تحفظ پاکستان بل منظور

ٹی وی شیعہ[مانیٹرنگ ڈیسک]سینٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے تحفظ پاکستان بل ترامیم کے ساتھ منظور کرلیا۔ شرپسند یا مشتبہ شخص پرگولی چلانے کے حکم کا اختیار گریڈ 15 کے پولیس افسر کو حاصل ہو گا۔ افسر کی اجازت کے بغیر فائرنگ کے اختیار کو استعمال نہیں کیا جا سکے گا، حراستی مدت 90سے کم کرکے 60دن کر دی گئی، ملک دشمنوں کی سزا کی مدت 10سال سے بڑھاکر 20سال کر دی گئی۔ دہشت گردوں کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے والے شہری کو بھی اس کیٹگری میں رکھا جائیگا، گولی چلانے کی صورت میں واقعے کی محکمانہ تحقیقات کی جگہ عدالتی تحقیقات کی جائیگی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر طلحہ محمود کی زیرصدارت ہوا جس میں تحفظ پاکستان ترمیمی بل کی اتفاق رائے سے منظوری دی گئی۔ تحفظ پاکستان ترمیمی بل ابتدائی طور پر دو سال کے لئے نافذ ہو گا۔ سینیٹر زاہد حامد نے کمیٹی کو بریفنگ دی کہ اختیارات کا غلط استعمال روکنے کےلئے اقدامات کیے گئے ہیں۔ خصوصی عدالت کی سزا کےخلاف متاثرہ فریق ہائی کورٹ سے رجوع کر سکے گا۔ گولی چلانے کی صورت میں واقعہ کی محکمانہ کی جگہ عدالتی تحقیقات کی جائیگی۔ اربن ایریا میں مشتبہ فرد کو گولی مارنے کی انکوائری ہوا کرے گی۔ ایم کیو ایم نے گولی چلانے کا اختیار گریڈ 17کے افسر کو دینے کی بھرپور مخالفت کی اور کہا کہ یہ اختیار گریڈ 17سے اوپر کے افسر کے پاس ہونا چاہئے، سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں بھی پولیس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ بل کے تحت اغوا، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کی جا سکے گی۔ سینیٹر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ تحفظ پاکستان بل کسی جماعت یا فرد کے مفاد میں نہیں۔ دنیا میں اس سے زیادہ سخت قوانین موجود ہیں۔ ایم کیو ایم کے طاہر مشہدی نے مشتبہ افراد کو گولی مارنے سمیت دیگر شقوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ضمانت ہے کہ قانون اپوزیشن جماعتوں کیخلاف استعمال نہیں ہو گا، ہمارے لئے حکومت نہیں ریاست مقدس ہے۔ بل کے تحت اغوا، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، سرکاری املاک پر حملوں، انتہا پسندوں اور دہشت گردوں اور غیرملکیوں پر حملوں میں ملوث ملزمان کیخلاف اس قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، اختیارات کا غلط استعمال کرنیوالے پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے حکام کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی۔ ملک دشمن کی تشریح شدت پسند ہو گی غیر ملکی شدت پسندوں کو بھی ملک دشمن تصور کیا جائیگا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا ہے کہ قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ بل کی متفقہ منظوری سے مسلح افواج کو ایک اچھا پیغام جائیگا، کمیٹی کے چیئرمین طلحہ محمود نے کہا کہ پولیس کو ایسے اختیارات نہیں دینے چاہئے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاون کی طرز کے واقعات کو دہرائے۔ کمیٹی نے ملتان میں نجی کمپنی کی طرف سے کروڑوں کے ٹیکس اور گیس چوری کے معاملے کی تحقیقات کیلئے ایف بی آر اور ایف آئی اے کو ہدایت کر دی۔ وفاقی وزیر زاہد حامد کی طرف سے کمیٹی کو تحفظ پاکستان ترمیم بل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، کمیٹی نے بل کا شق وار جائزہ لیا ، ایم کیو ایم کے مطالبے پر مشتبہ افراد کو گولی مارنے کا حکم دینے سے متعلق شق میں ترمیم کی گئی اور یہ اختیار گریڈ گیارہ کی بجائے گریڈ 15کے پولیس افسر کو دیا گیا ، ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہاکہ کون ضمانت دے گا کہ اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہو گا، لاہور میں پولیس نے جس انداز میں گولیاں برسائیں نئے قانون کی موجودگی میں پولیس کو لامحدود اختیارات حاصل ہو جائینگے۔ حکومت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ یہ قانون اپوزیشن کیخلاف استعمال نہیں ہو گا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کمیٹی کو بتایا کہ مشتبہ افرا د کو گولی مارنے کی شق میں اپوزیشن کے مطالبے پر کئی مراحل شامل کئے گئے ہیں جس میں پہلے ملزم کو وارننگ دینے سمیت دیگر اعلانات شامل ہیں۔ امید ہے کہ قانون کے غلط استعمال کا اندیشہ اب دور ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ بل دو سال کیلئے نافذ العمل ہو گا۔ پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہونیوالی ہلاکتوں کی جوڈیشل انکوائری کروائی جائے گی۔ حکومت چاہتی تھی کہ تحفظ پاکستان قانون کا اطلاق ملک کے مخصوص علاقوں میں کیا جائے تاہم اپوزیشن کے مطالبے پر یہ قانون پورے ملک پر نافذ ہوگا۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ دہشت گردوں کیخلاف فیصلہ کن جنگ جاری ہے، ایسے وقت میں بل کو متفقہ طور پر منظور کیا جائے۔ یہ قانون کسی جماعت یا فرد کے مفاد میں نہیں بنا رہے، دنیا میں اس سے زیادہ کئی سخت قوانین موجود ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر خواجہ ظہیر نے کہاکہ گیارہ سال سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو دھکیلا گیا ہے مگر ہمارے پاس قوانین ہی نہیں ، اب ہمارا دشمن سامنے نہیں بلکہ چھپا ہوا ہے، ملک بچالیں یا پھر بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کر لیں اگر قانون نہیں دینگے تو پھر لاقانونیت ہو گی۔کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ پولیس کو ایسے اختیارات نہیں دینے چاہیے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے طرز کے واقعات کو دہرائے ۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر سردار فتح حسنی نے کہاکہ بل پر ہمارے تحفظات ہیں کہ قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔تحفظ پاکستان آرڈیننس کی منظوری قومی اسمبلی پہلے ہی دے چکی ہے اور تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کے ذریعے حاصل کی گئی تجاویز اور سفارشات کو بھی نئے تحفظ پاکستان بل میں شامل کر لیا گیا ہے ۔انچارج وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ قومی اسمبلی سے آرڈیننس کی منظوری کے بعد اپوزیشن ، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود تمام پارٹیوں کے قائدین سے مشاورت کی گئی تاکہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور غیر ملکی دشمنوں کے خلاف آرمڈ فورسز کی طر ف سے جاری آپریشن کو کامیاب بنایا جا سکے اور مجرموں کو سزائیں دلوانے اور سامنے موجود دشمن کو ختم کرنے میں سول و آرمڈ فورسز کو قانون کی چھتری کے نیچے مکمل اختیارات دیئے جا سکیں۔ زاہد حامد نے کہا کہ رضا ربانی، اعتزاز احسن سے گھنٹوں بحث کی گئی اور پارلیمانی قائدین کی تجاویز کو آرڈیننس کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔ دنیا بھر میں تحفظ پاکستان آرڈیننس سے بھی زیادہ سخت قوانین موجود ہیں موجودہ قانون کسی شخص یا جماعت کے خلاف نہیں، کمزور قوانین یا قوانین کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک دشمنوں کو سزائیں نہیں دی جا سکیتں ۔ اداروں کو دشواریاں پیش آتی ہیں مجرم گواہوں کے عدالتوں میں نہ آنے کا فائدہ حاصل کر لیتے ہیں، ملک میں جتنی شدت کے جرائم ہو رہے ہیں اس شدت کے سخت قوانین موجود نہیں، مجرموں کو گرفتار کرنیوالے بعض اوقات خود عدالتوں میں مجرم بن کر کھڑے ہوتے ہیں ۔طالبان اور شدت پسندوں سے تو سوال نہیں کیا جاتا کہ وہ کس ضابطے اور قانون کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں لیکن حکومت اور ریاست پر سوال اٹھائے جاتے ہیں اس لئے قانون کا بننا لازمی ہے۔ چیئرمین کمیٹی محمد طلحہٰ محمود نے کہا کہ وقت کی تبدیلی کے ساتھ اور ملک کے تحفظ کی ضرورت کے تحت تحفظ پاکستان آرڈیننس کا نفاذ ضروری ہے تاکہ جرائم کو روکا جا سکے۔ سینیٹر سردار فتح حسنی نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت خوش قسمت ہے کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت حکومت کے ساتھ ہے ۔قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے بھی اقدامات ضروری ہیں۔ زاہد حامد نے کہا کہ تحفظ پاکستان بل 2013ءسے نافذ ہے جو دوبارہ ترامیم کو ملا کر قومی اسمبلی سے منظور ہوا ۔مختلف سیاسی جماعتوں کی ترامیم کو بھی شامل کر کے بل کو مذید بہتر کر دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی مفاد میں سینیٹ سے متفقہ منظور کرانا چاہتے ہیں ۔ اپوزیشن کے اندیشوں کو ختم کر دیا گیا ہے اور تمام تحفظات بھی دور کر دئیے گئے ہیں۔ گولی چلانے کی صورت میں واقعہ کی محکمانہ تحقیقات کی جگہ عدالتی تحقیقات کی جائیں گی، صوبہ بلوچستان میں بھی بقیہ صوبوں کی طر ح محکمانہ تحقیقات کی بجائے عدالتی تحقیقات پر غور ہو رہا ہے۔ وفاقی وزیر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، قانون نافذ کرنیوالے ایجنسیوں کو قانون کی چھتری فراہم کرنا ضروری ہے۔ سینیٹرز طاہر مشہدی ، سدار علی خان ، سردار فتح حسنی نے گولی چلانے کا حکم دینے کا اختیار گریڈ 15سے اوپر کے پولیس آفیسر کو دینے کی تجویز دی جس پر اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا کہ اے ایس آئی چوکی کا انچارج ہوتا ہے اور علاقے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوتی ہے اس لئے آفیسر کا لفظ لکھا گیا تھا۔

البتہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا اس طرح سے ملک دشمن اور مسلح وہابیت کا راستہ روکا جاسکے گا۔۔۔؟

Add new comment