دین اور غدیر

دین متعدد معنی میں استعمال ہوا ہے بطور مثال جزائ، پاداش اور اطاعت کے معنی میںبھی آیا ہے۔ چنانچہ اسلامی تعلیمات اخلاقیات اور اعتقادات کے مجموعہ کا نام دین ہے جو پروردگار عالم کی طرف سے رسول اکرم ۖ کو ابلاغ ہوا ہے قرآن مجید میں دین درج ذیل معانی میں دین است

 پاداش اور جزاء ،سورہ فاتحہ میں ارشاد ہوتا ہے:(مَالِکِ ےَوْمِ الدِّےْنِ) (١)مالک روز جزائ،

سورہ بینہ کی آیت نمبر پانچ میں ارشاد ہوتاہے: (وَ مَا اُمِرُوْ اِلَّا لِےَعْبُدُوْا للّٰہَ مُخْلِصِےْنَ لَہ الدِّےْن(٢)اور انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ خدا کی عبادت کریں اوراس عبادت کو اس کیلئے خالص رکھیں۔ نماز قائم کریں زکوٰة ادا کریں اور یہی سچا اور مستحکم دین ہے'' اہل کتاب اور مشرکین دونوں پیغمبر اکرم ۖ کی آمد کے منتظرتھے اور ان پر ایمان لانے کے لئے آمادگی کا اظہار کر رہے تھے لیکن جونہی آپ نے پیغام الہی کو پیش کیا، انہیں باطل سے اعراض کرنے اور حق

..............

١: فاتحة الکتاب ٣

٢:بیّنة ،٥

کی عباد ت کرنے کا حکم دیا اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ شرک کی روش چھوڑ کر اخلاص عبادت سے کام لیں اور اخلاص بھی فقط دل و دماغ کے اندر نہ رہ جائے بلکہ عملی طور پر بھی سامنے آئے، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں یعنی اللہ کے حق کا بھی خیال رکھیں، اور بندگان خدا کے حقوق بھی ادا کریںکیونکہ بہترین خلائق بننے کے لئے یہ دونوں لازم ہیں او رتنہا ایمان کافی نہیں ہے بلکہ عمل صالح بھی ضروری ہے۔ اسی طرح سورہ نساء آیت نمبر ١٢٥ میں ارشاد ہوتا ہے:

(وَ مَنْ اَحْسَنُ دِےْناً مِمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ اِلٰی اللّٰہِ وَ ہُوَ مُحْسِن)'' اور اس سے اچھا دین دار کون ہوسکتا ہے جو اپنا رخ خدا کی طرف رکھے اور نیک کام اورنیک کردار بھی رکھتا ہو۔

اسلام دین ِایمان بھی ہے دینِ عمل بھی ۔اس نے قومیت یا جماعت کی بنیاد پر نجات کا پیغام نہیں دیا جیسا کہ اہل کتاب کا خیال تھا کہ صرف یہودی اور عیسائی ہی جنت میں جا سکتے ہیں یا پھر بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ مسلمان جہنم میں نہیں جا سکتے، دین اسلام کا کھلا اعلان ہے کہ برائی کروگے تو اس کی سزا بھی برداشت کرنا پڑے گی، اور نیک عمل کروگے تو اس کاانعام بھی ملے گا۔ اس طرز فکر کو بہترین دین سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ایمان کی شرط لگائی ہے اور اس کے بعد اسلا م و تسلیم کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ حسن عمل و کردار کی شرط لگائی ہے جس سے اس امر کی مکمل وضاحت ہو جاتی ہے کہ، نہ ایمان عمل کے بغیر کارآمد ہو سکتا ہے او ر نہ عمل ایمان کے بغیر۔

مولائے کائنات نے اسی نکتہ کو نہایت حسین الفاظ میں واضح فرمایا ہے: بِالْاِےْمَانِ ےُسْتَدَلُّ عَلَی الصّٰلِحَاتِ وَ بِالصّٰالِحَاتِ ےُسْتَدَلُّ عَلٰی الْاِےْمَانِ (١) ایمان سے نیک اعمال کی طرف رہنمائی ہوتی ہے اور نیک اعمال سے ایمان کا پتہ ملتا ہے'' بعض مفسرین نے دین سے مراد

..............

١: شرح ابن ابی الحدید ص٢٠١

طاعت کو قرار دیا ہے۔ کلی طور پر اسلامی تعلیمات کے اخلاقی واعتقادی پہلو کی طرف اس آیت کریمہ نے اشارہ کیا ہے اِنَّ الدِّےْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الاِسْلَام(١)دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔

یہ دلیل کہ اصل دین اطاعت الہی ہے اور اس کا پیغام سارے انبیأ کرام نے دیا ہے لہذا سب کا دین اسلام ہے۔ وَ مَنْ ےَّبْتَغِ غَےْرَ الْاِسْلَامِ دِےْناً فَلَنْ ےُّقْبَلَ مِنْہُ(٢)اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا تو وہ دین اس سے قبول نہیں کیا جائے گا ۔

ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْہُدٰی وَ دِےْنِ الْحَقِّ لِےُظْہِرَہ عَلٰی الدِّےْنِ کُلِّہ(٣) خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاتا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے ۔سورہ کافرون میں ارشاد ہوا: لَکُمْ دِےْنُکُمْ وَلِیَ دِےْن (٤)تمہارے لئے تمہارا دین ہمارے لئے ہمارا دین ،پھر سورہ شوریٰ میںا رشاد ہوا شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّےْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحاً وَّ الَّذِیْ اَوْحَےْنَا اِلَےْکَ وَ مَا وَصَّےْنَا بِہ اِبْرَاہےْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِےْسٰی اَنْ اَقِےْمُوْا الدِّےْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِےْہِ(٥)

''اس نے تمھارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جو وحی پیغمبر ۖ آپ کی طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم و موسی و عیسی کو کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ پیدانہ ہونے پائے۔

دین اس آخری منزل کا نام ہے جس تک ہر انسان کو پہنچنا ہے اس کے بعد اس منزل تک پہنچنے کے لئے مختلف راستے مقرر کئے گئے ہیں جنہیں شریعت سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جن کی مجموعی تعداد پانچ ہے،شریعت نوح ،شریعت ابراہیم ، شریعت موسی ،

..............

١:آل عمران ١٩

٢:آل عمران ٨٥

٣:توبہ ٣٣

٤:کافرون ٦

٥:شوری ١٣

شریعت عیسی ، شریعت محمد ۖ۔ان قوانین کے باہمی اختلاف کا فلسفہ یہ ہے کہ حالات زمانہ کے تغیر اور ارتقأ کے ساتھ جزئی طور پر قوانین کی تبدیلی ناگزیرہے ورنہ قانون جامد اور بے جان ہو کر رہ جائے گا اور مختلف ادوار حیات میں کارآمد نہ رہ سکے گاجس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ شریعت ایک گھاٹ کا نام ہے جو دریا کے مدو جزر اور اتار چڑھاؤ کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ورنہ دین کے بنیادی اصولوں میں نہ توحید میں کوئی فرق آسکتا ہے اور نہ قیامت میں ، صرف نبوت ہے جس کی تعدا دمیں حضرت آدم سے مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے اور اسی اضافہ کی بنیاد حالات زمانہ کے تحت جزئی قوانین میں تغیر و تبدل رہا ہے۔ دور نوح کی شریعت اور تھی دور مرسل اعظمۖ کا قانون اور ہے۔ مقصد کے اعتبار سے سب متحدہیں لیکن طریقہ کار کے اعتبار سے اختلاف و تغیر ناگزیز ہے۔ اب یہ ایک مصلحت الہی ہے کہ اس نے چار شریعتوں کو وصیت و نصیحت سے تعبیر کیا ہے اور ایک کو وحی قرار دیا ہے جس سے انبیاء کے مراتب پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ قرآن مجید کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصل یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ خاتم المرسلین اور خاتم الانبیاء ہیں اس ضمن میں بہت سی قرآنی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ :وَ مَا کَانَ مُحَمَّد اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْل اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِےِّےْنَ(١)،محمد ۖ تم میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ یہ وہ اہم ترین آیت کریمہ ہے جو رسول اللہۖ کے خاتم الانبیاء ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ خاتم الانبیاء میں خاتم کو فتحہ کے ساتھ بھی پڑھاجاتا ہے اور کسرہ کے ساتھ بھی،اور یہ قرائت کا سلسلہ عاصم کوفی سے حضرت علی تک جا پہنچتا ہے، جو ''ت'' کو کسرہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اس کے معنی خاتمہ دینے والے کے ہیں آخر تک پہنچانے

..............

١: سورہ احزاب آیہ ٠ ٤

والے، گویا انبیاء کی ایک صف ہے اور اسی صف کے آخر میں حضرت محمد ختمی المرتبت ۖ ہیں اس معنی کے حوالے سے دیکھا جائے تو شرافت و عظمت و ہدایت رسول اکرم ۖ پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ تنہا صرف اس معنی کو پہنچاتا ہے کہ آپ ۖ کے بعد کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوگا ۔

دوسری طرف سے خاتم فتحہ تاء کے ساتھ دوسرے معنی میں آیا ہے یعنی موضوع رسالت اور نبوت کو ایک خط سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ خط کے آخر میں مہر اور لکھنے والے کادستخط ہوتا ہے اور یہ مہر اور دستخط، شخص کو معین کرتاہے کہ لکھنے والا کون ہے اور یہ خط تمام ہونے کی علامت بھی ہے یعنی لکھنے والا جو کچھ لکھنا چاہتا تھا لکھ چکاہے، باقی اس کے بعد کچھ لکھنا نہیں چاہتا ہے، پس پیغمبر اکرم ۖ اگر خاتم الانبیاء ہیں تو ان کا دین بھی کامل و اکمل ہونا چاہئے لیکن اکمال دین کس چیز میں ہے؟ با الفاظ دیگر دین کا کامل ہونا، کیونکہ یہ دین حضرت محمد ۖ کے ذریعہ کامل ہوا ہے۔ پس دین کے کامل ہونے کے حوالے سے ضروری ہے اس کے بنیادی اصولوں پر بحث و تحقیق ہونی چاہئے ۔پس دین کے تین بنیادی محور ہوتے ہیں۔

١)خداوند عالم کی طرف سے وحی نازل ہونا اور اس دین کے قانون اور دستور العمل کا بیان ہونا۔

٢)اس دین کے قانون کی تفسیر وتبین ہونا اور اس کی حفاظت کا انتظام ہونا۔

(٣) اس دین کے قانون کو معاشرہ میں نافذ کرنا اور اجرا کرنا۔

پہلے مرحلے میں دین مبین اسلام مکمل طور پر پیغمبر اسلام ۖ کی زندگی میںانجام پذیر ہوا اور اس کے قانون پیغمبر اکرم ۖ کے ٢٣ سالہ زندگی میں اجرأ کے دور سے گزارا، اور اسلامی معاشر ہ میں نافذ ہوا ۔ خداوند عالم نے اپنے پیارے نبی سے فرمایا: (وَ مَا ےَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی(١) کہ وحی کے بغیر لوگو ںکو کچھ بھی نہیں بتاتا، لہذا پیغمبر اکرم ۖ نے اس پر عمل کیا اور آپ نے وحی کے بغیر کوئی بات نہیں کی۔

..............

١:سورہ نجم آیہ ٣

پیغمبر اسلام ۖ نے وحی کولوگوں تک پہنچایا (ہمارے رسول وحی اورعلم الغیب کے حوالے سے کام نہیں لیتے ہیں) لہذا وہ چیز جو قیامت تک ضروری اور لازم تھی، وحی کی صورت میں بیان اور نازل ہوئی ہے ہم نے اس میں کوئی چیز باقی نہیں رکھی ہے۔

(وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا ےٰابِسٍ اِلَّا فی کِتَابٍ مُّبِےْنٍ(١) لیکن وہ دین جو خدا کی طرف سے نبی اکرم ۖ کے ذریعہ نازل ہوا ہے اس کی ہر زمانہ میں تفسیر و تبیین اور اس کے اجراء و نفاذ اور حفاظت کی ضرورت ہے تا کہ دشمنوں اور منافقوں کے شر سے محفوظ رہے۔ لہذا پیغمبر اسلام ۖ کے زمانہ میں خود رسول خدا ۖ حافظ دین ہیں اگر دین کی حفاظت نہ ہو تو دین محفوظ نہیں رہے گا۔ اور دین خدا کو دشمنان اسلام اپنی خواہشات کے مطابق بیان اور استعمال کریں گے اسلام کے حقیقی چہرہ کو مسخ اور مٹا دیں گے جوحشر دین موسٰی اور دین مسیح کا ہوا وہی حشر اسلام کا ہوگا۔اس صورت میں دین دین کامل نہیں رہے گا۔

ہر قانون کی اہمیت اس کے اجراء اور نفاذ میں مضمر ہے۔ اگر کسی قانون اور دستور پر عمل نہ ہوا تو اس کی کوئی قدر وقیمت اور اہمیت نہیں رہتی۔ وحی الٰہی جو قانون کی شکل میں نازل ہوئی ہے اس کی اہمیت اس وقت واضح ہوگی جب وہ اجراء اور نفاذ کے مرحلے سے گزرے ۔

قرآن مجید وہ دستور العمل ہے جو انسانی فطرت سے ہم آھنگ ہے اور یہ دستور العمل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے تاکہ اس کا اجراء اور نفاذ ہوجائے لہٰذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٢٣ سالہ مدت میں اس کو اجراء اور نفاذ کرکے دکھایا پس پیغمبر اکرم ۖ اس دین کے مجری اور لوگوں کے ولی ہیں ۔ان تمام مطالب میں غوروفکر کرنے کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ دین کا کمال ان تینوں محور پر عمل اور اس کی تکمیل پر منحصر ہے اور ان میں سے کسی ایک

..............

١: سورہ انعام آیة ٥٩

کی کمی وزیادتی دین کے ناقص ہونے کی علامت سمجھی جائے گی زمان پیغمبر اکرم ۖ میں خود ذات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عہدہ کو بڑے اچھے طریقے سے انجام دیا اور دین کی ذمہ داری خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکمل طور پر تمام معنیٰ میں دین کو پہنچایا اوراجراء اور نفاذ کے مرحلے سے گزارا نیز دین کی حفاظت کا مکمل انتظام بھی کیا ۔

رسول اکرمۖ مقام تزولی قرآن ، مقام تفسیر وتبیین اور اجراء ونفاذ کے حوالے سے محافظ دین ہیں۔لیکن یہ دین کیا صرف حیات پیغمبر اکرمۖ ہی تک محدود ہے یا پیغمبر اکرمۖ کے بعدبھی جاری وساری رہناہے؟ اگر دین کا کامل وکمال صرف زمان پیغمبر ہی تک محدود ہے تو پھر اسلام کا یہ دعویٰ کہ وہ عالمگیر مذھب اور دین ہے اسکے کیا معنی ٰہیں ؟ خود قرآن کہتا ہے کہ لِیُظْہِرَہ عِلٰی الدِّیْنِ کُلِّہ ، پس جب پیغمبر اکرم ۖکا خاتم الانبیاء ہونا ثابت ہے تو پھر دین اسلام کا بھی عالمی دین ہونا صحیح ہے اس صورت میں دین اور آئین اسلام مذکورہ تینوں محور زمان پیغمبر اکرمۖ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پیغمبر اکرمۖ کی رحلت سے لیکر روز قیامت تک دونوں محور یعنی تفسیر وتبیین قرآن اور اس کی حفاظت ایک طرف قانون اسلام وشریعت کا اجراء تودوسری طرف اگرا ن میں سے کسی ایک میں بھی کوئی خلل ونقص پیدا ہوجائے تو دین کے مکمل ہونے پر اعتراض وارد ہوتا ہے۔ اس صورت میں دین کامل نہیں رہے گا اسی لئے قرآن مجید میں مسئلہ امامت وولایت کو پیش کیا ہے۔

اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً(١)

پس مسئلہ جانشینی پیغمبر اکرمۖ ایک مکمل سلسلہ کا نام ہے نہ کہ کوئی شخصی مسئلہ بناء بر این مسئلہ یہ نہیں

..............

(١) مائدہ ٣

ہے کہ فقط ذات امیر المؤمنین مطرح ہو اوران کا تعارف ہوجائے ۔ اگر ایسا ہو تو پھر وہی اشکال اور اعتراض وارد ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وارد کرتا ہے۔ لہٰذا مسئلہ غدیرخم ایک ایسے تسلسل کا نام ہے جو آدم سے ہوتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر امیرا لمؤمنین علی علیہ السلام سے لیکر امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف پر جاکر اختتام پذیر ہوتا ہے لہٰذا جھگڑا امام پر نہیں بلکہ امامت پر ہے جس کے ذریعے دین کامل ہوتاہے۔ اگر دین اسلام ابدی دین ہے تو یہ ایک ایسے تسلسل کا نام ہے جس میںنبوت کے ساتھ ساتھ امامت بھی شامل ہے جو دین کے مکمل ہونے کی ضمانت ہے ۔

شیعوں کے اہم اعتقادات میں سے ایک ذات مبارک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں جو کائنات کے افضل واکرم انسان ہیں۔ جن میں سے ایک کو خداوند عالم نے مصطفی اور دوسرے کو مرتضیٰ بنایا ہے۔

یہ دونوں ہستیاں مرور زمان کے ساتھ ساتھ اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں اور حملوں کا نشانہ بنتے رہے۔ ان دشمنان خداودین کی پوری کوشش یہ رہی کہ اسلام کے مقدس نظام کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے خدشہ دار کریں اور اس طرح دین کے جڑوں کو نابود کردیں۔

ان باطل طاقتوں کے دسیسہ کاریوں اور حملوں سے دین کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک ایسا سسٹم اور نظام خداوند عالم نے بنایا ہے جسے امامت وولایت کہاجاتا ہے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس دن رسالت کا اعلان کیا اسی دن امامت وولایت کا اعلان بھی کردیاتھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تئیس (٢٣)سالہ دور رسالت میں ہر حساس موقع پر امامت کا تعارف کرایا۔ ان میں سے ایک دعوت ذوالعشیرة ہے جسمیں اعلان رسالت کے ساتھ ساتھ اعلان وصایت وامامت بھی فرمایا: اِنَّ ھٰذٰا اَخِیْ وَوَصِیّی وَخَلِیْفَتی یہ اعلان حضرت علی علیہ السلام کے خلیفہ بلافصل ہونے کی بیّن دلیل ہے ۔ دین کی حاکمیت اور حکومت کے لئے ولایت وامامت ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہیں جو تمام زمانوں سے مربوط ہیں۔

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّم: یَوْمُ غَدِیْر خُمْ اَفْضَلُ اَعْیٰادِ اُمَّتی..........، غدیر کا دن میری امت کے لئے ایک عظیم عید ہے (١)۔ اسی دن خداوند عالم نے مجھے حکم دیا کہ بھائی علی کو امت کی رہنمائی اور ہدایت کے لئے منصوب کریں تاکہ میرے بعد ہدایت کاتسلسل علی کے ذریعہ جاری وساری رہے یہ وہ دن ہے جسمیں خداوند رب ّ العزّت نے دین کو کامل کیا اور نعمت کو میری امت پر تما م کردیا اور دین اسلام کوا ن کے لئے بہترین دین قرار دے دیا۔

اَلْیَوْم اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً

ترجمہ:آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ قراردیاہے۔(٢)

مسلمانوں کے درمیان ایک حساس ترین اور اہم ترین مسئلہ اتحاد اسلامی کا مسئلہ ہے ۔ دوسری طرف پوری تاریخ اسلام مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں بٹنے اور مختلف نظریات کے حامل ہونے کی اصل یہی مسئلہ امامت وخلافت رہی ہے یہی مسئلہ ہے جس کے لئے ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئیں اور لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا ۔ بقول محمد بن عبدالکریم شہرستانی جو علم الکلام اور

..............

١۔ الغدیر جلد ١ صفحہ ٢٨٣

٢۔سورہ مائدہ آیة ٣

تاریخ اسلام کے بڑے ماہر ہیں '' مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ مسئلہ امامت ہے''۔

امامت وخلافت کے معنیٰ یہ ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت میں دین ودنیا کے امور کو امت اسلامی کے درمیان بیان کریں اور نافذ کریں یہ وہ تعریف ہے جو تمام فرق اسلامی کے نزدیک قابل قبول ہے لیکن بعض فِرَق اسلامی کے نزدیک امامت وخلافت سے مراد یہ ہے کہ: اسلامی حکومت کونافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ظاہری عدالت کی بھی رعایت کریں اور امت کو خارجی اور داخلی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھیں ، جبکہ واقع ایسا نہیں ہے بلکہ امامت وخلافت ایک ایسا رکن اصلی ہے جس پر باقی تمام فروعات مبتنی ہیں۔ اسلام میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جتنا مقام حاصل ہے اتنا ہی امام وخلیفہ کو بھی حاصل ہے۔جسکا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں۔یعنی دینی امور کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر واحکام کو بھی پہنچاننانیز انسانیت اور امت محمدی کی ہدایت معنوی کو ادامہ دینا۔ پس جو طریقہ کار پیغمبر کا ہوتاہے وہی امامت کا بھی ہے۔ لہٰذا جو عصمت وطہارت اور افضلیت واعلمیت کاتصور پیغمبر کے لئے ہے وہی امامت کے لئے بھی ہے۔ ایسے میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صرف حکومت وسیاست تک امامت کو محدود کیا جائے پس یہ نظریہ باطل اور ہیچ ہے۔

Add new comment