دین کی انفرادیت کا تصور
ٹی وی شیعہ[ریسرچ ڈیسک]دین کے انفرادی یا معاشرتی ہونے کے حوالے سے کوئی بھی قضاوت یا فیصلہ دینے سے پہلے ، اس کی تعریف اور اہداف پر ایک سرسری نظر ڈالنا نہایت ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دین سے مراد یہاں اسلام ہے جو کہ حقیقی طور پر ایک الہی دین ہے۔ اسلام کیوں اور کس لیے آیا ہے؟ پیامبر اسلام کیوں مبعوث ہوئے ہیں؟ انبیاء کے تسلسل کی ضرورت کیا تھی؟ انہیں کس ہدف کے تحت بھیجا گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دیے بغیر ہم موجودہ حالات سے متاثر ہو کر دین کی انفرادیت کا نعرہ چاہے جتنے جوش و خروش سے لگائیں، وہ حقیقت سے کوسوں دور ہو گا۔ کیونکہ دین اپنے اندر زبان رکھتا ہے، اسے میری اور آپ کی تفسیروں کی ضرورت نہیں ہے، کم از کم اس میں اس حد تک تو محکمات یعنی لاریب اور بے شبہہ باتیں تو ہونگی کہ وہ اپنے وجود کے مختلف پہلووں کی وضاحت کر سکے۔ دین کی اصل زبان قرآن ہے اور اس کے بعد اس کی تشریح قرآنی آیات سے تطابق رکھنے والی سنت ہے۔ یہ سنت قرآن ہی کی تشریح اور تفصیل ہے۔
قرآن نے کئی ایک آیات میں تین اہم اہداف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن کے لیے ہمارے پیامبر اسلام ص کو مبعوث فرمایا:
تعلیم کتاب، تزکیہ نفس اور تلاوت آیات الہی، [جمعہ ۲]۔ بہت سے لوگ یہیں پر بات کو ختم سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کام تو ہر شخص خود کر سکتا ہے، آج سب کو خدائی نشانیوں پر غور کرنا چاہیے، تزکیہ نفس بھی ہونا چاہیے، اور قرآن کی تعلیم بھی گھر گھر میں عام ہونی چاہیے، مقصد نبوت حل ہو جاتا ہے۔ لیکن سادہ لوحی پر رونا آتا ہے، کہ پھر پورا قرآن کیوں نازل ہوا ، اتنی ساری آیات میں قرآن کے سینکڑوں احکام کس لیے اترے؟ نماز، روزے، جیسے بظاہر انفرادی احکام سے لے کر زکات، حج، امر بالمعروف و نہی از منکر وغیرہ جیسے اجتماعی احکام تک سب کے سب کس لیے ہیں؟
ان دو مختلف چیزوں کو سامنے رکھ کر ایک اہم سوال اٹھتا ہے کہ کیا معاشرے کے ارتقاء کے بغیر ، افراد کو تربیت کرنا ممکن ہے؟ یعنی معاشرے میں برائی، بے حیائی، فساد و فحاشی، گانے بجانے، شراب اور زنا، وغیرہ سے لے کر کرپشن، سود، ظلم و بربریت ، اخلاقی انحطاط، جھوٹ، دھوکہ ، جیسے معاشرتی گناہوں تک سب راج کر رہے ہوں اور ایسے میں آپ تعلیم کتاب، تزکیہ نفس اور خداوند کی آیات اور نشانیوں کے حامل کثیر افراد تربیت کر رہے ہوں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا اس سے بڑا پیراڈوکس اور تناقض اور سفید جھوٹ ہو سکتا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ ہم اس جھوٹ کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو چکے ہیں، کیونکہ معاشرتی اسلام کی نعرہ بازی اور ہلڑ بازی کا سلسلہ ایسے بے دین، ظالم ، کرپٹ، خشک مقدس اور لا مذہب لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا، جنہیں دین کے احکام اور مقاصد تو درکنار ان کی الف ب تک کا علم بلکہ ان پر ایمان تک نہیں تھا۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک منافع اور مفادات کی جنگ کی لپیٹ میں ہے، اس میں اہداف اور مقاصد کا دور دور تک کوئی سراغ نہیں ملتا اور اصل گیم تو اب شروع ہوئی ہے ۔اسلامی کلچر کے خاتمے کی منظم سیاسی پالیسی گیم کا پہلا حصہ رو بہ اختتام ہے ۔ اگلا حصہ یوں آغاز ہوتا ہے کہ جب معاشرتی اسلام خونریزی اور قتل و غارت کا دوسرا نام ہے،معاشرے کے اندر اسلام کا مطلب منافع پرستی، مذہب کے نام پر باج گیری، ظلم، اور انتہا پسندی ہے، معاشرتی سطح پر اسلام کا لازمی جزو قتل عام، بد امنی، فرقہ واریت، الزام تراشی، وغیرہ ہے۔ ایسے میں ایک ہی راہ حل ہے کہ اس مذہب کو فرد کی سطح پر لایا جائے، ہر ایک کا اپنا مذہب ہو، کوئی دوسرا شخص کسی کو مذہب کی تعلیم نہ دے سکے۔ اور یوں دین اور مذہب بھی انہی کے قیدیوں میں سے ایک قیدی بن جائے۔
آپ کو حیرت تو ہوتی ہو گی یہ دیکھ کر جب پوری دنیا میں حریت اور آزادی فکر کے نعرے لگ رہے ہیں، انسان اور اس سے وابستہ ہر چیز کو احترام اور مقام مل رہا ہے، ایسے میں فقط اور فقط مذہب ہی ہے جو دن بدن بدنام ہوا جا رہا ہے۔ مذہب سے وابستہ ہر چیز کو فردی اور ذاتی قرار دے کر اسے تاریخ کے ایک سابقہ دار پنجرے میں بند کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو آج مغربی دنیا ہم سے چاہتی ہے۔ مذہب اگر فرد کی حد تک تقلیل ہو جائے تو معاشرتی سطح پر جتنی تبدیلیاں لائی جائیں گی، وہ یقینا ان کی مرضی کے مطابق ہونگی۔ سوشیالوجی[علم الاجتماع] کے ماہرین نے جتنے نظریات دیے ہیں ان میں معاشرتی اقدار کی اہمیت اور اس کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے، انسانوں کی اکثریت معاشرتی ڈھانچوں کی پابند ہوتی ہے، اگر ساختار اور ڈھانچے ان کے ہاتھ آ گئے تو افراد خود بخود ان کے قبضہ قدرت کا حصہ بن جائیں گے۔ افراد کچھ نمادوں اور علامات کو دیکھ کر اپنی حرکت اور معاشرے کی حرکت کا تعین کرتے ہیں، اور جن معاشروں کے کے نماد اور شعائر اور اقدار بدل جائیں ، وہ پھر اپنی رفتار اور کردار پر کنٹرول نہیں کر سکتے۔
کتنی معصوم اور بھولی بھالی ہے ہماری صحافی برادری جنہیں جس کسی موضوع پر - چاہے سیاسی ہو یا ثقافتی، دینی ہو یا سائنسی، تجربیاتی ہو یا نظریاتی- بات کرنے کا دستور جاری کیا جائے وہ فورا ۱۴۰کی سپیڈ میں بولنا اور لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں دوسرے دن ان کے حکیمانہ کلمات سے لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والے اخبار بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ یہی لوگ امت مسلمہ کے بڑے سکالر اور ہر فن مولا ہستیاں ہیں۔
معاشرے کا سر سے پاوں تک جب سب کچھ بگڑا ہو تو فقط اور فقط مذہبی امور پر پابندیاں لگا کر لوگوں کو امن کی خیالی جنت کے ہرے بھرے باغ دکھانا ہمارے انہی حکیم الامت گروہ ہی کے محیر العقول کارناموں میں سے ایک ہے۔
ذرا سوچیے: اگر مذہب واقعی طور پر محبت، لگاو، ہمدلی ، ایثار، قربانی، صحیح طرز فکر، درست طرز عمل، اور نیک اقدار کی تعیین کرتا ہے تو کیوں نہ ان سب چیزوں کو معاشرتی سطح پر رواج دیا جائے، کیوں ایسا کام نہیں کیا جاتا کہ مذہب کی صحیح تعلیمات معاشرتی اور عمومی سطح پر رواج دی جا سکیں؟ اگر آپ واقعی طور پر ایمان رکھتے ہیں کہ مذہب جن چیزوں کی تعلیم دیتا ہے وہ صحیح ہیں تو آپ پھر انہی چیزوں کو ہی کیوں محدود کر رہے ہیں؟ یا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ غلط چیزوں کو غلط باقی رہنے دیا جائے اور انہیں افراد کی سطح تک تقلیل دے دیے جانے سے سارے مسائل حل ہو جائیں گے؟ یہ کیسا نسخہ ہے جو حکیمان امت نے تجویز کیا ہے؟ اگر مذہب قتل و غارتگری ، فساد فی الارض، ظلم و بربریت ، غیر انسانی برتاو، اور جاہلانہ رویوں کی تعلیم کا نام ہے تو یہ چیزیں چاہے معاشرے کی سطح پر ہوں یا افراد کی حد تک، ان کو تو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر مذہب کی تعلیمات درست اور صحیح ہوں تو پھر ان کی معاشرتی روح نکال کر ، افراد میں اس کے بے تاثیر اور بے خاصیت قالب کی غیر معقول تلقین اور تبلیغ کرناکسی بھی طرح سے منطقی کام نہیں ہو گا۔[جاری ہے]
نوٹ: یہ تحریر جاوید چوہدری کے کالم "عفریت "کے کچھ اقتباسات کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہے جو ۲۸ صفر المظفر ۱۴۳۶ ہجری بمطابق۲۱ دسمبر ۲۰۱۴ کو ایکسپریس اخبار میں چھپا۔
بقلم::::گوہر مراد
g.murad786@yahoo.com
.............
Add new comment