بارویں معصوم اور دسویں امام کی مشخصات، حضرت امام ہادی علیہ السلام

امام محمد تقی علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ہوا تو آپ علیہ السلام کو اپنی گود میں بیٹھاکر فرمایا: عراق کی خوبصورت چیزوں میں سے کیا آپ ...

اسم گرامی : علی (علیہ السلام)

لقب : ھادی ، نقی

کنیت : ابو الحسن

والد کا نام : محمد

والدہ کا نام : سمّانہ ( مغرب کی رہنے والی تھیں )

تاریخ ولادت : ۱۵/ ذی الحجہ ۲۱۲ھء

جائے ولادت : مدینہ منورہ

مدت امامت : ۳۳/ سال

عمر : ۴۲/ سال

تاریخ شھادت : ۳/ رجب ۲۵۴ھء

شھادت کی وجہ : (معتز ) یا (معتمد ) نے زہر دے کر آپ کو شھید کیا

روضہ اقدس : عراق ( سامرا )

اولاد کی تعداد : ۴/ بیٹے اور۱/ بیٹی

زندگی: آپ کے زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

تقریبا ۸ سال امامت سے پہلے(ذیحجّہ سن 212 سے  220 ھ.ق)

امامت کا دور متوکل سے پہلے12 سال کا دور (سن 220 سے 232 ھ.ق)

امامت کا دور سخت ترین حالات میں متوکل کے اور اس کے بعد والے خلفاؤں جن میں منتصر، المستعین و المعتزّ شامل تھے کا  ۱۵ سالہ  دور خلافت۔

آپ کی والدہ گرامی کا نام سمانہ تھا، جو سیدہ اور ام الفضل کے نام سےمعروف تھی

امام جواد علیہ السلام خود انہی کے تربیت اور خلاق کے عہدار تھے اور انہوں نے ایک ایسے گھر میں زندگی بسر کی کہ جہاں آل علی کی خواتین ان کے ساتھ تھیں، اور آپ نے ہدایت ، عمل اور سلوک میں انہیں کی تحت تاثیر رہیں، اسی لئے، آپ اللہ تعالی کی کثرت سے عبادت کرتیں اور عابد، متہجد اور قاریان قرآن میں شمار ہوتی تھیں۔

ولادت

بہت سے مورخین نے حضرت امام علی بن محمد النقی الہادی علیہ السلام کی تاریخ ولادت  15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری، نقل کیا ہے لیکن بعض نے منگل کے دن ۱۵ اور ۲۷ ذوالحجہ، دوسرے گروہ نے ۲۳ اور کسی نے ۵ رجب کو نقل کیا ہے، لیکن قول اول زیادہ صحیح ہے، جو کہ بعض دعاؤں میں بھی آیا ہے: "اللَّهمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِالْمَوْلُودَینِ فِی رَجَب مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی الثَّانِی وَ ابْنِهِ عَلِی بْنِ مُحَمَّد الْمُنْتَجَبِ..."

جب آپ مدینہ منورہ کے ایک گاؤں صریا میں پیدا ہوئے آپ (علیہ السلام) کا نام "علی" رکھا گیا اور کنیت ابوالحسن،  اور آپ (علیہ السلام) کے مشہور ترین القاب "النقی اور الہادی" ہیں-  اور آپ (علیہ السلام) و ابوالحسن ثالث اور فقیہ العسکری بھی کہا جاتا ہے-  جبکہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) اور امام رضا (علیہ السلام) ابوالحسن الاول اور ابوالحسن الثانی کہلاتے ہیں-

امام علیہ السلام کے القاب

امام علیہ السلام کے مختلف القاب ذکر کئے گئے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

ناصح: کیونکہ آپ خیر خواہ تھے،

تقی: کیونکہ آپ امت کے متقی ترین افراد میں سے تھے۔

فقیہ: کیونکہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہ تھے۔

عسکری: کیونکہ شہر سامرا میں زندگی گزاری جو کہ ایک فوجی چاؤنی تھی۔

شہید: کیونکہ دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

وفی: کیونکہ لوگوں میں سب سے  باوفا ترین  شخص تھے۔

خالص: کیونکہ آپ کے عمل میں اخلاص نمایاں تھا۔

ہادی: آپ کا مشہور لقب ہے

نقی: آپ دو لقب سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں نقی اور ہادی ۔

امام علیہ السلام کا چہرہ

امام ہادی علیہ السلام اپنے جد امام رضا علیہ السلام اور اپنے والد امام جواد علیہ السلام کے مانند تھے چہرہ گندمی تھا، سیاہ اور بڑی آنکھیں تھی، قوی کاندھوں کےمالک تھے آپ کے دانتوں میں فاصلہ تھا، اور اپنے جد امام باقر علیہ السلام کی طرح نہ میانہ قد اور نہ ہی بلند قد تھے ۔

آپ علیہ السلام نے صرف چھ برس اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ ہی زندگی بسر کی-اس کے بعد اس کمسنی ہی کے عالم میں آپ اپنے والد بزرگوار سے جدا ہو گئے- امام محمد تقی علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ہوا تو آپ علیہ السلام کو اپنی گود میں بیٹھاکر فرمایا: عراق کی خوبصورت چیزوں میں سے کیا آپ کو پسند ہے؟ امام ہادی علیہ السلام نے مسکر اکر جواب دیا: شمشیر کہ جو آگ کا شعلہ ہو ۔۔۔ امام جواد نے اپنے دوسرے فرزند موسی سے بھی یہی سوال پوچھا تو موسی نے جواب دیا: گھر کے لئے قالین ۔۔۔ امام علیہ السلام نے امام جواد علیہ السلام کی طرف رخ کرکے فرمایا: ابوالحسن میری طرح ہیں ۔۔۔

امام علیہ السلام اپنے بیٹے کی اس پسند سے جو کہ شجاعت کی نشان تھی خوش ہوئے۔

امام علیہ السلام کا بچپن

حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کی وفات کے بعدامام علی نقی علیہ السلام جن کی اس وقت عمر ۷ ۔ ۶/ سال کی تھی مدینہ میں مرجع خلائق بن گئے تھے، یہ دیکھ کروہ لوگ جوآل محمدسے دلی دشمنی رکھتے تھے یہ سوچنے پرمجبورہوگئے کہ کسی طرح ان کی مرکزیت کوختم کیاجائے اورکوئی ایسامعلم ان کے ساتھ لگادیاجائے جوانہیں تعلیم بھی دے اوران کی اپنے اصول پرتربیت کرنے کے ساتھ ان کے پاس لوگوں کے پہونچنے کاسدباب کرے، یہ لوگ اسی خیال میں تھے کہ عمربن فرج رجحی فراغت حج کے بعدمدینہ پہنچا لوگوں نے اس سے عرض مدعاکی بالآخر حکومت کے دباؤسے ایساانتظام ہوگیا کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو تعلیم دینے کے لیے عراق کاسب سے بڑاعالم، ادیب عبیداللہ جنیدی معقول مشاہرہ پرلگایاگیا یہ جنیدی آل محمدکی دشمنی میں خاص شہرت رکھتاتھا۔

الغرض جنیدی کے پاس حکومت نے امام علی نقی علیہ السلام کورکھ دیااورجنیدی کوخاص طورپراس امرکی ہدایت کردی کہ ان کے پاس روافض نہ پہنچنے پائیں جنیدی نے آپ کوقصرصربامیں اپنے پاس رکھا ہوتایہ تھا کہ جب رات ہوتی تھی تودروازہ بندکردیاجاتاتھا اوردن میں بھی شیعوں کے ملنے کی اجازت نہ تھی اس طرح آپ کے ماننے والوں کی آمدکاسلسلہ منقطع ہوگیااورآپ کافیض جاری بندہوگیا لوگ آپ کی زیارت اورآپ سے استفادہ سے محروم ہوگئے ۔

راوی کابیان ہے کہ میں نے ایک دن جنیدی سے کہا غلام ہاشمی کاکیاحال ہے اس نے نہایت بری صورت بناکر کہا انہیں غلام ہاشمی نہ کہو، وہ رئیس ہاشمی ہیں ، خداکی قسم وہ اس کمسنی مین مجھ سے کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں سنو میں اپنی پوری کوشش کے بعد جب ادب کاکوئی باب ان کے سامنے پیش کرتاہوں تو وہ اس کے متعلق ایسے ابواب کھول دیتے ہیں کہ میں حیران رہ جاتاہوں ”یظن الناس اتی اعلمہ واناواللہ اتعلم مہ“ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں انہیں تعلیم دے رہاہوں لیکن خداکی قسم میں ان سے تعلیم حاصل کررہاہوں میرے بس میں یہ نہیں کہ میں انھیں پڑھا سکوں ”ہذاواللہ خیراہل الارض وافضل من بقاء اللہ“ خداکی قسم وہ حافظ قرآن ہی نہیں وہ اس کی تاویل وتنزیل کوبھی جانتے ہیں اورمختصر یہ ہے کہ وہ زمین پربسنے والوں میں سب سے بہتراورکائنات میں سب سے افضل ہیں

امامت

معتصم نے امام جواد(علیہ السلام) کو بغداد بلوایا تو آپ(علیہ السلام) نے اس بلاوے کو اپنی جان کے لئے خطرہ اور عباسی خلیفہ کی طرف سے دھمکی، قرار دیا چنانچہ آپ(علیہ السلام) نے امام ہادی علیہ السلام کو شیعیان اہل بیت کے درمیان اپنے جانشین کے طور پر متعارف کرایا. حتی کہ آپ(علیہ السلام) نے ایک نصِّ مکتوب بھی مدینہ میں چھوڑ دی تا کہ اس سلسلے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہ رہے۔

امام علیہ السلام کی ہیبت

محمد بن حسن اشتر علوی امام علی نقی علیہ السلام کی ہیبت کے بارے میں نقل کرتے ہیں: میں اپنے والد کے ہمراہ سامرا میں متوکل کے کاخ کے باہر ایک مجمع میں کھڑا تھا، جس میں عباسیان اور آل جعفر اور طالبعلم موجود تھے۔۔۔ اتنے میں ابو الحسن پہنچے، تو تمام افراد ان کے احترام میں اپنے گھوڑوں سے اتر گئے یہاں تک آپ علیہ السلام کاخ میں داخل ہوگئے، بعض افراد نے اعتراض کیا کہ کیوں ان کے احترام میں اپنے گھوڑوں سے اترتے ہو؟ وہ نہ ہم سے زیادہ شرافت رکھتا ہے اور نہ ہی ہم سے عمر میں بڑا ہےاللہ کی قسم جب وہ قصر سے باہر تشریف لائیں گے تو ہم اپنے مرکب سے نہیں اتریں گے۔۔۔

ابوہاشم جعفری نے ان کو مخاطب کیا اور کہا: اللہ کی قسم تم سب ان کے سامنے عاجزی اور احتراما اپنے گھوڑوں سے نیچے اترو گے۔

جس وقت امام علیہ السلام باہر تشریف لائے تکبیر کی صدا بلند ہوئی اور سب لوگ ایک ساتھ احترام میں اپنے گھوڑوں سے نیچے اترے، اس وقت ابو ہاشم نے ان لوگوں سے کہا: آیا تم لوگوں نے نہیں کہا تھا کہ ان کی احترام میں اپنے مرکب سے نیچے نہیں اترو گے؟

کہا گیا: اللہ کی قسم ہم بے اختیار اپنے سواریوں سے اترے۔

آپ علیہ السلام کا زہد

سبط احمد جوزی کا کہنا ہے : بیشک امام علی نقی دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نہیں رکھتے تھے ، آپ مسجد سے اس طرح وابستہ تھے جیسے اس کالازمہ ہوں ،جب آپ کے گھر کی تلاشی لی تو اس میں مصاحف ، دعائوں اور علمی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا ۔

مناجات امام علیہ السلام

امام علیہ السلام رات کے آخری حصے میں ایسے مناجات فرماتے تھے: "إِلهی مُسِیءٌ قَدْ وَرَدَ وَ فَقِیرٌ قَدْ قُصِدَ، لا تُخَیبْ مَسْعاهُ وَ ارْحَمْهُ وَ اغْفِرْ لَهُ و خَطاهُ".

اے اللہ! ایک گناہگار تیرے در پر آیا ہے اور ایک فقیر نے تجھے پکارا ہے، اس کی امید کو ناامید نہ کرنا اور اسے معاف کرنا اور اسکی خطاؤں سے درگزر کرنا۔

زیارت جامعہ کبیرہ

یہ زیارت نامہ شیعیان اہل بیت(علیہ السلام) کی درخواست پر امام ہادی(علیہ السلام) کی طرف سے صادر ہوا . زیارت نامے کے مضامین حقیقت میں آئمہ(علیہ السلام) کے بارے میں شیعہ عقائد، ائمۂ(علیہ السلام) کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہے. یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب فراہم کرتا ہے. زیارت جامعہ حقیقت میں عقیدۂ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی اور بلیغ توصیف ہے کیونکہ شیعہ کی نظر میں دین کا استمرار و تسلسل اسی عقیدے سے تمسک سے مشروط ہے.

انگشتریوں کے نقش

امام علی نقی ہادی علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:ایک الله  رَبّی وهو عِصمَتی مِن خَلقِه.  اور دوسرا  حِفْظُ الْعُهُودِ مِنْ‏ أَخْلَاقِ‏ الْمَعْبُود.اور اسی طرح نقل ہوا ہے کہ "مَنْ عَصی هَواهُ بَلَغَ مُناهُ". نقش تھا۔

امام علیہ السلام اور حاکمان وقت

امام ہادی علیہ السلام اپنی حیات طیبہ کے دوران کئی عباسی بادشاہوں کے معاصر رہے- جن کے نام یہ ہیں: معتصم عباسی، واثق عباسی، متوكل عباسی، منتصر عباسی، مستعین عباسی اور معتز عباسی-

امام علی النقی علیہ سلام کے ساتھ ان خلیفوں کا سلوک مختلف تھا جن میں سے کسی نے امام کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو کسی نے حسب معمول برا ، البتہ سب کے سب خلافت کو غصب کرنے اور امامت کو چھیننے میں متفق اور ھم عقیدہ تھے،جن میں سے متوکل عباسی (دسواں عباسی خلیفہ)اھل بیت اور خاندان امامت و علوی کے نسبت سب سے زیادہ دشمنی رکھنے میں نامدار تھا اور ھر طریقے سے انکو آزار و اذیت پھچانے میں کوئی کسر باقی نھیں چھوڑی ، حد تو یہ تھی کہ ا‏ئمہ ھدی کی ھر یاد گار کو مٹانا چاھتا تھا، اماموں کی قبروں کو خراب کیا ، خاص کر قبر مطھر سید الشھدا حضرت امام حسین علیہ سلام اور اس کے اطراف کے تمام گھروں کو ویران کرنے اور وھاں کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔

اس کے بعد کے خلافہ سب شہوت پرست تھے اور بیت المال کا بے دریغ استمال کرتے تھے،  مستعین کو حکوت سے دست بردار ہو کر جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور معتز بالله بادشاہ ہوا . یہی امام علی نقی علیہ السّلام کے زمانے کااخری بادشاہ ہوا۔

امام علیہ السلام مدینہ میں

امام علی نقی علیہ السلام تقریبا ۲۹/ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے آپنے اس مدت عمرمین کئی بادشاہوں کازمانہ دیکھا تقریبا ہرایک نے آپ کی طرف رخ کرنے سے احترازکیا یہی وجہ ہے کہ آپ امورامامت کوانجام دینے میں کامیاب رہے یعنی تبلیغ دین اورتحفظ بنائے مذہب اوررہبری ہواخواہاں میں فائزالمرام رہے آپ چونکہ اپنے آباؤاجدادکی طرح علم باطن اورعلم غیب بھی رکھتے تھے اسی لیے آپ اپنے ماننے والوں کوہونے والے واقعات سے باخبرفرمادیاکرتے تھے اورسعی فرماتے تھے کہ حتی الوسع مقدورات کے علاوہ کوئی گزند نہ پہنچنے پائے۔

امام علیہ السلام کو ستانہ

متوکل نے حاکم مدینہ عبداللہ بن محمدکوخفیہ حکم دے کربھیجا کہ فرزندرسول امام علی نقی کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے چنانچہ اس نے حکومت کے منشاء کے مطابق پوری توجہ اورپورے انہماک کے ساتھ اپنا کام شروع کردیا خودجس قدرستاسکا اس نے ستایا اورآپ کے خلاف ریکارڈ کے لیے متوکل کوشکایات بھیجنی شروع کیں۔

 امام علی نقی علیہ السلام کویہ معلوم ہوگیاکہ حاکم مدینہ نے آپ کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کردی ہیں اوراس سلسلہ میں اس نے متوکل کوآپ کی شکایات بھیجنی شروع کردی ہیں توآپ نے بھی ایک تفصیلی خط لکھا جس میں حاکم مدینہ کی بے اعتدالی اورظلم آفرینی کاخاص طورسے ذکرکیا متوکل نے آپ کا خط پڑھ کرآپ کواس کے جواب میں لکھاکہ آپ ہمارے پاس چلے آئیے اس میں حاکم مدینہ کے عمل کی معذرت بھی تھی، یعنی جوکچھ وہ کررہاہے اچھانہیں کرتا ہم اس کی طرف سے معذرت خواہ ہیں مطلب یہ تھا کہ اسی بہانہ سے انہیں سامرہ بلالے خط میں اس نے اتنانرم لہجہ اختیارکیاتھا جوایک بادشاہ کی طرف سے نہیں ہواکرتا یہ سب حیلہ سازی تھی اورغرض محض یہ تھی کہ آپ مدینہ چھوڑکرسامرہ پہنچ جائیں ۔

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ متوکل نے یہ بھی لکھاتھا کہ میں آپ کی خاطرسے عبداللہ ابن محمدکومعزول کرکے اس کی جگہ پرمحمدبن فضل کومقررکررہاہوں ۔

علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ متوکل نے صرف یہ نہیں کیا کہ علی نقی علیہ السلام کوخط لکھا ہوکہ آپ سامرہ چلے آئیے بلکہ اس نے تین سوکا لشکریحی بن ہرثمہ کی قیادت میں مدینہ بھیج کرانہیں بلاناچاہا۔

مدینے  کے لوگوں کا رد عمل

یحیی بن ہرثمہ کہتا ہے: میں مدینہ چلا گیا اور شہر میں داخل ہوا تو وہاں کے عوام کے درمیان غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے بعض غیر متوقع مگر پرامن اور ملائم اقدامات عمل میں لا کر اپنے رد عمل کا اظہار کیا. رفتہ رفتہ عوامی رد عمل اس حد تک پہنچا کہ اعلانیہ طور پر آہ و فریاد کرنے لگے اور اس سلسلے میں اس قدر زیادہ روی کی کہ مدینہ نے اس سے قبل کبھی اس قسم کی صورت حال نہیں دیکھی تھی

مدینے سے سامرا تک

یحی بن ہرثمہ کابیان ہے کہ میں حکم متوکل پاکرامام علیہ السلام کولانے کے لیے بہ ارادہ مدینہ منورہ روانہ ہوگیا میرے ہمراہ تین سوکالشکرتھا اوراس میں ایک کاتب بھی تھاجوامامیہ مذہب رکھتاتھا ہم لوگ اپنے راستہ پر جارہے تھے اوراس سعی میں تھے کہ کسی طرح جلدسے جلدمدینہ پہنچ کرامام علیہ السلام کولے آئیں اورمتوکل کے سامنے پیش کریں ہمارے ہمراہ جوایک شیعہ کاتب تھا اس سے ایک لشکرکے افسرسے راستہ بھرمذہبی مناظرہ ہوتارہا۔

یہاں تک کہ ہم لوگ ایک عظیم الشان وادی میں پہنچے جس کے اردگرد میلوں کوئی آبادی نہ تھی اوروہ ایسی جگہ تھی جہاں سے انسان کامشکل سے گزرہوتاتھا بالکل جنگل اوربے آب وگیاہ صحراتھا جب ہمارے لشکروہاں پہنچاتواس افسرنے جس کانام ”شادی“ تھا، اورجوکاتب سے مناظرہ کرتاچلاآرہاتھا کہنے لگااے کاتب تمہارے امام حضرت علی کایہ قول ہے کہ دنیاکی کوئی ایسی وادی نہ ہوگی جس میں قبرنہ ہویاعنقریب قبرنہ بن جائے کاتب نے کہا بے شک ہمارے امام علیہ السلام غالب کل غالب کایہی ارشادہے اس نے کہابتاؤاس زمین پرکس کی قبرہے یاکس کی قبربن سکتی ہے تمہارے امام یونہی کہہ دیاکرتے ہیں ابن ہرثمہ کاکہنا ہے کہ میں چونکہ حشوی خیال کاتھا لہذاجب یہ باتیں ہم نے سنیں توہم سب ہنس پڑے اورکاتب شرمندہ ہوگیاغرض کہ لشکربڑھتارہااوراسی دن مدینہ پہنچ گیا واردمدینہ ہونے کے بعد میں نے متوکل کاخط امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا امام علیہ السلام نے اسے ملاحظہ فرماکرلشکرپرنظرڈالی اورسمجھ گئے کہ دال میں کچھ کالاہے آپ نے فرمایااے ابن ہرثمہ چلنے کوتیارہوں لیکن ایک دوروزکی مہلت ضروری ہے میں نے عرض کی حضور”خوشی سے“ جب حکم فرمائیں میں حاضرہوجاؤں اورروانگی ہوجائے ۔

ابن ہرثمہ کابیان ہے کہ امام علیہ السلام نے میرے سامنے ملازمین سے کہاکہ درزی بلادواوراس سے کہوکہ مجھے سامرہ جاناہے لہذا راستے کے لیے گرم کپڑے اورگرم ٹوپیاں جلدسے جلدتیارکردے میں وہاں سے رخصت ہوکراپنے قیام گاہ پرپہنچااورراستے بھریہ سوچتارہاکہ امامیہ کیسے بیوقوف ہیں کہ ایک شخص کوامام مانتے ہیں جسے (معاذاللہ) یہ تک تمیزنہیں ہے کہ یہ گرمی کازمانہ ہے یاجاڑے کا، اتنی شدیدگرمی میں جاڑے کے کپڑے سلوارہے ہیں اوراسے ہمراہ لے جانا چاہتے ہیں الغرض میں دوسرے دن ان کی خدمت میں حاضرہواتودیکھا کہ جاڑے کے بہت سے کپڑے سلے ہوئے رکھے ہیں اورآپ سامان سفر درست فرمارہے ہیں اوراپنے ملازمین سے کہتے جاتے ہیں دیکھوکلاہ بارانی اوربرساتی وغیرہ رہنے نہ پائے سب ساتھ میں باندھ دو، اس کے بعدمجھے کہااے یحی بن ہرثمہ جاؤتم بھی اپناسامان درست کروتاکہ مناسب وقت میں روانگی ہوجائے میں وہاں سے نہایت بددل واپس آیا دل میں سوچتاتھا کہ انہیں کیاہوگیاہے کہ اس شدیدگرمی کے زمانہ میں سردی اوربرسات کاسامان ہمراہ لے رہے ہیں اورمجھے بھی حکم دیتے ہیں کہ تم بھی اس قسم کے سامان ہمراہ لے لو۔

مختصریہ کہ سامان سفردرست ہوگیااورروانگی ہوگئی میرالشکرامام علیہ السلام کوگھیرے میں لیے ہوئے جارہاتھا کہ ناگاہ اسی وادی میں جاپہنچے، جس کے متعلق کاتب امامیہ اورافسرشادی میں یہ گفتگوہوئی تھی کہ یہاں پرکس کی قبرہے یاہوگی اس وادی میں پہنچناتھا کہ قیامت آگئی، بادل گرجنے لگے،بجلی چمکنے لگی اوردوپہرکے وقت اس قدرتاریکی چھائی کہ ایک دوسرے کودیکھ نہ سکتاتھا ، یہاں تک کہ بارش ہوئی اورایسی موسلادھاربارش ہوئی کہ عمربھرنہ دیکھی تھی امام علیہ السلام نے آثارپیداہوتے ہی ملازمین کوحکم دیاکہ برساتی اوربارانی ٹوپیاں پہن لو اورایک برساتی یحی بن ہرثمہ اورایک کاتب کودیدو غرض کہ خوب بارش ہوئی اورہوااتنی ٹھنڈی چلی کہ جان کے لالے پڑگئے جب بارش تھمی اوربادل چھٹے تو میں نے دیکھاکہ ۸۰/ افرادمیری فوج کے ہلاک ہوگئے ہیں ۔

امام علیہ السلام نے فرمایاکہ اے یحی بن ہرثمہ اپنے مردوں کودفن کردو اوریہ جان لو کہ ”خدائے تعالی ہم چنین پرمی گرواندبقاع راازقبور“ اس طرح خداوندعالم نے ہربقعہ ارض کو قبروں سے پرکرتاہے اسی لیے میرے جدنامدارحضرت علی علیہ السلام نے فرمایاکہ زمین کاکوئی ٹکڑاایسانہ ہوگا جس میں قبرنہ بنی ہو

”یہ سن کرمیں اپنے گھوڑے سے اترپڑااورامام علیہ السلام کے قریب جاکرپابوس ہوا،اوران کی خدمت میں عرض کی مولامیں آج آپ کے سامنے مسلمان ہوتاہوں، یہ کہہ کرمیں نے اس طرح کلمہ پڑھا ”اشہدان لاالہ الااللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ وانکم خلفاء اللہ فی ارضہ “ اوریقین کرلیاکہ یہی حضرت خداکی زمین پرخلیفہ ہیں اوردل میں سوچنے لگاکہ اگرامام علیہ السلام نے جاڑے اوربرسات کاسامان نہ لیاہوتااوراگرمجھے نہ دیاہوتا تومیرا کیاحشرہوتاپھروہاں سے روانہ ہوکر ”عسکر“ پہنچا اورآپ کی امامت کاقائل رہ کرزندہ رہا اورتاحیات آپ کے جدنامدارکاکلمہ پڑھتارہا۔

سامرا میں پہنچنا

متوکل نے عوام الناس کی نظرمیں آپ کی شان و وقار و اہمیت کو کم کر نے کے لئے آپ کو ''خان صعالیک ''''فقیروں کے ٹھہرنے کی جگہ ''میں رکھا ،صالح بن سعید نے امام سے ملاقات کی ، وہاں کے حالات دیکھ کر بہت رنجیدہ و ملول ہوئے اور آپ سے یوں گویا ہوئے:

میری جان آپ پر فدا ہو انھوں نے ہر طریقہ سے آپ کا نور بجھانے کا ارادہ کر رکھا ہے آپ کی شان میں ایسی کو تا ہی کی جا رہی ہے کہ آپ کو اس مقام پر ٹھہرا دیا ہے ۔

امام نے اس کی محبت اور اخلاق کا شکریہ ادا کیاجس سے اس کا رنج و الم کم ہوا اور پھر امام نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : دیکھو صالح کہتا ہے کہ جب میں نے دیکھا تو بہترین باغات اور جاری نہریں نظر آئی جس میں سرسبز درخت لگے ہوئے تھے عطر کی خوشبو کو سونگا، جب اُس نے امام کے اس معجزہ کا مشاہدہ کیاجو اللہ نے اپنے اولیا اور انبیاء کو عطا فرمایا ہے تو اس کو قدرے سکون ہوا اور اس کا حزن و غم دور ہو گیا ۔پھر امام نے فرمایا: اے پسر سعد: ہم جہاں بھی رہے یہ سب ہمارا ہے اور ہم خان الصعالیک میں نہیں ہیں۔۔۔

ایک دن بعد امام علیہ السلام کو عباسی لشکریوں کی جگہ منتقل کردیا گیا، جو ایک زندان تھا اور وہاں پر شیعوں کے آنے جانے پر پابندی لگائی گئی۔

امام علیہ السلام متوکل کے دور حکومت میں

امام علیہ السلام کے عمر کا زیادہ عرصہ متوکل کے دور حکومت میں گزرا اور آپ علیہ السلام نے ان ۱۴ سالوں میں بہت سی تکلیفوں اور سختیوں کو برداشت کیا، دوسرے خلفاؤں کے دور میں آپ علیہ السلام کی زندگی کے حوالے سے بہت کم معلومات ملتی ہیں، شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ متوکل کے بعد آپ کی طرف خلفاؤں کی توجہ کم تھی اور آپ نے تقریبا  بہتر وقت گزارا ہوگا۔

متوکل کی اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی

متوکل  نے یہ حکم  تمام حکومت میں جاری کردیا کہ کوئی شخص جناب امیر علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام کے روضوں کی زیارت کو نہ جائے , جو بھی اس حکم کی مخالفت کرے گا اس کا خون حلال سمجھا جائے گا- اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے دیزج نامی شخص کو حکم دیا کہ نجف اور کربلا کی عمارتیں بالکل گرا کر زمین کے برابر کردی جائیں . تمام مقبرے کھود ڈالے جائیں اور قبر امام حسین علیہ السّلام کے گرد وپیش کی تمام زمین پر کھیت بودیے جائیں . اور امام حسین علیہ السلام کے حرم مطہر پر پہرے بیٹھا دیئے گئے، تاکہ لوگوں کو زیارت کرنے سے روکا جاسکے۔

امام علی علیہ السلام کے بیٹوں سے مقایسہ

ابن السکیت بغدادی علم نحوولغت کے امام مانے جاتے تھے اور متوکل نے اپنے دو بیٹوں کی تعلیم کے لیے انھیں مقرر کیا تھا . ایک دن متوکل نے ان سے پوچھا کہ تمھیں میرے ان دونوں بیٹوں سے زیادہ محبت ہے یا حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام سے ابن السکیت محبت اہل بیت علیہ السّلام رکھتے تھے اس سوال کو سن کر بیتاب ہوگئے اور انھوں نے متوکل کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر بے دھڑک کہ دیا کہہ حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام کا کیا ذکر , مجھے تو علی علیہ السّلام کے غلام قمبررض کے ساتھ ان دونوں سے کہیںزیادہ محبت ہے . اس جواب کا سننا تھا کہ متوکل غصّے سے بیخود ہوگیا , حکم دیا کہ ابن السکیت کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے . یہی ہو اور اس طرح یہ ال ُ رسول کے فدائی درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

پردے خود سے ہٹ گئے

خدمتگاروں کا امام علی نقی علیہ السلام کے لئے احترام کے ساتھ پیش آنا اور ان کے کام انجام دینے کو جب بعض افراد  نے دیکھاتو  متوکل سے کہا:

علی بن محمد کومقام و منزلت دینے میں جتنا تم نے خود برا کیا ہے کسی نے نہیں کیا، کوئی ایک فرد تمہارے گھر پر نہیں مگر یہ کہ اس کی خدمت میں حاضر نہ ہو، ایک ان کے لئے پردہ ہٹاتا ہے تو دوسرا ان کے لئے دروازہ کھولتا ہے ۔۔۔ جب لوگ ان کی یہ عزت اور احترام دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: اگر متوکل ان کو خلافت کا حقدار نہیں سمجھتا تو ان سے ایسی برخورد نہ کرتا؟ اس کو اکیلا چھوڑ دو تاکہ خود اپنے لئے پردہ ہٹائے اور دوسرے مردوں کے ساتھ کوئی فرق نہ رکھے۔

متوکل نے اس مشورے پر عمل کیا لیکن پر دوبارہ یہی لوگ آئے اور متوکل سے کہا کہ:

علی بن محمد علیہ السلام جب منزل میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور جب کہ ان کے پاس کوئی خدمتگار نہیں اور نہ کوئی ان کے لئے پردہ ہٹانے والا موجود تھا تب ہوا آئی اور اس نے پردے کو اٹھایا اور علی بن محمد داخل ہوئے اور واپسی پر گھر سے نکلنے پر بھی ہوا نے اسی طرح پردے کو ہٹایا اور وہ باہر تشریف لائے۔

متوکل نے یہ سنے کے بعد کہا: ہم نہیں چاہتے کہ ان کے لئے ہوا پردے کو ہٹائے ، لہذا پردے کو پہلے کی طرح اٹھایا جائے۔

امام علیہ السلام کو اذیت اور آزار دینا

متوکل نے چند سپاہیوں کو رات میں امام کے گھر پر حملہ اور آپ کو گر فتار کرنے کا حکم دیا ، سپاہی اچانک امام کے گھر میں داخل ہو گئے اور انھوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ امام بالوں کا کُرتا پہنے اور اُون کی چا در اوڑھے ہوئے تنہا ریگ اور سنگریزوں(29) کے فرش پر رو بقبلہ بیٹھے ہوئے قرآن کی اس آیت کی تلاوت فرمارہے ہیں :

(َامْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیئَاتِ َنْ نَجْعَلَھمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَحْیاھمْ وَمَمَاتُھمْ سَائَ مَا یحْکُمُونَ )۔(30) 

''کیا برائی اختیار کرلینے والوں نے یہ اختیار کرلیا ہے کہ ہم انھیں ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر قرار دیدیں گے کہ سب کی موت و حیات ایک جیسی ہو یہ اُن لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے ''۔

سپاہیوں نے اسی انبیاء کے مانند روحا نی حالت میںامام کو متوکل کے سامنے پیش کیامتوکل اس وقت ہاتھ میں شراب کا جام لئے ہوئے دستر خوان پر بیٹھا شراب پی رہا تھا جیسے ہی اُ س نے امام کو دیکھا تو وہ امام کی مذمت میںشراب کا جام امام کو پیش کرنے لگا امام نے اس کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :''خدا کی قسم میرا گو شت اورخون کبھی شراب سے آلودہ نہیں ہوا ''۔

متوکل نے امام سے کہا :میرے لئے اشعار پڑھ دیجئے ؟

امام نے فرمایا:''میں بہت کم اشعار پڑھتا ہوں'' ۔

متوکل نہ مانا اور اُس نے اصرار کرتے ہوئے کہا ضرور پڑھئے ۔امام علی نقی نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جن کو سُن کر حزن و غم طاری ہو گیا اور وہ گریہ کرنے لگا :

''باتُواعلیٰ قُلَلِ الأَجْبَالِ تَحْرُسُهمْ

غُلْبُ الرِّجَالِ فَما أَغْنَتْهمُ الْقُلَلُ

وَاسْتُنْزِلُوا بَعْدَ عِزٍّ عَنْ مَرَاتِبِهمْ

فَاُوْدِعُوا حُفَراً یابِئْسَ مانَزَلُوا

ناداهم صارِخُ مِنْ بَعْدِ مَاقُبِرُوا

أَینَ الأَسِرَّةُ وَالتَّیجَانُ وَالْحِلَلُ؟

أَینَ الوُجُوْه الَّتِیْ کانَتْ مُنَعّمَةً

مِنْ دُوْنِها تُضْرَ بُ الاَسْتَارُ وَالْکِلَلُ؟

فَأَفْصَحَ الْقَبْرُ عَنْهمْ حِینَ سَأَلَهمْ

تِلْکَ الْوُجُوْه عَلَیها الدُّوْدُ یقْتَتِلُ

قدْطَالما أَکَلُوْا دَهراً وَمَا شَرِبُوْا

فأَصْبَحُوْا بَعْدَ طُوْلِ الأَکْلِ قَدْ أُکِلُوْا''

'' زمانہ کے رؤسا ء و سلاطین جنھوں نے پہاڑوں کی بلندیوں پرپہروں کے اندر زندگی گزاری تھی ۔

ایک دن وہ آگیا جب اپنے بلند ترین مراکز سے نکال کر قبر کے گڈھے میں گرا دئے گئے جو اُن کی بد ترین منزل ہے ۔

اُن کے دفن کے بعد منادی غیب کی آواز آئی کہ وہ تخت و تاج و خلعت کہاں ہے اور وہ نرم و نازک چہرے کہاں ہیں جن کے سامنے بیش قیمت پردے ڈالے جاتے تھے ؟

تو بعد میں قبر نے زبانِ حال سے پکار کر کہاکہ آج اُن چہروں پر کیڑے رینگ رہے ہیں۔

ایک مدت تک مال دنیا کھاتے رہے اور اب انھیں کیڑے کھا رہے ہیں ''۔

متوکل جھومنے لگا ،اس کا نشہ اُتر گیا،اُس کی عقل نے کام کر نا چھوڑ دیا،وہ زار و قطار رونے لگا،اس نے اپنے پاس سے شراب اٹھوادی ،بہت ہی انکساری کے ساتھ امام سے یوں گویا ہوا :اے ابوالحسن کیا آپ مقروض ہیں ؟

امام نے جواب میں فرمایا:''ہاں ،میں چار ہزار درہم کا مقروض ہوں'' ۔

متوکل نے امام کو چار ہزار درہم دینے کا حکم دیااورامام آپ کے بیت الشرف پر پہنچا دیا ۔

یہ واقعہ خدا وند عالم کے حرام کردہ تمام گناہوں کا ار تکاب کرنے والے سر کشوں سے امام کے جہاد کرنے کی عکا سی کرتا ہے ،امام نے اس کے ملک اور سلطنت کی کو ئی پروا نہ کرتے ہوئے اس کو نصیحت فر ما ئی

اللہ کے عذاب سے ڈرایا ،دنیا سے مفارقت کے بعد کے حالات کا تعارف کرایا،اس کا لشکر ،سلطنت اور تمام لذتیں قیامت کے دن اس سے اس کے افسوس کرنے کو دفع نہیں کر سکتیں ،اسی طرح آپ نے اس کو یہ بھی بتایا کہ انسان کے مرنے کے بعد اُس کے دقیق بدن کا کیا حال ہوگا ،یہ حشرات الارض کا لقمہ ہوجائے گا ۔

متوکل نے کبھی اس طرح کا مو عظہ سُنا ہی نہیں تھا بلکہ اُ س کے کا نوں میں تو گانے بجانے کی آوازیں گونجاکر تی تھیں ،اس کو اس حال میں مو ت آگئی کہ گانے بجانے والے اس کے ارد گرد جمع تھے ،اُ س نے تو اپنی زند گی میں کبھی خدا سے کئے ہوئے عہد کو یاد کیا ہی نہیں تھا ۔

اللہ کی فوج

متوکل نے اپنی فوجی طاقت دیکھانے کے لئے اپنے فوج کو کہ جن کی تعداد نوے ہزار سے زیادہ تھی دستور جاری کیا کہ ہر کوئی اپنے گھوڑے کی بوری کو سرخ مٹی سے بھرے اور ایک خاص جگہ اسے خالی کرے، اور تمام فوج جنگی لباس پہنے، اور اسلحہ اپنے پاس رکھے، سب نے اس حکم پر عمل کیا اور سرخ مٹی کا ایک پہاڑ بن گیا، اس کے بعد امام ہادی علیہ السلام کو بلایا گیا، جب امام تشریف لائے تو متوکل نے کہا آپ کو بلانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ میری فوج کو دیکھیں، امام علیہ السلام کیونکہ اس کی پلید نیت سے باخبر تھے، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

آیا چاہو گے کہ میں بھی اپنی فوج تمہیں دیکھا دوں؟

متوکل کہ جس نے ابھی تک امام کی فوج کے بارے میں نہیں سنا تھا پریشان ہوا اور تعجب سے کہا: ہاں

امام علیہ السلام نے دعا کی تو ایک دفعہ آسمان اور زمین میں مشرق اور مغرب اللہ کی فوج (ملائکہ) سے بھر گئی، متوکل نے جب اتنی بڑھی تعداد دیکھی تو وحشت زدہ ہوکر بے ہوش ہوگیا۔ اور جب ہوش میں آیا تو امام علیہ السلام نے اسے مخاطب کرکے فرمایا: ہم دنیا میں اور اس کے امور میں تم لوگوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کرتے، ہم آخرت کے امور میں مشغول ہیں، لہذا جو تمہارا گمان ہے اسے دل سے نکال باہر کرو کہ ہم زیادتی نہیں کریں گے۔

امام حسین علیہ السلام کی زیارت

ابوہاشم جعفری کہتے ہیں: میں اور محمد بن حمزہ عیادت کرنے کے لئے امام ہادی علیہ السلام کے گھر گئے،  امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے مال سے ایک گروہ کو امام حسین علیہ السلام کے زیارت کے لئے روانہ کرو(تاکہ میری شفا کے لئے دعا کریں) ہم امام کے وہاں سے رخصت ہوئے۔ محمد بن حمزہ نے کہا: ہمیں حرم امام حسین علیہ السلام بھیج رہے ہیں حالانکہ وہ خود (شان و مرتبت میں)صاحب حرم کی طرح ہیں، ابو ہاشم دوبارہ امام[علیہ السلام] کی خدمت میں حاضر ہوئے اور محمد بن حمزہ نے جو  کہاتھا وہ امام (علیہ السلام ) کے لئے بیان کیا۔امام علیہ السلام نے فرمایا: نہیں جیسا اس نے سوچا ایسا نہیں ہے، اللہ بعض جگہوں کو چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہاں اس کی عبادت کی جائے اور حرم امام حسین علیہ السلام بھی ان میں سے ایک ہے۔

دوسرا واقعہ

ابو ہاشم جعفری، جو امام ہادی (علیہ السلام) کے صحابی ہیں، کہتے ہیں: جب امام ہادی (علیہ السلام) بیمار تھے، مجھ سے فرمایا کسی کو میرے لئے حائر حسینی ( قبر امام حسین کے پاس) بھیج دینا تاکہ وہاں پر دعا کرے۔ ابو ہاشم نے یہ قضیہ علی بن بلال کو کہا۔ اس نے کہا: امام ہادی (علیہ السلام) بذات خود حائر حسینی ہیں، یعنی صاحب احترام ہیں۔ ابو ہاشم دوبارہ امام[علیہ السلام] کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علی بن بلال کے ساتھ پیش آیا ماجرا امام (علیہ السلام) کے لئے بیان کیا۔ حضرت (علیہ السلام) نے فرمایا: رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور ہر مومن کا احترام خانہ خدا سے زیادہ ہے، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کعبہ کا طواف کرتے تھے اور حجر الاسود کو چومتے تھے اور خدا وند متعال نے انھیں حکم دیا کہ عرفات میں عرفہ کے دن وقوف کریں"۔

غیبت کے لئے تیاری

امام ہادی علیہ السلام اپنے اور اپنے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کے حالات سے بخوبی آگاہ تھے، آپ دیکھ رہے تھے کہ دن بہ دن آپ  علیہ السلام کے گرد دائرہ تنگ کیا جارہا ہے اور اسی طرح خلافتی اداروں نے مزید سختی اور حساسیت پیدا کردی ہے اور شیعوں کے اماموں کو چین سے جینے نہیں دینگے، اور اب امام ایک نیا انداز سے آگے چلے گئی جس کی مثال نہیں ملتی؛ یعنی امام مہدی عج کی غیبت واقع ہوگی، لہذا امام ہادی علیہ السلام کے بنیادی کاموں میں سے ایک کام شیعوں کے ذہنوں اپنے نواسے کی  غیبت کے لئے تیار کرنا تھا۔

ایک روایت میں عبدالعظیم حسنی سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنے عقائد کو امام ہادی علیہ السلام کے سامنے بیان فرمایا، اور ائمہ علیہم السلام میں سے ایک ایک کا نام لیتے ہوئے جب امام ہادی علیہ السلام کے نام پر پہونچے تو رک گئے امام علیہ السلام نے آپکی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:

میرے بعد حسن  ہیں، اور اس کے بعد کے جانشین سے لوگ کیا سلوک کریں گے، عبدالعظیم نے پوچھا وہ کیسے میرے آقا؟  فرمایا: کیونکہ وہ دیکھا نہیں جایگا، اور جائیز بھی نہیں کہ اس کا نام لیا جائے یہاں تک کے قیام کرے اور زمین کو عدل سے بھر دے، جیسے کے وہ ظلم و جور سے بھر گئی ہوگی۔

امام علیہ السلام کی شہادت

آخر کار، امام ہادی علیہ السلام کو  امامت کے ٣٣ سال اور اکتالیس سال اور چند ماہ کی عمر  میں شہید کردیا گیا، وایت کے مطابق 25 جمادی الثانی سن 254 ھجری میں معتز عباسی کی خلافت کے دور میں خلیفہ کے بھائی معتمد عباسی کے ہاتھوں زہر دے کر آپ کوشہید کردیا گیا۔زہر کا اثر جب پورے بدن میں پھیل چکا تو آپ کو سمت قبلہ  ہوکر تلاوت قرآن میں مشغول ہوئے اور امام حسن علیہ السلام کی امامت کی وصیت فرمائی اور اپنے تجہیز و تکفین کے لئے ان کو مقرر فرمایا اس کے بعد آپ نے انکھیں بند کردی۔

تجہیز و تکفین

اس وقت آپ کے پاس صرف آپ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السّلام موجود تھے- آپ ہی نے اپنے والد بزرگوار کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ کے فرائض انجام دیئےآپ علیہ السلام نے اپنے والد کے جنازے میں سر برہنہ شرکت فرمائی، معتز کے حکم سے احمد بن متوکل نے آپ پر نماز جنازہ پڑھی گو کہ اس سے پہلے امام حسن عسکری یہ فرائض انجام دے چکے تھے اس کے بعد آپ علیہ السلام کو  اسی مکان میں جس میں حضرت علیہ السّلام کا قیام تھا- ایوان خاص میں آپ کو دفن کر دیا، دفن کرتے وقت امام حسن عسکری قبر مبارک میں اترے جبکہ آپ کے چہرہ مبارک پر اشک رواں تھے،اب  وہیں  آپ کا روضہ بنا ہوا ہے اور عقیدت مند زیارت سے شرف یاب ہوتے ہیں-

امام علیہ السلام کی بارگاہ

ابو العباس احمد بن حسن بن یوسف بن منتصر (احمد عباسی) جو الناصر لدین اللہ(وفات ۶۲۲ھ) سے معروف ہے نے عمارت کی تعمیر نو کروائی۔

امیر احمد خان دنبلی نے امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کے بارگاہ کی تعمیر کروائی اور دونوں قبور پر گنبدتعمیر کروائی اور یہ وہی گنبد ہے جو ابھی تک موجود ہے اور ساتھ ہی ایک  صحن بھی بنوائی۔

یہ دونوں امام اپنے گھر میں ہی دفن ہیں، اور ساتھ میں سرداب غیبت بھی اسی گھر میں یہی وہی جگہ ہے جہاں پر امام ہادی علیہ السلام، امام عسکری علیہ السلام اور امام زمانہ عج سکونت پذیر تھے،

حسین بن ہادی دونوں اماموں ہادی اور عسکری علیہما السلام کے پاؤں کے سمت واقع ہے، وہ اپنے والد محترم امام ہادی علیہ السلام سے پہلے سامرا میں وفات پاگئے، آپ (علیہ السلام) کے جوار میں آپکے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ سلام ، انکی بہن حکیمہ خاتون امام محمد تقی علیہ السلام کی دختر گرامی کے علاوہ حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ شریف کی والدہ ماجدہ نرگس خاتون دفن ہیں۔

ناصر الدین شاہ جب عتبات مقدس کی زیارت کے لئے آئے تو گنبد پر خالص طلا کاری کروائی۔

امام ہادی علیہ السلام کی تالیفات

۱۔ اہل جبر اور تفویض کی رد اور عدل خداواند کی اثبات پر امام علیہ السلام کا رسالہ، تمام رسالے کو  حسن بن علی بن شعبہ حرانی نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔

۲۔ یحیی بن اکثم کے سوالوں کے جواب، اس تمام رسالے کو بھی تحف العقول میں نقل کیا گیا ہے۔

۳۔ احکام دین جس کو ابن شہر آشوب نے مناقب میں ذکر کیا ہے۔

حوالہ جات:

۱۔ عرب میں اپنے بچوں کے لئے کنیت  انتخاب کرنا ایک قسم احترام سمجھا جاتا تھا اور بچے کی شخصیت کی نمو قرار پاتا تھا، ائمہ اطہار علیہم السلام بھی اپنے بچوں کی کنیت انتخاب کرتے تھے۔

۲۔ تاریخ بغداد، خطیب بغداد، دارالکتب الاسلامیہ، بیروت، ج۶، ص ۱۲۹؛ دہمین خورشید امامت امام ہادی علیہ السلام ص ۶۲، وہ شاعر بھی تھا اور اس نے فرزندان حضرت زہرا  سلام اللہ علیہا کے لئے شعر بھی پڑا ہے، لیکن بنی عباس کے دور حکومت میں پر منکر ہوگیا، وہ شعر کچھ اس طرح سے ہے:

و مهما ألام علی حبّهم *** فانّی أحبّ بنی فاطمة

بنی بنت من جاء بالمحکمات *** و بالدین و السنة القائمة

فلست أبالی بحبّی لهم *** سواهم من النعم السائمة

(تاریخ بغداد، ج6، ص130)

۳۔اصحاب حدیث کا ایک گروہ تھا جو کہ بظاہر تو احادیث سے استناد کرتا تھا لیکن اعتقادی نظر سے وہ جبر ، تشبیہ اور تجسیم کا قائل تھا اور اللہ کے لئے حرکت، انتقال، حد اور جہت و ۔۔۔ کا قائل تھا۔

۴۔ انہوں نے ابو الحسن ثالث اور امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے، اور اسی طرح اس کے اصحاب میں سے امام جواد کا شمار بھی ہوتا ہے، امام حسن عسکری نے جو ابراہیم بن عبدۃ کے لئے لکھوایا ہے اس میں ہے: ای اسحاق! ہمارے خط کو بلال کے لئے پڑھو، کیونکہ وہ ثقہ اور امانت دار ہے، اور وہ جو ان پر واجب ہے اس سے آگاہ ہے۔ (معجم رجال الحدیث ، ج ۱۱، ص ۲۸۱ اور ۲۸۲)

۵۔ اکتالیس سال اور چھ مہینے اور اٹھارہ دن تھے، اور ان کی امامت ۳۳ سال اور سات ماہ اور تین دن تھی۔ (منتخب التواریخ، ص705)

۶۔  بعض  سن 254 میں رجب کی تیسری کو امام علیہ السلام کی شہادت کا دن قرار دیتے ہیں(بحارالأنوار، ج50 ، صص117 ـ 114 ؛ دہمین خورشید امامت، امام ہادی، ص147)

منبع: رہ توشہ عتبات عالیات؛ شیعوں کے دسویں راہنما امام ابوالحسن علی نقی الہادی (علیہ السلام) ١٥ ذی الحجہ ٢١٢ ہجری کو مدینہ کے نزدیک ""صریا"" نامی جگہ پر متولد ہوئے،  آپ کے والد نویں راہنما امام محمد تقی (علیہ السلام)ہیں اور آپ کی والدہ گرامی سمانہ ہیں ، آپ بہت ہی با تقوی اور با فضیلت خاتون تھیں  ، آپ کی کنیت ابوالحسن ہے، امام ہادی(علیہ السلام) نجیب، مرتضی، ہادی، نقی، عالم، فقیہ، امین، طیّب اور عسکری جیسے القاب سے بھی مشہور تھے، لیکن سب سے زیادہ مشہور ہادی اور نقی ہیں۔

آپ کے والد گرامی کا نام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور والدہ ماجدہ کا نام سمانہ مغربیہ ہے، محمد بن فرج کہتے ہیں:

ابوجعفر، محمد بن علی علیہ السلام نے مجھے طلب کیا اور فرمایا: ایک کاروان اس راستے سے آئے گا جس میں ایک بردہ فروش ہوگا جس کے پاس کچھ کنیزیں ہونگی، پر مجھے ستر دینار دئیے اور امر فرمایا کہ اس کنیز کو جس کی آپ نے مشخصات فرمائی، خریدنے کا کہا، میں نے اپنی ڈیوٹی انجام دی، یہ کنیز وہی امام ہادی علیہ السلام کی مادر تھیں۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : میری مادر گرامی ہمارے حق سے آگاہ اور بہشتی عورتوں میں سے ہیں اور شیطان رجیم کبھی بھی ان کے قریب نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی آپ کو بہکا سکتا ہے کیونکہ خداوندعالم آپ کا محافظ و نگہبان ہے اورآپ کبھی بھی صدیقین اور صالحین کی ماؤں کے صف سے خارج نہیں ہوسکتیں ۔(۱)

امام علیہ السلام کی عبادت

ائمہ معصومین علیہم السلام پروردگار عالم کی معرفت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے اور ان کی یہی گہری معرفت و بصیرت باعث بنی کہ یہ حضرات ہمیشہ پروردگار عالم سے انس و لگاؤ رکھیں اور خدائے متعال سے انس و مجبت کے یہی رابطے تھے کہ جو پروردگار کی بارگاہ میں حاضری کے لئے بے چین کئے رہتے تھے اور سکون و اطمینان کو ان سے چھین لیتے تھے۔

امام علی نقی (علیہ السلام) رات کے وقت بارگاہ پروردگار میں حاضر ہوکر پوری رات عبادت، حالت خشوع و خضوع اور سجدے و رکوع میں گزارتے تھے اور آپ کی نورانی پیشانی زمین پر ہوتی، جس کے درمیان سوائے سنگریزوں اور خاک کے کوئی چیز حائل نہیں ہوا کرتی تھی ، پروردگار سے انس اور پارسایی کا عالم یہ تھا کہ آپ کے صفات کے بارے میں کہنا پڑا:

ابن کثیر امام ہادی علیہ السلام کی ایسے تعریف بیان کرتا ہے:

وأما أبو الحسن علی الہادی .وقد كان عابدا زاہدا .وہو على التراب لیس دونہ حائل.

 امام ہادی ایک عابد و زاہد انسان تھے اور وہ زمین پر بیٹھتے تھے اس حالت میں کہ چادر نیچے نہیں بچھاتے تھے یعنی سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔

ابن عباد حنبلی کہتا ہے: کان فقیہا، اماماً ، متعبدا.(۲)

امام علیہ السلام کا اخلاق حسنہ

ائمہ معصومین علیہم السلام انسان کامل اور اللہ کے منتخب و برگزیدہ بندے ہیں جنہیں کردار و رفتار کے نمونے کے عنوان سے اور بنی نوع بشر کی ہدایت کے لئے روش چراغ بناکر پروردگار کی طرف سے بھیجا گیا ہے ۔ ان بزرگوں کی حیات پاک یعنی رفتار و گفتار، اخلاق و عادات اور انسانی فضائل، تمام لوگوں کے لئے الٰہی اقدار کا مکمل آئینہ ہیں ۔

امام علی نقی (علیہ السلام) اپنے آباء و اجداد کی طرح سختیوں اور پریشانیوں میں صبر و تحمّل سے کام لیتے تھے اور جہاں تک اسلام کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا آپ حق کے دشمنوں، برا بھلا کہنے والوں اور توہین کرنے والوں کے مقابلہ میں حلم و بردباری سے پیش آتے تھے ۔

(بریحہ عباسی) جو حکومت بنی عباس کی طرف سے مکہ  و مدینہ کی پیشنمازی کے لئے منصوب کیا گیا تھا - اس نے متوکل کے پاس امام علی نقی (علیہ السلام) کے بارے میں چغلخوری کرتے ہوئے لکھا:

اگر تمہیں مکہ و مدینہ کی ضرورت ہے تو (علی بن محمد) کو ان دو شہروں سے نکال دو، کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی امامت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کافی تعداد میں لوگ ان کے پیروکار ہوگئے ہیں ۔

بریحہ کی مسلسل چغلخوری و شکایت کی وجہ سے متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو آپ کے جد بزرگوار رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کے پاس سے دور کردیا۔ اور جس وقت امام مدینہ منورہ سے سامرہ کی جانب سفر طے کر رہے تھے، بریحہ بھی آپ کے ہمراہ تھا، بریحہ نے سفر کے دوران امام کی طرف متوجہ ہوکر کہا:

آپ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کے شہر مدینہ سے نکالے جانے کا سبب میں ہوں، میں زبردست قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ نے متوکل یا اس کے درباریوں اور بیٹوں کے سامنے میری شکایت کی تو (مدینہ میں) موجود آپ کے تمام درختوں میں آگ لگادوں گا، آپ کے غلاموں و خادموں کو مار ڈالوں گا، آپ کی کھیتی کے چشموں کو بند کردوں گا اور آپ یقین جان لیں کہ میں یہ کام کروں گا ۔

امام (علیہ السلام) نے اس کی طرف رخ کر کے فرمایا: تمہاری شکایت کا سب قریبی راستہ خدائے متعال کے پاس تھا اور میں نے گذشتہ رات پروردگار عالم سے تیری شکایت کردی اور اس کے علاوہ اللہ کے بندوں میں کسی کے پاس نہیں کروں گا ۔

بریحہ نے جیسے ہی امام (علیہ السلام) کا یہ کلام سنا فوراً حضرت (علیہ السلام) کا دامن پکڑ کر رونے لگا اور معافی مانگنے لگا۔

امام (علیہ السلام) نے فرمایا: میں نے تمہیں معاف کر دیا ۔

امام علیہ السلام دوسروں کی نظر میں

اس کے باوجود کے امام ہادی علیہ السلام کو ہمیشہ حکومت وقت کے تحت نظر میں رہتے تھے اور وہ ہمیشہ سے کوشش کرتے تھے کہ آپ کو لوگوں سے اور معاشرے سے دور رکھا جائے لیکن پر بھی آپ کے کچھ فضایل لوگوں پر نمایاں ہوجاتی تھیں اور دانشمند اور یہاں تک کہ اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے بھی آپ کی مدح و ثنا کی ہے ۔ (ابو عبداللہ جنیدی) کہتا ہے: "خدا کی قسم وہ روئے زمین پر اللہ کی بہترین مخلوق اور لوگوں میں سب سے افضل ہیں"متوکل نے ایک خط میں امام ہادی علیہ السلام کو لکھا: امیر آپ کے مقام سے آشنا ہے اور آپ کے ساتھ رشتہ داری کا پورا خیال رکھتا ہے اور آپکی  اور آپ کے خاندان کی مصلحت کے مطابق عمل کرتا ہے۔

امام علیہ السلام کے شاگرد

شیخ طوسی (رہ)، اسلام کے نامدار دانشمند نے مختلف اسلامی علوم میں ان کے شاگردوں کی تعداد 18۵/ افراد پر مشتمل بتائی ہے ۔جن میں سے بعض افراد کی مخلتف اسلامی علوم کے سلسلے میں گرانقدر آثار اور تالیفات ھیں ان میں سے کچھ شاگروں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

ایوب بن نوح

ایوب بن نوح امین اور قابل اعتماد انسان تھے اور عبادت اور تقوی میں اعلی رتبے کے مالک تھے یہاں تک کہ علمائے رجال نے انہیں اللہ کے صالح بندوں کے زمرے میں قرار دیتے تھے. وہ امام ہادی(علیہ السلام) اور امام عسکری(علیہ السلام) کے وکیل تھے اور انھوں نے امام ہادی(علیہ السلام) سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں.

حسن بن راشد

حسن بن راشد ـ جن کی کنیت "‌ابوعلی" ہے ـ امام جواد(علیہ السلام) اور امام ہادی(علیہ السلام) کے اصحاب میں سے ہیں اور ان دو بزرگواروں کے نزدیک اعلی منزلت کے مالک تھے. شیخ مفید کہتے ہیں کہ انہیں نمایاں فقہاء اور ان رتبۂ اول کی شخصیات میں سے ہیں جن سے حلال و حرام اخذ کیا جاتا ہے اور ان کی مذمت اور ان پر طعن کا امکان نہیں پایا جاتا.

حسن بن علی ناصر

شیخ طوسی نے انہیں امام ہادی(علیہ السلام) کے اصحاب میں گردانا ہے. وہ سید مرتضی علم الہدی کے نانا ہیں.[87] سید مرتضی ان کے بارے میں کہتے ہیں: علم، فقہ اور زہد و پارسائی میں اس کی مرتبت اور برتری اظہر من الشمس ہے. وہی ہیں جنہوں نے "دیلم" میں اسلام کی ترویج کی. یہاں تک کہ اس علاقے کے لوگوں نے ان کی برکت سے گمراہی سے نجات پائی اور ان کی دعا سے حق کی طرف پلٹ آئے. ان کی پسندیدہ صفات اور نیک اخلاق حد و حساب سے باہر ہیں.

عبدالعظیم حسنی

عبدالعظیم حسنی ـ جن کا سلسلۂ نسب امام حسن(علیہ السلام) تک پہنچتا ہے "عبدالعظیم" ایک زاہد و پارسا، صاحب حریت، عالم و فقیہ‌ اور امام دہم(علیہ السلام) کے نزدیک قابل اعتماد اور موثق شخصیات میں سے ہیں. "ابو حماد رازی‌" کہتے ہیں: میں سامرا میں امام ہادی(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ(علیہ السلام) سے بعض مسائل اور حلال اور حرام کے بارے میں بعض سوالات پوچھے. وداع کا وقت آیا تو امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ‌اے حماد! جب بھی تمہیں اپنے منطقۂ سکونت میں دین کے سلسلے میں کوئی مشکل پیش آئے تو عبدالعظیم حسنی سے پوچھو اور میرا سلام انہیں پہنچا دو۔

عثمان بن سعید

عثمان بن سعید نے صرف گیارہ سال کی عمر میں امام ہادی(علیہ السلام) کی حدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور بہت تھوڑے عرصے میں اس قدر ترقی کی کہ امام(علیہ السلام) نے انہیں اپنا "ثقہ" اور "امین" قرار دیا۔

امام علیہ السلام کے ایرانی شیعہ

پہلی صدی میں زیادہ تر شیعیان اہل بیت(علیہ السلام) کا تعلق شہر کوفہ سے تھا کیونکہ ان افراد کا کوفی سے ملقب ہونا حقیقت میں ان کے شیعہ ہونے کی علامت تھا.

امام باقر(علیہ السلام) اور امام صادق(علیہ السلام) کے دور سے بعض اصحاب آئمہ کے نام کے ساتھ قمی کا عنوان دکھائی دیتا ہے. حقیقت میں یہ وہ عرب نژاد اشعری خاندان ہے جس نے قم میں سکونت اختیار کرلی تھی.

امام ہادی(علیہ السلام) کے زمانے میں قم شیعیان ایران کا اہم ترین مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس شہر کے عوام اور علما اور آئمہ(علیہ السلام) کے درمیان گہرا اور قریبی رابطہ پایا جاتا تھا؛ جس قدر شیعیان کوفہ کے درمیان غلو آمیز اعتقادات رائج تھے اسی قدر قم میں اعتدال اور غلو کی مخالف فضا حاکم تھی. ایرانی اور قمی شیعیان اس مسئلے میں اعتدال پر اصرار رکھتے اور غلو سے دوری کرتے تھے.

قم اور آوہ کے عوام امام رضا(علیہ السلام) کے مرقد منور کی زیارت کے لئے مشہد کا سفر اختیار کرتے اور امام ہادی(علیہ السلام) نے انہیں اسی بنا پر مغفور لہم" کی صفت سے نوازا ہے۔

حوالہ جات

1- دلایل الامامة، ص 216.

2- تاریخ اجمالی پیشوایان علیہم السلام.

3- اثبات الوصیة، مسعودی، صص 196-197

4 الارشاد، شیخ مفید، ص 333

5- الغیبة، شیخ طوسی، ص 215

6- عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 260

Add new comment