پاکستان میں داعش کی موجودگی ، ریت میں سر چھپانے سے خطرہ نہیں ٹلے گا
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ کے دوران آئی بی کے سربراہ نے بتایا کہ مُلک سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑ دیا گیا۔ تحریک طالبان کی کمر ٹوٹ گئی اور عالمی تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کا نیٹ ورک بھی پکڑا گیا ہے تاہم مُلک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے میں 10سال تک لگ سکتے ہیں کہ یہاں داعش کو مُلک کے اندر سے نہ صرف تحریک طالبان، بلکہ القاعدہ کے بچے کھچے افراد کی بھی حمایت مل رہی ہے۔بریفنگ کے حوالے سے جو اطلاع شائع ہوئی اس سے اطمینان اور تشویش کا بیک وقت پایا جانا لازم ہے،اطمینان تو دہشت گردی کے خاتمے کی مہم کی کامیابی سے ہے،جبکہ تشویش داعش کو تعاون ملنے والے حصے سے ہے، جہاں سرکاری اداروں کو اپنے فرائض چوکس ہو کر ادا کرنا چاہئیں وہاں پاکستان کے عوام کو بھی پُرفریب نعروں سے باہر نکل آنا چاہئے اور خوف کو بھی بالائے طاق رکھ کر سرکاری ذرائع کو ضروری معلومات بھی مہیا کرنا چاہئیں کہ دہشت گردی نے پورا معاشرتی ڈھانچہ ہی تباہ کر دیا ہے۔ے شک دوسری انتہاءپسند تنظیموں کی طرح ”داعش“ بھی امریکی سرپرستی میں قائم ہوئی ہے تاہم اب ہماری سرزمین پر بھی اسکے نیٹ ورک کی موجودگی ایک حقیقت ہے جس سے انکار کرکے علاقائی اور عالمی امن کیلئے خطرہ بننے والے اس فتنے سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔
اس وقت جبکہ پنجاب کے متعدد شہروں میں بعض تکفیری دہشتگرد گروہوں کے داعش سے روابط اور دہشت گردی کی کچھ حالیہ وارداتوں میں اسکے ملوث ہونے کی بھی تصدیق ہو چکی ہے جیسا کہ آئی بی چیف نے صفورا گوٹھ کراچی کی دہشت گردی میں داعش کے ملوث ہونے کا عندیہ دیا ہے تو اس تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملنے سے پہلے ہی جڑ سے اکھاڑنا ہماری ترجیح اول ہونی چاہیے۔ اس سے قبل سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے نہ جانے کس حکمت عملی کے تحت پاکستان میں داعش کے وجود سے انکار کیا جاتا رہا ہے جبکہ جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طالبات کے داعش کے ساتھ روابط کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی تھی۔ آج آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر موئثر کارروائیوں کے باوجود اس امر کا اعتراف کررہے ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ بہت پیچیدہ ہے جس میں کامیابی کیلئے ٹھوس حکمت عملی اور قوم کے متفقہ ردعمل کی ضرورت ہے تو اس سے داعش سمیت یہاں مختلف دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک مضبوط اور فعال ہونے کا ہی عندیہ مل رہا ہے۔ ہمیں ملک کے مستقبل کو دہشت گردی سے لاحق خطرات ٹالنے کیلئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے بجائے عملیت پسندی پر مبنی پالیسیاں مرتب کرنا ہونگی اور بالخصوص داعش کا یہاں سے نیٹ ورک توڑنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں یقیناً مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے جس کیلئے مختلف مکاتب فکر کے جید علماءکرام کی معاونت سے مذہبی ہم آہنگی کا چارٹر تیار کراکے اس پر مربوط انداز میں عملدرآمد کرانا ضروری ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ پیغام اسلام کانفرنس میں مختلف اسلامی ممالک کے قائدین اور ملک بھر کے پانچ ہزار سے زائد علماءکرام نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں ”داعش“ کو خوارج قرار دے کر مذہبی انتہاءپسندی کیخلاف بھرپور جدوجہد کا عزم ظاہر کیا ہے تو داعش اور دوسر ی کالعدم تکفیری دہشتگرد تنظیموں کے دین اسلام کے حوالے سے مجہول پروپیگنڈے کے توڑ کیلئے ان علماءکرام کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ نوجوان نسل میں ان انتہاءپسند تنظیموں کے ڈھالے گئے ذہن تبدیل کرنے کیلئے یقیناً وقت لگے گا جبکہ اس کیلئے عوام کی اقتصادی پسماندگی دور کرنے کے اقدامات بھی اٹھانے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل کیلئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے اقتصادی حالات کے باعث انتہاءپسند تنظیموں کی جانب سے دی جانیوالی ترغیبات سے متاثر نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں حکومتی ریاستی اتھارٹی‘ سکیورٹی کے ریاستی اداروں اور مجموعی طور پر پوری قوم کے مذہبی انتہاءپسندی کیخلاف یکسو ہونے اور انکے انتہاءپسندانہ نظریات کو اجتماعی قوت بروئے کار لا کر مسترد کرنے کی ضرورت ہے
Add new comment