شیطان کا غلبہ روکنے کا نسخہ
شیطان کا غلبہ روکنے کا نسخہ
قائد انقلاب اسلامی نے چھبیس دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق گیارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول مع تشریح بیان کیا۔ اس روایت میں شیطان کے غلبے سے بچنے کا طریقہ بتایا گيا ہے۔ یہ قول زریں، اس کا ترجمہ اور شرح پیش خدمت ہے؛
کتاب الفقیہ میں منقول ہے؛ "قَالَ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع مَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَاعِظٌ مِنْ قَلْبِهِ وَ زَاجِرٌ مِنْ نَفْسِهِ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ قَرِينٌ مُرْشِدٌ اسْتَمْكَنَ عَدُوَّهُ مِنْ عُنُقِه"
شافی، صفحهى 652
ترجمہ و تشریح: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ دشمن (یہاں مراد شیطان ہے) کے مقابلے میں انسان کو استقامت اور تقویت عطا کرنے والی اور اسے دشمن کے تسلط میں جانے اور اس سے مغلوب ہونے سے بچانے والی سب سے پہلی چیز ہے؛ "واعظ من قلبھ" انسان کا ناصح قلب۔ دل اگر بیدار و متنبہ ہو تو انسان کو نصیحت کرتا رہتا ہے۔ انسان کے دل کو اپنی نصیحت پر آمادہ کرنے اور اپنی ذات کے لئے واعظ بنانے میں صحیفہ سجادیہ اور دیگر کتب میں منقول دعاؤں اور اسی طرح صبح کی بیداری کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ چیزیں انسان کے دل کو اس کے لئے ناصح اور واعظ بنا دیتی ہیں۔ تو پہلی چیز ہے ناصح قلب۔ دوسری چیز ہے؛ "زاجر من نفسہ" یعنی انسان کے اندر کوئی روکنے والا، منع کرنے والا اور خبردار کرنے والا ہو۔ اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوں اور " ولم یکن لہ قرین مرشد" رہنمائی کرنے والا کوئی ساتھی بھی نہ ہو جو اس کی رہنمائی اور مدد کر سکے، کہ جو شیطان کے غلبے سے بچانے والی تیسری چیز ہے، (تو عین ممکن ہے کہ اس پر شیطان غالب آ جائے)۔ اگر انسان کے اندر کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اس کی ہدایت کرے، اس کے نفس کو قابو میں رکھے تو اسے کسی دوست اور ہمنوا کی شدید ضرورت ہے۔ ایسا ہمنوا جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ " من یذکرکم اللہ رویتھ" جس کا دیدار تمہیں اللہ کی یاد دلائے۔ اگر وہ شخص ایسے دوست سے بھی محروم ہے تو "استمکن عدوہ من عنقھ" اس نے خود کو اپنے دشمن کا مطیع بنا لیا ہے، اپنے اوپر دشمن کو مسلط کر لیا ہے۔ دشمن سے مراد شیطان ہے۔ تو یہ چیزیں ضروری ہیں۔ انسان کا ضمیر اسے نصیحت دیتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لئے بہترین ناصح خود اس کا ضمیر ہے کیونکہ انسان کبھی اپنے ضمیر کی بات کا برا نہیں مانتا۔ اگر کسی اور نے نصیحت کی اور لہجہ ذرا سا سخت اور تند ہوا تو انسان برا مان جاتا ہے لیکن جب انسان کا ضمیر نصیحت کرتا ہے، ملامت کرتا ہے، خود کو ناسزا کہتا ہے، سرزنش کرتا ہے تو یہ چیز بہت موثر واقع ہوتی ہے۔ یہ نصیحت اور موعظہ بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی یا اس خصوصیت کے فقدان کی صورت میں ایسے دوست اور ہمدرد کا ہونا ضروری ہے جو انسان کی مدد کرے۔
Add new comment