ڈاؤنلوڈ اورمعرفی کتاب لفظ رب العالمین کی علمی و سائنسی تحقیقمصنف،شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاهرالقادری ،ناشر منہاج القرآن پبلیکیشنز لاهور
لفظ رب کی علمی تحقیق
یہ لفظ سورہ فاتحہ میں ذات باری تعالیٰ کی پہلی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کے معنی مربی اور مالک کے ہیں۔ فاتحۃ الکتاب میں باری تعالیٰ کی شان الوہیت پر دلالت کرنے والے پہلے صفاتی نام کی حیثیت سے اس کے معنی و مفہوم کو مختلف جہتوں سے سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر مضمر اعلان ربوبیت درحقیقت توحید الٰہی کا سب سے کامل اور بین ثبوت ہے۔ کیونکہ دور جاہلیت کے کفار و مشرکین کی طرح انسانی زندگی میں شرک، تصور خالقیت کی راہ سے کم اور تصورِ ربوبیت کی راہ سے زیادہ داخل ہوا ہے۔
یہ امر ثابت اور مسلّم ہے کہ کفار و مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو نام خواہ کچھ بھی دیتے ہوں، اسے رب الارباب ضرور مانتے تھے۔ کائنات میں اس کی مطلق بڑائی سے کسی کو انکار نہ تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ وہ اس بالادست ہستی کے نیچے کئی رب اور بھی مانتے تھے اور اسی عقیدے نے ان کی جبینوں کو متعدد خداؤں کی پرستش کے لیے جھکا دیا تھا۔ ربوبیت میں اس تصور شراکت نے عقیدہ توحید کے خالص اور نکھرے ہوئے چہرے کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ بنا بریں ہم لفظ رب کے معنی کا جائزہ علمی و عملی ہر دوگوشوں سے لینا چاہتے ہیں تاکہ اس کے حقیقی مفہوم اور تصور کی معرفت حاصل ہوسکے۔ اس کی مختصر تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ تربیت کے معنی میں اصلاً مصدر ہے مگر اس کا اطلاق و صفاً فائل کے معنی میں ہوتا ہے۔ جیسے عادل کے لیے مبالغۃ عدل کا اور صائم کے لیے صوم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ فی الحقیقت رب صرف مربی کو نہیں بلکہ نہایت ہی کامل مربی کو کہا جاسکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو خود ہر جہت سے کامل ہو وہی دوسرے کی کامل تربیت کرنے کا اہل ہوسکتا ہے۔ اس لیے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
Add new comment