غدیر میں منافقین

غدیر سے مدتوں پھلے منافق پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف اپنی صفوف مستحکم کر رھے تھے اور بعض حساس مو قعوں پرتھوڑا بہت اپنی منافقت کا اظھار بھی کرتے رہتے تھے ۔ حجة الوداع میں جب منافقین آپ (ص) کی رحلت کے نزدیک اوراپنے بعد رسمی طور اپنا جانشین معین فرمانے سے واقف هو

غدیر میں منافقین

غدیر میں منافقین کے رفتار و کردار کا تین طرح سے جا ئزہ لیا جا سکتا ھے :

۱۔غدیر کے خلاف ان کے عملی اقدامات اور سازشیں ۔

۲۔غدیر کے سلسلہ میں ان کا حسد،کینہ اور منافقانہ اقوال۔

۳۔غدیر میں ان کے عکس العمل کے واضح نمونے ۔

غدیر میں منا فقوں کی سازشیں

غدیر سے مدتوں پھلے منافق پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف اپنی صفوف مستحکم کر رھے تھے اور بعض حساس مو قعوں پرتھوڑا بہت اپنی منافقت کا اظھار بھی کرتے رہتے تھے ۔

حجة الوداع میں جب منافقین آپ (ص) کی رحلت کے نزدیک اوراپنے بعد رسمی طور اپنا جانشین معین فرمانے سے واقف هوئے تو منافقین بنیادی اقدامات کاآغاز کیا اور خود کو پیغمبر اسلام (ص)کی رحلت کے بعدکے دنوں کےلئے آمادہ و تیار کرلیا ،اس مقام پر کفر و نفاق متحد هوگئے ،ان کے جاسوس پیغمبر اسلام(ص) کے ارادوں کے جزئیات کو ان تک پہنچا نے لگے ۔

پھلی سازش[1]

منافقوں کی سازشوں کا نطفہ اس وقت منعقد هوا جب دو آدمیوں نے اس بنیادی کام کے سلسلہ میںآپس میں عھد و پیمان کیاکہ :

”اگر محمد اس دنیا سے کوچ کر گئے یا قتل هو گئے تو ھر گز ان کی خلافت اور جا نشینی ان کے اھل بیت علیھم السلام تک نھیں پہنچنا چا ہئے “

ان کے اس عھد میں تین آدمی اور شریک هو گئے اور سب سے پھلا معاھدہ کعبہ کے پاس لکھاگیا، دستخط کر نے کے بعد اس کو کعبہ کے اندر زیر خاک چھپا دیا گیا تاکہ اس پیمان کو ھر حال میں عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک سند رھے ۔

ان تین آدمیوں میں سے ایک شخص معاذ بن جبل کا کہنا ھے :

”آپ اس مسئلہ کو قریش کے ذریعہ حل کریں انصار کا ذمہ وار میں هوں “

انصار کے رئیس کل” سعد بن عبادہ“ تھے ،وہ ابو بکر و عمر کے ساتھ ھم عھد بھی نھیں تھے لہٰذامعاذ بن جبل، بشیر بن سعید اور اسید بن حضیرجو آدھے انصار یعنی ان کے دو قبیلے” اوس“ اور” خزرج“میں سے ایک کا حاکم تھا، کی تلاش میں نکلے اور ان کو خلافت غصب کر نے کےلئے اپنا ھم عھد بنالیا۔

پیغمبر اسلام(ص) کو قتل کر نے کی سازش[2]

پیغمبر اسلام (ص)کو قتل کر نے کی سازش ایک مرتبہ جنگ تبوک میں اور کئی مرتبہ زھر اور دوسرے حربوں سے کی گئی مگر ھر بار ناکامی هو ئی ۔

لیکن حجة الوداع کے موقع پر انھیں پانچ ھم پیمان منافقوں نے دوسرے نو افراد کے ساتھ مل کرآخری مرتبہ مکہ سے مدینہ واپس آنے کے راستہ میں پیغمبر اسلام (ص)کو قتل کرنے پر وگرام بنایا اور اس پروگرام کی ایک وجہ حضرت علی بن ابی طالب کے اعلان خلافت سے پھلے پیغمبر (ص)کو قتل کرکے آسانی سے اپنے مقاصد تک پہنچنا تھی لیکن محل سازش تک پہنچنے سے پھلے ھی حکم خدا نازل هوگیااور غدیر کے مراسم انجام پاگئے۔اگر چہ وہ اپنے منصوبے سے پیچھے نھیں ہٹے۔

ان کا پروگرام یہ تھاکہ کوہ ھرشیٰ کی چوٹی پر کمین میں بیٹھاجائے چونکہ اکثرلوگ ،پھاڑ کے دامن سے گذرجاتے ھیں اور چوٹی پر نھیں آتے لہٰذاجیسے ھی پیغمبر اکرم (ص)کا اونٹ پھاڑکی چوٹی سے گذر کر اترنے لگے گا تو بڑے بڑے پتھر آپ (ص) کے اونٹ کی طرف پھینک دئے جائےںجو آپ (ع) کے اونٹ کو جاکر لگیںجس سے آپ (ع) کااونٹ یا گر جائے یا اچھل کر پیغمبر اکرم (ص)کو گرادے اور وہ رات کی تاریکی میں آ پ (ع) پر حملہ کردیںاور یقینی طورپر پیغمبر (ص)کا خون هوجائے۔

اور اسکے بعد فرار هوکر دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائیں تاکہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے ۔

پیغمبر اسلام (ص)کے قتل کی سازش ناکام

خداوندعالم نے اپنے پیغمبر (ص)کو اس پرو گرام سے آگاہ کیا اور ان کی حفاظت کاوعدہ دیا۔چودہ افراد پر مشتمل منافقین کا گروہ ”رات کی تاریکی میں اپنی وعدہ گاہ کو ہ ھرشی کی چوٹی کا اختتام اور اس کے نشیب کی ابتدا “پر پہنچا اور اپنے اونٹوں کو ایک کنارے پر بٹھادیااور سات سات آدمی پھاڑکے دائیں بائیںچھپ کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے اپنے پاس کے بڑے بڑے برتن ریت اور کنکریوں سے بھر کر رکھے هوئے تھے تاکہ پیغمبر (ص)کے اونٹ کی طرف ان کو پھینک کر اسکو دوڑادیں۔

جیسے ھی پیغمبر اسلام (ص)کی سواری پھاڑکی چوٹی پر پہنچی اور پھاڑسے نیچے اترنا چاہتی تھی منافقوںنے بڑے بڑے پتھر اور ریت اور کنکریوں سے بھرے برتنوں کو ان کی طرف چھوڑ دیا۔قریب تھاکہ اونٹ کو جاکے لگتے یا اونٹ دوڑنے بھاگنے لگتا۔پیغمبر اسلام (ص)نے اونٹ کو رک جانے کا حکم دیا۔یہ واقعہ اس وقت رونما هوا جب حذیفہ اورعمار میں سے ایک آنحضرت کی سواری کی لگام تھامے هوئے تھے اور دوسرا اسکو پیچھے سے ھانک رھا تھا۔

اونٹ کے رک جانے سے پتھرگذرکر پھاڑسے نیچے کی طرف چلے گئے اور آنحضرت (ص) صحیح وسالم بچ گئے۔منافقین کو جو اپنے اس دقیق پروگرام سے مطمئن تھے فوراً تلواریں لے کر کمینگاهوں سے باھر نکل آئے اور آنحضرت(ص) کی طرف حملہ کرنے کےلئے بڑھے۔

لیکن عمار اور حذیفہ نے بھی تلوار یں کھینچ لیں اور جوابی کاروائی شروع هوگئی۔آخر کار وہ بھاگنے پر مجبور هوگئے۔

منافقوں نے پھاڑوں کے پیچھے پناہ لی تاکہ پیغمبر کے تھوڑا آگے بڑھنے کے بعد رات کی تاریکی سے استفادہ کر تے هو ئے قافلہ کے ساتھ ملحق هو جا ئیں ۔

اس لئے کہ آنے والی نسلوں کو یہ معلوم هو جا ئے کہ اس زمانہ میں منافقین کے سردار کون لوگ تھے اور پیغمبر اسلام(ص) کے بعد هو نے والی سازشوں کی تحلیل آسانی سے هو سکے ،آپ (ص) نے اسی رات ان کے چھروں سے نقاب الٹ دی اور اچانک چند لمحوں کےلئے فضا میں نور چمکا جس سے عمار اور حذیفہ نے بھی ان چودہ افراد کے چھروں کو بخوبی پہچان لیاحتی ان کی سواریوں کو بھی دیکھ لیا جن کو انھوں نے ایک طرف بٹھا رکھا تھا اور وہ چودہ آدمی یہ تھے :

ابو بکر ،عمر ،عثمان ،معاویہ ،عمرو عاص ،طلحہ،سعد بن ابی وقاص ،عبد الرحمن بن عوف ،ابو عبیدہ بن جراح ،ابو موسیٰ اشعری ،ابو ھریرہ ،مغیرہ بن شعبہ ،معاذ بن جبل اور سالم مو لیٰ ابی حذیفہ۔

پیغمبر اسلام(ص) کو یہ حکم تھا کہ اس وقت آپ ان سے کو ئی بات نہ کریں اس لئے کہ ان حساس حالات میں فتنہ و فساد پھیلنے اور گزشتہ تمام زحمتوں کے بر باد هو نے کا خطرہ تھا ۔

دوسرے روز جب صبح کی نماز با جماعت قائم هو ئی تو یہ چودہ لوگ سب سے پھلی صف میں تھے!! اور آنحضرت (ص) نے ان کی طرف اشارہ کر تے هو ئے چند باتیں بیان کیں اور فرمایا :

”کچھ لوگوں کو کیا هو گیا ھے کہ انھوں نے کعبہ میں یہ قسم کھا ئی ھے کہ اگر محمد(ص) دنیا سے چلے گئے یا قتل هو گئے تو ھر گز خلافت ان کے اھل بیت علیھم السلام تک نھیں جانے دیں گے ۔

مدینہ میں دوسری سازش[3]

وہ منافق جو پھلے شکست کھا چکے تھے انھوں نے ھی مدینہ پہنچتے ھی ایک میٹنگ کی جس میں وہ چو نتیس افراد شریک هو ئے جو پیغمبراکرم (ص) کی رحلت کے بعد اس طرح کے کا موں میں پیش پیش رہتے تھے ۔

اس میٹنگ میں آئندہ کے پروگرام کا منصوبہ بنایا گیااور سب نے اس پر دستخط کئے۔دستخط کرنے والوں میں گذشتہ چودہ افراد کے علاوہ بعض قبیلوں کے سردار تھے کہ جن میں سے ھر ایک کے ساتھ لوگوں کا ایک گروہ تھا۔منجملہ ان میں سے :ابوسفیان، ابوجھل کابیٹا عکرمہ،سعید بن عاص،خالد بن ولید، بشیر بن سعید، سھیل بن عمرو ،ابوا لاعور اسلمی،صھیب بن سنان اور حکیم بن حزام تھے۔

پیمان نامہ کا لکھنے والا سعید بن عاص اورمیٹنگ کی جگہ ابوبکر کا گھر تھا۔دستخط کے بعد پیمان نامہ کو بند کرکے ابو عبیدہ جراح کو بعنوان امانت دےدیا تاکہ اسکو مکہ لے جائے اور کعبہ کے اندر پھلے صحیفہ کے ساتھ دفن کردے تاکہ سند کے طور پر محفوظ رھے۔

اسکے دوسرے دن پیغمبر اسلام (ص)نے نماز صبح کے بعد منافقوں کے اس اقدام کی طرف اشارہ کرتے هوئے فرمایا:

میری امت کے بعض لوگوں نے ایک معاھدہ لکھا ھے جو زمان جاھلیت کے اس معاھدہ سے مشابہ ھے جو کعبہ میں لٹکایا هواتھا لیکن میںاس راز کو فاش نہ کرنے پر مامور هوں“

اسکے بعد ابو عبیدہ جراح کی طرف رخ کرکے فرمایا”اب تم اس امت کے امین بن گئے هو؟“

اسامہ کا لشکر[4]

پیغمبر اکرم (ص)نے منافقین کے اقدامات کے ساتھ آخری مقابلہ کرنے اور اپنی وفات کے بعد مدینے کو ان کے وجود سے خالی کرنے کی غرض سے اسامہ بن زید کی حکمرانی میں ایک لشکرتشکیل دیااور منافقین میں سے چار ہزار افراد کو ان کے نام کے ساتھ معین کرکے حکم دیا کہ یہ گروہ حتماًاس لشکر میں حاضر هواور جلدازجلدسرزمین شام میں رومیوں کی طرف حرکت کریں۔اس گروہ میں سے ابوبکراور عمر کے لشکر میں حاضرهونے پر زیادہ زور دے رھے تھے آنحضرت (ص) کا اس میں شامل نہ هونے والوںپرلعنت کرنا اور لشکرکے جلدی حرکت کرنے والوں پر لعنت کرنے پر زیادہ زور دینا قابل دید تھا۔

لیکن آنحضرت کے اس اقدام کی منافقوں نے سخت مخالفت کی اور کسی نہ کسی بھانے سے مدینہ واپس لوٹ آنے اور لشکر کے حرکت کرنے میں اتنی تاخیر کی کہ پیغمبراسلام(ص) دنیا سے رحلت فرماگئے اور انھوں نے اپنے پروگراموںکو آسانی سے عمل میں لاناشروع کردیا۔

غدیر کا نور ولایت کا محافظ

یہ واقعہ غدیر کے زمانے میں منافقین کے اقدامات اور نیز ان کے مقابلے میں ان کی سازشوں کو ناکام کرنے ،تیئیس سالہ زحمات کی حفاظت کرنے، اور مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کی ھدایت کے لئے پیغمبر اکرم (ص)کے اقدامات کا خلاصہ تھا۔

لیکن منافقین نے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنادیااور پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعدمسلمانوں کو پچھلے پاؤں پلٹنے پر مجبورکردیا اور مسلمان بھی پیغمبر (ص)کی زحمات اور واقعہٴ غدیر کو نظر انداز کرکے جاھلیت کی طرف پلٹ گئے۔اور اس کام میں انھوں نے اتنی جلدی کی کہ پیغمبر اکرم (ص) کے غسل ودفن هونے کا بھی انتظار نھیں کیا !!

امام صادق (ع) سے اس آیةشریفہ کے بارے میں سوال هوا ”یعرفون نعمةاللهثم ینکرونھا “ تو آپ نے فرمایا:

”غدیر کے دن اسکو پہچانتے ھیں اور سقیفہ کے دن اسکا انکار کرتے ھیں “[5]

طول تاریخ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کے مقابلے میں منافقوں کے اقدامات کو مد نظر رکھ کر خداوند متعال کے اس کلام کی گھرائی کو معلوم کیا جاسکتاھے:

”اگر تمام لوگ ولایت علی پر متفق هو جا تے تو میں آتش جہنم کو پیدا نہ کر تا “[6]

غدیر میں منافقین کے اقوال

منافقوں نے غدیر کے دن کینہ اور حسد کی وجہ سے جو الفاظ کھے ان میںسے بعض اس وقت سے مر بوط ھیں جب آنحضرت (ص) خطبہ ارشاد فر ما رھے تھے ،خاص طور سے جس وقت آ پ امیر المومنین (ع) کے ھاتھوں کو بلند کرکے ان کا تعارف کرا رھے تھے ،بعض الفاظ اس پروگرام کے ختم هوجانے کے بعد سے متعلق ھیںجب منافقین آپس میں جمع هوکر ایک دوسرے کو اپنا درد دل سنا رھے تھے

خطبہ کے دوران ان کی گفتگوکے چندنمونے[7]

وہ اپنے چچا زاد بھائی کے گرویدہ هو گئے ھیں ۔

وہ اس جوان کے سلسلہ میںدھوکہ کھاگئے ھیں۔

وہ اپنے چچازاد بھائی کے معاملہ کوعجب محکم اور مضبوط کر رھے ھیں ۔

ھم راضی نھیں ھیں ،اور یہ ایک تعصب ھے !

ھم ھر گز ان کی بات ماننے کے لئے تیار نھیں هو ں گے ۔

یہ امر خدا نھیں ھے وہ اپنی طرف سے کہہ رھے ھیں !

ان کی آنکھوں کودیکھو(معاذاللہ)مثل دیوانوں کے گھوم رھی ھیں ۔

اگر اس میں طاقت و قدرت هو تی تو قیصر و کسریٰ کی طرح کام کر تا !

خطبے کے بعد کی گفتگو کے چند نمونے[8]

ھمارے سب منصوبے خاک میں مل گئے!

ھم ھر گز محمد(ص) کی بات کی تصدیق نھیں کریں گے اور علی (ع) کی ولایت کا اقرار نھیں کریں گے۔

ھمیں بھی علی کی ولایت میں شریک کرے تاکہ ھمارا بھی کچھ حصہ رھے۔

وہ ابھی علی (ع) کو ھمارے اوپر مسلط کررھے ھیںلیکن خدا کی قسم بعد میں انکو معلوم هوگا(کہ ھم نے کیا منصوبے بنا رکھے ھیں۔)

………………………………………………………………………………

حواله جات:

[1] بحار الانوار جلد ۱۷صفحہ ۲۹،جلد ۲۸صفحہ ۱۸۶،جلد۳۶ صفحہ ۱۵۳،جلد ۳۷صفحہ ۱۱۴،۱۳۵۔کتاب سلیم: ۸۱۷ حدیث ۳۷۔ عوالم ۱۵/۳صفحہ ۱۶۴۔

[2] بحا رالانوار جلد ۲۸صفحہ ۹۹۔۱۰۰،جلد ۳۷ صفحہ ۱۱۵،۱۳۵۔عوالم:جلد ۱۵/۳صفحہ ۳۰۴۔اقبال الاعمال:صفحہ ۴۵۸ ۔ تبوک میں آنحضرت (ص)کے قتل کی سازش کے سلسلہ میں :بحارالانوار جلد ۲۱صفحہ ۱۸۵تا ۲۵۲۔

[3] بحار الانوارجلد ۲۸صفحہ۱۰۲۔۱۱۱

[4] بحار الانوارجلد ۲۸صفحہ۱۰۷۔ ۱۰۸

[5] اثبات الھدات جلد صفحہ ۱۶۴حدیث۷۳۶۔

[6] بحارالانوارجلد ۳۹صفحہ۲۴۷۔

[7] بحارالانوارجلد۳۷صفحہ ۱۱۱،۱۳۹،۱۵۴،۱۶۰،۱۷۲،۱۷۳۔

[8] بحارالانوارجلد ۳۷صفحہ۱۵۴،۱۶۰،۱۶۱،۱۶۲۔

Add new comment