داعش کی موت
ٹی وی شیعہ[ریسرچ ڈیسک]دنیا خطرات کا گھر ہے، بعض خطرات جز وقتی ہوتے ہیں اور بعض دائمی۔ مذہب کی کوکھ سے نکلنے والے خطرات البتہ دائمی ہوتے ہیں۔ مذاہب کی تاریخ اس امر پر شاہد ہے۔ غیر منطقی، غیر عقلی اور بالکل ہی ظواہر پرستی کو ’’کل مذہب‘‘ اور سارے کا سارا دین سمجھنے والے بلاشبہ دائمی خطرہ ہیں۔ عالمِ اسلام کے لیے، عالمِ انسانیت کے لیے، دنیا بھر کے لیے۔ کیا ایک خاص زاویہء نظر سے عبادات کو ہی کل دین سمجھنا دین کے لیے کم خطرہ نہیں ہے؟ کیا دین سارے کا سارا چند ظواہر کا نام ہے؟ کیا ٹخنوں سے اوپر پائنچہ اور خاص وضع کا عمامہ ہی دین کا اصلی چہرہ ہے؟ نہیں تکفیریت اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ تکفیریت کیا ہے؟ علمائے اسلام اس حوالے سے امتِ مسلمہ کی رہنمائی فرما رہے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس کا پہلا شکار خود مسلمان ہوئے ہیں۔ اس خطرے کا آخری شکار بھی خود مسلمان ہی ہوں گے۔ کیا جہاد جیسے عظیم اسلامی رکن کی غلط تعبیرات نہیں کی گئیں؟ کیا ’’جہاد‘‘ کے نام پر کلمہ گو مسلمانوں ہی کے گلے نہیں کاٹے جا رہے ہیں؟ پاکستان سے افغانستان اور عراق سے شام تک ایک ہی طرح کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ پہلے القاعدہ اور طالبان تھے، لشکرِ جھنگوی اور جنداللہ، اب مگر ان سب سے بڑھ کر داعش۔ مسلمانوں کے خون کی پیاسی، جو بھی ان کی سوچ سے متفق نہیں، وہ ان کی نظر میں واجب القتل۔
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
داعش کی جانب سے اپنی وحشت اور درندگی کا رعب جمانے کے لیے بے گناہ مسلمانوں کو جس طرح گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے وہ نئے عہد کا دلسوز الم ہے۔ اس درندگی کے خلاف ہر عدل پسند انسان پر واجب ہے کہ آواز بلند کرے ۔ ایران کے شہر قم المقدسہ میں اسی تکفیری خطرے اور نئے عہد کے عظیم فتنے کے خلاف ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا، اس دو روزہ انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس میں شام، پاکستان، لبنان، عراق اور 84 دوسرے ممالک سے تقریباً 315 علما دین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں 700 مقالات بھی بھیجے گئے، جن میں سے 144 مقالات پر مشتمل کتاب بھی شائع کی گئی۔
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے 25 نومبر کو قم میں منعقدہ دو روزہ انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف عالمی کانفرنس کے منتظمین اور شرکاء سے تہران میں ملاقات کی اور ان سے خطاب کیا۔ انہوں نے اس عالمی کانفرنس کے منتظمین خاص طور پر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور آیت اللہ جعفر سبحانی کا شکریہ ادا کیا اور ان کی زحمات کو سراہتے ہوئے کہا: "اس خطرناک گروہ کا جائزہ لیتے وقت اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ اصل مسئلہ تکفیری سوچ کی ترویج کا بھرپور مقابلہ کرنا ہے اور یہ ایسا مسئلہ ہے جو صرف داعش نامی گروہ تک محدود نہیں بلکہ داعش اس شجرہ خبیثہ کی صرف ایک شاخ ہے۔"
امام خامنہ ای نے گذشتہ چند سالوں کے دوران عالم اسلام میں تکفیری گروہ کی پیدائش کو عالمی استعمار کی سازش قرار دیا اور کہا کہ منحوس تکفیری عناصر کی پیدائش کا مقصد امریکہ، اسرائیل اور استعماری قوتوں کے سیاسی اہداف کی تکمیل خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور قدس شریف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانا ہے۔ انہوں نے ایک ناقابل انکار حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "تکفیری گروہ اور ان کی حامی حکومتیں مکمل طور پر عالمی استعماری قوتوں یعنی امریکہ، یورپی ممالک اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔ ان کا ظاہر اسلامی ہے جبکہ حقیقت میں وہ استعماری قوتوں کے ایجنٹ ہیں۔"
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس دعویٰ کہ تکفیری گروہ اور ان کی حامی حکومتیں امریکہ اور اسرائیل کے اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں، کو ثابت کرنے کیلئے چند شواہد بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلی دلیل تکفیری گروہوں کی جانب سے خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو اپنے اصل راستے سے منحرف کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ انہوں نے کہا: "اسلامی بیداری کی تحریک امریکہ، آمریت اور امریکہ کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے خلاف تحریک تھی لیکن تکفیری گروہوں نے اس عظیم استعمار مخالف تحریک کو خانہ جنگی اور مسلمانوں کے درمیان برادر کشی میں تبدیل کر دیا۔"
امام خامنہ ای نے اسلامی بیداری کی تحریک کو اپنے اصلی راستے سے منحرف کرنے کو امریکہ، برطانیہ، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور ان کی انٹیلی جنس ایجنسیز کیلئے تکفیری گروہوں کی عظیم خدمت قرار دیا اور کہا: "یہ ثابت کرنے کیلئے کہ تکفیری گروہ درحقیقت عالمی استعماری قوتوں کے اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں، ایک اور دلیل یہ ہے کہ اب تک تکفیری گروہوں اور ان کی حامی حکومتوں نے ایک بار بھی اسرائیل کی مذمت نہیں کی۔ وہ نہ صرف اسرائیل کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ الٹا خود اسلامی ممالک کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔"
کیا اس امر میں کلام ہے کہ داعش تکفیری سوچ و ترویج کے شجرہء خبیثہ کی ایک شاخ ہے؟ بے شک ایک شاخ ہے مگر ایک ’’کانٹے دار‘‘ شاخ کہ جدھر کو جھولتی ہے مسلمانوں کے دامن کو ہی چھلنی کئے دیتی ہے۔ یہی وقت ہے کہ اس خطرے کے سدباب کے لیے عالمِ اسلام اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعماری طاقتوں کی اس آکاس بیل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔
کیا داعش صرف مسلمانوں کے گلے کاٹنے کو ہی ’’جہاد‘‘ کہتی رہے گی؟ کیا داعش کے جہاد پرستوں پر ’’واجب‘‘ نہیں کہ وہ غزہ کے محصورین مسلمانوں کی مدد کو آئیں؟ یہ مگر ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ اسرائیل سے انھیں خاص تربیت اور امداد ملتی ہے۔ بھلا وہ کیوں اسرائیل کی طرف بڑھیں گے؟ کیسی خلافت اور کون سی خلافت؟ وہ خلافت جس میں مسلمانوں کو ہی ذبح کیا جا رہا ہے؟ کیسا ’’جہاد‘‘ جس میں انبیا علیہ السلام کے مزاراتِ مقدسہ کی توہین کی جا رہی ہے؟ بے شک ایران میں ہونے والی اس عالمی کانفرنس نے تکفیریت اور انتہا پسندی کے اصلی چہرے کو دنیا پر عیاں کیا ہے، مگر ایک کانفرنس کافی نہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی کانفرنسز ہر ماہ مختلف مسلم ممالک میں ہوتی رہیں اور علمائے حق عالمِ اسلام اور دنیا کے عدل پسندوں کو تکفیری خطرات سے آگاہ کرتے رہیں۔ بے شک داعش تکفیریت اور انتہا پسندی کی ایک ایسی کانٹے دار شاخ ہے جو پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ اس شاخ کو علم اور منطق کی تلوار سے کاٹ ڈالنے کی ضرورت ہے اور انشاءاللہ آخری اور حتمی فتح علم اور دلیل والوں کی ہی ہوگی۔
تحریر: طاہر یاسین طاہر
Add new comment