دوستی کی پاسداری اور اس کا صلہ
قائد انقلاب اسلامی نے ستائیس دی تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق بارہ صفر چودہ سو بتیس ہجری قمری کو فقہ کے اجتہادی و استنباطی درس " درس خارج" سے قبل حسب معمول فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے دو اقوال مع تشریح بیان کئے۔ ان دونوں روایتوں میں دوستی کے پاس و لحاظ اور اس پر عطا ہونے والی جزا کا ذکر ہے۔ دونوں اقوال، ان کے ترجمے اور شرح پیش خدمت ہے؛
پہلی روایت: "عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَعالی لَيَحْفَظُ مَنْ يَحْفَظُ صَدِيقَه"
دوسری روایت: "قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع لَا تُفَتِّشِ النَّاسَ فَتَبْقَى بِلَا صَدِيق"
ترجمہ: الکافی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ «انّ اللَّه تعالى ليحفظ من يحفظ صديقه»؛اللہ تعلی اس انسان کی حفاظت کرتا ہے جو اپنے دوست کی حفاظت کرے۔
تشریح: یہاں صرف جسمانی حفاظت مراد نہیں ہے۔ ممکن ہے یہ بھی مد نظر ہو لیکن یہاں مقصود ہے اس کی عزت و آبرو کی حفاظت، اس کی ساکھ اور اس کی شخصیت کی حفاظت، اس کے مفادات کی حفاظت۔ ایسا کرنے والے کی حفاظت اللہ خود کرتا ہے۔ اسلام میں دوستی، اخوت اور بھائي چارے کے رشتوں کو اتنی اہمیت دی گئی ہے! آپ اپنے دوست کی حفاظت کریں گے اس کا خیال رکھیں گے تو اللہ آپ کا خیال رکھے گا۔ البتہ دوست کی حفاظت کرنے اور اس کا خیال رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اس کے گناہوں اور غلطیوں کی بھی توجیہ اور دفاع شروع کر دے۔ جماعتوں، تنظیموں اور گروہوں کی سطح پر یہ چیز دیکھنے میں آتی ہے کہ اگر کسی نے کوئی غلطی کر دی ہے تو چونکہ وہ ہمارے گروہ سے اور ہماری پارٹی سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ہم اس کا دفاع کریں گے۔ یہاں یہ مراد نہیں ہے۔ حقیقت کی نگاہ سےدیکھا جائے تو یہ اس کی حفاظت نہیں یہ تو اسے رسوا کرنے، اسے نگوں بخت بنانے کے مترادف ہے۔ دوست کی حفاظت سے مراد ہے انسان اپنے اس مومن بھائی کی آبرو کی حفاظت کرے جس کا اس سے ایمانی اور دینی رشتہ ہے۔ یہ ایک روایت۔
ترجمہ: دوسری روایت بھی کافی میں موجود ہے جس میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ «لا تفتّش النّاس فتبقى بلا صديق» لوگوں کے کاموں کے سلسلے میں بہت زیادہ تجسس اور موشگافی نہ کرو۔ لوگوں کے چھوٹے بڑے عیوب تلاش کرنے میں مصروف نہ رہو۔ کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں تم دوستوں سے محروم ہو جاؤگے۔
تشریح:کوئی بھی ہو اس میں ایک نہ ایک عیب تو ہوتا ہی ہے۔ اب اگر آپ تفتیش اور تجسس میں پڑ جائيں گے اور سب کے بارے میں موشگافی کرنا شروع کر دیں گے تو آپ کی نظر میں کوئی اچھا انسان باقی ہی نہیں رہے گا۔
Add new comment