسلامی میں واضح صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ زِندگی میں بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے بے شمار مواقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِستغاثہ و توسل کیا اور حیاتِ اُخروی میں بھی قیامت کے روز اُنہی کے دَر پر اِستغاثہ کریں گے۔ یہ اِستغاثہ ہی کا صلہ ہوگا کہ شفیعِ مُذنبیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کی بارگاہ میں گناہگار مخلوق کی شفاعت کریں گے۔ سو جب حیاتِ دُنیوی اور حیاتِ اُخروی میں اِستغاثہ جائز ٹھہرا تو حیات ہی کی ایک قسم ’’حیاتِ برزخی‘‘ میں اُسے شِرک قرار دینا کس طرح سے درُست ہوسکتا ہے؟
Add new comment