مولانا سید ذیشان حیدر جوادی
ٹی وی شیعہ [مطالعاتی سیکشن]مولانا سید ذیشان حیدر جوادی اپنے وطن مالوف کراری ضلع (الہ آباد)میں ۲۲/رجب ۱۳۵۷ھ/ ۱۷/ستمبر ۱۹۳۸ء کو پیدا ہوئے ۔ ان کے والد مولانا محمد جواد صاحب علم و فضل میں نمایاں تھے اور جلالی (ضلع علی گڑھ)میں بہت دنوں تک فیض پہونچایا ۔ وطن مین ابتدائی تعلیم کے بعد وہ مدرسہ ناظمیہ میں داخل ہوئے ۔ ابھی نویں درجہ میں (قابل)میں تھے کہ نجف اشرف چلے گئے ۔ نجف اشرف میں تقریبا دس سال تحصیل علم و کمال میں صرف کئے اور آیۃ اللہ سید محمد باقر صدر شہید اور آیۃ اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی نیز آیۃ اللہ ولعظمی سید محسن الحکیم طباطبائی سے کسب فیض کیا خصوصا سید محمد باقر صدر سے بہت زیادہ قریب رہے اور وہ مرحوم بھی ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ۔
۱۹۶۵ یا ۱۹۶۶ میں وہ ہندوستان واپس آئے اور ایک عرصہ تک مظفرپور (بہار)کی کمرہ جامع مسجد میں پیش نماز رہے ۔
تحریری کام آپ نے زمانہ طالب علمی سے شروع کردئے تھے ۔ موصوف کے صاحبزادے سید احسان حیدر جوادی صاحب سلمہ نے اپنے مضمون ''والد علام کی پہلی کتاب'' (تنظیم المکاتب)میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ مرحوم کی پہلی کتاب ''ترجمہ کتاب سلیم بن قیس'' ہے جو انہوں نے ''اوائل دور طالب علمی میں کیا تھا'' اس کے مقدمہ کے خاتمہ پر ذکر شدہ تاریخ یکم ذیقعدہ ۱۳۸۱ھ ہے(یعنی ۶/اپریل ۱۹۶۲ء)
جوادی صاحب سلمہ نے اسی مضمون میں یہ لکھا ہے کہ ان کے والد مرحوم کی تحریر کردہ کتب (تصنیف و تآلیف یا ترجمہ)کی تعداد تین سو سے زائد ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اکثر کتابیں نایاب ہوچکی ہیں ۔
ابوطالب مومن قریش (استاد عبداللہ خنیزی کی تصنیف )کا ترجمہ انہوں نے ۱۹۶۴ء میں پندرہ دن کے اندر کیا تھا ۔
انہوں نے سید باقر الصدر شہید کی کتابوں ۔ اقتصاد اور البنک الاربوی فی الاسلام اور فلسفتنا ۔ کے ترجمے کئے ۔ استاد آیۃ اللہ حیدر کی الامام الصادق والمذاہب الاربعہ کا ترجمہ، حجۃ السلام محمد محمدی ری شہری کی عربی کتاب کا ترجمہ( اہل بیت علیہم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں)،شیخ صدوق کی کتاب الخصال کا خلاصہ(انوار عصمت)،شیخ مفید کے خلیفہ حسین بن محمد حلوانی کی کتاب نزہۃ الناظر و تنبیہ الخواطر کا ترجمہ( تہذیب قلب و نظر )،علامہ سید مرتضی عسکری کی کتاب معالم المدرسین کی پہلی جلد کا ترجمہ(مکاتب خلافت و امامت کے امتیازی نشانات)،اور دوسری اور تیسری جلد کی تلخیص و ترجمہ(خطائے اجتہادی کی کرشمہ سازیاں )، استاد احمد حسین یعقوب کی نظریہ عدالۃ الصحابہ کا ترجمہ (نظریہ عدالت صحابہ)،علامہ امینی کی سیرتنا و سنتنا کا ترجمہ (ہماری عزاداری)،یہ ان کے چند اہم ترجمے ہیں جو سب کے سب شائع ہوچکے ہیں ۔
ان کےدیگر تصنیفات میں جو چند نام مجھے مل سکے وہ یہ ہیں: انوار القرآن، اصول و فروع، حسین منی، خطائے اجتہادی، ذکر و فکر(تین جلدوں میں)عقیدہ و جہاد، مجموعہ احادیث قدسیہ(تالیف و ترجمہ)مطالعہ قرآن ۔
خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری صاحب موحرم کی دوستی آپ کو کھیچ کر ادارہ تنظیم المکاتب میں لے آئی جہاں آپ پہلے کمیٹی کے ممبر رہےپھر نائب صدر اور آخر میں صدارت کے لئے منتخب ہوئے۔ ادارہ کے اخبار تنظیم المکاتب (پندرہ روزہ)میں مسائل کے جوابات کا ایک صفحہ ان کے لئے محفوظ تھا ۔
الہ آباد میں انہوں نے کار خیر کمیٹی اور تنظیم خمس و زکوۃ نامی دو ادارے قائم کئے جن کے ذریعہ اہل ثروت سے حقوق شرعیہ حاصل کرکے نادار مومنین کی حاجتیں پوری کی جاتی ہیں ۔ مدرسہ انوارالعلوم جامعہ امامیہ الہ آباد میں ان کی مستقل یادگار ہے جو ان کے بڑے صاحبزادے مولانا سید جواد الحیدری صاحب سلمہ کی مدیریت میں ترقی کررہا ہے ۔ وہ اعلی درجہ کے شاعر تھے کلیم تخلص کرتے تھے کلام کلیم، سلام کلیم وغیرہ مجموعہ ان کی یادگار ہیں ۔
انقلاب اسلامی کے بعد ایران کے علمی حلقوں میں آپ کا بہت وقار تھا ۔ لندن اور ایران میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسوں میں آپ ہمیشہ بلائے جاتے تھے اور فصیح عربی زبان میں آپ کی تقریریں بہت پسند کی جاتی تھیں ۔ آپ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل رہبر انقلاب سلامی آیۃ اللہ سید علی خامنہ ای دام ظلہ نے آپ کو مہاراشٹر اور جنوبی ہندوستان کے لئے اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا اور اس سبب سے آپ ابوظہبی چھوڑ کر بمبئی منتقل ہوگئے تھے ۔ وہاں پر آپ نے ادارہ اسلام شناسی قائم کیا تھا ۔
جب اپ ابوظہبی سے بمبئی کے لئے روانہ ہوئے تو اہل ابوظہبی نے اپ سے وعدہ لیا تھا کہ محرم کے عشرہ اولی اور شب ۲۱/رمضان کی مجلسیں آپ ابوظہبی میں پڑھا کریں گے ۔ اس وعدہ پر عمل کرتے ہوئے آپ ۱۴۲۱ کے محرم میں بھی ابوظہبی گئے تھے ۔ عاشور کے روز حسب معمول اعمال کرائے ۔ مجلس شہادت پڑھی ۔ نماز ظہرین پڑھائی ۔ جلوس عزا کی قیادت کی ۔ فاقہ شکنی کے بعد آپ استراحت کے لئے اپنے داماد کے گھر چلے گئے ۔ وہاں طبیعت خراب ہونے لگی تو ایمولینس کے لئے فون کیا گیا ۔ جب تک ایمبولینس آئے حسین کا یہ ذاکر حسین کی بارگاہ میں پہونچ چکا تھا ۔ وہ عاشور کا دن تھا اور دوسرے دن جب الہ آباد میں سپرد لحد کئے گئے وہ بھی ہند وپاک میں عاشور کا دن تھا ۔
جنازہ ہوائی جہاز کے ذریعہ دہلی اور وہاں سے لکھنؤ پہونچا ۔ لکھنؤ سے جیپ کے ذریعہ الہ آبادلایا گیا ۔ جہاں اسلامیہ انٹرکالج کے میدان میں حجۃ الاسلام مولانا سید علی عابد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور دریا آباد کے قبرستان میں آپ کو سپرد لحد کردیا گیا ۔
تاریخ وفات تھی ۱۰/محرم ۱۴۲۱/مطابق۱۵/ اپریل ۲۰۰۰ اور ۱۶/ اپریل کو تدفین ہوئی ۔
http://mohaqqeqin.com/Pagesview.asp?Id=167
.........
Add new comment