طاہرالقادری تو آگئے لیکن انقلاب۔۔۔؟

تجزیہ:-چودھری خادم حسین
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے قوم کے اعصاب کا امتحان لینے کے بعد گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی بات مان کر طیارے کو چھوڑ دیا، یوں نو گھنٹے سے محصور اس طیارے کے مسافروں کی جان میں جان آئی اور تھوڑی دیر بعد طیارہ اسلام آباد کی طرف پرواز کر گیا۔ لاہور کے ہوائی اڈے پر صبح دس بجے سے جاری تنازعہ بعد دوپہر تین بجے اختتام پذیر ہوا۔ یوں ڈاکٹر طاہر القادری نے فوجی حکام (کور کمانڈر) کی جگہ چودھری سرور سے ملاقات اور پھر ان سے بات کرنے کے بعد طیارے میں دھرنا ختم کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ چودھری محمد سرور ان کے پرانے دوست ہیں اور بات ذاتی دوستی کے حوالے سے مانی نواز شریف کے نمائندے کے طور پر نہیں۔ پانچ گھنٹے تک لاہور اور اس سے پہلے اسلام آباد کے چکر لگانے اور لاہور آنے تک کل نو گھنٹے خرچ ہو گئے ۔ گورنر پنجاب نے یہ بھی یقین دلایا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے جتنے بھی آئینی اور قانونی مطالبے ہیں سب مان لئے جائیں گے یقینا وہ ایک مرتبہ پھر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی بات منوا لی۔
اب سوال یہ ہے کہ جو حضرات اس صورتحال کو ایک بہت بڑے بحران اور تحریک کی شکل میں دیکھ رہے تھے ان کے احساسات کیا ہوں گے؟ چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت تو اس یوم کو یوم انقلاب کے طور پر دیکھ رہے تھے جبکہ خود ڈاکٹر طاہر القادری کے مطابق بھی وہ انقلاب ہی کے لئے آئے ہیں ، فی الحال صورتحال معمول پر آ گئی البتہ تاحال عدالتی تحقیقاتی کمشن والا معاملہ ہنوز باقی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس کے ساتھ تعاون بھی بہتر نتائج دے گا ۔ تاہم ڈاکٹر طاہر القادری یہ مشاورت کے بعد بتائیں گے۔
مختلف ایجنسیوں کی طرف سے حکومت کو جو رپورٹیں پیش کی گئی تھیں، ان میں سکیورٹی کے حوالے سے تشویش کا اظہار شامل تھا اور اس خدشے کا ذکر کیا گیا تھا کہ کوئی خودکش حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ لوگوں نے شکر ادا کیا کہ ایسا بھی نہیں ہوا۔ ورنہ ایک بھی خودکش دھماکہ بہت زیادہ نقصان کا باعث بنتا۔ ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ جو جماعتیں پاکستان عوامی تحریک کا ساتھ دے رہی ہیں ان کے مقصد کو تقویت ملے گی یا پھر عوامی تحریک ہی کا پلڑا بھاری رہے گا۔
لندن پلان کے بعد فرزند راولپنڈی بہت پرجوش تھے اور وہ اب کہتے ہیں کہ سب اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اور اب تو انہوں نے چھ ماہ کی مہلت دی ہے۔ اس کے بعد حکومت ختم ہو جائے گی۔ وہ چاہتے ہیں کہ طاہر القادری اور عمران خان بھی اتحاد کر لیں اور اس کے ساتھ ہی ان کو بھی قبول کر لیا جائے۔ لیکن شاید گرینڈ الائنس والی بات پوری نہ ہو سکے کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو استعمال کرنے کی فکر میں ہے ڈاکٹر طاہر القادری خوش ہیں کہ ان کو قریباً تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو گئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) ڈاکٹر کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی فکر میں ہے۔ البتہ تحریک انصاف کے عمران خان سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں ان کے مطابق تو ابھی فیصلہ نہیںہوا، ہمدردیاں تو ہیں لیکن اتحاد ممکن نہیں کہ تحریک انصاف کا اپنا پروگرام ہے۔ اس طرح گرینڈ الائنس کی تشکیل بہت قبل از وقت ہے۔

بشکریہ۔۔۔۔ روزنامہ پاکستان۔۔۔

Add new comment