غدیر میں کیا ہوا
آیت تبلیغ کا کا نزول
آیت تبلیغ
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
ترجمہ: اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا۔
جمعرات 18 ذوالحجہ کو غدیر خم پہنچے اور حجاج کے قافلے سے شام، مصر اور عراق کے قافلے جدا ہونے سے قبل جبرائیل آیت تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول خدا(ص) کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا کہ علی(ع) کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں۔
آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہ(ص) نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور فرمایا: جو آگے چلے گئے ہیں وہ واپس پلٹیں اور جو نہیں پہنچے وہ عجلت کریں اور غدیر خم کے مقام پر آپ(ص) تک پہنچیں۔[6]
رسول خدا(ص) کا خطبہ
حدیث ولایت
رسول اللہ(ص) نے فرمایا:
"أَلَستُ أَولٰى بِالمُؤمِنِينَ مِن أَنفُسِهِم؟ قالوا بَلٰى، قال: مَن کُنتُ مَولاهُ فَهذا عَلٰى مَولاهُ، اللّٰهُمَّ والِ مَن والاهُ وَعادِ مَن عاداهُ وَانصُر مَن نَصَرَهُ وَاخذُل مَن خَذَلَهُ"۔
ترجمہ: کیا میں مؤمنین پر حقِ تصرف رکھنے میں ان پر مقدم نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ آپ(ص) نے فرمایا: میں جس کا مولا و سرپرست ہوں یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں؛ یا اللہ! تو اس کے دوست اور اس کو اپنا مولا اور سرپرست سمجھنے والے کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؛ جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑے اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر تنہا کردے۔
ابن مغازلی شافعی، المناقب ص 24۔
نماز ظہر ادا کرنے کے بعد رسول خدا(ص) نے خطبہ دیا جو خطبۂ غدیر کے نام سے مشہور ہوا اور اس کے ضمن میں فرمایا: "حمد و ثنا صرف اللہ کے لئے ہے اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے نفس کی شرانگیزیوں اور اپنے کردار کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں... خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ میں بہت جلد اس کے پاس بلایا جاؤں گا اور میں اس کے بلاوے پر لبیک کہوں گا... میں تم سے پہلے حوض کوثر کے کنارے حاضر ہونگا اور تم اسی حوض کے کنارے میرے پاس لائے جاؤگے، پس دیکھو کہ میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو؛ ثقل اکبر کتاب اللہ ہے ... اور ثقل دوئم میری عترت ہے جو ثقل اصغر ہے...".
اس کے بعد رسول خدا(ص) نے علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا حتی کہ سب نے آپ(ع) کو رسول اللہ(ع) کے پہلو میں دیکھ لیا اور اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا: "اے لوگو! کیا میں تمہاری نسبت تم پر مقدم نہیں ہوں؟"، لوگوں نے جواب دیا: "کیوں نہیں اے رسول خدا(ص)"؛ رسول اللہ(ع) نے فرمایا: "خداوند متعال میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس میں جس کا مولا ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں"۔ رسول خدا(ص) نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور فرمایا: "یا اللہ! تو اس کے دوست اور اس کو اپنا مولا و سرپرست سمجھنے والے کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؛ جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑے اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر تنہا کردے"۔ بعد ازاں لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: "(یہ پیغام) غائبین کو پہنچا دیں"۔
آیت اکمال کا نزول
اکمال دین اور اتمام نعمت
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً
ترجمہ: آج کافر لوگ تمہارے دین کی طرف سے نااُمیدہو گئے ہیں تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
سورہ مائدہ آیت 3۔
ابھی اجتماع منتشر نہیں ہوا تھا کہ جبرائیل نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے رسول خدا(ص) پر آیت اکمال نازل کردی؛ جس میں ارشاد ہوا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً
ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
امام علی(ع) کو تبریک و تہنیت
اس موقع پر، لوگوں نے امیرالمؤمنین(ع) کو مبارکباد پیش کی۔ ابوبکر اور عمر تبریک و تہنیت کہنے والوں میں میں پیش پیش تھے اور باقی صحابہ ان کے پیچھے پیچھے تبریک و تہنیت کہہ رہے تھے۔ عمر مسلسل کہہ رہے تھے: بخ بخ لك ياعلي اصبحت مولاي ومولٰی كل مؤمن ومؤمنة۔، یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے علی آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے مولا و سرپرست ہوگئے۔[7]۔[8]
مروی ہے کہ رسول اللہ(ع) کے حکم پر ایک خیمہ بپا کیا گیا اور آپ(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ گروہ در گروہ آ کر علی علیہ السلام کو امیرالمؤمنین کے عنوان سے سلام دیں، اور حتی کہ ازواج رسول(ص) نے بھی اس حکم نبوی کی تعمیل کی۔ [9]۔[10]۔[11]
حاضرین کی تعداد
غدیر خم میں حاضر افراد کی تعداد کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی تعداد 10000 افراد[12]، بعض نے 17000 افراد[13]، اور بعض نے 70000 افراد[14] نقل کی ہے۔
غدیر خم کے مقام پر اجتماع کی گنجائش، اور سنہ 10 ہجری میں مدینہ کی آبادی کے پیش نظر، نیز مکہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر حجاج کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے، غدیر خم میں 10000 افراد پر مبنی روایت کو مستند تر اور صحیح تر قرار دیا جاسکتا ہے۔[15]
غدیر کے راوی
تاریخ اسلام میں کم ہی ایسا کوئی مرحلہ اور کوئی واقعہ ہوگا جو سند اور وقوع کے لحاظ سے اس قدر قوی اور مستحکم ہو۔ حدیث غدیر کے راوی بہت ہیں جن میں سے بعض مشہور راویوں کے نام حسب ذیل ہیں:
اہل بیت یعنی امام علی(ع)، حضرت فاطمہ(س)، امام حسن(ع) اور امام حسین(ع)۔ بعد ازاں 110 صحابہ کے نام آتے ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:
عمر بن الخطاب[16]، عثمان بن عفان[17]، عائشہ بنت ابی بکر[18]، سلمان فارسی[19]، ابوذر غفاری[20]، زبیر بن عوام[21]، جابر بن عبداللہ انصاری[22]،عباس بن عبدالمطلب[23]، ابوہریرہ[24] وغیرہ، جو واقعہ غدیر کے وقت غدیر خم کے مقام پر حاضر تھے اور انھوں نے یہ حدیث بلاواسطہ طور پر نقل کی ہے۔
بعد ازاں تابعین ہیں جن میں سے 83 افراد نے یہ حدیث نقل کی ہے اور ان میں سے اصبغ بن نباتہ[25]، اور اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز[26] کے نام قابل ذکر ہیں۔
تابعین کے بعد، دوسری صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک 360 علمائے اہل سنت سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے؛ جن میں شافعیوں کے امام محمد بن ادریس شافعی،[27] حنابلہ کے امام احمد بن حنبل،[28]، احمد بن شعیب نسائی[29]، ابن مغازلی،[30] احمد بن عبداللہ[31]، احمد بن عبدربہ[32] زیادہ مشہور ہیں۔
شیعہ محدثین اور علماء میں سے بےشمار افراد نے حدیث غدیر کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے جن میں کلینی رازی، شیخ صدوق، شیخ مفید، شیخ طوسی، سید مرتضی وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔[33]
بہت سے محدثین حدیث غدیر کو حدیث حسن اور بہت سے دوسرے اس کو حدیث صحیح سمجھتے ہیں؛[34] نیز تمام شیعہ محدثین اور بعض اکابرین اہل سنت اس کو حدیث متواتر سمجھتے ہیں۔[35]۔[36]
غدیر کےسلسلےمیں نازل ہونےوالی آیات
مفصل مضمون: امام علی علیہ السلام شیعہ اور[37]۔[38]۔[39] اور سنی مفسرین[40]۔[41]، کے مطابق قرآن کی چند آیات حجۃ الوداع کے موقع پر واقعۂ غدیر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں:
1۔ سورہ مائدہ آیت 3:
"الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً"۔؛
ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
2۔ سورہ مائدہ آیت 67:
"يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ"۔؛
ترجمہ: اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا۔
3۔ سورہ معارج آیات 1 و 2:
"سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ٭ لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ"۔؛
ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے طلب کیا اس عذاب کو جو ہونے ہی والا ہے ٭ کافروں کے لئے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے۔
مؤخر الذکر دو آیات کریمہ کی تفاسیر میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ(ع) نے امیرالمؤمنین(ع) کی ولایت کا اعلان کیا تو نعمان بن حارث فہری آپ(ص) کے قریب آیا اور اعتراض کی حالت میں آپ(ص) سے کہا: "تو نے ہمیں توحید اور اپنی رسالت پر ایمان لانے اور جہاد و حج اور روزہ و نماز اور زکٰوۃ کا حکم دیا اور ہم نے بھی قبول کیا لیکن تو اس پر راضی نہ ہوا اور اب اس نوجوان کو مقرر کیا اور اس کو ہمارا ولی قرار دیا، کیا یہ اعلان ولایت تو نے اپنی طرف سے کیا یا خدا کی جانب سے؟ جب رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ یہ اعلان خدا کی طرف سے تھا تو اس نے انکار کی حالت میں کہا: اگر یہ اعلان خدا کی جانب سے تھا تو ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر آگرے۔ اسی حالت میں آسمان کی طرف سے ایک پتھر اس کے سر پر نازل ہوا اور اس کو وہیں ہلاک کرڈالا اور یہ آیات نازل ہوئیں۔[42]۔[43]۔[44]
اسلام میں عید غدیر
مسلمانان عالم اور بالخصوص شیعہ روز غدیر کو بڑی عیدوں میں شمار کرتے ہیں اور یہ دن ان کے درمیان عید غدیر کے نام سے مشہور و معروف ہے۔[45]
اس عید کی شہرت اس قدر زیادہ ہے کہ عباسی خلیفہ مستعلی بن مستنصر عباسی کی سنہ 487 میں عید غدیر کو انجام پائی۔ [46] نیز اہل سنت کے مصادر حدیث میں منقول ہے کہ جو بھی 18 ذوالحجہ کو روزہ رکھے خداوند متعال اس کو چھ مہینوں کے روزے کا ثواب عطا فرمائے گا؛ اور یہ دن وہی عید غدیر ہی کا دن ہے۔[47] عید غدیر کی رات بھی مسلمانوں کے درمیان معروف راتوں میں شمار ہوتی ہے۔[48]
رسول خدا(ص) نے فرمایا:
"يوم غدير خم أفضل أعياد أمتي، وهو اليوم الذي أمرني الله تعالى ذكره فيه بنصب أخي علي بن أبي طالب علما لامتي يهتدون به من بعدي، وهو اليوم الذي أكمل الله فيه الدين، وأتم على امتي فيه النعمة، ورضي لهم الاسلام دينا"۔؛
ترجمہ: روز غدیر میری امت کی بہترین عیدوں میں سے ہے اور یہ وہ دن ہے جب خداوند متعال نے حکم دیا کہ میں اپنے بھائی علی بن ابی طالب کو اپنی امت کے پرچمدار کے طور پر مقرر کروں تا کہ میرے بعد لوگ ان کے ہاتھوں ہدایت پائیں اور یہ وہ دن ہے جب خدا نے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت میری امت پر پوری کردی اور اسلام کو ان کے لئے بحیثیت دین پسند کر لیا۔[49]
امام صادق(ع) نے فرمایا:
"وهو عيد الله الاكبر، وما بعث الله نبيا إلا وتعيد في هذا اليوم وعرف حرمته، واسمه في السماء يوم العهد المعهود وفي الارض يوم الميثاق المأخوذ والجمع المشهود"۔؛
ترجمہ: غدیر خم کا دن اللہ کی بڑی عید ہے، خدا نے کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس نے اس دن کو عید قرار دیا اور اس کی عظمت و حرمت کو پہچان لیا؛ اور اس عید کا نام آسمان میں عہد و پیمان کا دن اور روئے زمین پر میثاق محکم اور عمومی حضور اور موجودگی کا دن، ہے۔[50]
غدیر دیگر معصومین کے کلام میں
امام علی(ع) نے فرمایا:
"اے مسلمانو اور اے مہاجرین و انصار! کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول خدا(ص) نے غدیر کے دن مجھے تمہارا مولا قرار دیا؟ اور سب نے کہا کے مقام پر ی مسلمانان و مهاجران و انصار، آیا نشنیدید که رسول خدا(ص) روز غدیر خم چنین و چنان فرمود؟" همه مردم گفتند:آری. [51]
حضرت فاطمه(س) می فرماید:
"گویا تم نہیں جانتے اس کو، جو رسول اللہ(ع) نے غدیر کے دن فرمایا؟ قسم ہے اللہ کی، آپ(ص) نے عہدہ ولایت و امامت علی(ع) کے لئے مقرر اور استوار کیا تا کہ اس منصب کی نسبت تمہاری لالچ کی رسی کو کاٹ ڈالیں"۔[52]
امام حسن(ع) نے فرمایا:
"مسلمانوں نے رسول اللہ(ص) کو دیکھا اور آپ(ص) کی بات سنی جب روز غدیر میرے والد کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: جس کا میں مولا اور راہبر و راہنما ہوں پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا و رہبر و راہنما ہیں"۔[53]
امام حسین(ع) نے فرمایا:
"رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو تمام آداب کے ساتھ پرورش دی، جب علی(ع) کو روحانی اور نفسیاتی لحاظ سے مستحکم کیا عہدہ امامت ان کے سپرد کیا اور غدیر کے دن فرمایا: جس کا میں مولا ہو اور رہبر ہوں، پس یہ علی(ع) بھی اس کے مولا اور رہبر ہیں"۔[54]
امام علی رضا(ع) نے فرمایا:
"روز غدیر آسمان والوں کے نزدیک اہل زمین والوں کی نسبت زیادہ مشہور ہے... اگر لوگ اس دن کی قدر و عظمت سے واقف ہوتے بےشک فرشتے ہر روز 10 مرتبہ ان کے ساتھ مصافحہ کرتے"۔[55]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواله جات:
-1طبرسی، احتجاج، ج1، ص56۔
-2مفید، ارشاد، ص91۔
-3حلبی، السیرہ، ج3، ص308۔
-4حلبی، ج3، ص318 و 319۔
-5مفید، ص92۔
-6نسائی، ص25۔
--7احمد حنبل، ج4، ص281۔
-8مفید، ص94۔
-9مفید، ج1، ص 176۔
-10قمی، ج1، ص268۔
-11امینی، ج1، ص9 ـ 30۔
-12عیاشی، ج1، ص329۔
-13شعیری، ص10۔
-14طبرسی، احتجاج، ج1، ص56۔
-15سیدجلال امام، مقاله بررسی تعداد جمعیت حاضر در غدیر۔
-16محب طبری، ج2، ص161۔
-17ابن مغازلی، ص27۔
-18ابن عقده، ص152۔
-19حموینی جوینی، ج1، ص315۔
-20حموینی جوینی، ج1، ص315۔
-21ابن مغازلی، ص27۔
-22متقی هندی، ج6، ص398۔
-23جزری شافعی، 3 و 48۔
-24متقی هندی، ج6، ص154۔
-25ابن اثیر، ج3، ص307۔
-26ابونعیم، ج5، ص364۔
-27بیهقی، ج1، ص337۔
-28احمد، ج1، ص84، 118 و 331۔
-29نسائی، ج5، ص45۔
-30ابن مغازلی، ص16۔
-31احمد بن عبدالله، ص67 و 87۔
-32احمد بن عبدربه، ج2، ص275۔
-33امینی، ج1، ص14 اور بعد کے صفحات۔
-34ترمذی، ج5، باب 20۔
-35ابن کثیر، ج5، ص233۔
-36طوسی، تلخیص الشافی، ج2، ص168۔
-37طوسی، التبیان،ج 3، ص436 و 587۔
-38طبرسی، مجمع البیان، ج3، ص274 و 380۔
-39طباطبائی، المیزان، ج5، ص193 - 194۔
-40واحدی نیشابوری، ص126۔
-41حاکم حَسکانی، ج1، ص200 و 249۔
-42طبرسی، ج10، ص530۔
-43قرطبی، ج19، ص278۔
-44ثعلبی، ج10، ص35۔
-45ابو ریحان بیرونی، ص95۔
-46ابن خلکان، ج1، ص60۔
-47خطیب بغدادی، ج8، ص290۔
-48ثعالبی، ص511۔
-49صدوق، امالی، ص125۔
-50حر عاملی، وسائل الشیعه، ج5، ص224۔
-51صدوق، خصال، ص550۔
-52طبرسی، احتجاج، ج1، ص80۔
-53صدوق، امالی، ج2، ص171۔
-54ری شهری، ج2، ص232۔
-55طوسی، تهذیب الاحکام، ج6، ص24۔
Add new comment