آل سعود کا حقیقی چہرا
آل سعود! دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
آج میرا عالم اسلام سے فقط ایک ہی سوال ہے کہ اگر آج آل سعود یمن پر حملہ کرے تو اصلاح دین ہے اور دوسری طرف اگر یمنی اپنی و اپنے وطن کی حفاطت کریں (جو کہ ان کا حق ہے) تو باغی کہلاتے ہیں۔ یہ تو بالکل اسی طرح ہے کہ ’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ‘جبکہ اگر مسئلہ حفاظت حرمین شریفین کا ہی ہے تو کیا بیت المقدس حرم الٰہی نہیں؟؟ ہمارا قبلہ اول نہیں؟؟ کیا وہ شعائر اللہ میں سے نہیں؟؟ کیا اسکی حفاظت مسلمانوں پر واجب نہیں؟؟ کیا وجہ ہے کہ آج تک نہ تو اس پر آل سعود نے اور نہ ہی باقی عالم اسلام نے کوئی عملی قدم اٹھایا؟؟ نہیں نہیں یہاں بات حفاظت حرمین کی نہیں ہے یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔
اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں پر مختلف ادوار میں فتنوں نے سر اٹھایا اور دب گئے پھر ابھرے مگر ان کا سر کچل دیا گیا۔ چنانچہ بہت سارے فتنے بتدریج اپنے اثرات کے ساتھ زمین کی تہوں میں چلے گئے جبکہ کچھ فتنے تاریخ کے چہرے پر نہ صرف یہ کہ باقی ہیں بلکہ ایسا بدنما دھبہ ہیں کہ ان کی سیاہی کو کسی طور بھی دھونا ممکن نہیں۔ ان فتنوں میں سے ایک فتنہ، فتنہ آل سعود ہے کہ جس کی پیشین گوئی آج سے ٹھیک 1436 سال پہلے رسول اکرم(ص) کی ذات گرامی نے کی تھی۔ آج کی اصطلاح میں اس فتنے کو وہابیت سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ جس کی ابتداء وادی جبیلہ سے شمال مغرب کی طرف چند میل کے فاصلے پر مقام ’’عینیہ‘‘ میں ہوئی۔
یہ اس سرزمین کے سینے پر ابھرنے والا دوسرا بڑا فتنہ ہے کہ جس کے منحوس اثرات کو عالم اسلام آج تک بھگت رہا ہے۔ یاد رہے کہ سرزمین نجد میں اٹھنے والا پہلا فتنہ فتنہ مسیلمہ کذاب ہے اور اسی سرزمین کے متعلق رسول اکرم (ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ’’ھناک الزلازل و الفتن وبھا یطلع قرن الشیطان‘‘ یہ وہ سرزمین ہے کہ جہاں پر زلزلے آئیں گے اور فتنے سر اٹھائیں گے اور اسی سرزمین سے شیطان اپنے سینگ نکالے گا۔ اگر فتنہ آل سعود پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو اس کی منظر کشی کچھ یوں ہو پائے گی۔
اس فتنے کی ابتداء محمد بن عبدالوہاب کے ذریعے 1740ء میں باقاعدہ طور پر تب ہوئی جب اسی سال اس کے والد شیخ عبدالوہاب نجدی نے وفات پائی کیونکہ موصوف کے والد: شیخ عبدالوہاب، بھائی: سلیمان بن عبدالوہاب، دادا: سلیمان بن علی شرف اور چچا: ابراہیم بن سلیمان سب ممتاز عالم دین و فقہ امام احمد بن حنبلؒ کے پیروکار جبکہ بانی وہابیت محمد بن عبدالوہاب کی تحریک وہابیت سے سخت برائت رکھتے تھے اور اسکے بھائی سلیمان نے اس کے گمراہ کن افکار کے رد میں ایک رسالہ بھی (الصواعق الالہیہ علی رد الوھابیہ) کے نام سے تحریر کیا۔ لہذا موصوف کو اپنے والد کی موجودگی میں اس تحریک کو پھیلانے میں کافی دشواری پیش آئی۔ مگر 1740 عیسوی میں عبدالوہاب کی وفات کے بعد اس تحریک نے اپنے پاؤں پھیلانا شروع کر دیئے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فتنے کو فتنہ وھابیت کے بجائے فتنہ آل سعود سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ْ؟ یہ اس لئے کہ فتنہ محمد بن عبدالوہاب بعینہ تاریخ کے دوسرے فتنوں کی طرح سرزمین نجد پہ ابھرتا اور بالآخر نجد کی سرحدوں میں ہی اپنی موت آپ مر جاتا اور اس کے مضر اثرات سے عالم اسلام محفوظ رہتا جبکہ ایسا نہ ہوا اور اس کے برعکس جب فتنہ وہابیت کا دم گھٹ رہا تھا اور وہ اپنی موت کو اپنے سامنے محسوس کر رہا تھا تب جا کر اس گرتی ہوئی عمارت کو آل سعود نے سہارا دیا اور اس بارگراں کو اپنی پشت پر اٹھایا۔ آل سعود نے اس فتنے کو تمام عالم اسلام تک پھیلایا اور قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ جس کی مثال شاید تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔
آل سعود کی گود میں پلنے والے اس فتنے نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
1۔ عالم اسلام
2۔عالم کفر
نیز ہر وہ شخص جو ان کے گمراہ کن عقائد پر پورا اترے وہ مسلمان جبکہ باقی سارے عالم اسلام پر کفر کا فتویٰ تھوپ دیا۔ 1745ء محمد بن سعود سے لے کر تاحال 2015ء سلیمان بن عبدالعزیز تک کا دور آل سعود کے سیاہ کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔ اس دورانیئے میں آل سعود کے جو دور اقتدار گزرے ہیں اگر ان کو تاریخ کے سیاہ ترین ادوار سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ آل سعود کہ جو ایک طرف تو عالم اسلام کی سربلندی و دین دار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ اپنے بل کے دوسرے سوراخ سے نکل کر اسی دین کے مقدسات کو ڈسنا شروع کر دیتے ہیں۔
ان کی مثال چوہے کی سی ہے کہ جیسے وہ اپنی بل کے دو سوراخ رکھتا ہے اسی طرح ان کے بھی دو رخ ہیں چہرے کے ایک طرف تو اسلام کا مونو گرام ہے جبکہ دوسری طرف یہود و صیہونیت کی غلامی کی مہر۔ ایک طرف تو اسلام کا دم بھرتے ہیں جبکہ دوسری طرف مقدسات اسلام (کہ جن کے بارے میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے’’ومن یعظم شعائراللہ فإنھا من تقویٰ القلوب ‘‘ [یعنی جو شعائراللہ (مقدسات دین) کا احترام کرتا ہے تو یہ کام اس کے دل کے تقویٰ کی علامت ہے] کی توہین سے باز نہیں آتے۔
کربلا پر آل سعود کا حملہ، حرم مکہ کی بےحرمتی و غلاف کعبہ کا چاق کرنا، مدینہ منورہ میں رسول اللہ(ص) کے گنبد میں لگی گولیاں اور اسی طرح شہر طائف و نجف اشرف پر ان مفسد لوگوں کا حملہ اور نہتے مسلمانوں کا قتل عام کرنا۔
ان کے یہ تمام اعمال حرمت مقدسات دین کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایک طرف تو یہ سارے عالم اسلام کو کافر گردانتے ہیں جبکہ دوسری طرف خود اپنے دعوے (یعنی کافروں کے ساتھ لین دین کرنیوالا، ان کے کہنے پر عمل کرنیوالا، کافروں کے ساتھ کسی امر میں مشورہ کرنیوالا، ان کے پاس بیٹھنے والا، ان کی مدد کرنے والا، یہاں تک کہ ان کے ہاں جانے والا بھی کافر ہے) کے مطابق آل سعود کہاں سے مسلمان بن گئے؟؟ کیونکہ یا تو حکومت برطانیہ ان کے عقائد پر ہے اور وہ مسلمان ہے؟؟ یا پھر یہ یہود کے عقائد پر ہیں اور خود اپنے دعویٰ (کفر) کے مستحق ہیں؟؟ جبکہ یہ بات تو مسلم ہے کہ ابن سعود کو برطانیہ کی طرف سے (60،000 ساٹھ ہزار) پونڈ سالانہ آتے اور پھر یہ رقم ایک لاکھ 100000 پونڈ سالانہ تک پہنچ گئی۔
اے قاسمی یہ دھوم تھی نجدی کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات کو مجھے کس کے گھر ملے
یہ کیسا اسلام ہے کہ جیسے اپنی ذات پر تو نافذ کر نہ سکے مگر چلے عالم اسلام کی ہدایت کو۔
یہ غاصب آل سعود کہ جنہوں نے ایک بڑی سلطنت اسلامیہ (خلافت عثمانیہ) کو توڑنے میں برطانیہ کی مدد کی اور ایک عظیم اسلامی ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور آج یہ خادمین حرمین شریفین کے درجہ پر فائز ہیں۔
آج عالم اسلام کے جس خطے میں بھی فتنہ و فساد کی آگ بھڑک رہی ہے وہ آل سعود کی مرہون منت ہے۔ افغانستان ہو، عراق، بحرین، شام ہو یا پھر یمن ہر خطے میں آل سعود نے اپنے آقاؤں کے نمک کا حق ادا کیا ہے اور یہ قرآن کی اس آیت کا مصداق قرار پائے ہیں (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ’’انما نحن مصلحون‘‘ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ مفسد ہیں مگر شعور نہیں رکھتے)۔
آج میرا عالم اسلام سے فقط ایک ہی سوال ہے کہ اگر آج آل سعود یمن پر حملہ کرے تو اصلاح دین ہے اور دوسری طرف اگر یمنی اپنی و اپنے وطن کی حفاطت کریں (جو کہ ان کا حق ہے) تو باغی کہلاتے ہیں۔ یہ تو باکل اسی طرح ہے کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
جبکہ اگر مسئلہ حفاظت حرمین شریفین کا ہی ہے۔تو کیا بیت المقدس حرم الٰہی نہیں؟؟ہمارا قبلہ اول نہیں؟؟کیا وہ شعائر اللہ میں سے نہیں؟؟کیا اسکی حفاظت مسلمانوں پر واجب نہیں؟؟کیا وجہ ہے کہ آج تک نہ تو اس پر آل سعود نے اور نہ ہی باقی عالم اسلام نے کوئی عملی قدم اٹھایا؟؟ نہیں نہیں یہاں بات حفاظت حرمین کی نہیں ہے یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔
Add new comment