34 ملکی اتحاد میں شمولیت سے ملک میں رہنے والے شیعہ اور اہل سنت کا اعتماد اٹھ جائے گا، علامہ عابد الحسینی

سوال : سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اسلامی اتحاد کے متعلق آپکی رائے کیا ہے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ اس اتحاد کی ضرورت کیا تھی۔ اگر اسلامی ممالک کو متحد کرنا تھا، اسلامی ممالک کے مسائل کو حل کروانا مقصود تھا، تو اسلامی ممالک کی ایک تنظیم پہلے ہی سے موجود ہے۔ عرب لیگ کے نام سے کئی عرب اسلامی ممالک کی تنظیم بھی موجود ہے۔ چنانچہ ان دو پلیٹ فارمز سے یہ نیک مقاصد حاصل کئے جاسکتے تھے۔ چنانچہ اس اتحاد سے سوائے اس کے اور کوئی مقصد نہیں کہ امریکہ اور اسرئیل کی خوشنودی کی خاطر ایران کو الگ تھلگ کیا جائے اور ایران کا قصور صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ علاقے میں امریکہ، یورپ خصوصاً اسرائیل کا اثر و رسوخ نہیں چاہتا۔ ایران فلسطینوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھا رہا ہے۔ سعودی عرب کو اگر اسلام اور مسلمانوں سے دلچسپی ہے تو وہ فلسطین کے مظلوموں کی آواز عرب لیگ یا اسلامی ممالک تنظیم کی سطح پر کیوں نہیں اٹھاتا۔ آج تک کبھی سعودی عرب نے مسلمانوں کی مظلومیت کا رونا نہیں رویا۔ کبھی انکا مسئلہ ان دو پلیٹ فارمز پر نہیں اٹھایا بلکہ انکے ایک ذمہ دار شہزادے نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کی صورت میں اسرائیل ہی کا ساتھ دینے کا بلا جھجک و تردد اعلان کیا ہے۔ یہ ہے سعودی عرب کی مسلمانوں سے دلچسپی بلکہ اسلامی دنیا جہاں کہیں مسائل و مشکلات سے دوچار ہے، اسکا سب سے بڑا ذمہ دار سعودی عرب ہی ہے۔
سوال : اگر مخلصانہ کوششیں کرکے ایران اور سعودی عرب کو قریب لایا جائے تو کیا اس سے اسلامی دنیا کے مسائل حل نہیں ہونگے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: انکے درمیان صلح کرانا بہت ہی مشکل بلکہ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ انکے مقاصد و اہداف ہی الگ الگ ہیں۔ ایران کا ہدف امریکہ اور اسرائیل کو علاقے سے بے اثر کرنا اور فلسطین کو آزاد کرانا ہے، جبکہ سعودی عرب اپنا واحد نجات دہندہ اللہ کو نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کو قرار دے رہا ہے۔ گویا امریکہ اور اسرائیل اسکے خدا ہیں، تو جب ایران اسکے خداووں کا دشمن ہے، یا بالفاظ دیگر ایران کے سرسخت دشمن سعودی عرب کے سرپرست اور آقا ہیں تو انکا اتحاد کرانا میرے خیال میں پانی کو آگ سے ملانے کے مترادف ہے، ہاں ایک بات ہوسکتی ہے کہ کوئی بااثر ملک دونوں کو یہ باور کرائے کہ جس جس سے بھی آپ کی دوستی ہے، وہ اپنی جگہ پر صحیح۔ تم امریکہ یا اسرائیل سے دوستی قائم رکھو، لیکن انکی دوستی مسلمانوں اور اسلامی ملک کی دشمنی کی قیمت پر نہ کیا کرو۔
سوال : اس اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی بھی باتیں ہو رہی ہیں، اگر پاکستان اس اتحاد میں شامل ہوگیا تو ملک پر اسکے کونسے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسینی: پاکستان کی شمولیت کے کوئی مثبت اثرات نہیں ہوسکتے بلکہ اسکے تمام تر اثرات منفی ہی رہیں گے۔ دیکھیں پاکستان نے انڈیا کے ساتھ جنگوں کے سوا ہمیشہ سے پراکسی وار لڑی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ دوسروں کی جنگوں کے لئے اپنی زمین پیش کی ہے، جبکہ ہوشیار لوگ اپنی لڑائیاں دوسروں کی سرزمین پر لڑتے ہیں۔ دیکھیں افغانستان میں روس کی مداخلت سے امریکہ متفکر اور پریشان تھا، اس نے مسلمان ممالک خصوصاً پاکستان کو یہ ٹاسک دیا، جو اس نے سرانجام تو دیا، امریکہ کا مقصد مکمل طور پر پورا تو ہوگیا، تاہم پاکستان نے اپنے ہزاروں لوگوں کی قربانی دی۔ ہزاروں لوگ معذور ہوگئے۔ اس پراکسی وار نے اسکے شہروں اور شہریوں سے امن و امان کو چھین لیا، تو عرض یہ ہے کہ اگر پاکستان اس اتحاد کا حصہ بن گیا تو اگرچہ وہ سعودی عرب کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا، تاہم وہ ایران، عراق اور شام کا اعتماد کھو بیٹھے گا۔ اسکے علاوہ پاکستان ایک بہت بڑا ملک ہے، اس وطن عزیز میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ رہتے ہیں، پاکستان کے شیعہ اور اہلنسنت اس اتحاد کے خلاف ہیں۔ صرف وہابی اور تکفیری لوگ ہی اس پر خوش ہونگے، جبکہ اس کی وجہ سے ملک میں رہنے والے شیعہ اور اہل سنت کا اعتماد اپنے ملک پر سے اٹھ جائے گا، تو کسی بھی بیرونی جنگ کی صورت میں تو کیا، نارمل حالات میں بھی ملک کے اندر انتشار اور خانہ جنگی بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہر وقت رہے گا۔
سوال : عراق میں ترکی کی فوجی مداخلت کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: کسی بھی آزاد ملک کی اپنی ایک آزاد خارجہ و داخلہ پالیسی ہوتی ہے۔ عراق بھی ایک آزاد ملک ہے، اس ملک کی حکومت کے مطالبے کے بغیر کسی کو بھی وہاں فوج بھیجنے کا کوئی حق نہیں۔ ترکی نے عراقی حکومت کی رضامندی کے برخلاف وہاں سینکڑوں فوجی تعینات کئے ہیں، جو کہ سراسر غیر قانونی ہے۔ حالانکہ اس کی تصدیق گذشتہ روز عرب لیگ نے بھی کر دی ہے۔ انہوں نے ترکی کی مداخلت کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر انخلاء کی سفارش کی ہے۔ چنانچہ اب اقوام متحدہ کو کردار ادا کرتے ہوئے ترکی کے خلاف فوری قرارداد منظور کرنا چاہیئے اور فوری طور پر اسے یہاں سے بیدخل کرانا چاہیئے۔
سوال : پاراچنار میں ہونیوالا حالیہ دھماکہ کس نوعیت کا تھا، اور اس میں کل کتنے افراد جاں بحق ہوئے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: عینی شاہدین سے پتہ چلتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد کو کباڑ میں نصب کرکے بوغکی کے ایک غریب کباڑی کے ہاں فروخت کرنے کے بعد ریموٹ کنٹرول سے پھٹایا گیا تھا اور اس میں آج تک 27 افراد شہید جبکہ 60 کے لگ بھگ زخمی ہوچکے ہیں۔
سوال : دھماکے کے حوالے سے کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔؟
علامہ سید عابد حسینی: پہلے دن تو ایک افواہ پھیلا دی گئی تھی کہ دو مشکوک بندے گرفتار کئے گئے ہیں، مگر اسکی کوئی حقیقت نہیں، اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔
سوال : دھماکہ کرنیوالے کون اور حالیہ دھماکے سے انکے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد حسینی: مختلف قسم کی باتیں سننے میں آرہی ہیں، لیکن ایک بات تو بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ سابقہ ٹی ایم (تحصیلدار محال) جو کہ مولانا فضل الرحمان کا بندہ تھا، یعنی انہوں نے سفارش کرکے اسکا یہاں تبادلہ کروایا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اسکی کال ریکارڈنگ سے یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ دھماکے میں انکا سو فیصد ہاتھ ہے۔ اسی بنا پر اسکا فوری طور پر تبادلہ کرایا گیا۔ چنانچہ یہ بات اگر درست ہے تو فوری طور پر اسے گرفتار کیا جانا چاہیئے تھا۔ صرف تبادلے سے کچھ نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سے تو دہشتگردوں کے عزائم مزید مستحکم ہونگے۔ اسکے علاوہ جہاں دھماکہ ہوا ہے، وہ جگہ شیعہ اور سنیوں کے درمیان متنازعہ ہے۔ چنانچہ ایک شک یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ مقامی سنیوں نے اس جگہ کو خالی کروانے کی غرض سے یہاں دھماکہ کروایا ہو، تاکہ اس مقام کو مکمل طور پر سیل کیا جاسکے اور ہوا بھی اسی طرح کہ اب اس جگہ پر ایف سی تعینات ہے اور اس مقام کو مکمل طور پر سیل کیا جاچکا ہے۔ تو اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ مقامی افراد اس میں ملوث ہوں اور ویسے بھی یہ کوئی اہم جگہ نہیں تھی۔ اس سے زیادہ رش والے نیز اس سے زیادہ اہمیت والے مقامات موجود ہیں۔ اگر فقط شیعوں کو مروانا مقصود تھا تو یہاں دھماکہ کرانے سے اور کیا مقصد تھا؟ جبکہ اس سے زیادہ نقصان وہ کسی اور مقام پر کرسکتے تھے

Add new comment