ایک آسمانی شہر کی سیاحت
تحریر: ڈاکٹر شیخ محمد حسنین
ڈائریکٹر نور الہدی مرکز تحقیقات، استاد اصول و فقہ و فلسفۂ اسلامی ،جامعۃ الرضا، بارہ کہو، اسلام آباد
کلیدی الفاظ:
آسمانی شہر، دیومالائی شہر، سیاحت، سفرنامہ، مدینۂ فاضلہ، آٹوپیا، حکمت، عدالت، ایثار، عشق، امام حسینؑ
خلاصہ:
اس مقالہ میں ایک آسمانی شہر کی سیاحت کا سفرنامہ پیش کیا گیا ہے۔ دراصل، اس سفرنامے میں مصنف نے قدیم و جدید فلاسفرز کے مدینۂ فاضلہ یا آٹوپیا کے تصوّر اور افسانہ نگاروں کے دیومالائی شہر کے تخیل کے واقعی وجود کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آج کی دنیا میں ہمارے اِس کرۂ خاکی پر ٍنہ فقط اِس ترقی یافتہ انسانی سماج کا قیام ممکن، بلکہ اس سے بھی بہتر، ایک آسمانی شہر کا قیام تحقق پذیر ہے۔ لہذا اِس سفرنامے کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کے مصنّف نے ایسے ہی آسمانی شہر کا زمینی نمونہ کشف کیا ہے۔ اس داستان میں جو کہ تخیلات سے زیادہ حقائق پر مبنی ہے، مذکورہ آسمانی شہر کے اعلٰی سماجی نمونوں کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، اس کا مدینۂ فاضلہ کے تصور کے ساتھ مقایسہ بھی کیا گیا ہے۔ نیز عصر حاضر کے فلاسفرز اور ماہرین سیاست و اخلاق اور سماج دوستوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اس محیر العقول ترقی یافتہ انسانی جمہور یا بشری سماج کی شہریت حاصل کریں اور اس سلطنتِ عشق کی سرحدوں میں وسعت لانے میں اپنا کردار ادا کریں، تاکہ وہ اپنی گم گشتہ متاع پاسکیں۔
عرشی، فرشیوں کے مہمان
جب ہم اپنے کرۂ خاکی کے دینداری اور نظام مملکت داری کے لحاظ ایک بہترین شہر کی حدود سے نکلے تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم ایک آسمانی شہر کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن میرے وہم و گمان میں ہو یا نہ ہو، بہر صورت، ہم ایک آسمانی شہر کی حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ اس امر کا سب سے پہلا اشارہ یہ تھا کہ اُس پار کی بارڈر پر ہمارے خاکی سیارے کے ممالک کے امیگریشن نظام کے عام عرف سے بالکل برعکس نہ کوئی ویزا، نہ ویزا فیس اور نہ ہی کوئی انٹری تھی۔ آسمانی شہر کی سرحد پر آنے والے مسافروں کے لیے اس سے بڑا سائن بورڈ اور کیا لگایا جا سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کوئی مسافر اس سائن بورڈ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا ہو، لیکن جب تک تجاہلِ عارفانہ جیسے سنگین جرم کا ارتکاب نہ کر لیا جائے، اِس واقعہ کو معمولی وقوعہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے خاکی کرہ پر سیاحت (Tourism) حکومتوں کے لیے ایک انتہائی منافع بخش صنعت ہے۔ عام طور پر جن ممالک کا بیرونی سیاح کثرت سے سفر کرتے ہیں، وہ فقط ویزا دینے پر اتنا کچھ کما لیتے ہیں کہ جس سے نہ فقط اُن کے بیرونِ ممالک سفارتخانوں کا سارا خرچہ نکل آتا ہے، بلکہ کافی مقدار میں زرِ مبادلہ بچ بھی جاتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری اپنی دھرتی پر جہاں میزبان ممالک ’’بیت اللہ‘‘ یا ’’مقامات مقدسہ‘‘ کو اپنی ملکی میراث سمجھ کر اُن کی سیاحت (جسے شرعی اصطلاح میں حج و عمرہ اور زیارت کا نام دیا جاتا ہے) کے لیے جانے والے مسافروں سے ہوشرُبا ویزا فیس اور دیگر ٹیکس وصول کرتے ہیں، وہاں ڈیپارچر پر ہر مسافر سے اُس کا اپنا ملک بھی کسی نہ کسی فرضی عنوان کے تحت ضرور بھتہ وصول کر لیتا ہے۔ بہرصورت، ہمارے فرشی نظام میں عبادت پر بھی سیاحت کے چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔ لیکن جس عرشی شہر کی سیاحت کی میں بات کر رہا ہوں، اُس کے ارباب بست و گشاد کی سوچ ایسی نہ تھی۔ لہذا لاکھوں تو کجا، کروڑوں سیاحوں سے کوئی ویزا فیس وصول نہ کی گئی!!
خیر! یہ تو ہمارے ذرائع ابلاغ کی منافقت اور استحصالی نظاموں کی غلامی اور اُن سے وابستگی کا کھلا ثبوت ہے کہ انہوں نے اتنی بڑی روئیداد کو محض اس لیے اتنی سادگی اور بے نیازی سے نظر انداز کر دیا کہ مبادا اُن کے کرم فرما ناراض نہ ہوجائیں۔ یہی وجہ تھی کہ زمینی مواصلاتی نظام کو آسمانی شہر کی بارڈر کی یہ خبر وصول ہونے کے باوجود، اس خبر کو دنیا کی تبلیغات ادبیات میں کہیں شہ سرخی کی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ البتہ کچھ لوگوں نے اس تعجب برانگیز روئیداد کو اپنی بشری طبیعت کے تقاضوں کے عین مطابق طاقِ نسیاں کے سپرد کر دیا اور بہت سارے تو ویسے بھی غافلین کی صف میں شمار ہوتے ہیں، جو آنکھیں رکھنے کے باوجود دیکھتے نہیں اور کان ہونے کے باوجود سنتے نہیں۔
آسمانی شہر کی سرحدوں میں داخل ہونے کے بعد ایک زمینی مخلوق کے ناطے میں تو یہی سوچ رہا تھا کہ ہمیں اپنی اگلی منزل تک پہنچانے کے لیے بہت جلد کسی اچھی اے سی گاڑی کا انتظام کر دیا جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ دراصل، آسمانی شہر کی بارڈر پر زمینی باشندوں کو لینے آنے والی کوچز، اپنی تمامتر بہتات کے باوجود کم پڑ گئی تھیں۔ لہذا جو براق میسّر آتی، ترجیحی بنیادوں پر اُس پر بچوں اور لیڈیز جیسے فرشتوں اور حوروں کو بٹھا دیا جاتا۔ باقی رہے مجھ جیسے گنہگار بشر، تو انہیں اِس مقدس وادی میں داخل ہونے کے لیے برزخ نما صحرا کے سفر کی چند مزید سختیاں جھیل کر اپنے گناہوں سے طہارت حاصل کرنا تھی۔ لہذا ہمیں کوئی گاڑی میسر نہ آسکی۔ ہاں گڈز ٹرانسپورٹیشن کے لیے استعمال میں لایا جانے والا ایک (ٹبر گھِیل) بہت لمبا سا ٹریلر ضرور میسر ہوگیا۔
ٹریلر پر اتنے کمال کا رَش لگا کہ تل دھرنے کی جگہ باقی نہ رہی۔ زمینی مخلوق کے ناطے مجھے یہ حق پہنچتا تھا کہ میں یہ سوچوں کہ اب ڈرائیور کے وارے نیارے ہوگئے, کیونکہ وہ ہماری بشری مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنا کرایہ وصول کرے گا کہ کم از کم 10 دن کی دھاڑی ایک ہی دن بنا لے گا۔ میں ایسا سوچنے میں بالکل حق بجانب تھا, کیونکہ جس انسانی سماج سے میرا تعلق تھا، اس میں بالکل یہی فارمولا چلتا تھا۔ لیکن تعجب تو اس بات پہ ہے کہ لگ بھگ پانچ چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہمیں اتار کر ڈرائیور کرایہ وصول کرنے کی بجائے ہمارا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عاجزی سے چل دیا کہ گویا ہم نے اُس کے دلدل میں پھنسے ٹریلر کو دھکا لگا کر اس کی مشکل آسان کر دی ہو۔
جس سڑک پر ہم اترے، اُس کے کنارے ہوٹل نما ایک خیمہ لگا تھا جس میں وہ چائے پلائی جا رہی تھی جسے میں تھکاوٹ یا سردَرد میں’’شراباً طہوراً‘‘ کہہ دیا کرتا ہوں۔ ویسے بھی کم و بیش 24 گھنٹے کے سفر کی تھکاوٹ کے بعد اگر چائے کی گرما گرم پیالی میسّر آجائے تو کیا اس غیر مترقبہ نعمت کو ’’شراباً طہوراً‘‘ کہہ دینا کوئی گناہ ہے؟ میں نہیں مانتا کہ ایسا فتویٰ لگایا جاسکے۔ بالخصوس جب ساقی التجا کے انداز میں یہ شراب آپ کے ہاتھ میں بغیر کوئی قیمت وصول کئے تھما رہا ہو۔
خیر! اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے کسی گاڑی کی تلاش ہماری پہلی ترجیح تھی۔ لیکن معلوم ہوا کہ ابھی کوئی ڈیرھ دو کلومیٹر کا فاصلہ پیدل چل کر ’’گراج‘‘ تک پہنچنا ہوگا۔ لہذا ہم نے زمین پر اپنے لیے گناہوں کا جتنا بوجھ آمادہ کیا تھا، اُسے پیٹھ پر اٹھائے، چلتے، رینگتے ’’گراج‘‘ تک پہنچ ہی گئے۔ لیکن یہاں بھی ہمیں منزل مقصود تک لے جانے کے لیے کوئی گاڑی میسر نہ تھی۔ شاید ہمارے مقدّر میں ٹریلر ہی لکھے تھے۔ اللہ اللہ کرکے ایک ٹریلر میسر آیا یا ہم ٹریلر کو میسر آگئے۔ دوسری شقّ میں زیادہ وزن محسوس ہوتا ہے، کیونکہ لگ یہی رہا تھا کہ کئی مہینوں سے بیچارے اِس ٹریلر پر کسی نے کوئی سامان نہیں لادا۔ اُس کی لوہے کی اندورنی دیواروں پر ایسا زنگ لگا تھا، جسے ہمارے استری شدہ صاف و شفاف کپڑے یا اجلے اجلے بیگ ہی اتار سکتے تھے۔
لیکن ہماری مشکل اُس وقت دوچنداں ہوگئی، جب اہلِ زمین کو آسمانی شہر کے ڈرائیور کی زبان ہی سمجھ نہ آسکی۔ تمام مترجمین کے اجتماعی ترجمہ سے بس اتنا معلوم ہوسکا کہ یہ صاحب ہمیں 5 کلومیٹر کے فاصلے تک لے جائیں گے، جہاں سے بس میسر ہوجائے گی، لیکن جب لگ بھگ 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیا تو مجبوراً یہ تصحیح کرنا پڑی کہ متن میں 50 کلومیٹر لکھا تھا، جسے مترجمین نے سہواً ۵5 کلومیٹر ترجمہ کر ڈالا ہے۔ اب کیا کرسکتے تھے۔ ترجمہ ٹھیک ہو یا غلط، 50 کلومیٹر، 50 کلومیٹر ہی رہتے ہیں: ؎
چشم معنی آشنا میں ہے مقام ان کا وہی
سہو کاتب سے مقدم ہوں مؤخر سینکڑوں
اس سفر میں ٹریلر کی تیز رفتاری اور اس کے جانشینوں کا گرنا، سنبھلنا، چیخنا، چلانا بھی یادگار ہے۔ گویا یہ روڈ پر نہیں، ہَوا کے دوش پر اڑ رہا تھا۔ میں تو مرحوم علامہ اقبال کے سفرِ حجاز کی خیالی داستاں بنا اِس ٹریلر کو اونٹنی قرار دیتے ہوئے علامہ اقبال ہی کے الفاظ میں یہ التجا کر رہا تھا کہ: ؎
سحر با ناقه گفتم نرم تر رو
که راکب خسته و بیمار و پیر است
یعنی: (سفر کے دوران) ’’سحر (کے وقت) میں نے اپنی اونٹنی سے کہا کہ آہستہ چلو! کیونکہ تمہارا سوار تھکا ہارا، بیمار اور بوڑھا ہے!‘‘
لیکن عجیب اتفاق ہے کہ میں نے لوہے اور پلاسٹک کے کَل پرزوں سے اسمبل شدہ، ڈیزل کی گردش پر بھاگتی اونٹنی کا وہی ردّعمل دیکھا جو حکیم الامّت نے گوشت پوست سے بنی، خون کی گردش پر چلنے والی اونٹنی سے دیکھا تھا۔ یعنی: ؎
قدم مستانه زد چندان که گویی
بپایش ریگ این صحرا حریر است
یعنی: ’’اونٹنی نے تو یوں مستانہ وار قدم مزید آگے بڑھا دیئے کہ جیسے اُس کے قدموں میں اس صحرا کی ریت، ریشم ہو۔‘‘
خیر! غروب آفتاب سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل لوہے کے اِس سفینے نے اللہ کے گھر کے سامنے لنگر ڈالا۔ سب اترے اور اپنا اپنا سامان مسجد میں رکھ دیا۔ جن لوگوں نے ہنوز نماز عصر ادا نہ کی تھی، انہوں نے نماز ادا کی اور کچھ کمر سیدھی کرنے لیٹ گئے۔ زمینی مخلوق کو اپنی بشری طبیعت کے تقاضوں سے سے دست و گریباں رہتے ہوئے کئی گھنٹوں بعد فتح کا عندیہ اُس وقت ملا جب انہیں سارے دن کے سفر کے بعد رفعِ حاجت کا پہلا آبرومندانہ موقعہ فراہم آیا۔ لیکن یہاں بھی آسمانی شہر کے قوانین نرالے نظر آئے، کیونکہ مسجد کے دروازے پر تو بس ایک ہی واش روم تھا جو سہولت فراہم کرنے کی بجائے ہر مسافر کے احساسِ رفعِ حاجت کو مزید اجاگر کر رہا تھا، لیکن یہ سارا منظر اُس وقت بدل گیا جب چند بچے مسافروں کو پکڑ پکڑ کے اپنے بنگلوں، کوٹھیوں اور گھروں کے کھلے دروازے دکھانے لگے۔ ہر گھر کے صحن میں سنگ مرمر سے مزین واش روم آرامکدے محسوس ہو رہے تھے۔ اگر عرشیوں کا یہ ایثار نہ ہوتا تو کئی فرشی ناقابل تلافی حوادث کی لپیٹ میں آجاتے۔
البتہ ہم فرشی مخلوق بھی عجیب مخلوق ہیں۔ دراصل، ہماری ساخت و ساز عجیب و غریب اور اس کے تقاضے متضاد ہیں۔ ایک لمحہ قبل جو لوگ رفعِ حاجت کے لیے تڑپ رہے تھے، اب پھر سے ٹینکیاں بھرنے کے لیے بے تاب نظر آنے لگے، لیکن چونکہ آسمانی شہر میں ہر انسانی تقاضے کا بندوبست موجود تھا، لہذا فرشیوں کے ان فطری طور پر متصادم میلانات کے درمیان بھی کوئی تصادم نہ ہوا۔ سوپ اور برگر تو میرے ہاتھ میں گویا زبردستی ہی تھما دیئے گئے تھے، لیکن سب سے زیادہ ہوس تو مجھے ’’شراباً طہوراً‘‘ کی تھی۔ جی ہاں! پریشانی کی کوئی ضرورت ہی پیش نہ آئی، کیونکہ شیشے کے جام، چائے کی ’’شراباً طہوراً‘‘ سے لبریز نہ فقط چمک، بلکہ مئے گساروں کی طرف لپک رہے تھے۔ میرا کیا قصور؟ میں نے بھی ایک نہیں، دو جام چڑھا لئے۔
آئل چینجنگ کے بعد سب نے سکھ کا سانس لیا اور تازہ دَم ہوگئے، لیکن منزل مقصود سے ابھی کوسوں دور تھے۔ لہذا:؏ ’’پھر وہی پاؤں، وہی خارِ مغیلاں ہوں گے!‘‘ کے مصداق ہم تھے اور روڈ کا کنارہ۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ پرندے آشیانوں میں سر چھپا رہے تھے، لیکن ہم آہنگ پرواز لئے سڑک کے کنارے کسی براق کے میسر آجانے کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ چند ملائیکہ نے ہمیں گھیرے میں لیا ہوا تھا اور بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ: ؏
’’دن ڈھلا، رات پھر آگئی، سو رہو! سو رہو!‘‘
فقط یہی نہیں، وہ ہمیں کہکشاؤں کے راستے بھی دکھا رہے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ قریب کی منزل آمادہ ہے۔ آپ راضی تو ہوں، ہم ڈراپ کر دیں گے۔ ’’مرتا کیا نہ کرتا!‘‘ ہم بھی راضی ہوگئے، لیکن جب ملائیکہ نے ہمارا کارواں دو الگ الگ ٹولیوں میں بانٹ لیا اور اپنے اپنے حصے کو مال غنیمت سمجھ کر اپنی مخصوص اماریوں میں بھرنا شروع کیا تو مجھے ایک اماری میں بند شیشوں کے پیچھے جگہ مل گئی۔ میں خوش تو تھا لیکن دل میں یہ احساس بھی کروٹ لے رہا تھا کہ میرے دوست پیچھے کھلی ہوا میں ٹھنڈ کا مقابلہ کر رہے ہیں، لیکن اس احساسِ گناہ کو میں اس وقت بھول گیا جب مجھے یہ محسوس ہوا کہ آسمانی مخلوق بھی جھوٹ بولتی ہے!!
بس فرق فقط اتنا ہے کہ فرشی ’’منفعت آمیز‘‘ جھوٹ بولتے ہیں اور یہ عرشی ’’مصلحت آمیز‘‘ جھوٹ بول رہے تھے۔ جی ہاں! اخلاقیات کے باب میں ایک معرکۃ الآراء بحث یہی ہے کہ آیا جھوٹ اپنی ذات میں ایک برائی ہے یا جھوٹ کا انگیزہ اُسے برائی یا اچھائی بناتا ہے؟ فلسفۂ اخلاق میں اس بحث کا نتیجہ جو بھی ہو، مجھے اُس سے سروکار نہیں۔ میں تو اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ جن عرشیوں سے ہمارا پالا پڑا، اُن کے اخلاق پر یہی منطق حاکم تھی کہ جھوٹ اگر مصلحت آمیز ہو تو نہ فقط برائی نہیں، بلکہ عین اچھائی ہے۔ لہذا انہوں نے چند گز کے فاصلے پر جس منزل کا نشان پتہ دیا، تیز رفتار اماریوں کی پرواز صاف صاف بتا رہی تھی کہ ایسا نہیں ہے۔
اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر آسمانی مخلوق، اہل زمین سے یوں فراڈ کرنے لگے تو زمینیوں کا کیا حال ہوگا؟ ہمیشہ فرشی مخلوق اپنی چیرہ دستیوں کے ذریعے عرشیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہے، لیکن آج تو عرشیوں نے وہ ہاتھ دکھائے کہ فرشی انگشت بہ دنداں تھے، بلکہ تھوڑی ہی دیر میں معاملہ حیرت کی وادی سے نکل کر خوف کے دہشت میں جا پہنچا۔ اب ہم شہر کی روشنیوں سے باہر نکل چکے تھے۔ ہر طرف اندھیرے ہی اندھیرے تھے اور تاریکیوں کے درمیان سے ویرانوں کی طرف بڑھتا ایک فرعی روڈ۔ سچ پوچھیں تو میں بھی دل ہی دل میں ڈر رہا تھا۔ مجھے یہ خدشہ لاحق ہوا کہ ہم کسی کے چکر میں تو نہیں آگئے۔ البتہ عرشیوں کا انداز گفتگو، چہروں کی نورانیّت اور مہمان نوازی کا اہتمام، خوف کی ان چنگاریوں پر راکھ بن کر انہیں بجھا رہا تھا۔
بہر صورت، خوف و رجاء کی وہ حالت جو عرفان اور سیر و سلوک کا منتہی ہے، جس کی مجھے کبھی ہوا نہیں لگی، آج یہ حالت مجھ پر ازخود ہی طاری ہوتی جا رہی تھی کہ اتنے میں کیبن سے باہر بیٹھے مسافروں میں سے ایک نے شیشہ بجا ہی دیا۔ دراصل، وہ اس عرفانی حالت میں مجھ سے بھی آگے نکل چکے تھے اور اُن پر رجاء کی بجائے خوف کی حالت کچھ زیادہ ہی طاری ہوگئی تھی۔ میں نے شیشہ اتارا۔ پوچھا: ’’بھائی! کیا مسئلہ ہے؟‘‘ کہنے لگے: ’’ہمیں کہیں شہید کروانے تو نہیں لے جا رہے؟‘‘ میں نے انہیں تو جھوٹی سچی تسلی دی، لیکن خود ایک طرح کے احساسِ مسئولیت میں ڈوبنے لگا۔ تاہم جن کا سہارا خدا ہو وہ ڈوبتے نہیں۔ لہذا اس سفر کے نقطۂ آغاز سے محض 17 کلومیٹر کے فاصلے پر جا کر یہ ساری تشویش ختم ہوئی۔ ہم ایک ایسی عمارت کے سامنے رکے جسے میں مہمان خانہ نہیں کہہ سکتا، لیکن اس سے پہلے کہ اس عمارت کا کوئی نام تجویز کروں، اس حصے کی آخری بات پہلے سن لیں!
وہ یہ کہ ہماری اماری ’’ولدانٌ مخلدّون‘‘ کا دَم خم رکھتے ’’ہر دَم، تازہ دَم‘‘ نوجوانوں کی آغوش میں رکی۔ اِن لڑکوں نے تو اپنے انوکھے سلیقے سے خدمتگزاری کے سب سلیقے پیچھے چھوڑ دیئے۔ گویا ہمارا سامانِ سفر ہم سے چھین کر ایک خاص ترتیب سے ٹھکانے لگا دیا اور بڑوں کے اشاروں پر ہماری خدمت میں مصروف ہوگئے۔ کوئی وضو خانہ کی طرف رہنمائی کر رہا ہے تو کوئی تولیہ صابن کا بندوبست کر رہا ہے۔ کوئی مصلٰی بچھا رہا ہے تو کوئی صفیں سیدھی کر رہا ہے۔۔۔
آسمانی شہر یا مدینۂ فاضلہ؟
اگرچہ میری سپیشلائزیشن اسلامی فلسفہ میں ہے، تاہم آشنائی کی حد تک چند یونانی اور یورپی فلاسفرز کے نظریات بھی سن، پڑھ رکھے ہیں۔ قدیم یونان میں انسانی سماج یا ’’جمہور‘‘ کے بارے میں ارسطو اور افلاطون کے نظریات کا اجمالی تعارف، نیز اسلامی فلسفہ میں فارابی کے ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کا ایک اجمالی تصوّر میرے ذہن میں طالبعلمی کے زمانہ سے موجود ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یورپی ادبیات میں ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کے مترادف یا متشابہ ’’آٹوپیا‘‘ (Utopia) کا تصوّر پایا جاتا ہے۔ بہر صورت، ارسطو و افلاطون کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ ہو یا فارابی کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ یا تھامس مور کا ’’آٹوپیا‘‘ اِن سب کا مرکزی خیال ایک ایسے خیالی، لیکن مثالی شہر یا انسانی سماج کا ہے، جس میں انسان اپنے سماجی سفر کی آخری ممکنہ تکاملی منزل پر پہنچ جائے گا۔
البتہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تصور اتنا خیالی ہے کہ اس کے تحقق کا کوئی امکان ہی نہیں۔ لہذا فلسفی ادبیات میں بعض دانشوروں نے ’’آٹوپیا‘‘ کو ’’ناکجا آباد‘‘، ’’لا مکان‘‘ یا عام الفاظ میں ’’دیو مالائی‘‘ شہر قرار دیا ہے۔ یعنی ایک ایسا سماج جو اس دھرتی پر تحقق نہیں پاسکتا۔ البتہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے، کیونکہ مغرب کا ’’آٹوپیا‘‘ہو یا ارسطو و افلاطون یا فارابی کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ قطعاً ان کے تحقق کے امکان کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ عین ممکن ہے کہ انسانی سماج اپنے تکاملی سفر میں اس نہائی منزل تک پہنچ جائے۔
خلاصہ یہ کہ مدینۂ فاضلہ کا قیام اس کرۂ خاکی کے تمام فاضل افراد کی ہمیشہ سے گم گشتہ متاع رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ فضلاء اپنے تمام تر عقلی تأملات کے باوجود ایسا شہر تأسیس نہیں کر پائے اور نہ ہی قریب قریب انہیں اس کے قیام کا کوئی امکان نظر آتا ہے، لیکن جس شہر آسمانی شہر کی سیاحت کا سفر نامہ میں لکھ رہا ہوں، وہ نہ فقط ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کی تمام خصوصیات سے مزین تھا، بلکہ اس میں ایسی امتیازی خصوصیات بھی پائی جاتی تھیں، جن کا تصوّر ہمیں مدینۂ فاضلہ یا آٹوپیا کے ڈھانچے میں کہیں نظر نہیں آتا۔ دوسرے الفاظ میں میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں نے اس سیاحت میں مدینۂ فاضلہ سے بہتر انسانی سماج کشف کیا ہے۔ لہذا میں نے اس کا نام ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کی بجائے ’’آسمانی شہر‘‘ تجویز کیا ہے۔
کیونکہ ارسطو و افلاطون اور فارابی کے مدینۂ فاضلہ کی تمام بنیادی خوبیاں عدالت، حکمت، شجاعت اور خودداری میں منحصر نظر آتی ہیں۔ فارابی کے مطابق مدینۂ فاضلہ ایک ایسا سماج ہے جو اقوام کے جغرافیائی امتیازات اور سرحدوں سے بالا تر ہے اور انسانی سعادت یا ’’خیرِ برتر‘‘ اس سماج کی نشانی ہے۔ حکیم (فلسفی) اس شہر کا سلطان یا بادشاہ ہے۔ فلاسفرز کے مدینۂ فاضلہ میں قانون، قانون کا اجراء کرنے والے ادارے، پولیس یا فوج کا وجود اس لیے کمتر نظر آتا کیونکہ اس شہر کا ہر انسان اپنے اندر سے قانون مند ہے اور خود اپنے لیے پولیس مین ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس سماج میں یہ خصوصیات پائی جائیں وہ فلاسفرز کا ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ نام پاتا ہے۔ جہاں تک ہمارے آسمانی شہر کا تعلق ہے تو اُس میں نہ فقط یہ سب خوبیاں، بلکہ اضافی خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا ترقی یافتہ سماج ہے، جس میں وطن کا تصّور اتنا وسیع ہے، جتنی اللہ تعالٰی کی زمین وسیع ہے۔ بقول علامہ اقبال
صحراست کہ دریاست، تہ بال و پر ماست
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست
یعنی: ’’صحرا ہو یا دریا، سب ہمارے پروں تلے ہیں۔ ہر ملک ہمارا ملک ہے، کیونکہ ہر ملک ہمارے خدا کا ملک ہے۔‘‘
لہذا آسمانی شہر میں داخلے کے وقت مختلف ممالک کے درمیان انٹرنیشنل باؤنڈریز اور ایمیگریشن کے قوانین میں سے کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا تھا۔ یہ قصّہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔ مزید وضاحت میں اتنا سن لیجئے کہ اس شہر میں کسی قسم کی کوئی نسلی، لسانی، قومی اور جغرافیائی سرحدیں وجود نہیں رکھتیں۔ میں نے اس شہر کے سب باشندے کو بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ایک ہی ملت میں گم پایا۔ نہ تورانی باقی تھا، نہ ایرانی اور نہ ہی افغانی۔ باقی رہے پاکستانی یا ہندوستانی، تو جب حکیم الامت نے اپنے اشعار میں ان کا نام لینا مناسب نہیں سمجھا تو میری کیا مجال کہ اُن کا ذکرِ خیر کروں؟ کیوں نہ مثبت تأویل کی جائے اور وہ یہ کہ پاکستانی اور ہندوستانی اور دیگر مسلم اقوام کے باشندے، تورانیوں، ایرانیوں اور افغانیوں سے کمتر نسلی، لسانی اور جغرافیائی امتیازات کے قائل ہیں اور وہ جلد ان امتیازات کو بھول کر ایک ہی ملت میں گم ہوجاتے ہیں۔ لہذا انہیں ایسی دعوت دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
معاف کرنا! یہ تو سبقتِ لسانی کے سبب بات سے بات آگے نکل گئی۔ میں اصل بات تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ اگر فارابی کا مدینۂ فاضلہ اقوام کے جغرافیائی امتیازات اور سرحدوں سے بالا تر ہے اور انسانی سعادت یا ’’خیرِ برتر‘‘ اس سماج کی علامت ہے تو ہمارے آسمانی شہر میں بھی یہ سب خدّوخال نمایاں تھے، بلکہ اِس سماج کی نشانی، ’’فوزو فلاح‘‘ ہے، جو مدینۂ فاضلہ کے تصوّر میں اس خصوصیت کے ساتھ نہ مل سکے گی، اور اگر ہم مدینۂ فاضلہ کے اساسی تصوّر یعنی ’’عدالت‘‘ کو لے لیں تو آسمانی شہر میں عدالت تو پائی ہی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ یہاں عدالت سے بڑھ کر ایثار اور عفو و درگذر کی ناقابل فراموش داستانیں رقم کی جاتی ہیں۔
آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ آیا یہ عدالت کے منافی تھا کہ جن ڈرائیورز نے اپنے ٹریلرز میں بٹھا کر ہمیں لگ بھگ ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کروایا، وہ ہم سے مناسب کرایہ وصول کر لیتے؟ یقیناً یہ عینِ عدالت تھا۔ لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہمارے کرۂ خاکی پر جس قدر ناانصافی ٹرانسپورٹرز کرتے ہیں، شاید ہی کوئی دوسرا طبقہ کرتا ہو۔ ہوسکتا ہے کہ میرا یہ بیان مبالغہ آمیز ہو، تاہم اجنبی شہروں اور ملکوں کا سفر کرنے والے اجنبی مسافر خوب جانتے ہیں کہ ٹریول ایجنسیوں سے لے کر ٹیکسی ڈرائیورز تک، پورے ٹرانسپورٹننگ سسٹم میں بیچارے مسافروں کو کتنا لوٹا جاتا ہے۔ اب اس کے برعکس، اگر کسی شہر کا ٹرانسپورٹننگ سسٹم اس حد تک انسانی اور اخلاقی بن جائے کہ اُس کا ایک ٹریلر ڈرائیور بھی نہ فقط اپنا جائز کرایہ وصول نہ کرے بلکہ لفٹ دینے پر مسافر کا شکریہ بھی ادا کر رہا ہو اور یوں ایثار کی معراج کو چھو لے تو آیا اس سماج کو ’’مدینۂ فاضلہ‘‘ کا نام دینا بہتر ہے یا ’’آسمانی شہر‘‘ کہنا مناسب تر؟
اب ذرا ہوٹلنگ کے نقطۂ نظر سے بھی آسمانی شہر کا ماحول ملاحظہ فرمائیے! ہمارا مشاہدہ تو یہی بتاتا ہے کہ صدیوں سے فکر و فلسفہ اور اخلاق و سیاست کے ناخدا ہمارے کرۂ خاکی کے باشندوں کو اتنا ایثار نہیں سکھا سکے کہ اگر چند اجنبی کسی ہوٹل میں اکٹھے ہوجائیں تو ہوٹل مالک ان سے رہائش کا کرایہ نہ لے، یا ایک مسافر دوسرے اجنبی مسافر کا کھانے کا بل ادا کر دے۔ ’’آٹوپیا‘‘ کے معماروں کا سماج تو آج یہاں کھڑا ہے کہ اگر باپ بیٹا کسی ہوٹل پر اکٹھے ہوجائیں تو دونوں الگ الگ اپنا اپنا بل ادا کرتے ہیں۔ اب اگر ایسے میں انسانی سماج کا کوئی معمار اُسے مدنی تکامل کی اس منزل پر پہنچا دے کہ اقامت فراہم کرنے والے اربوں مسافروں کو مفت میں رہائش فراہم کر دیں اور لاکھوں ڈالرز کا کھانا مفت میں کھلا دیں تو آیا ایسے معمار کو جھک کر سلام نہیں کرنا چاہیے؟ آیا اس سماج کو محض مدینۂ فاضلہ قرار دے دینا ناانصافی نہیں ہوگا۔؟
ایک اور زاویے سے یہی انفاق کتنی بڑی شجاعت ہے؟ اِس کا اندازہ مال و دولت کے پوجاریوں سے لگوایئے! بات فقط اس انفاق پر نہیں رکتی بلکہ اس انفاق پر آسمانی شہر کے لوگ کتنی مسرت محسوس کرتے ہیں؟ اس کا معمولی سا ادراک اس تگ و دو سے کیا جاسکتا ہے کہ میزبان سترہ کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرکے سڑک کے کنارے سارا دن مسافروں کا منہ تکتے ہیں اور ساتھ ساتھ خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ آج کی رات کے لیے چند مہمان ہمارے رزق میں عطا فرما دے!
آیا تاریخ بشریت میں کوئی فلسفی ایسا سماج قائم کرسکا؟ آیا کسی سیاسی نظام نے ایسا مدینۂ فاضلہ دیا؟ آیا کوئی حکیم ایسی سلطنت قائم کر پایا؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک حکیم اس نوع کی ضیافت کی شرافت کا عقل سوز فلسفی تأملات کے بعد ادراک کر لے۔ لیکن کیا حکمت عشق کے ان مظاہر کی تفسیر پیش کرسکتی ہے؟ ہرگز نہیں! جب ایسا ہے تو کیا عشق کی سلطنت کو حکمت کے شہر کے مساوی قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! یقیناً سطانِ حکمت جب تک کمر خمیدہ، لباس دریدہ، تھکا ہارا، بیمار اور بوڑھا نہ ہوجائے، سلطانِ عشق کی سرحدوں میں داخلے کی اجازت اُسے نہیں مل سکتی۔
مذکورہ داستان کے مطابق جب آسمانی شہر کو مدینۂ فاضلہ پر ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے تو کیا میں انسانی سماج کے تعمیر کاروں کو یہ دعوت نہیں دے سکتا کہ: ’’اے کرۂ خاکی کے سادہ لوح باشندو! آٹوپیا یا مدینۂ فاضلہ کے خیالی تصورات سے دل نہ بہلاؤ، کیونکہ نہ فکر و فلسفہ کے افاضل کے خالص عقلی تأملات کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر یہ شہر آباد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فلسفۂ اخلاق کے دانشوروں کے رشحاتِ قلم سے بنی ناؤ پر سوار ہو کر ناکجا آباد پہنچا جاسکتا ہے۔ میدانِ سیاست کے مکاروں اور چالبازیوں کی ریشہ دوانیوں سے بھی یہ حقیقت تعمیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ ملکوت ندیدہ، عالمِ مُلک کے آبادکاروں کا مدینۂ فاضلہ یا ’’آٹوپیا‘‘ ہمیشہ ’’ناکجاآباد‘‘ رہے گا اور یہ معاشرہ ہمارے کرۂ خاکی پر کبھی تحقق نہ پاسکے گا۔ لہذا آؤ میرے ساتھ چلو! عالمِ ملکوت کی سیر کرتے ہیں اور آسمانی شہر کی سیاحت کا سفرنامہ جاری رکھتے ہیں!‘‘
مہمان خانہ یا عزا خانہ؟
میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ آسمانی شہر کے سفر میں ہم جس عمارت کے سامنے رکے، میں اُسے مہمان خانے کا نام نہیں دے سکتا۔ تو کیا نام دوں؟ دراصل، یہ نام پہلے سے دیا جا چکا ہے۔ کیا؟ ’’عزا خانہ‘‘۔ یعنی، وہ عمارت جس میں فخر الرسل حضرت ختمی مرتبت ﷺ کے نواسۂ گرامی اور نورِ عین حضرت امام حسین علیہ السلام کی دردناک شہادت پر مجلسِ عزا بپا ہوتی ہے اور گریہ و ماتم کیا جاتا ہے۔ آپ پوچھیں گے: کیا آسمانی شہروں میں بھی عزا خانے ہوتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ: کیوں نہ ہوں! جبکہ پیغمبر اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ حسینؑ زمین اور آسمانوں کی زینت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں حسینؑ پر فرشی مخلوقات گریہ کرتی ہیں، عرشی بھی اس عبادت میں پیچھے نہیں رہتے اور وہ بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو آتے ہیں اور آپؑ کی مظلومانہ شہادت پر گریہ و ماتم کرتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ دن بھر عرشیوں کے ہمراہ سفر کرتے کرتے ہم نے بھی عرشی تہذیب کے چند آداب سیکھ لیے تھے۔ لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ اس سے قبل کہ ہمارے سامنے کوئی آسمانی مائدہ لگایا جائے، عرشیوں کا کچھ قرض اتار دیا جائے۔ لہذا تھکے ماندوں نے نماز مغربین کی نماز باجماعت ادا کی اور نماز کی صفوں پر ہی صف عزا بچھا دی۔ سامنے نظر آنے والوں کے علاوہ نواسۂ رسول پر رونے اور کون کون حاضر ہوا؟ اس سوال کا جواب، میں نہیں دے سکتا۔ جب مجلس ختم ہوئی تو اُس کا سارا ثواب ہم نے اٹھا کر اپنے میزبانوں اور اُن کے مرحومین کو ادا کرنا چاہا کہ احسان کا کچھ بدلہ تو اتر جائے، لیکن مجلسِ عزا کا ثواب اتنا زیادہ تھا کہ نہ فقط میزبانوں اور اُن کے مرحومین میں بٹا، بلکہ تمام مؤمنین اور خود ہمارے مرحومین نے بھی اِس سے اپنی اپنی جھولیاں بھریں۔
آسمانی شہر یا سلطنتِ عشق؟
میرے سفر نامہ میں اب تک جس سماج کا نام ’’آسمانی شہر‘‘ رہا، اب مجھے اُس کی نامگذاری پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ یہاں سے بعد کے واقعات ایسے ہیں جن کی توضیح و تفسیر یا Justification نہ تو میں فلاسفرز کے عقلی تأملات کی بنیاد پر کرسکتا ہوں اور نہ ہی کسی دیگر مادی و معنوی معیار پر۔ اگر میں افلاطون و فارابی کے مدینۂ فاضلہ کی سیسہ پلائی اساس یعنی ’’حکمت‘‘ کو بھی بنیاد بنا کر اِن واقعات کی توضیح پیش کرنا چاہوں، پیش نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ان واقعات میں مجھے تو افلاطون و فارابی کی ’’حکمت‘‘، آتش نمرود کے دہانے کھڑی ’’عقل‘‘ کا وہی مضطرب منظر پیش کرتی نظر آتی ہے، جس کی تصویر کشی علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کر دی ہے:
بے خطر کود پڑا، آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
لہذا اب ہم انسانی سماج کی جن حسین اور دلکش وادیوں میں داخل ہو رہے ہیں، اُن کی بادشاہت کا حق فارابی کے مجسمۂ فضائل ’’حکیم‘‘ کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کہ فارابی کا حکیم، مملکتِ عقل کا بادشاہ تو بن سکتا ہے، سلطنتِ عشق کا سلطان نہیں بن سکتا، کیونکہ سلطنتِ عشق کا بے تاج تو کیا، بے سر بادشاہ وہ ہے جس کے ہاتھ میں جامِ جم نہیں بلکہ ہاتھ جامِ جَم سے زیادہ شفاف ہیں۔ اتنی شفافیت کہ وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں، اپنی سلطنت کے ہر نقطہ پر موجود اپنی رعایا کا ہر اچھا بُرا کام مشاہدہ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف اُس کی رعایا کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں، اپنے بادشاہ کے حضور میں حاضر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلطنتِ عشق میں آپ کو سرے سے کوئی پولیس والا نظر نہیں آئے گا۔ اس سلطنت کا کوئی مدنی قانون بھی نہیں ہے۔ یہاں قانون بنانے والے ادارے اور قانون دان بھی نظر نہیں آتے۔ ہاں! اس ساری مملکت پر فقط ایک ہی قانون حکرانی کرتا ہے اور وہ یہ کہ: ’’کہیں میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہوجائے!‘‘
باقی ماندہ سفرنامہ؟
آپ سُن چکے کہ اب ہم آسمانی شہر سے سلطنتِ عشق میں داخل ہوچکے ہیں، چونکہ اِس تحریر کا عنوان ’’ایک آسمانی شہر کی سیاحت‘‘ تھا، لہذا اس سفرنامہ سفر نامہ کو آگے بڑھانے سے جہاں اس کے ’’عنوان‘‘ کے ساتھ ناانصافی ہوگی، وہاں اِس جلد بازی میں اس کے ’’بیان‘‘ کے ساتھ بھی ناانصافی ہوگی۔ اگر آپ کہیں کہ جلد بازی کس بات کی؟ تو اپنی زبان سے نہیں، بلکہ مجلہ ’’نورِ معرفت‘‘ کے انتہائی مخلص، جانسوز اور پُردَرد مدیر کی زبان سے یہی عذر پیش کروں گا کہ: ’’ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی ہمارا مجلہ تاخیر سے قارئین کی خدمت میں پہنچ رہا ہے، جس کا عمدہ سبب ہمارے لکھاریوں کی طرف سے تاخیر سے تحریریں وصول ہونا ہے۔‘‘ لہذا اِس امید پر آپ سے رخصت ہوتا ہوں کہ آپ دعا فرمائیں گے اور میں اپنے سفر نامے کو آگے بڑھا پاؤں گا۔ ہاں! اِس آسمانی شہر کی سیاحت کے خواہشمندوں کے لیے اس کا پتہ یہ ہے کہ ہوسکے تو نواسۂ رسولﷺ حضرت امام حسینؑ کا چہلم منانے عراق کے کسی بارڈر سے نجف اور وہاں سے کربلا کا رُخ کر لینا، اور اگر اس سفر میں آپ نے سفر کی ہر روئیداد کو تجزیہ و تحلیل کے اُس زاویے سے دیکھا، جس سے میں نے دیکھا ہے، تو سفر کی داستان کے بیان میں یقیناً آپ میرے ساتھ مکمل اتفاق فرمائیں گے!
Add new comment