امام رضاؑ کی زندگی کے چند زرّیں اوراق

امام رضا(ع) کي ولي عہدي:

عباسي دور ميں سب سے اہم واقعہ يہ رونما ہوا کہ مامون نے امام رضا (ع) کو اپنا ولي عہد بنا ديا، يعني وہ عباسي خلافت جو علوي سادات سے دشمني رکھتي تھي اس ميں تبديلي واقع ہو گئي اور اس بڑے واقعہ کا خاص وعام دونوں ميں گفتگو و چرچا ہوا اور سب مبہوت ہو کر رہ گئے، وہ سياسي روش جس ميں عباسيوں نے علويوں کا بالکل خاتمہ کر ديا تھا، اُن کے جوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار ديا تھا، اُن کے بچوں کو دجلہ ميں غرق اور شيعوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کرديا تھا۔ عباسيوں سے علويوں کي دشمني بہت آشکار تھي، يہ دشمني محبت و مودت ميں کيسے بدل گئي؟ عباسي اُن کے حق کے معترف ہو گئے اور عباسي حکومت کا اہم مرکز اُن (علويوں) کو کيسے سونپ ديا، اسي طرح کي تمام باتيں لوگوں کي زبانوں پر تھيں ۔

يہ مطلب بھي بيان ہونا چاہئے کہ مامون نے يہ اقدام اس لئے نہيں کيا تھا کہ يہ علويوں کا حق ہے اور وہ خلافت کے زيادہ حقدار ہيں، بلکہ اُس نے کچھ سياسي اسباب کي بنا پر ولايت کا تاج امام رضا (ع) کے سر پر رکھا جس کے کچھ اسباب مندرجہ ذيل تھے:

١۔ مامون کا عباسيوں کے نزديک اہم مقام نہيں تھا،اور ايسا اس کي ماں مراجل کي وجہ سے تھا جو اس کے محل کے پڑوس اور اس کے نوکروں ميں سے تھي، لہٰذا وہ لوگ مامون کے ساتھ عام معاملہ کرتے تھے، وہ اس کے بھائي امين کا بہت زيادہ احترام کرتے تھے،کيونکہ اُن کي والدہ عباسي خاندان سے تعلق رکھتي تھي، لہٰذا مامون نے امام رضا (ع) کو اپني ولي عہدي سونپ کر اپنے خاندان کو نيچا دکھانے کي کوشش کي تھي ۔

٢۔ مامون نے امام (ع) کي گردن ميں وليعہدي کا قلادہ ڈال کر يہ آشکار کرنا چاہا تھا کہ امام (ع) دنيا کے زاہدوں ميں سے نہيں ہيں، بلکہ وہ ملک و بادشاہت اور سلطنت کے خواستگار ہيں، اسي بنا پر انھوں نے وليعہدي قبول کي ہے، امام (ع) پر يہ سياست مخفي نہيں تھي، لہٰذا آپ (ع) نے مامون سے يہ شرط کي تھي کہ نہ تو ميں کسي کو کوئي منصب دوں گا، نہ ہي کسي کو اس کے منصب سے معزول کريں گے، وہ ہر طرح کے حکم سے کنارہ کش رہوں گا امام کي اِن شرطوں کي وجہ سے آپ (ع) کا زاہد ہونا واضح گيا۔

٣۔ مامون کے لشکر کے بڑے بڑے سردار شيعہ تھے لہٰذا اس نے امام (ع) کو اپنا وليعہد بنا کر اُن سے اپني محبت و مودت کا اظہار کيا ۔

٤۔ عباسي حکومت کے خلاف بڑي بڑي اسلامي حکومتوں ميں انقلاب برپا ہو چکے تھے اور عنقريب اُس کا خاتمہ ہي ہونے والا تھا، اور اُن کا نعرہ "الدعوة الي الرضا من آل محمد"تھا، جب امام رضا (ع) کي وليعہدي کے لئے بيعت کي گئي تو انقلابيوں نے اس بيعت پر لبيک کہي اور مامون نے بھي اُن کي بيعت کي، لہٰذا اس طرح سے اُس کي حکومت کو درپيش خطرہ ٹل گيا، يہ ڈپلوميسي کا پہلا طريقہ تھا اور اسي طرح مامون اپني حکومت کے ذريعہ اُن رونما ہونے والے واقعات پر غالب آ گيا ۔

اِن ہي بعض اغراض و مقاصد کي وجہ سے مامون نے امام رضا (ع) کو اپنا ولي عہد بنايا تھا ۔

فضل کا امام رضا (ع) کو خط لکھنا:

مامون نے اپنے وزير فضل بن سہل سے کہا کہ وہ امام (ع) کو ايک خط تحرير کرے کہ ميں نے آپ (ع) کو اپنا وليعہد مقرر کرديا ہے۔ خط کا مضمون يہ تھا: علي بن موسيٰ الرضا (عليہ السلام) کے نام جو فرزند رسول خدا (ص) ہيں، رسول (ص) کي ہدايت کے مطابق ہدايت کرتے ہيں،رسول کے فعل کي اقتدا کرتے ہيں، دين الٰہي کے محافظ ہيں ،وحي خدا کے ذمہ دار ہيں، اُن کے دوست فضل بن سہل کي جانب سے جس نے اُن کے حق کو دلانے ميں اپنا خون پسينہ ايک کيا اور دن رات اس راہ ميں کوشش کي، اے ہدايت کرنے والے امام (ع) آپ پر صلوات و سلام اور رحمت الٰہي ہو، ميں آپ (ع) کي خدمت ميں اس خدا کي حمد بجا لاتا ہوں جس کے سوا کوئي معبود نہيں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ اپنے بندے محمد (ص) پر درود بھيجے۔ اما بعد، اميدوار ہوں کہ خدا نے آپ (ع) کو آپ کا حق پہنچا ديا اور اُس شخص سے اپنا حق لينے ميں مدد کي جس نے آپ(ع) کو حق سے محروم کر رکھا تھا، ميں اميدوار ہوں کہ خدا آپ (ع) پر مسلسل کرم فرمائي کرے، آپ(ع) کو امام اور وارث قرار دے، آپ (ع) کے دشمنوں اور آپ (ع) سے روگرداني کرنے والوں کو سختيوں ميں مبتلا کرے،ميرا يہ خط امير المومنين بندئہ خدا مامون کے حکم کي بنا پر پيش خدمت ہے ميں آپ (ع) کو يہ خط لکھ رہا ہوں تاکہ آپ کا حق واپس کر سکوں، آپ کے حقوق آپ کي خدمت ميں پيش کر سکوں، ميں چاہتا ہوں کہ اس طرح آپ (ع) مجھ کو تمام عالمين ميں سعادتمندترين قرار ديں اور ميں خدا کے نزديک کامياب ہو سکوں،رسول خدا (ص) کے حق کو ادا کر سکوں،آپ (ع) کا معاون قرار پائوں،اور آپ کي حکومت ميں ہر طرح کي نيکي سے مستفيض ہو سکوں، ميري جان آپ پر فدا ہو، جب ميرا خط آپ تک پہنچے اور آپ مکمل طور پر حکومت پر قابض ہو جائيں يہاں تک کہ اميرالمومنين مامون کي خدمت ميں جا سکيں جو کہ آپ (ع) کو اپني خلافت ميں شريک سمجھتا ہے،اپنے نسب ميں شفيع سمجھتا ہے اور اس کو اپنے ماتحت پر مکمل اختيار حاصل ہے تو آپ (ع) ايسي روش اختيار کريں جس کي وجہ سے خيرالٰہي سب کے شامل حال ہو جائے اور ملائکہ  الٰہي سب کي حفاظت کريں اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ آپ (ع) کے ذريعہ امت کي اصلاح کرے اور خدا ہمارے لئے کافي ہے اور وہ بہترين ذمہ دار ہے اور آپ پر خدا کا سلام اور رحمت و برکتيں ہوں(۱)۔

اس خط ميں آپ (ع) کے کريم و نجيب القاب اور بلند و بالا صفات تحرير کئے گئے ہيں جس طرح کہ امام (ع) کي جانب خلافت پلٹائے جانے کا ذکر کيا گيا ہے ۔

يہ سب مامون کي مہرباني اور اس کي مشقتوں سے بنے،مامون يہ چاہتا تھا کہ امام (ع) بہت جلد خراسان آ کر اپني خلافت کي باگ ڈور سنبھال ليں،امام (ع) نے اس خط کا کيا جواب ديا ہميں اس کي کوئي اطلاع نہيں ہے جو عباسي حکومت کے ايک بڑے عہدے دار کے نام لکھا گيا ہو اور اس سے بڑا گمان يہ کيا جا رہا ہے کہ امام (ع) نے اپنے علم و دانش کي بنا پر اس لاف و گزاف (بے تکے) ادّعا اور عدم واقعيت کا جواب تحرير ہي نہ فرمايا ہو ۔

مامون کے ايلچيوں کا امام (ع) کي خدمت ميں پہنچنا:

مامون نے امام رضا (ع) کو يثرب سے خراسان لانے کے لئے ايک وفد بھيجا اور وفد کے رئيس سے امام (ع) کو بصرہ اور اہواز کے راستے يا پھر فارس کے راستہ سے لانے کا عہد ليا اور ان سے کہا کہ امام (ع) کو کوفہ اور قم (٢) کے راستہ سے نہ ليکر آئيں جس طرح کہ امام کي جانب خلافت پلٹائے جانے کا بھي ذکر ہے(۳)۔

مامون کے اتنے بڑے اہتمام سے يہ بات واضح و آشکار تھي کہ امام (ع) کو بصرہ کے راستہ سے کيوں لايا جائے اور کوفہ و قم کے راستہ سے کيوں نہ لايا جائے؟ چونکہ کوفہ اور قم دونوں شہر تشيع کے مرکز تھے، اور مامون کو يہ خوف تھا کہ شيعوں کي امام(ع) کي زيادہ تعظيم اور تکريم سے اُس کا مرکز اور بني عباس کمزور نہ ہو جائيں ۔

وفد بڑي جد وجہد کے ساتھ يثرب پہنچا اس کے بعد امام کي خدمت ميں پہنچ کر آپ(ع) کو مامون کا پيغام پہنچايا، امام نے جواب دينا صحيح نہيں سمجھا،آپ (ع) کو مکمل يقين تھا کہ مامون نے آپ (ع) کو خلافت اور ولي عہدي دينے کے لئے نہيں بُلايا ہے بلکہ يہ اُس کي سياسي چال ہے اور اس کا مقصد آپ (ع) کا خاتمہ کرنا تھا ۔

امام (ع) زندگي سے مايوس ہو کر بڑے ہي حزن و الم کے عالم ميں اپنے جد رسول اللہ (ص) کي قبر کي طرف آخري وداع کے لئے پہنچے، حالانکہ آپ (ع) کے رُخِ انور پرگرم گرم آنسو بہہ رہے تھے، مخول سجستاني امام (ع) کي اپنے جد کي قبر سے آخري رخصت کے سلسلہ ميں يوں رقمطراز ہيں: جب قاصد امام رضا (ع) کو مدينہ سے خراسان لانے کے لئے پہنچا تو ميں مدينہ ميں تھا،امام اپنے جد بزرگوار سے رخصت ہونے کيلئے مسجد رسول ميں داخل ہوئے اور متعدد مرتبہ آپ کو وداع کيا، آپ (ع) زار و قطار گريہ کر رہے تھے، ميں نے امام (ع) کي خدمت اقدس ميں پہنچ کر سلام عرض کيا، آپ (ع) نے سلام کا جواب ديا اور ميں نے اُن کي خدمت ميں تہنيت پيش کي تو امام (ع) نے فرمايا: مجھے چھوڑ دو،مجھے ميرے جد کے جوار سے نکالا جا رہا ہے،مجھے عالم غربت ميں موت آئے گي، اور ہارون کے پہلو ميں دفن کر ديا جائے گا ۔ مخول کا کہنا ہے: ميں امام (ع) کے ساتھ رہا يہاں تک کہ امام (ع) نے طوس ميں انتقال کيا اور ہارون کے پہلو ميں دفن کردئے گئے(۴)۔

خانہ  خدا کي طرف:

امام رضا (ع) خراسان جانے سے پہلے عمرہ کرنے کے لئے خانہ کعبہ کے لئے چلے،حالانکہ آپ (ع) کے ساتھ آپ کے خاندان کي بزرگ ہستياں تھيں جن ميں آپ (ع) کے فرزند ارجمند امام جواد محمد تقي (ع) بھي تھے، جب آپ بيت اللہ الحرام پہنچے تو آپ (ع) نے طواف کيا،مقام ابراہيم پر نماز ادا کي،سعي کي اس کے بعد تقصير کي، امام محمد تقي (ع) بھي اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ عمرہ کے احکام بجا لا رہے تھے، جب آپ (امام محمد تقي(ع)) عمرہ کے احکام بجا لاچکے تو بڑے ہي غم و رنجيدگي کے عالم ميں حجر اسماعيل کے پاس بيٹھ گئے، امام رضا (ع) کے خادم نے آپ (ع) سے اٹھنے کے لئے کہا تو آپ (ع) نے انکار فرما ديا،خادم نے جلدي سے جا کر امام رضا (ع) کو آپ کے فرزند ارجمند کے حالات سے آگاہ کيا تو آپ (ع) خود (امام رضا (ع)) امام محمد تقي (ع) کے پاس تشريف لائے اور اُن سے چلنے کے لئے فرمايا،تو امام محمد تقي (ع) نے بڑے ہي حزن و الم ميں يوں جواب ديا: ميں کيسے اٹھوں، جبکہ اے والد بزرگوار ميں نے خانہ خدا کو خدا حافظ کہہ ديا جس کے بعد ميں کبھي يہاں واپسي نہيں ہو گي (۵)۔

امام محمد تقي(ع) اپنے والد بزرگوار کو ديکھ رہے تھے کہ آپ(ع) کتنے رنج و الم ميں ڈوبے تھے ، جس سے آپ (ع) پر يہ بات ظاہر تھي کہ يہ ميرے والد بزرگوار کي زندگي کے آخري ايام ہيں ۔

خراسان کي طرف:

امام رضا (ع) خانہ خدا کو الوداع کہنے کے بعد خراسان کي طرف چلے، جب آپ (ع) شہر بلد پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپ (ع) کا انتہائي احترام و اکرام کيا، امام (ع) کي ضيافت اور ان کي خدمات انجام ديں جس پر آپ (ع) نے شہر بلد والوں کا شکريہ ادا کيا ۔

امام (ع) نيشاپور ميں:

امام (ع) کا قافلہ کسي رکاوٹ کے بغير نيشاپور پہنچا، وہاں کے قبيلے والوں نے آپ کا بے نظير استقبال کيا، علماء اور فقہا آپ (ع) کے چاروں طرف جمع ہو گئے جن ميں پيش پيش يحييٰ بن يحييٰ،اسحاق بن راہويہ،محمد بن رافع اور احمد بن حرب وغيرہ تھے۔ جب اس عظيم مجمع نے آپ (ع) کو ديکھا تو تکبير و تہليل کي آوازيں بلند کرنے لگ ، اور ايک کہرام برپا ہو گيا،علماء اور حفّاظ نے بلند آواز ميں کہا :اے لوگو! خاموش ہو جائو اور فرزند رسول(ص) کو تکليف نہ پہنچائو ۔

جب لوگ خاموش ہو گئے تو علماء نے امام (ع) سے عرض کيا کہ: آپ (ع) اپنے جد بزرگوار رسول اسلام (ص) سے ايک حديث بيان فرما ديجئے۔ تو امام (ع) نے فرمايا: ميں نے موسيٰ بن جعفر سے انھوں نے اپنے والد بزرگوار جعفر بن محمد سے، انھوں نے اپنے والد بزرگوار محمد بن علي سے، انھوں نے اپنے والد بزرگوار علي بن الحسين (ع) سے، انھوں نے اپنے والد بزرگوار حسين بن علي سے انھوں نے اپنے والد بزرگوار علي بن ابي طالب سے اور انھوں نے نبي اکرم (ص) سے نقل کيا ہے کہ خدا وند عالم حديث قدسي ميں فرماتا ہے: "لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ حِصْنِيْ، فَمَنْ قَالَھَا دَخَلَ حِصْنِيْ، وَمَنْ دَخَلَ حِصْنِيْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِيْ وَلٰکِنْ بِشُرُوْطِھَا وَاَنَا مِنْ شُرُوْطِھَا"(۶)۔"لا الٰہ الّا اللہ ميرا قلعہ ہے، جس نے لا الٰہ اِلّا اللہ کہا وہ ميرے قلعہ ميں داخل ہوگيا اور جو ميرے قلعہ ميں داخل ہو گيا وہ ميرے عذاب سے محفوظ ہو گيا ليکن اس کي کچھ شرطيں ہيں اور اُن ہي شرطوں ميں سے ايک شرط ميں ہوں"۔

اس حديث کو بيس ہزار (۷) سے زيادہ افراد نے نقل کيا، اس حديث کو حديث ذہبي کا نام ديا گيا چونکہ اس حديث کو سنہري روشنائي (يعني سونے کا پاني) سے لکھا گيا،سند کے لحاظ سے يہ حديث ديگر تمام احاديث ميں سے زيادہ صاحب عظمت ہے ۔

احمد بن حنبل کا کہنا ہے:اگر اس حديث کو کسي ديوانہ پر پڑھ ديا جائے تو وہ صحيح و سالم ہو جائے گا(۸)،اور بعض ساماني حکام نے يہ وصيت کي ہے کہ اس حديث کو سونے کے پاني سے لکھ کر اُن کے ساتھ اُن کي قبروں ميں دفن کر ديا جائے(۹)۔

مامون کا امام (ع) کا استقبال کرنا:

مامون نے امام رضا (ع) کا رسمي طور پر استقبال کرنے کا حکم ديا، اسلحوں سے ليس فوجي دستے اور تمام لوگ امام کے استقبال کے لئے نکلے،سب سے آگے آگے مامون،اس کے وزراء اور مشير تھے، اُس نے آگے بڑھ کر امام (ع) سے مصافحہ اور معانقہ کيا اور بڑي گرمجوشي کے ساتھ مرحبا کہا،اسي طرح اس کے وزيروں نے بھي کيا اور مامون نے امام (ع) کو ايک مخصوص گھر ميں رکھا جو مختلف قسم کے فرش اور خدم و حشم سے آراستہ کيا گيا تھا۔

مامون کي طرف سے امام (ع) کو خلافت پيش کش:

مامون نے امام (ع) کے سامنے خلافت پيش کي،اس نے رسمي طور پر يہ کام انجام ديا اور امام (ع) کے سامنے يوں خلافت پيش کر دي: اے فرزند رسول (ص) مجھے آپ (ع) کے فضل، علم، زہد،ورع اور عبادت کي معرفت ہوگئي ہے، لہٰذا ميں آپ (ع) کو اپني خلافت کا سب سے زيادہ حقدار سمجھتا ہوں ۔

امام (ع) نے جواب ميں فرمايا:"ميں دنيا کے زہد کے ذريعہ آخرت کے شر سے چھٹکارے کي اميد کرتا ہوں اور حرام چيزوں سے پرہيز گاري کے ذريعہ اخروي مفادات کا اميد وار ہوں،اور دنيا ميں تواضع کے ذريعہ اللہ سے رفعت و بلندي کي اميد رکھتا ہوں ۔۔۔"۔

مامون نے جلدي سے کہا: ميں خود کو خلافت سے معزول کرکے خلافت آپ (ع) کے حوالہ کرنا چاہتا ہوں ۔

امام (ع) پر مامون کي باتيں مخفي نہيں تھيں،اس نے امام (ع) کو اپنے سياسي اغراض و مقاصد کي وجہ سے خلافت کي پيشکش کي تھي،وہ کيسے امام (ع) کے لئے خود کو خلافت سے معزول کر رہا تھا،جبکہ اُس نے کچھ دنوں پہلے خلافت کے لئے اپنے بھائي امين کو قتل کيا تھا؟

امام(ع) نے مامون کو يوں قاطعانہ جواب ديا: "اگر خلافت تيرے لئے ہے تو تيرے لئے اس لباس کو اُتار کر کسي دوسرے کو پہنانا جائز نہيں ہے جس لباس کو اللہ نے تجھے پہنايا ہے، اور اگر خلافت تيرے لئے نہيں ہے تو تيرے لئے اس خلافت کو ميرے لئے قرار دينا جائز نہيں ہے"۔

مامون برہم ہو گيا اور غصہ ميں بھرگيا،اور اس نے امام (ع) کو اس طرح دھمکي دي: آپ (ع) کو خلافت ضرور قبول کرنا ہو گي ۔

امام (ع) نے جواب ميں فرمايا: "ميں ايسا اپني خوشي سے نہيں کروں گا۔۔"۔

امام (ع) کو يقين تھا کہ يہ اُس (مامون) کے دل کي بات نہيں ہے، اور نہ ہي اس ميں وہ جديت سے کام لے رہا ہے کيونکہ مامون عباسي خاندان سے تھا جو اہل بيت (ع) سے بہت سخت کينہ رکھتے،اور انھوں نے اہل بيت (عليہم السلام) کا اس قدر خون بہايا تھا کہ اتنا خون کسي نے بھي نہيں بہايا تھا تو امام اُس پر کيسے اعتماد کرتے؟

وليعہدي کي پيشکش:

جب مامون امام (ع) سے خلافت قبول کرنے سے مايوس ہو گيا تو اس نے دوبارہ امام (ع) سے وليعہدي کي پيشکش کي تو امام (ع) نے سختي کے ساتھ وليعہدي قبول نہ کرنے کا جواب ديا ،اس بات کو ہوئے تقريباً دو مہينے سے زيادہ گزر چکے تھے اور اس کا کوئي نتيجہ نظر نہيں آ رہا تھا اور امام (ع) حکومت کا کوئي بھي عہدہ و منصب قبول نہ کرنے پر مصر رہے ۔

امام (ع) کو وليعہدي قبول کرنے پر مجبور کرنا:

جب مامون کے تمام ڈپلوميسي حربے ختم ہو گئے جن سے وہ امام (ع) کو وليعہدي قبول کرنے کے لئے قانع کرنا چاہتا تھا تو اُس نے زبردستي کا طريقہ اختيار کيا،اور اس نے امام (ع) کو بلا بھيجا،تو آپ (ع) نے اُس سے فرمايا: "خدا کي قسم جب سے پروردگار عالم نے مجھے خلق کيا ميں نے کبھي جھوٹ نہيں بولا، اور مجھے نہيں معلوم کہ تيرا کيا ارادہ ہے؟"

مامون نے جلدي سے کہا: ميرا کوئي ارادہ نہيں ہے ۔

"ميرے لئے امان ہے؟"

ہاں آپ (ع) کے لئے امان ہے ۔

"تيرا ارادہ يہ ہے کہ لوگ يہ کہيں علي بن مو سيٰ (ع) نے دنيا ميں زہد اختيار نہيں کيا،بلکہ دنيا نے ان کے بارے ميں زہد اختيار کيا،کيا تم نے يہ نہيں ديکھا کہ انھوں نے خلافت کي طمع ميں کس طرح وليعہدي قبول کرلي؟"۔

مامون غضبناک ہو گيا اور اُس نے امام (ع) سے چيخ کر کہا: آپ (ع) ہميشہ مجھ سے اس طرح ملاقات کرتے ہيں جسے ميں ناپسند کرتا ہوں، اور آپ (ع) ميري سطوت جانتے ہيں،خدا کي قسم يا تو وليعہدي قبول کرليجئے ورنہ ميں زبردستي کروں گا،قبول کر ليجئے ورنہ ميں آپ کي گردن ماردوں گا ۔

امام (ع) نے خدا کي بارگاہ ميں تضرّع کيا: "خدايا تو نے مجھے خودکشي کرنے سے منع فرمايا ہے جبکہ ميں اس وقت مجبور و لاچار ہو چکا ہوں، کيونکہ عبداللہ مامون نے وليعہدي قبول نہ کرنے کي صورت ميں مجھے قتل کرنے کي دھمکي دي ہے،ميں اس طرح مجبور ہو گيا ہوں جس طرح جناب يوسف (ع) اور جناب دانيال (ع) مجبور ہوئے تھے کہ اُن کو اپنے زمانہ کے جابر حاکم کي ولايت عہدي قبول کرني پڑي تھي"۔

امام (ع) نے نہايت مجبوري کي بنا پر ولي عہدي قبول کر لي حالانکہ آپ (ع) بڑے ہي مغموم و محزون تھے ۔

امام (ع) کي شرطيں:

امام نے مامون سے ايسي شرطيں کيں جن سے يہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ(ع) کو اس منصب کے قبول کرنے کے لئے مجبور کيا جا رہا ہے۔ وہ شرطيں مندرجہ ذيل ہيں:

١۔ آپ (ع) کسي کو ولي نہيں بنائيں گے ۔

٢۔ کسي کو معزول نہيں کريں گے ۔

٣۔ کسي رسم و رواج کو ختم نہيں کريں گے ۔

٤۔ حکومتي امور ميں مشورہ دينے سے دور رہيں گے ۔

مامون نے اِن شرطوں کے اپنے اغراض و مقاصد کے متصادم ہونے کي وجہ سے تسليم کر ليا، ہم نے اس عہد نامہ کي نص و دليل اور شرطوں کو اپني کتاب "حياة الامام علي بن موسيٰ الرضا (ع)" ميں نقل کيا ہے۔

امام (ع) کي بيعت:

مامون نے امام رضا (ع) کو ولي عہد منتخب کرنے کے بعد اُن کي بيعت لينے کي غرض سے ايک سيمينار منعقد کيا جس ميں وزراء، فوج کے کمانڈر،حکومت کے بڑے بڑے عہديدار اور عام لوگ شريک ہوئے، اور سب سے پہلے عباس بن مامون،اس کے بعد عباسيوں اور ان کے بعد علويوں نے امام (ع) کي بيعت کي ۔

ليکن بيعت کا طريقہ منفرد تھا جس سے عباسي بادشاہ مانوس نہيں تھے،امام نے اپنا دست مبارک بلند کيا جس کي پشت امام (ع) کے چہرئہ اقدس کي طرف تھي اور اس کا اندروني حصہ لوگوں کے چہروں کي طرف تھا، مامون يہ ديکھ کر مبہوت ہو کر رہ گيا،اور امام (ع) سے يوں گويا ہوا: آپ (ع) بيعت کے لئے اپنا ہاتھ کھولئے ۔

امام (ع) نے فرمايا: "رسول اللہ (ص) اسي طرح بيعت ليا کرتے تھے"(۱۰)۔

شايد آپ (ع) نے اپنے قول کو خدا کے اس قول سے نسبت دي ہو:﴿يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ﴾(۱۱)۔ "اُن کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے"۔

لہٰذا بيعت کرنے والے کا ہاتھ نبي اور امام (ع) کے ہاتھ سے اوپر ہونا صحيح نہيں ہے(۱٢)۔

اہم قوانين:

مامون نے امام رضا (ع) کو ولي عہد منتخب کرتے وقت مندرجہ ذيل اہم قوانين معين کئے:

١۔ لشکر کو پورے سال تنخواہ دي جائے گي ۔

٢۔ عباسيوں کو کالا لباس نہيں پہنايا جائے گا بلکہ وہ ہرا لباس پہنيں گے،چونکہ ہرا لباس اہل جنت کا لباس ہے اور خداوند عالم کا فرمان ہے:﴿وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ﴾ (۱۳)۔ "اور يہ باريک اور دبيز ريشم کے سبز لباس ميں ملبوس ہوں گے"۔

٣۔ درہم و دينار پر امام رضا (ع) کا اسم مبارک لکھا جائے گا ۔

مامون کا امام رضا (ع) سے خوف:

ابھي امام رضا (ع) کو ولي عہد بنے ہوئے کچھ ہي مدت گزري تھي کہ مامون آپ (ع) کي وليعہدي کو ناپسند کرنے لگا، چاروں طرف سے افراد آپ (ع) کے گرد اکٹھا ہونے لگے اور ہر جگہ آپ (ع) کے فضل و کرم کے چرچے ہونے لگے ہر جگہ آپ (ع) کي فضيلت اور بلند شخصيت کي باتيں ہونے لگيں اور لوگ کہنے لگے کہ يہ خلافت کے لئے زيادہ شايانِ شان ہيں،بني عباس چور اور مفسد في الارض ہيں،مامون کي ناک بھويں چڑھ گئيں اس کو بہت زيادہ غصہ آ گيا،اور مندرجہ ذيل قانون نافذ کردئے:

١۔ اُس نے امام کے لئے سخت پہرے دار معين کر دئے،کچھ ايسے فوجي تعينات کئے جنھوں نے امام (ع) کا جينا دو بھر کر ديا اور نگہبانوں کي قيادت ہشام بن ابراہيم راشدي کے سپُرد کر دي وہ امام (ع) کي ہر بات مامون تک پہنچاتا تھا ۔

٢۔ اُس نے شيعوں کو امام (ع) کي مجلس ميں حاضر ہو کر آپ (ع) کي گفتگو سننے سے منع کر ديا،اس نے اِس کام کے لئے محمد بن عمر و طوسي کو معين کيا جو شيعوں کو بھگاتا اور ان کے ساتھ سختي کے ساتھ پيش آتا تھا ۔

٣۔ علماء کو امام (ع) سے رابطہ رکھنے اور اُن کے علوم سے استفادہ کرنے سے منع کيا ۔

امام (ع) کو قتل کرنا:

مامون نے امام (ع) کو قتل کرنے کي سازش کي،اور اُس نے انگور يا اَنار (۱۴) ميں زہر ملا کر ديا، جب امام (ع) نے اُس کو تناول فرمايا تو زہر آپ (ع) کے پورے بدن ميں سرايت کر گيا اور کچھ ہي دير کے بعد آپ (ع) کي روح پرواز کرگئي جو ملائکہ کے حصار ميں خدا تک پہنچي اور رياض خلد ميں انبياء (ع) کي ارواح نے آپ (ع) کا استقبال کيا ۔

امام (ع) اللہ کے بندوں تک رسالت الٰہي کا پيغام پہنچا کردار فاني سے کوچ فرما گئے،آپ (ع) مامون کي حکومت کے کسي کام ميں بھي شريک نہيں ہوئے جبکہ مامون نے آپ (ع) کو ہر طرح سے ستايا تھا۔

امام(ع) کي جس طرح تشيع جنازہ ہوئي اس کي خراسان کي تاريخ ميں کوئي نظير نہيں ملتي ،تمام حکومتي دفاتر، اور تجارت گاہيں وغيرہ رسمي طور پر بند کردي گئيں،اور ہر طبقہ کے لوگ امام کے جسم مطہر کي تشيع جنازہ کے لئے نکل پڑے۔ آگے آگے مامون، اُس کے وزير، حکومت کے بڑے بڑے عہديدار اور لشکر کے کمانڈر تھے، مامون ننگے سر اور ننگے پير تھا وہ بلند آواز سے کہہ رہا تھا: مجھے نہيں معلوم کہ مجھ پر اِن دونوں مصيبتوں ميں سے کونسي بڑي مصيبت ہے؟ آپ (ع) مجھ سے جدا ہو گئے يا لوگ مجھ پر يہ تہمت لگا رہے ہيں کہ ميں نے آپ کو دھوکہ دے کر قتل کر ديا ہے؟

مامون نے خود کو امام کے قتل سے بري  الذمہ ہونے کے لئے نالہ و فرياد اور حزن و الم کا اظہار کيا، ليکن بہت جلد اس کي اس رياکاري کا پردہ فاش ہو گيا اور سب پر واضح ہو گيا کہ وہ خود مجرم ہے ۔

امام (ع) کا جسم اطہر تکبير و تعظيم کے سايہ ميں ليجايا گيا اور مامون نے آپ (ع) کو ہارون کے نزديک آپ (ع) کي ابدي آرامگاہ ميں سپرد خاک کرديا، آپ (ع) کے دنيا سے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانيت کے لئے باعث عزت صفاتِ حسنہ رخصت ہو گئے ۔

امام (ع) کو اس مقدس و طاہر بقعہ ميں دفن کرديا گيا،آپ (ع) کا مرقد مطہر خراسان ميں انساني کرامت کا مظہر بن گيا ،آپ (ع) کا مرقد مطہر اسلام ميں بہت باعزت ہے،لوگوں نے امام رضا (ع) کے مرقد مطہر جيسا با حشمت، عزت اور کرامت کا مرقد کسي اور ولي اللہ کا مرقد نہيں ديکھا ، مامون سے امام رضا (ع) کو ہارون کے قريب دفن کرنے کي وجہ دريافت کي گئي تو اس نے کہا:تاکہ خداوند عالم ميرے والد کو امام رضا (ع) کے جوار کي وجہ سے بخش دے، شاعر مفکر اسلام دعبل خزاعي نے اس بات کو يوں شعر ميں نظم کيا ہے:

قَبْرَانِ فِي طُوْس: خَيْرِ النَّاسِ کُلِّھِمْ

وَ قَبْرُ شَرِّھِمْ ھٰذَا مِنَ الْعِبَرِ

مَا يَنْفَعُ الرِّجْسَ مِنْ قُرْبِ الزَّکِّي وَ لَا

عَليٰ الزَّکِّي بِقُرْبِ الرِّجْسِ مِنْ ضَرَرِ

ھَيْھَاتَ کُلُّ امْرِئٍ رَھْنُ بِمَا کَسَبَت

لَهُ يَدَاہُ فَخُذْ مَا شِئْتَ اَوْ فَذَرِ

"طوس ميں دو قبريں ہيں ايک بہترين مخلوق کي ايک بد ترين مخلوق کي يہ عبرت کا مقام ہے۔

پاکيزہ شخص کي قربت، پليدگي کو کوئي فائدہ نہيں پہنچاتي اور نہ ہي آلودگي سے نزديک ہونے کي وجہ سے پاکيزہ شخص کو نقصان پہنچتا ہے ۔

ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے تو جو چاہو لے لو، جو چاہو چھوڑدو"۔

بہر حال امام رضا (ع) کے اس دنيا سے چلے جانے سے دنيائے اسلام ميں ايمان و ہدايت کے چراغ سے ہميشہ ہميشہ کے لئے خاموش ہو گيا اور مسلمان اپنے قائد اعظم اور امام (ع) سے محروم ہو گئے﴿إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ﴾۔

 

منابع اور مآخذ:

۱) حياة الامام علي بن موسيٰ الرضا (ع)، جلد ٢ صفحہ ٢٨٤

٢) عيون اخبار الرضا،ج ٢ص ١٤٩؛ حياة الامام علي بن موسيٰ الرضا (ع)، ج٢ ص ٢٨٥

۳) حياة الامام علي بن موسيٰ الرضا (ع)، جلد ٢، صفحہ ٢٨٥؛ اعيان الشيعہ، جلد ٢ صفحہ١٨

۴) اعيان الشيعہ، جلد ٤، صفحہ ١٢٢، دوسرا حصہ

۵) حياة الامام علي بن موسيٰ الرضا (ع)، جلد ٢، صفحہ ٢٨٧

۶) عيون اخبار الرضا، جلد ٢ صفحہ ١٥٣۔ علماء کے نزديک اس حديث کي بڑي اہميت ہے،اور انھوں نے اس کو متواتر اخبار ميں درج کيا ہے۔

۷) اخبار الدول، صفحہ ١١٥

۸) صواعق المحرقہ، صفحہ ٩٥

۹) اخبار الدول، صفحہ ١١٥

۱۰) مقاتل الطالبين، صفحہ ٤٥٥

۱۱) سورہ فتح، آيت ١٠

۱٢) حياة الامام علي بن موسيٰ الرضا (ع)، جلد ٢، صفحہ ٣٠٣

۱۳) سورئہ کہف، آيت ٣١

۱۴) ہم نے امام (ع) پر حملے کو مفصل طور پر حياة الامام علي بن موسيٰ الرضا (ع) ميں تحرير کرديا ہے۔

Add new comment