۷ رجب: امام رضا علیہ السلام کا مجبور ہو کر ولایت عہدی قبول کرنا

 

ولیعہدی کا مسئلہ، ایک تجزیہ

مأمون نے عراقِ عرب کی ولایت حسن بن سہل کو سونپ دی تھی اور خود مرو میں تعینات رہا۔ علویوں کی ایک جماعت نے خلافت کی لالچ میں عَلَمِ بغاوت بلند کیا اور چونکہ عراقی عوام حسن بن سہل سے ناراض تھے ایک بڑی جماعت نے علویوں کی بیعت کی اور ان کی اطاعت اختیار کی۔ مأمون نے یہ خبر سنی تو خوفزدہ ہوا اور فضل بن سہل ذو الریاستین سے صلاح مشورہ کیا اور فضل کی تجویز پر امام رضا(ع) کو ولیعہد کے طور پر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ شاید اس روش سے سادات اور علویوں کو اطاعت گزاری پر آمادہ کرسکے۔

 

ولیعہدی کا مسئلہ امام رضا(ع) کی سیاسی حیات میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ امام(ع) کی ولیعہدی کے واقعے کا جائزہ لینے کے لئے تاریخ اسلام، تاریخ خلفائے بنو امیہ نیز بنو عباس کے خلفاء کے بر سر اقتدار آنے کی کیفیت کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ امام رضا(ع) کی شہادت (سنہ 203ہجری) تک اسلامی خلافت کی سرزمینوں کی عمومی صورت حال کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے: اموی حکمران عام طور ظالم اور ستمگر تھے اور خلافت سے ان کا مقصد حکومت کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ صرف عمر بن عبدالعزیز کا رویہ باقی اموی حکمراوں سے کسی قدر مختلف تھا جس کا دور حکومت چندان طولانی نہ تھا۔ این خلفاء کے ظلم و ستم کی وجہ سے اموی حکومت کے خلاف ہر طرف سے بغاوتوں اور بلؤوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ زیادہ تر بغاوتوں کا رنگ مذہبی اور دینی تھا۔ مسلمین دین اسلام اور دینی احکام کے احیاء کے لئے اسلامی سرزمینوں میں رہنے والے دیگر آسمانی ادیان کے پیروکار عدل و مساوات کے نفاذ کے لئے خاندان علی(ع) ـ جنہیں "اہل بیت" کہا جاتا تھا ـ سے امید لگائے بیٹھے تھے۔ عباسیوں نے مسلمانوں کی اس امید کو اپنے مقاد میں استعمال کیا۔ بنو عباس نے ابتداء میں نعرہ لگایا کہ وہ مسلمانوں کو بنو امیہ کے شر سے سے چھڑانے کے لئے آئے ہیں اور انھوں نے اپنی تحریک کے کئی مراحل میں اہل بیت(ع) کے حق میں تبلیغ اور تشہیر کرکے آگے بڑھائی؛ جس کے چند نمونے درج ذیل ہیں:

 

ابتداء میں بنو عباس کی دعوت علویوں کے حق میں؛

 

اہل بیت اور عترت کے حق ميں دعوت؛

 

آل محمد کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دعوت عام؛

 

اپنے لئے میراثِ خلافت کا دعوی

 

عباسیوں نے جب حیلہ گری اور فریبکاری کے ذریعے حکومت کو اپنے خاندان میں قائم کیا تو انھوں نے اپنے تمام وعدوں اور نویدوں کو پامال کردیا اور عوام الناس ـ بالخصوص علویوں کے ساتھ ـ بدسلوکی کا آغاز کیا اور ہر بہنے سے انہيں جہاں پایا آزار و اذیت کا نشانہ بنایا، قید کیا یا قتل کیا۔ عباسیوں نے اپنے بنی اعمام یعنی آل ابی طالب(ع) کے ساتھ جو بزدلانہ سلوک روا رکھا اس کی وجہ سے عوام الناس میں ناراضگی کی لہر دوڑ گئی اور اسی رو سے موجودہ نظام کے خلاف بھی بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مأمون کے زمانے میں سابقہ عباسی خلفاء سے کہیں زیادہ بلؤوں، بغاوتوں اور تحریکوں کو فروغ ملا۔ مأمون جان گیا کہ مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے منجملہ:

 

علوی شورشوں کو خاموش کرنا؛

 

علویوں سے عباسی حکومت کو تسلیم کروانا؛

 

خاندان علوی سے عوام کی روز افزوں محبت اور معاشرے میں ان کے احترام کا خاتمہ کرنا؛ مسلمانوں کے دلوں سے اس محبت و احترام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنا اور اس کے لئے ایسی روشیں بروئے کار لانا کہ علوں کو خبر ہوئے بغیر انہیں عوام کے اندر بےقدر و قیمت کیا جائے۔

 

مأمون نے خاص طور پر کہا تھا کہ وہ امام رضا(ع) کو عوامی رائے عامہ میں خلافت کے لئے نااہل بنا پر پیش کرنا چاہتا ہے۔

 

مأمون کو جب حمید بن مہران اور دوسرے عباسیوں کی طرف سے ملامت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے کہا: "یہ مرد ہماری آنکھوں سے اوجھل تھا؛ وہ لوگوں کو اپنی جانب بلاتا تھا، اسی بنا پر ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ ہمارا ولیعہد بنے تاک وہ ہر چند لوگوں کو اپنی جانب بلائے سب کچھ ہمارے حق میں تمام ہوجائے"۔

 

امام رضا(ع) مأمون کے ارادوں سے واقف تھے چنانچہ آپ نے خود مأمون سے کہا: تم چاہتے ہو کہ لوگ کہنا شروع کریں کہ "علی بن موسی دنیا اور اقتدار کی طرف بےرغبت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ہے کہ اس کی طرف رغبت نہيں رکھتی؛ کیا تم نہيں دیکھتے کہ کس طرح اس نے اقتدار کی محبت میں ولیعہدی کا عہدہ قبول کیا ہے!"۔

 

جب لوگوں نے امام(ع) سے ولی عہدی قبول کرنے کا سبب پوچھا تو آپ(ع) نے فرمایا: میں نے یہ عہدہ جبر و اکراہ کی بنا پر قبول کیا ہے۔[74]

 

امام(ع) نے ولیعہدی کا منصب سنبھالنے کے لئے جو شرطیں رکھ لیں وہ در حقیقت حکومت میں شرکت سے آپ کی بیزاری کے مترادف ہیں؛ کیونکہ امام(ع) نے فرمایا: میں ہرگز کسی کو کسی منصب پر متعین نہ کروں گا، کسی کو معزول نہ کروں گا، نہ کسی رسم و روایت کو توڑوں گا اور موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں لاؤں گا؛ صرف دور سے حکومت کے معاملے میں مشیر کا کردار ادا کروں گا۔ اس شرط سے معلوم ہوتا ہے کہ امام(ع) نے یہ عہدہ بامر مجبوری قبول کیا تھا۔

 

علاوہ ازیں بعض منابع میں منقول ہے کہ امام(ع) نے فرمایا: یہ عہدہ انتہا تک نہ پہنچ سکے گا۔

 

ولایت عہدی کی سند کی پشت پر امام(ع) کے تحریر کردہ فقروں کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام کو یہ سب کچھ ناپسند تھا اور آپ اس کے ناپسندیدہ انجام سے باخبر تھے۔

 

چنانچہ بہت تھوڑا عرصہ ہی گذرا تھا کہ بغداد میں عباسیوں نے مامون کے خلاف بغاوت کرکے ابراہیم بن مہدی کے ہاتھ پر بیعت کی؛ [مامون کے دھوکے میں آنے والے] علوی بھی سمجھ گئے کہ اس نے یہ کام ایمان کی رو سے انجام نہيں دیا تھا اور ایک بار پھر عباسیون کے خلاف تحریک شروع ہوئی چنانچہ مامون کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ امام رضا(ع) کو راستے سے ہٹا دے۔

 

 


Add new comment