منزلت غدیر
منزلت غدیر
کیا واقعۂ غدیر صرف اعلان ِ دوستی کے لئے تھا؟
پہلی بحث : دوستانہ نظریات
دوسری بحث: حقیقتِ تاریخ کا جواب
تیسری بحث : رسولِ اکرم ۖ اور علی ـ کی دوستی
چوتھی بحث : خطبۂ حجةُ الوداع پر ایک نظر
علماء اہل سنّت نے روزِ غدیر سے لے کر آج تک اس موضوع پر مختلف قسم کے نظریات کا اظہار کیا ہے، بعض نے خاموشی اختیار کی تاکہ اس خاموشی کے ذریعے اس عظیم واقعہ کو بھول اور فراموشی کی وادی میںڈھکیل دیا جائے، اور یہ حَسین یاد لوگوںکے ذ ہنوں سے محوہو جائے ،لیکن ایسا نہ ہو سکا ، بلکہ سینکڑوں عرب شاعروں کے اشعار کی روشنی میں جگمگا تا گیا جیسے عرب کا مشہور شاعر فرزدق رسولِ خد ا ا ۖ کی خدمت میں موجود تھا ۔
اس نے ا پنی فنکارانہ شاعری میں نظم کر کے اس عظیم واقعہ کو دنیا والوں تک پہنچا دیا، اور بعض نے حکّامِ وقت کی مدد سے سقیفہ سے اب تک تذکرہ غدیر پر پابندی لگا دی ا س کو جرم شمار کیا جانے لگا !کوڑوں ،زندان اور قتلِ عام کے ذریعے چاہا کہ اس واقعہ کو لوگ فرموش کر ڈالیں۔لیکن اپنی تمام تر کوششوں کی باوجود ناکام رہے ، ولایت کے متوالوں پر ظلم ڈھایا گیا انھیں قتل کیا گیا ،تازیانوں کی زد پررکھا گیا ، جتنا راہ غدیر کو خونی بنا یا گیا اُتنا ہی مقامِ غدیر اُجاگر ہوتا گیا اور آخر کار ان کا خون رنگ لایا اور شفق کی سرخی کے مانند جاوید ہو گیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلامُ اﷲ ِعلَیہا کی ہمیشہ یہ کوشش رہی بحث و مباحثہ اور مناظرات کے دوران غدیر کے موضوع پر بات کریں ، خود حضرت علی ـ نے غدیر کی حساس سیاسی تبدیلیوںسے ،متعلق گفتگو کی اور میدان غدیر میں حاضر چشم دید گواہوں سے غدیر کے واقعہ کا اعتراف لیا، اور دوسرے ائِمّۂ معصومین اور ولایت کے جانثاروںنے ا س دن سے لے کر آج تک ہمیشہ غدیرِ خُم کو اُجاگر کیا، اور پیامِ غدیر کو آ ئندہ نسلوں تک پہنچایا اب کوئی غدیر میں شک و تردد کا شکار نہیں ہو سکتااور نہ ہی اس کو جھٹلا سکتا ہے ۔
١ ۔ دوستانہ نظریات
بعض ا ہل سنت مصنِّفین جو اس بات کو سمجھتے تھے کہ واقعۂ غدیر سورج کی طرح روشن و منوّر ہے اور جس طرح سورج کو چراغ نہیں دکھایا جاسکتا اُسی طرح اس کا انکار بھی ممکن نہیں ہے اور اگر اِس کو نئے رنگ میں پیش نہیں کیا گیا تو غدیر کی حقیقت بہت سے جوانوں اور حق کے متلاشیوں کو ولایتِ علی ـ کے نور کی طرف لے جائے گی ،تو وہ حیلہ اور مکر سے کام لینے لگے اور حقیقت غدیر میں تحریف کرنے لگے ،اور کہا کہ ! ہاں واقعۂ غدیر صحیح ہے اور اس کا انکار ممکن نہیں ہے لیکن ااس دن رسول ِخداۖ کا مقصد یہ تھا کہ اس بات کا اعلان کریں کہ (علی ـ کو دوست رکھتے ہیں) اور یہ جو آپ ۖ نے فرمایا: مَنْ کُنْتُ مَوْلٰاہُ فَعَلِیّ مَوْلٰاہُ آپ ۖ کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ( جو بھی مُجھے دوست رکھتا ہے ضروری ہے کہ علی ـ کو بھی دوست رکھے )۔
اور یہیں سے وہ الفاظ کی ادبی بحث میں داخل ہوئے لفظ ِ '' ولی '' اور '' مولیٰ '' کاایک معنیٰ ( دوستی )اور( دوست رکھنے ) کے ہیں لہذا غدیر کا دن اس لئے نہیں تھا کہ اسلامی دنیا کی امامت اور رہبری کا تذکرہ کیا جائے بلکہ روزِ غدیر علی ـ کی دوستی کے اعلان کا دن تھا۔
اُنہوں نے اس طرح پیغامِ غدیر میں تحریف کر کے بظاہر دوستانہ نظریات کے ذریعہ یہ کوشش کی کہ ا ہلسُنّت جوانوں اور اذہانِ عمومی کو پیغامِ غدیر سے منحرف کیا جائے ،چنانچہ اپنی کتابوں میں اس طرح بیان کیا کہ اہلِسُنّت مدارس کے طالبِ علموں اور عام لوگوں نے اس بات پر یقین کر لیا کہ روزِ غدیر علی ـ کی دوستی کے اعلان کا دن ہے ، پس کوئی غدیر کا انکار نہیں کرتا اور رسولِ خدا ۖنے اُس دن تقریر کی لیکن صرف علی ـ کی اپنے ساتھ دوستی کا اعلان کیا اور اس بات کی تاکید کی کہ مسلمان بھی حضرت علی ـ کو دوست رکھیں۔
٢ ۔ حقیقتِ تاریخ کا جواب:
واقعۂ غدیرکی صحیح تحقیق کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ غدیر خم صرف اعلان دوستی کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے۔
١۔واقعۂ روزِغدیر کی تحقیق:
حقیقتِ غدیر تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ یہ ہے کہ غدیر کی تاریخی حقیقت اورواقعیّت میںتحقیق کی جائے ، حجةُالوداع رسولِ گرامی ِ اسلام ۖکا آخری سفرِ حج ہے اس خبرکے پاتے ہی مختلف اسلامی ممالک سے جوق در جوق مسلمان آپ ۖ کی خدمت میں آئے اور بے مثال و کم نظیر تعداد کے ساتھ فرائض حج کو انجام دیا اور اسکے بعد سارے مسلمان شہرِ مکّہہ سے خارج ہوئے اور غدیر خُم پر پہنچے کہ جہاں سے اُنہیں اپنے اپنے شہرو دیار کی طرف کوچ کرنا تھا ۔
اہلِ عراق کو عراق کی طرف ، اہلِ شام کو شام کی طرف ،بعض کو مشرق کی سمت اوربعض کو مغرب کی سمت ،ایک تعدادکو مدینہ ، اور اسی طرح مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قبیلوں اور دیہاتوں کی طرف لَوٹنا تھا،رسولِ خدا ۖایسے مقام کا انتخاب کرتے اور توقّف کرتے ہیں شدید گرمی کا عالم ہے ، سائبان اور گرمی سے بچنے کے دوسرے وسائل موجود نہیں ہیں اور عورتوں اور مردوں پر مشتمل ایک لاکھ بیس ہزار (٠٠٠،١٢٠)حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹہرنے کا حکم دیتے ہیں یہاںتک کہ(١) پچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیاجائے ،آگے چلے جانے والوں کو واپس بلایا جائے اور پھر آپۖ نے اُونٹوں کے کجا ووںاور مختلف وسائل سے ایک اُونچی جگہ بنانے کا حکم د یا تاکہ سب لوگ آپۖ کو آسانی سے دیکھ سکیں، اور اسلامی ممالک سے آ ئے ہو ئے حاجیوں کے جمع ہونے تک انتظار کیا گیا، گرمی کی شدّت سے پسینے میں شرابور لوگ صرف اس لئے جمع ہوئے تھے کہ پیغمبراکرم ۖ کا پیغام غور سے سنیں اور آپ ۖ یہ فرمائیں!
( ١ ) واقعۂ غدیر کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت حاجیوں کا جمع غفیر تھا جوکہ مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے تھے جنکی تعداد مؤرّخین نے نوّے ہزار (٠٠٠،٩٠) سے ایک لاکھ بیس ہزار (٠٠٠،١٢٠)تک نقل کی ہے اورحج کی ادائگی کے بعد اپنے اپنے وطن لَوٹتے ہوئے ١٨ ذی الحجہ کے دن خدا کے حکم سے سرزمینِ غدیر خُم پر جمع ہوئے اور جنہوں نے رسولِ خد اۖکے پیام کو سُننے کے بعدحضرت علی ـ کی بیعت کی،غدیر کے دن لوگوں کی اس عام بیعت کا اعتراف بہت سارے مؤرِّخین نے کیا ہے ۔جو مندرجہ ذیل ہیں!
١ ۔ سیرۂ حلبی ، ج ٣ ص ٢٨٣ : حلبی :
٢ ۔ سیرۂ نبوی ، ج ٣ ص ٣ : زینی دحلان
٣ ۔ تاریخُ الخُلَفاء ، ج ٤ : سیوطی (متوفّٰی ٩١١ ہجری)
٤ ۔ تذکرةُخواص الاُمّة ، ص ١٨ : ابنِ جَوزی(متوفّٰی ٦٥٤ ہجری)
٥ ۔ احتجاج ، ج ١ ص ٦٦ : طبرسی (متوفّٰی ٥٨٨ ہجری)
٦ ۔ تفسیرِ عیّاشی ، ج ١ ص ٣٢٩/٣٣٢ حدیث ١٥٤ : ثمر قندی
٧ ۔ بحارُا لا نوار ، ج ٣٧ ص ١٣٨ حدیث ٣٠ : علّامہ مجلسی
٨۔ اثباتُ الہُداة ، ج ٣ حُرِّعاملی ص ٥٤٣ /٥٤٤ حدیث ٥٩٠/٥٩١/٥٩٣ :
٩ ۔ تفسیرِبرہان ، ج ١ ص ٤٨٥ حدیث ٢ ، ص ٤٨٩ حدیث ٦ :بحرانی
١٠ ۔ حبیبُ السَّیر ، ج ١ ص ٢٩٧/٣٧٥/٤٠٤/٤١٢/٤٤١ : خواند میر
''اے لوگو !میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ''
پھر آپ ۖکی لوگوں سے بار بارتاکید کی کہ آج کے اس واقعہ کو اپنی اَولادوں،آئندہ آنے والی نسلوںاور اپنے شہرودیار کے لوگوں تک پہنچادیں۔
یہ اہم واقعہ کیا ہے؟
کیا صرف یہ ہے کہ آپ ۖ یہ فرمائیں ! میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ؟
کیا ایسی حرکت کسی عام شخص سے قابلِ قبول ہے ؟
کیا ایسی حرکت بیہودہ ،اذیّت ناک اور قابل مذمّت نہیں ہے ؟
پھر کسی نے اعتراض کیوں نہیں کیا؟
کیا مسلمان یہ نہیں جانتے تھے کہ پیغمبراکرم ۖ حضرت علی ـ کو دوست رکھتے ہیں ؟ کیا علی ـ ایسے صف شکن مجاہد کی محبّت پہلے سے مسلمانوں کے دلوں میں نہیں بسی ہوئی تھی؟
٢۔فرشتۂ وحی کا بار بار نزول:
اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو ایسا کیوںہواکہ جبرئیل امین جیسا عظیم فرشتہ تین بار آپ ۖ پر نازل ہو اور پیغامِ الٰہی سے آپ ۖ کو آگاہ کرے؟! جیسا کہ آنحضرت ۖنے خود ارشاد فرمایا!۔
''ِنَّ جِبْرَئےْلَـھَبَطَ ِلَیَّ مِرٰاراً ثَلٰاثاً یَْ مُرُنِیْ عَنِ السَّلٰامِ رَبِّیْ وَھُوَالسَّلٰامُ َنْ َقُوْمَ فِی ھٰذا الْمَشْہَدِ، فُعْلِمَ کُلَّ َبْےَضٍ وَ َسْوَدٍ َنَّ عَلِیَّ بْنَ َبِیْ طٰالِبٍ َخِییْ وَ وَصِییّ و َخَلِیفَتِی عَلٰی ُمَّتِیْ وَ الِْمٰام ُ مِنْ بَعْدِیْ َلَّذِی مَحَلَّہ مِنِّیْ مَحَلَُ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی ِلّٰا نَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَ ھُوَ وَلِیُّکُمْ بَعْدَ اﷲِ وَرَسُوْلِہ وَ قَدْ َنْزَلَ اﷲ تَبٰارَ کَ وَ تَعٰا لٰی عَلَیَّ
بِذٰ لِکَ آیَةً مِنْ کِتٰابِہ!''
(ِنَّمٰاوَلِیُّکُمُ اﷲ ُوَرَسُوْلُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَیُؤْ تُوْن الزَّکٰوةَ وَ ھُمْ رٰاکِعُوْنَ )(١)
وَعَلِیُّ بْنَ َبِیْطالِبٍ َلَّذِیْ َ قٰامَ الصَّلٰوةَوَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَھُوَرٰاکِعیُرِیْد اﷲ َ عزَّ وَجَلَّ فِی ْکُل ّحٰالٍ (٢)
جبرائیل ـ تین بار وحی لے کرمجھ پرنازل ہو ئے اور درود و سلام کے بعد فرمایا کہ یہ مقام غدییرہے یہاں قیام فرمائیں اورہر سیاہ و سفید،یہ بات جان لے کہ حضرت علی ـ میرے بعد
آپ کے وصی خلیفہ اورتمہارے پیشوا ہیں ، انکا مقام میری نسبت ایسا ہی ہے جیسا مقام ہارون کا موسٰی کی نسبت تھا ،بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گاعلی ـ خدا اور رسول ۖ کے بعد تمہارے رہنما ہیں خدا وندِ صاحب عزّت و جلال نے اپنی پا ک وبابرکت کتاب قرآنِ مجید میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔
اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہارے ولی اور سرپرست خدا،رسول ۖ اوروہ لوگ ہیں جو ایمان لائیں ،نماز بپا کریں اور حالتِ رکوع میں زکٰوة ادا کریں یہ بات تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو کہ علی ـ نے نماز بپا کی اور حالتِ رکوع میں زکٰوة ادا کی اور ہر حال میں مرضیِ خدا کے طلبگار رہے ۔ ...............................................
حواله جات:
(١)مائدہ، ٥/ ٥٥
(٢) حجّةُالوداع کے موقع پر آپ ۖ کا خطبہ ( کتاب احتجاج طبرسی ،ج ١، ص٦٦)
خطبہ کے مدارک و اسناد :
(١) ۔ احتجاج ، ج ١، ص ٦٦ : طبرسی
( ٢)۔ اقبا ل الاعمال ،ص٤٥٥: ابن طاؤوس
( ٣)۔ کتاب الیقین،باب١٢٧: ابن طاؤوس
( ٤) التحصین ، باب٢٩: ابن طاؤوس
(٥)۔روضةُالواعظین ،ص٨٩ :قتال نیشابوری
(٦)۔ البرہان،ج١ ص٤٣٣:بحرانی
(٧)۔ اثباتُ الہُداة ، ج٣ ص٢ : عاملی
(٨)۔ بحارُالانوار ، ج٣٧ص ٢٠١:بحرانی
( ٩)۔ کشف المہم،ص ٥١:بحرانی
(١٠)۔تفسیرِ صافی،ج٢، ص٥٣٩:فیض کاشانی
Add new comment