غدیر کی عظمت و اہمیت
اسکی عظمتوں تک الفاظ کی رسائی نہیں ،اور نہ ہی اس اقیا نوس فضیلت کو الفاظ کے کوزہ میں سمویا جا سکتا ہے فقط دور سے ہی اس اقیا نوس فضیلت کا نظارہ کیا جا سکتا ہے اور پھر مجھ جیسے کج بیان کے امکان میں کہاں کہ اسکی وسیع و عریض فضائل کو ضبط تحریر کر سکوں۔
آب دریا را اگر نتوان کشید
ھم بقدر تشنگی باید چشید
اسکی فضیلتوں کو صفحہ قرطاس پر لانے کے لئے شجر طو بٰی کی شاخ کا خامہ ہو تو سلسبیل و تسنیم کے پانی سے گھلی ہوئی روشنائی ، گل محمدی کی پنکھڑیوں سے کار خانہ شھر علم میں حورو غلمان کے ہاتھوں تیّا ر شدہ دفتر دست جبرئیل سے حاصل ہو، فرشتو ں کے جھر مٹ اور نورکے حصار میں چا رو قل اور نا د علی کو دم کرکے بد نظر ا ور بد نسب کے چنگل سے محفو ظ ہو کے بیٹھے،اور پھر صفحہ قرطاس پر با حرف جلی لکھے غدیر۔
کیونکہ غدیر صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں کہ جسے تاریخ کے دامن میں تلاش کیا جائے اور نہ غدیر صرف ایک جگہ کا نام ہے کہ جسے دنیا کے جغرافیہ میں ڈھونڈا جائے بلکہ غدیر ایک تہذیب ا ور ایک تمدن ہے ، ایک تفکر اور ایک عقیدہ ہے غدیر کاروان رسالت کا کاروان امامت سے نقطہ اتّصال ہے ، غدیر عالم خلقت کا ثمرہ اور تمام مکاتب توحیدکا نتیجہ ہے
غدیر ایک بہترین آغاز کا خوبصورت انجام ہے۔
دشمنو ں کو کیا خبر
غدیر تکمیل رسالت کا دن ۔وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ
غدیرظا ہری طور پرآغاز امامت کا دن (من کنت مولاہ فھذاعلی مولاہ
غدیرمنکر ولایت پر نزول عذاب کا دن (سئل سائل بعذاب واقع
غدیرکفر و شرک کے منھ پر بھر پور طمانچہ رسید ہونے کا دن۔
غدیرکفر کی نا امیدی کا دن( الیوم یئس الذین کفروا
غدیریعنی اکمال مذہب(الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ
غدیر یعنی ما انزل کی وا ضح تفسیر
غدیر یعنی دین اسلام کی ادیان دیگر پر کا میا بی (لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون) یہی وجہ ہے کہ آج استعماری طاقتیں اس پرچم سبز (غدیر)اور سیاہ(کربلا و عزاداری )کو مٹانے کے در پے ہیں مگر جتنا ہی باطل طاقتوں نے اسکو مٹانے پر دولت و جاگیر صرف کی اتنا ہی ائمہ معصومین اور سر مستا ن ولا یت نے میثم و سلما ن کے صو رت میں قر با نیا ں پیش کیں۔
با دشا ہو ں کے خزا نے خا لی ہو گئے ،علما ء کو ذلت و رسو ائی کا سا منا کر نا پڑا کتابیں نذر آتش ہو گیئں مگر غدیر ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ کل مٹ سکی ہے اور نہ آئندہ مٹ سکے گی کیو نکہ اس کا محا فظ آج بھی پردئہ غیب میں رہ کر اس کی حفاظت کر رہا ہے ۔
(حجة الودا ع)
ہجرت کے دسویں سا ل جب پیغمبر ۖ فریضہ حج انجا م دے کر مقا م جحفہ غدیر خم پر پہو نچے تو جبر ئیل امین خدا وند عا لم کی جا نب نا زل ہو ئے اور فرما یا '' یَاَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ الَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ انَّ اﷲَ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ'' (سورہ ما ئدہ۶۶)
پیغمبرؐ نے جوعشق علیؑ میں آگے بڑھ گئے تھے انھیں پیچھے بلا یا اورجو تفریط محبت علیؑ پیچھے رہ گئے تھے ان کے پلٹ آنے کا انتظار کیا اور جب افراط و تفریط کا عقیدہ نقطہ اعتدال پر پہونچ گیا یعنی جب دونوں عقیدے ٹھکانے پر آ گئے تو پیغمبرنے پا لا ن شتر کا منبر بنوایا اور اس پر تشریف لے گئے ،پھر وحی الہی سے دھلی ہو ئی زبا ن حمد و ثنا ء الہی میں اس طرح گو یا ہو ئی ۔
یا ایھا النا س ما انزل الیک من ربک فی علی یعنی فی الخلا فة بعلی ابن ابی طا لب'' اور پھر خطبہ کوادا مہ دیتے ہو ئے فر ما یا ''فا علمو ا یا معشر النا س ذالک فیہ وافھمو واعلمو ا انا'' ...قرآن نے قرآن کو ہا تھو ں پر بلند کر کے فر ما یا میں جس جس کا مو لا ہو ں علی اس کے مو لا ہیں ۔
خدا یا تو ا سے دو ست رکھ جو علی کو دوست رکھے اسے دشمن جا ن جو علی کو دشمن جا نے اسکی مدد کر جو علی کی مدد کرے ا سکو ذلیل و خوا ر کر جو علی کو ذلیل کر نے کی سعی کرے ( حجة الو دا ع ص١٨٢)۔
پیغمبرۖ کے ان پا کیز ہ الفا ظ کو تا ریخ آج بھی بڑی دیا نت دا ری کے سا تھ اپنے دا من میں سمیٹے ہو ئے ہے مگر کچھ مخبو ط الحوا س افرا د وا قعہ غدیر کو تاریخ کے دا من سے محو کر نے کی ناکا م سا زشیں کر رہے ہیں اور جب تا ریخ کے صفحا ت سے حقیقت غدیر کو مٹا نے سے نا کام ہو گئے تو دشمنوں نے دشمنی کا پینترا بدلا، ایما ن فرو شو ں نے علم و عر فا ن کا جعلی لبا دہ اوڑھ کر اپنے جہا لت و نا دا نی کو علم عرفان کا نا م دیکر حدیث غدیر میں تحریف و تا ویل کے در پئے ہو گئے ،اور نئے نئے شبہا ت ترا شنا شرو ع کیا کہ لفظ مو لا اس حدیث میں رفیق دو ست اور معین و مدد گا ر کے معنی میں ہے لہذا ضرو ری سمجھا تھو ڑا سا اسی لفظ مولا پر تحقیق و جستجو کروں آیئے سب سے پہلے لفط مو لا کو قر آن میں دیکھتے ہیں کہ کس معنی میں استعما ل ہو ا ہے
(قر آن میں لفظ مولا کا استعما ل اور اس کا معنی)
'' وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا َنْتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ ''(بقر ہ۱٢٨٦
ہمیں معا ف کر دینا ہم پر رحم کر دینا تو ہما را مو لا اور ما لک ہے اب کا فر وں کے مقا بلے میں ہما ری مدد فرما اس آیت میں مو منین کا خدا وند عالم سے درخوا ست کرنا بیا ن ہو ا ہے کیو نکہ خدا دنیا اور اہل دنیا پر کا مل اختیا ر رکھتا ہے ۔
٢۔'' بَلْ اﷲُ مَوْلاَکُمْ وَہُوَ خَیْرُ النَّاصِرِینَ ''(آل عمرا ن ١٥٠)
بلکہ خدا تمھا را سر پرست ہے ور وہ بہترین مدد کر نے وا لا ہے ۔
٣۔ ثُمَّ رُدُّوا ِلَی اللَّہِ مَوْلاَہُمْ الْحَقِّ'' (انعا م ٦٢)
پھر سب اپنے مو لا ئے بر حق پر ور دگا ر کی طرف پلٹا ئے جا ئیں گے ۔
٤۔وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا اَنَّ اﷲَ مَوْلاَکُمْ نِعْمَ الْمَوْلَی وَنِعْمَ النَّصِیرُ'' (انفال ٤٠)
اور اگر دوبارہ پلٹائیں جائیں تو یاد رکھو کہ خدا تمھارا مولا اور سرپرست ہے اور وہ بہترین مولا ومالک ہے اور بہترین مددگار ہے ۔
٥۔''ذالک بانّ اللہ مولٰی الذّین آمنو و انّ الکفرین لا مو لا لھم''
یہ سب اسلئے ہے کہ اللہ صاحبان ایمان کا مولا و سر پرست ہے اور کافروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اس طرح قرآن میں تقریبا ١٣ جگہوں پر لفظ مولا استعمال ہوا ہے لیکن اختصار مقالہ اجازت نہیں دیتا کہ تمام آیتوں کو ذکر کیا جائے ،جو چیز ذکر کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے لفظ مولا کو ''مولاکم'' ''مولانا'' ''مولاہ'' '' مولاھم'' اضافہ کے ساتھ بیان کیا ہے ان آیتوں کے مطالعہ کے بعد واضح ہوتا ہے کہ قرآن نے کئی مقام پر لفظ مولا اولٰی بالتصرف کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
دوسری دلیل
پیغمبرۖ اکرم نے''من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ'' میں دوبار کلمہ مولا کا استعمال کیا ہے فصاحت و بلاغت پیغمبرۖ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ دونوں کلمہ کا ایک معنی ہو کیونکہ پیغمبرۖ جیسے عظیم فصیح و بلیغ سے بعید ہے ایک لفظ کو استعمال کرکے وہ معنی مراد لے جو اس مقام پر صحیح نہ ہو ۔
٣۔نبی اکرم نے اس جملے کو بیان کرنے سے پہلے کہا''الست اولیٰ بکم من انفسکم ''، کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حاکم نہیں ہوں سب نے یک زبان ہو کر فرمایا ''قالوا بلیٰ'' پھر کیسے ممکن ہے کہ نبی تو اپنے اولیٰ باتصرف ہونے کا اقرار لے اور علی کی رفاقت اور دوستی کا اعلان کرے کیونکہ ایک عاقل کبھی بھی بے ربط باتیں نہیں کرتا۔
٤۔''فعلی مولا ہ ''میں فاتفریع اور نتیجہ معنی ٔاول سے دوم کو بیان کر رہا ہے پس ان دونوں کلموں کا ایک معنی ہونا ضروری ہے
٥۔پیغمبرۖ اکرم نے غدیرکے پہلے ہی مہاجر و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنا کر حضرت علی کے بارے میں فرما چکے تھے ''یا علی انت اخی فی الّدنیا و الآخرة ''اے علی تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو پھر علی کی اخوت کااعلان کرنے کاکون سا مقام تھااور عقل بھی یہی کہتی ہے جب پیغمبرۖ نے علی کو اپنی زندگی میں کسی کا بھائی بنانا مناسب نہیں سمجھا تو پھر کیسے ممکن ہے کہ آخری لمحات میں علی کو لوگوں کا بھائی بنائیں۔
٦۔ رشتۂ اخوت کا اعلان اتنا اہم نہیں تھا کہ اس تپتے صحراء جہاں آفتاب کی تمازت تمام بدن کوجھلسائےدے رہی تھی جہاں دور دور تک سائے کا کوئی نام و نشان نہ تھا،لوگ اپنے سر کے عمامہ کو پیروں تلے دبائے بیٹھے تھے اگررشتۂ اخوت کا اعلان کرنا ہی تھا تو مدینہ میں جا کر کر دیتے کیا فرق پڑ جاتا وہاں نہ مشرکین کا خوف تھااور نہ ہی کسی کے بھاگنے کا ۔
٧۔اگر پہلے مولا کا معنی دوست کیا جائے تو پھر لازم ہے کہ تمام جملے کا اس طرح ترجمہ کیا جائے جس جس کا میں دوست ہوں اس اس کے یہ علی دوست ہیں اس ترجمہ سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیغمبر ۖلوگوں کے دوست ہیں اور یہ سرا سر غلط ہے پیغمبرۖ لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بن کر آئیں ہیں دوست و رفیق بنکر نہیں ۔
٨۔اگر اعلان اخوت پر دین کامل ہو تا اور نعمتیں تمام ہو تیںتو'' الیوم اکملت'' کی آیت کو یکم ہجری میں ہی نازل ہونا چاہیئے تھا اس آیت کا اس خاص مقام (غدیر)پر نازل ہونا بتاتا ہے کہ کوئی خاص مسئلہ ہے جسکے اعلان پر دین کامل ہو رہا ہے اور تکمیل رسالت ہو رہی ہے۔
۹۔جشن ولایت غدیر سے ابھی لوگ متفرّق بھی نہیں ہوئے تھے کہ شاعر اہلبیت حسان بن ثابت نے پیغمبر کی اجازت سے واقعہ غدیر کو نظم کیا اور پڑھا ۔
ینادیھم یوم الغدیر نبیّھم
بخم واسمع بالرسول منادیّاً
و قال فمن مولاکم ولیّکم
فقا لوا لم یبدوا ھناک التّعادیاً
الٰھک مولاناو انت ولیّنا
و لن تجد ن منّا لک الیوم عاصیاً
فقال لھم قم یا علی فانّنی
رضیتک من بعدی اماماً و ھادیاً
(حجة الوداع سید اسد اللہ یاوری ص٢٧٨)
پیغمبرۖنے اس امت کو غدیر خم کے دن آواز د یاآپ کی ندا کس قدر منادی ٔ حق اور سننے کے لائق تھی۔
اور پیغمبر نے کہا اے لوگو ں تمہارا مولا اور پیغمبرۖ کون ہے سب نے بغیر تأمل کے جواب دییا۔
آپ کا خدا ہمارا مولا ہے اور آپ ہمارے پیغمبرۖہیں، ہمارے درمیان کوئی بھی منکر ولایت نہیں ہے
اور پھر پیغمبرۖنے علی سے فرمایا اے علی اٹھو کیونکہ میں ولایت اور امامت کو اپنے بعد تمہارے لئے پسند کرتا ہوں ۔
اگر ایک عاقل شخص اس جملے میں غور کرے تو یقیناً حقیقت اس پر آشکار ہو جائیگی اور اسے کسی طرح کا کوئی شک و توھم نہ رہ جائیگا اگر مولا کے معنی دوست اور ناصر کے ہیں تو پھر اس شعر کا ترجمہ یہ کرنا ہوگا ۔
الھک مولانا'' آپکا پروردگاراور آپ ہمارے دوست ہیں جبکہ یہ غلط ہے کیونکہ خدا خالق ہے اور ساری کائنات اسکی خلق ہیں لھذا ضروری ہے کہ ا س مقام پر مولا کا معنی اولیٰ بالتصرف ہے ۔ جسکے منصب ظاھری کو امامت کہا جاتاہے ۔
۱۰۔مولا امیر المومنین نے متعدد مقامات (سقیفہ ،شوریٰ کے دن، خلافت عثمان کے دوران، رحبتہ کوفہ ، جنگ جمل، جنگ صفین اور ہر مناسب مقام پر لوگوں کو اس بات کی یاد دہانی کروائی ہے۔
۱۱:۔ حضرت فاطمہ زہرااکثر فرمایا کرتی تھیں کیا تم نے''من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ''کو بھلا دیا ۔
فما جعل اﷲ لاحد بعد من حجة ولا عذر'' ۔خدا وند عالم واقعہ ٔ غدیر کے بعد کسی سے کوئی عذر قبول نہیں کریگا(گاہنامہ محسنہ شمارہ ١ ذی الحجہ١٤٢٩)
معاویہ حج سے واپسی پر جب مدینہ آیا تو سعد ابن ابی وقاص سے حضرت علی کی بد گوئی کرنے لگا یہ سن کر سعد نے کہا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ حضرت علی کے پاس تین ایسی خصوصیات ہیں کہ اگر وہ میرے مقدر میں ہوتیں تو میں ہمیشہ فخر و مباہات کے ساتھ حمد و ثناء الھی کرتا ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا ''من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ''(حجة الوداع ص ٢٨٨)
مگر افسوس صد افسوس لوگ اس تقدیر ساز دن کو بھول گئے اور اسکی عظمتوں کو فراموش کرکے سقیفہ کی جھوپڑی سے لو لگا بیٹھے ۔اگر لوگ قرآن کے آیتوں کی طرح غدیر کو بھی دل سے لگائے رہتے تو آج یہ در بدر کی ٹھوکریں انکے نصیب میں نہ ہو تیں۔
اور پھر کبھی ضرورت نہ ہوتی کہ مجھ جیسا کم علم غدیر کی فضیلتوں کو تحریر کرنے کی سعی کرتا مگر دشمنوں نے دشمنی میں تکمیل رسالت کا دن ،اور اس عظیم پیغام کو بھلا دیا، لھذا آج ہر شیدائے غدیر کی ذمہ داری ہے کہ ہر منکر غدیر کو اپنے قول و عمل سے بتائے کہ نہ غدیری پیغام مٹ سکتا ہے اور نہ غدیری لوگ !منکرین غدیر یاد رکھیں۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائگا
(فضیلت غدیر)
قال: ابو عبد اللہ اذا کان یوم القیامة زفت اربعةایّام الی اللہ عزّ وجلّکما تز ف العروس الی خدرھا ،یوم الفطر و یوم الاضحی و یوم الجمعہ و یوم الغدیر خم (اقبال سید ابن طاوئوس ٤٦٦ )
حضرت امام رضا فرماتے ہیں قیامت میں چار دن فخر و مباہات کے ساتھ (جیسے دلہن شب زفاف میں اپنے شوہر کے گھر بن سنور کر جاتی ہے) خدا کے سامنے پیش ہونگے۔سوال کیا گیا وہ چار دن کون سے ہیں؟ حضرت نے فرمایا عید قربان ، عید فطر، روزجمعہ اور عید غدیر۔
غدیر ان تینوں دنوں میں ایسا نکھرا ہوا ہوگا جیسے ماہتاب ستاروں کے درمیان نکھرا ہوتا ہے (گاہنامہ محسنہ)
(غدیر ولایت و خلافت کی عیدہے)
روی زیاد بن محمد قال: دخلت علی ابی عبد اﷲ فقلت: للمسلمین عید غیر یوم الجمعہ والفطر والاضحی قال:نعم الیوم الذی نصب فیہ رسول ۖاﷲ امیر المومنین۔( مصباح المتہجدص ٧٣٦)
زیادابن محمد کہتا ہے کہ میں امام صادق کے حضور میں پہونچا اور پوچھا کیا عید قربان ، عید فطر اور جمعہ کے علاوہ مسلمانوں کی دوسری عید بھی ہے؟ فرمایا ہاں جس دن پیغمبر اکرم ۖ نے خلافت و ولایت کا منصب علی کے حوالے کیا وہ مسلمانوں کی سب سے بڑی عید ہے۔
(امت کی سب سے بڑی عید)
قال: رسول اللہ ۖ یوم الغدیرخم ا فضل اعیاد امّتی و ھو یوم الذی امرنی اللہ تعالی ذکرہ فیہ بنصب اخی علی بن طالب علماللامّتی ،یھتدون بہ من بعدی و ہو الیوم الذی اکمل اللہ فیہ الدین و اتمّ فیہ نعمةو رضی لھم اسلام دینا (امالی صدوق ص١٣٥ح٨))
رسول ۖخدا نے فرمایا :میری امت کی سب سے بڑی عید غدیر ہے ۔ روز غدیر وہ دن ہے کہ جسمیں اﷲ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے بھائی علی کو اپنی امت کا علمدار منتخب کروں تاکہ میرے بعد لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں ۔اس دن خالق کائنات نے میری امت پر نعمتوں کو نازل اور دین اسلام کو مکمل فرمایا۔
(خدا کی سب سے بڑی عید)
عن الصّادق قال:ہو عید اللہ الاکبر وما بعث اللہ نبیّا الّا و تعید فی ھذا الیوم و عرف حرمتہ و اسمہ فی السماء یوم العھد المعھودو فی الارض یوم المیثاق الماخوذو الجمع المشھود ''
امام صادق فرماتے ہیں غدیر کا دن خدا کے لئے سب سے بڑی عید ہے اﷲ نے کسی پیغمبر کو اس وقت تک خلق نہیں کیا جب تک کہ اس نے اس دن کو عید قرار نہ دیا ،اور اسکی معرفت نہ حاصل کر لی، آسمان پر اس دن کا نام( عھد و معھود) عھد و پیمان اور زمین پر (میثاق ماخوذ )پیمان محکم اور (جمع المشھود) روحوںکے حضور کا دن ہے۔( وسائل الشّیعہ ج٥،ص٢١٤ح١)
(غدیر تجدید بیعت کا دن ہے)
عن عمّار بن حریز قال:دخلت علی ابی عبد اللہ فی یوم الثامن عشر من ذی الحجہ فوجدتہ صائما فقال لی:ھذا یوم عظیم عظّم اللہ حرمتہ علی المومنین و اکمل جھم فیہ الدین و تمم علیھم نعمتہ و جدد لھم ما اخذ علیھم من العھد والمیثاق(مصباح المتھجد ٧٣٧)
عمار بن حریز کہتا ہے ١٨ ذی الحجہ کو میں امام صادق کے خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو روز ہ دار پایاامام نے مجھ سے فرمایا آج کا دن تاریخ انسانیت کا ایک عظیم دن ہے خدا نے اس دن کو بڑی عزت و عظمت سے نوازا ہے اور اسی دن مومنوں کا دین کامل کیا اور ان پر نعمتیں تمام کیں اسی دن عھد و پیمان ولایت کی تجدید ہوئی۔
(آسمانی عید)
قال الرضا حدثنی ابی عن ابیہ قال انّ یوم الغدیر فی السّماء اشھر منہ فی الارض''
امام رضا نے فرمایا میرے والد بزرگوار نے اپنے والد محترم سے سنا کہ انھوں نے فرمایا :آسمانوں پہ عید غدیر کا دن زمین سے زیادہ مشہور ہے۔ اس روایت سے واضح ہوتاہے کہ آسمانوں کی مخلوق ہم سے زیادہ غدیری جشن کا اہتمام کرتی ہے اور موقع کا لحاظ رکھتی ہے ۔
(بے مثال عید)
انّ ھذا یوم عظیم الشّان فیہ وقع الفرج ورفعت الدرج و وضحت الحجج و ہو یوم الایضاح والافصاح فی المقام الصراح و یوم کمال الدین و یوم العھد المعھود ''
حضرت امیر المومنین اس دن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ دن بہت عظیم الشان ہے اس دن گشادگی حاصل ہوئی اور جو بلند مقام کے قابل تھے انھیں مقام بلند اسی دن کے صدقے میں ملا اس دن خدا کی دلیلیں آشکار ہوئیں اور خدا کی جانب سے کہ آج کا دن دین کے کامل اور نعمتوں کے تمام ہونے کا ہے ۔(بحارالانوار ٩٧،١١٦)
روز غدیر خم اس لئے عظیم ہے کہ یہ پیغام خدا کے ابلاغ کا دن ہے اگر پیغمبر ۖ خدا اس دن پیغام الہی (ولایت علی ) کا ابلاغ نہ کرتے تورسالت نا تمام رہ جاتی جیسا کہ خود آیت کے لب و لہجہ سے پتا چلتا ہے ،یوں تو قرآن میں مادۂ بلغ تقریبا ً٥٢ بار استعمال ہو ہے لیکن مفردات قرآن (راغب)کے بقول لفظ بلّغ باب تفعیل سے صیغۂ امر صرف اسی آیت میں استعمال ہو اکہ جس سے اور زیادہ اس امر میں تاکید کا پتہ چلتا ہے یعنی خدا اپنے پیغمبر سے اصرار کر رہا میرے حبیب اگر یہ نہ پہونچایا تو گویا کچھ بھی نہ کیا ۔
(عید پر برکت)
عن الصادق واللہ لو عرف الناّس فضل ھذا الیوم بحقیقتہ لصافحتھم الملائکہ فی الیوم
عشر مرّات...وما اعطی اللہ لمن عرف ما لا یحصی بعدد
امام جعفر صادق فرماتے ہیں خدا کی قسم اگر لوگ عید غدیر کی فضیلتوں کو حقیقی طور پر درک کر لیتے تو حور و ملک ہر دن دس بار اس سے مصافحہ کرتے جس نے اس دن کو پہچانا خدا نے اس پر اپنی عطاؤں کا دھارا بہا دیا کہ جسکا کوئی شمار نہیں (مصباح المتھجد ٧٣٨)
(شہود و حضور کا دن)
حضرت علی فرماتے ہیں :یوم الشاھد والمشھو''د روز غدیر روز شاہد و مشہود ہے یہ وہ تعبیر ہے جوقرآن مجید نے قیامت کے لئے استعمال کیا ہے''والیوم الموعود وشاھد ومشھود'' قسم ہے وعدہ کئے گئے دن کی قسم ہے شاہد و مشہود کی قیامت کے بارے میں شاہد و مشہود کا معنی یہ ہے کہ شاھد پیغمبر اور مشھود قیامت ہے شاہدانسان اور اسکے اعمال مشہود ہیں شاہد ملائکہ اور مشہود قرآن ہے شاہد رسول ۖ اور مشہود علی ہیں اس تعبیر کا غدیر کے لئے استعمال سے یہی معنی ظاہر ہوتا ہے کہ رسول شاہداور علی مشہود ہیں پیغمبر ۖ نے علی کی ولایت کی شہادت اور تمام انسانوں اور فرشتوں نے اس مہم امر کی گواہی دی ،اور تاریخ نے بھی بڑے تان بان کے ساتھ گواہی دی کہ کچھ افراد نے علی کو منصب خلافت ملتے ہی مبارک دی (مصباح المتہجدص ٧٠٠
کفر ونفاق(دو رنگی)کے باہمی رابطے کی افشاگری کا دن
''وھو یوم تبیان العقود عن النفاق والجحود،''غدیر کفر و نفاق کے باہمی ارتباط کی افشا گری کا دن ہے یعنی کفار ومنافقین جو نابودیٔ اسلام کی خاطر ہمیشہ نئی نئی ترکیبیں تراشتے تھے روز غدیر اس راز کا پردہ فاش کرنے والا ثابت ہواا ور منافقین نا امید ہوگئے (مصباح المتہجدص ٧٠٠)
(شیطان کے درگاہ الھی سے مردود ہونے کا دن)
قال حضرت علی:''وھو یوم دحر الشیطان''حضرت علی نے فرمایا غدیر کا دن وہ دن ہے کہ جسمیںشیطان مردود بارگاہ پروردگارہوا''دحربھی دھر کے وزن پر ہے جسکا معنی ہے راندہ جانا''
غدیر کے دن دین کامل ہونے کی وجہ سے شیطان دو بارہ مردود الھی قرار پایاسب سے زیادہ تکمیل دین کا غم شیطان کو ہوا کیونکہ وہ چاہتا تھا دین ابتر ہی رہے اور ہمیشہ کفار و مشرکین کو فریب دیتا اور کہتا تھا گھبراؤ نہیں پیغمبر کے اس دنیا سے جانے کے بعد چین سے سانس لینا نصیب ہوگالیکن اعلان ولایت علی کے بعد اسکی ساری سازشیں نقش بر آب ہو گیئں (مصباح المتھجد٧٠٠))
ولیٔ نعمت علی ابن موسٰی الرضا فرماتے ہیں''انّہ یوم مرغمة الشیطان''(بحار الانوار ج٩٨ص٣٢٣)
بے شک روزغدیرشیطان کے زمین پر ناک رگڑنے کا دن ہے،سچ یہی ہےکہ ابلاغ ولایت نے اچھے اچھوں کا گلا گھونٹ دیا اور دلوں میں وسوسہ ڈالنے والے چاہے وہ انسانوں میں سے ہوں یا شیطانوں میں سے (یوسوس فی صدور الناس من الجنة والناس)
سب کا چہرا سیاہ کرکے دنیا کو پہچنوا دیا کہ انکو پہچان لو ان سے کبھی دھوکا نہ کھانا یہ انسانیت کے دشمن ہیں ۔
(روز قضاوت)
حضرت علی فرماتے ہیں ''ھذا یوم الفصل الذی کنتم تو عدون ''(مصباح المتھجد٧٠٠)
یہ جدائی کا دن ہے جس دن کا تمکو وعدہ دیا گیا تھا یہ تعبیر شاید اس لئے استعمال ہو ئی ہے کہ روز غدیر بھی حق و باطل کے درمیان تفریق کا دن ہے در حقیقت یہ تعبیر قیامت کے بارے میں ذکر کی گئی ہے ''ھذا یومکم الذی کنتم توعدون '' آج وہی دن ہے جسکا تمکو وعدہ دیا گیا تھا ''ھذا یوم الفصل الذی کنتم بہ تکذبون ''یہ جدائی کا وہ دن ہے کہ جسکی تم تکذیب کرتے تھے ۔
(اپنوں کی شناخت کا دن )
ھذا یوم النصوص علی اہل الخصوص''یہ وہ دن ہے جس دن واضح طور پر اپنے اور پرائے کی شناسائی ہوئی جس دن شجرۂ نسب کی پاگیزگی اور نجاست کا پردہ فاش ہوا،ولایت علی کامژدہ سنکرنجیب النسل افراد کی شاخوںمسکرائیں اورہرگل نےغدیری رنگ اپنایا اوراظہارخوشی میں ہرگل نے شاخوں سے گر کر سرمستان ولایت کیلئے زمین کو بستر گل بناکر استقبال کیا لیکن اس منظر کو دیکھ کر نیم اور بیل کی کڑوی شاخیں مر جھا گئیں ۔
(امن و سلامتی کا دن )
قال علی ''ھذا یوم الامن و الما مون ''یہ امن و امان کا دن ہے چونکہ اسلام کو غدیر سے پہلے کچھ خوف لا حق تھا جسے حبیب ۖ خدا نے بارہا آشکار بھی کیا ہے جیسا کہ حدیث ثقلین اور حجة الوداع کے خطبہ میں فرمایا: ''فانظرواکیف تخلفونی فی الثقلین''دیکھنا میرے بعد کس طرح سے قرآن و عترت سے لوگ منھ پھیر لیں گیں لیکن غدیر کے بعد یہ تمام خوف وخطر دور ہو گیا ''اللہ اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمةو رضی الرب برسالتی والولایةبعلی من بعدی''خدا سب سے بڑا ہے یقینا اللہ نے دین کو کامل کیا اور ہم پر نعمتیں تمام کیں،اور نبوت و رسالت محمد عربی اور ولایت امیر المومنین سے راضی و خشنود ہو ا۔( مصباح المتھجد ٧٠٠))
(خزانۂ خدا(ولایت )کا ظہور)
''ھذا یوم اظھار المصون من المکنون''یہ وہ دن ہے جس دن خدا کا پنھان خزانہ آشکار ہوا،
''المصون و المکنون''کی تعبیر واضح کرتی ہے کہ غدیر چند لمحوں کی تفکیر کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ زمین و زمان کی تخلیق سے پہلے یہ (ولایت)خزانٔہ الہی میں محفوظ تھا خدا نے اسے اپنے نبی پر نازل کیا اور خزانۂ الہی ہزاروں سالوں سے پنھا ن گوہر ولایت سے روز غدیر میں آشکار ہوا ۔
آفتاب ولایت کے چمکتے ہی کفر و شرک کی تاریکیوںنے نا امیدی کا لباس پہنا ، ظلم و جہالت کی تاریکی چھٹی ،روشنی نے کونے کونے پر بسیرا کیا ،ہر دل کو جلاء ملی ،تو ہر پاکیزہ قلب کو سکون ، پاک طینت کو آگہی کا سلیقہ ملا تو دین اسلام کو بھر پور جوانی۔
(ہدایت کا دن)
قال علی''ھذاا یوم الارشاد'' یہ دن روز ہدایت ہے(مصباح المتھجد ٧٠٠)
خدا وند عالم نے پیغمبر ۖکے وسیلے سےاس دن لوگوں کو مشعل ہدایت عطا کرکے گمراہیت کے دلدل سے نجات دی، اورولایت کے راہ مستقیم کو روشن کرکے منحرف ہونے سے بچا لیا۔
(پوشیدہ مقاصد کو برملا کرنے کا دن )
قال علی''ھذایوم ابدی خفایا الصدورومضمرات الا مور'(مصباح المتھجد ٣٦٧)'
یہ دن دلوں میں پوشیدہ اور نظر نہ آنے والے مقاصد کے نمایاںہونے کا دن ہے یعنی اس دن میں پوشیدہ چیزیںچاہے وہ امراض (حسد ،تکبر، احساس کمتری ،جاہ طلبی)کی صورت میں ہوںیا نیک افعال کی صورت میں جیسے غریبوںاور محتاجوں کی خبر گیری کرنا،یتیم اور بیواؤں کی احوال پرسی کرنا ،مزدوروں اور بے سر و سامان سے دلی ہمدردی کرنا سب ظاہر ہو گئے ۔
(خوشنودیٔ الہی کا دن)
قال امام الصادق ''و فیہ مرضاة الرحمن ''اس میں رضایت خدا ہے (بحارالانوار ج٩٨،٣٢٣
یعنی اس دن سے مربوط ہر عمل خیر رضایت خدا کا باعث ہے ،اور رضایت کا حصول ہی مقصد خلقت انسان ہے جو شخص بھی مرضی الہی کو اپنے اعمال کی زینت بنانا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ غدیر سے مربوط تمام اعمال و اذکار کا ورد کرے اور مقصد غدیر (ولایت)کو اپنے دل میں جگہ دے۔
غدیر وہ دن ہے جس دن خدا وند عالم نے جناب ابراہیم خلیل کو آتش نمرودی سے نجات دی (مسار الشیعہ ص٢٢،فیض العلام ص١٢٥،تقویم الشیعہ کے نقل کے مطابق )
اسی دن حضرت آدم صفی اللہ کی دعا باب اجابت سے ٹکرائی (مسار الشیعہ ص٢٢)
اسی دن خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ کو فرعون کے جادوگروں پر کامیابی عطا کی ۔
اسی دن حضرت موسیٰ نے اپنی امت کے حضور میں یوشع بن نون کو اپنا وصی بنایا ۔
اسی دن حضرت عیسیٰ نے شمعون کو اپنا جانشین بنایا ۔
روایتوں میں ملتا ہے کہ غدیر خم کے دن حکم جبرائیل سے کرامت الہی کی کرسی لگائی جاتی ہے اور تمام اہل آسمان جمع ہو کر پیغمبر اور آل پیغمبر ۖکی مدح و ثناء اور شیعیان علی کیلئے طلب مغفرت کرتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص اس دن کو اپنے لئے عید قرار دے تو خدا اس پر آتش دوزخ کو حرام کر دیتا ہے۔
غدیر کے دن خدا وندعالم شیعوں کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے اور انکے نامۂ اعمال میں ہزاروں نیکیوں کا اضافہ کرتا ہے ۔
غدیر کا دن مومنین کے سرور کا دن ہے امام الصادق فرماتے ہیں ''انہ یوم السرور''(الغدیر،ج١ص٢٨٦)اور امام رضا فرماتے ہیں ''و ہو یوم التبسم (المراقبات ص٢٥٧)
اس دن جو کوئی اپنے برادر مومن کے دل کو خوش کرے تو خدا وندے عالم روز قیامت اس پر نظر رحمت فرما ٰئیگا اور اس کی ہزار حاجتوں کو بر لائیگا اور اس کیلئے مروارید خالص سے جنت میں ایک گھر آمادہ کرے گا اوراسکے چہرے کو شادابی عطاکریگا ۔
روز غدیر اگر کوئی شخص اپنے بدن کو زینت دے تو خدائے لم یزل اس کے تمام گناہ کبیرہ اور صغیرہ کو بخش دیتا ہے اور فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ مسلسل اس کے لئے نیکیاں لکھتے رہیں اگر ایسا شخص مرجائے تو شھید ہوتا ہے اور اگر زندہ رہے تو ہمیشہ کامیابی اور سرفرازی اسکے قدم چومتی رہے گی
اس دن اگر کوئی شخص کسی برادر مومن سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کرے تو خالق کائنات اسکی قبر میں ستر نور قرار دیگااور اسکی قبر کو وسیع و عریض کردیگا ،اور ہر دن ستر ہزار ملک اسکی زیارت کو آئینگے اور اسے بہشت عدن کی بشارت دی جائیگی (سی ڈی زلال غدیر سخنرانیٔ ایة اللہ سید صادق حسینی شیرازی )
روز غدیر خالق حقیقی نے ولایت کو ساتوں آسمانوں کے سامنے پیش کیا توساتویں آسمان پر رہنے والوں نے سب سے پہلے نعمت ولایت کو قبول کیا ،اللہ نے اسکے تحفہ میں اسے عرش سے زینت بخشی ،پھر چوتھے آسمان پر رہنے والوں نے قبول کیا خدا نے اسے بیت المعمور سے تز یین کیا ، پھر اہل آسمان دنیا نے ولایت کو قبول کرنے میں پیش قدمی کی تو خدا نے اسے ستاروں سے سجا دیا ،پھر خدا وندے عالم نے زمین کے حضور میں پیش کیا تو مکہ کی زمین سب سے پہلے اقرار ولایت پر لبیک کہی تو اللہ نے اسے اپنا حرم اور جائے امن قرارا دیا ، پھر مدینہ کی زمین نے ولایت کو قبول کیا تو خدا نے اسے اپنے حبیب کے وجود سے نورا نی کیا ،مدینہ تھا مدینہ منورہ ہو گیا ،اسکے بعد زمین کوفہ نے ولایت کا کلمہ پڑھا تو خدا نے اسے نور علی سے رونق بخشی ،اور جب اس ولایت عظمی کو پہاڑوں کے سامنے پیش کیا گیا تو سب سے پہلے کوہ عقیق ،یاقوت ، اور فیروزہ نے ولایت قبول کی تو خدا نے انہیں لائق احترام اورقابل زینت قرار دیا ،اور ان کے علاوہ جب دیگر پہاڑوں نے اقرار ولایت کیا تو خدا نے انہیں سونے اور چا ندی کا خزانہ بنایا،(خلاصہ یہ ہے کہ جو بھی چراغ ولایت کے گرد پروانوں کی طرح گھومتا رہا ہمیشہ کفر و نفاق اور شرک کی ظلمتوں سے محفوظ رہا ،اسکے بر عکس جس نے ولایت کو ٹھکرایا وہ زمانے کی ٹھوکرکھاتا رہا اور بحر ہلاکت میں غرق ہو گیا )جس پانی نے قبول کیا وہ سرد اور شیرین ہو گیا اور جس پانی نے کنارہ کشی کی وہ تلخ اور نمکین ہو گیا ، جن پرندوں نے جام ولایت حیدری کو نوش کیا وہ خوش آواز اور خوش صدا ہو گئے ،اور جنہوں نے انکار کیا وہ دیکھنے کے قابل بھی نہ رہے ۔
اسی طرح انسانوں میں جس نے ولایت امیر المومنین کا اقرار کیا وہ ملک مقرب کی مانند مقرب بارگاہ الہی اور نجات کا مستحق ہو گیا ،اور جس نے انکار کیا وہ ابلیس کی طرح مردو د بارگاہ الہی قرار پایا ،اور تا ابد یاس و نا امیدی ، مایوسی و بد حالی ، غربت و فقر ،اس کا مقدر بنی رہی ۔
ولایت علی ٹھکرانے والے دربدر کی ٹھو کریں کھا کے ذلت و رسوائی کا مجسمہ بن گئے ،اور اتنے نجس اور بد بو دار ہو گئے کہ زمین بھی انہیں اپنے دامن میں لینا گوارہ نہیں کرتی ۔
امام محمد باقر فرماتے ہیں جو معرفت خد ااوراسلام کو ولایت علی کے بغیر حاصل کرنا چاہتا ہے'' فلیشرق والیغرب''اگر مشرق اور مغرب کے چپہ چپہ کی خاک چھان ڈالے پھر بھی وہ اپنے مقصد کو نہیں پا سکتا ہر منکر غدیر سے صرف یہی مودبانہ التماس ہے کہ
ابھی بھی وقت ہے مولائیوں میں آ جاو ٔ
کہ پھر حیات نے موقع دیا دیا نہ دیا
خدایا ہمارے دلوں کو ولایت امیر المومنین سے مملو فرما۔
خدایا پاسبان غدیر اور منتقم خون حسینی کا جلد از جلد ظہور فرما تاکہ وہ آکر کعبہ پر جشن غدیری کا انعقاد کریں اور ہم اپنے خون دل کو ردیف قافیہ کی شکل میں سجا کر منظوم نذرانہ ٔعقیدت پیش کر یں،اور برسوں سے ترسی نگاہیں غدیری دولھا کے دیدار سے سر شار ہوں
عاشورہ کی حفاظت کریں تاکہ غدیر جاویدان رہے۔
غدیر یعنی دین اسلام کی ادیان دیگر پر کا میا بی (لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون) یہی وجہ ہے کہ آج استعماری طاقتیں اس پرچم سبز (غدیر)اور سیاہ(کربلا و عزاداری )کو مٹانے کے در پے ہیں مگر جتنا ہی باطل طاقتوں نے اسکو مٹانے پر دولت و جاگیر صرف کی اتنا ہی ائمہ معصومین اور سر مستا ن ولا یت نے میثم و سلما ن کے صو رت میں قر با نیا ں پیش کیں۔
با دشا ہو ں کے خزا نے خا لی ہو گئے ،علما ء کو ذلت و رسو ائی کا سا منا کر نا پڑا کتابیں نذر آتش ہو گیئں مگر غدیر ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ کل مٹ سکی ہے اور نہ آئندہ مٹ سکے گی کیو نکہ اس کا محا فظ آج بھی پردئہ غیب میں رہ کر اس کی حفاظت کر رہا ہے ۔
Add new comment