امام زماں ؑ سے متعلق چاراہم سوالوں کے جوابات
۱۔ کیا ھر سال شب قدر میں فرشتے ھمارے نامہ اعمال کو حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں پیش کرکے ان سے دستخط لیتے ھیں؟
۲۔ کیا اسلام سے پھلے بھی شب قدر تھی؟
۳۔ اگر اسلام سے پھلے شب قدر تھی، تو وقفہ یعنی{حضتے عیسی علیہ السلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے درمیانی زمانہ} کے دوران فرشتے کس کی خدمت میں حاضر ھوتے تھے؟
۴۔ کیا شب قدر میں بندوں کے ایک سالہ مقدرات پر دستخط ھونا توحید کے ساتھ موافقت رکھتا ھے؟
۱۔ پھلے سوال کے جواب میں قابل بیان ھے کہ،معتبر روایات کے مطابق بندوں کے تمام امور، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، امام معصوم علیہ السلام اور حجت خدا کے سامنے پیش کئے جاتے ھیں اور چونکہ اس وقت حجت خدا یعنی امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف، حی و زندہ ھیں، اس لئے تمام امور حضرت حجت{عج} کی خدمت میں پیش کئے جاتے ھیں۔
امام جواد علیہ السلام، امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ھیں کہ حضرت حجت (عج) نے ابن عباس سے فرمایا:”شب قدر ھر سال ھوتی ھے اور خداوند متعال اس شب میں سال کے تمام امور نازل کرتا ھے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی کچھ افراد ان امور کے ذمہ دار ھیں۔ ابن عباس نے امام سے پوچھا: وہ کون لوگ ھیں؟ امام علی علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: میں اور میری اولاد میں سے گیارہ فرزند، ھم سب امام ھیں اور فرشتوں سے گفتگو کرنے والے ھیں۔“[1]
۲۔ کیا شب قدر گزشتہ امتوں میں بھی تھی؟
متعدد واضح روایتوں اور آیہ شریفہ ”خیر من الف شھر“ کی شان نزول کے مطابق[2] یہ الھی عطیات صرف اس امت سے مخصوص ھیں، چنانچہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ھے:
“ان اللہ وھب لامتی لیلتہ القدر لم یعطھا من کان قبلھم“ یعنی، خداوند متعال نے میری امت کو شب قدر عطا کی ھے اور گزشتہ امتوں میں سے کسی امت کو یہ عطیہ الھی نصیب نھیں ھوا ھے۔”[3]
البتہ سورہ قدر کی ظاہری آیات سے معلوم ھوتا ھے کہ شب قدر نزول قرآن اور عصر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخصوص نھیں تھی، بلکہ [پیغمبر کے زمانہ سے ]ھر سال دنیا کے خاتمہ تک تکرار ھوگی۔
فعل مضارع "تنزیل" کی تعبیر استمرار پر دلالت کرتی ھے، اور اسی طرح جملہ اسمیہ "سلام ھی حتی مطلع الفجر"کی تعبیر اس کے جاری رھنے کی علامت ھے، یہ بھی اس معنی کی گواھی ھے۔
اس کے علاوہ بھت سی روایتیں، (جو شاید تواتر کی حد میں ھیں) بھی اس معنی کی تائیدکرتی ھیں۔[4]
۳۔ اگر ھم اسے قبول نہ کریں اور گزشتہ امتوں میں شب قدر کے وجود کے قائل ھوجائیں تو ھمیں جاننا چاھئے کہ عقلی و نقلی دلائل کی بناء پر، کسی زمانے میں حتی کہ وقفہ کے دوران بھی زمین حجت خدا (پیغمبر یا ان کے وصی) سے خالی نھیں رھی ھے۔ وقفہ کے دوران، زمین حجت خدا سے خالی نھیں تھی، بلکہ اس چھ سو سال کے وقفہ کے دوران رسول اور پیغمبر کے نہ ھونے کے معنی یہ ھیں۔ بیشک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصیا اور جانشین زمین پر خدا کے حجت تھے، اس بناء پر کھا جاسکتا ھے کہ: وقفہ کے دوران شب قدر میں حجت خدا پر فرشتوں کا نازل ھونا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانشینوں پر نازل ھونا ھے۔
وضاحت:
خداوند متعال سورہ "مائدہ" میں ارشاد فر ماتا ھے:"اے اھل کتاب تمھارے پاس رسولوں کے ایک وقفہ کے بعد ھمارا یہ رسول آیا ھے کہ تم یہ نہ کھو کہ ھمارے پاس کوئی بشیر و نذیر نھیں آیا تھا۔"[5]
حضرت عیسی علیہ السلام سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک کی درمیانی مدت تقریبا چھ سو سال کے وقفہ پر مشتمل تھی اسے"دوران فترت" کھتے ھیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ آیہ شریفہ سے معلوم ھوتا ھے کہ اس مدت کے دوران کوئی رسول اور پیغمبر کا نہ ھونا زمین پر حجت خدا کے نہ ھونے اور انسان کے خدا سے رابطہ منقطع ھونے کی دلیل نھیں ھوسکتی ھے۔
بلکہ زمین کبھی حجت خدا سے خالی نھیں رھتی ھے۔ امام علی علیہ السلام نے کمیل سے مخاطب ھوکر فرمایا:
" جی ھاں، زمین ھرگز حجت الھی سے خالی نھیں رھے گی،خواہ وہ حجت آشکار ھو یا مخفی اور نا شناختہ، تاکہ خداوند متعال کے احکام، دستور، دلیلیں اور نشانیاں ختم نہ ھو جائیں۔ ۔ ۔ خداوند متعال ان کے ذریعہ اپنی نشانیوں اور دلیلوں کی حفاظت کرتا ھے تاکہ وہ اپنے جیسے افراد کو یہ ذمہ داری سونپیں اور اس کے بیج کو اپنے جیسے انسانوں کے دلوں میں ڈال دیں ۔ ۔ ۔[6]"
اس لحاظ سے ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ زمین پر پھلا انسان حجت خدا تھا اور آخری انسان بھی حجت خدا ھوگا۔
بیشک"فترت" کے زمانے، یعنی حضرت عیسی ع سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے دوران حجت خدا موجود تھا۔ امام رضا علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ھیں:" بیشک کسی بھی زمانہ میں زمین حجت خدا سے خالی نھیں رھتی ھے۔[7]" اگرچہ ممکن ھے کہ ھم اس کے نام اور کوائف سے بے خبر ھوں، جس طرح ھم ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبروں [ع] میں سے صرف ایک محدود تعداد کو جانتے ھیں۔
دوسری جانب ممکن ھے حجت (فرد) خدا نبی ھو یا اس کا جانشین، کیونکہ ھر پیغمبر کا ایک جانشین ھوتا ھے۔ اھل سنت اور شیعوں نے روایت نقل کی ھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا ھے:" ھر پیغمبر کا ایک وصی ھے۔[8]"
اس لحاظ سے شیعوں کا یہ اعتقاد ھے کہ ھر زمانہ میں زمین پر خداوند متعال کا ایک حجت (فرد) ھوتا ھے، جو خدا کے فیض کا واسطہ اور اس کے دین کا محافظ اور لوگوں کا علمی مرجع ھوتا ھے۔
اس بناء پر کھا جاسکتا ھے کہ"فترت"یعنی وقفہ کے دوران شب قدر میں حضرت عیسی علیہ السلام کے وصی اور جانشین پر فرشتے نازل ھوتے تھے۔
البتہ، جو اعتراض اس تجزیہ پر کیا جاتا ھے، وہ یہ ھے کہ اگر چہ ھرزمانہ میں دنیا میں خدا کا ایک حجت ھوتا ھے ، جو خدا کے فیض و بر کات کا ذریعہ، دین کا محافظ اور لوگوں کےلئے علمی مرجع ھوتا ھے، لیکن شاید ھم،تمام جانشینوں کی خدمت میں حجت خدا ھونے کے باوجود بندوں کے اعمال پیش کئے جانے کی کوئی دلیل پیش نہ کرسکیں۔ لیکن چونکہ ھم اعتقاد رکھتے ھیں کہ گزشتہ امتوں میں شب قدر نھیں تھی، اس لئے کوئی مشکل نھیں ھے۔
۴۔ کیا پیغمبروں کے ایک سال کے اعمال کے مقدرات پر شب قدر میں دستخط کیا جانا توحید سے مطابقت رکھتا ھے۔
حجت خدا زمین پر خدا کا خلیفہ اور اس کا نمایندہ ھوتا ھے اور اس کا انجام پانے والا ھر کام خدا کے ارادہ و اجازت سے ھوتا ھے اور یہ کام امور پر طول کی صورت میں اثر رکھتا ھے۔ اس لحاظ سے یہ کام کسی صورت میں توحید کے منافی نھیں ھے۔ امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف فرماتے ھیں:"ھمارے دل، مشیت الھی کے ارادہ کے ظرف ھیں۔ اگر وہ چاھے تو ھم بھی چاھتے ھیں۔[9]
اور اگر ھم اس امر کے معتقد ھیں کہ فرشتے ھر سال شب قدر میں ھمارے نامہ اعمال کو حضرت حجت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں پیش کرکے ان سے دستخط لیتے ھیں، تو یہ کام خداوند متعال کے ارادہ اور مشیت سے انجام پاتا ھے اور یہ توحید سے کسی صورت میں منافات نھیں رکھتا ھے۔ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ھے:" میں تمھارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناﺅ ں گا تو وہ حکم خدا سے پرندہ بن جائے گا"[10]یہ کسی صورت میں توحید کے منافی نہیں ھے.[11]
[1] ۔ ایضا، ص۵۳۲۔
[2] ۔بعض تفسیروں میں آیا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:" بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے جنگی لباس زیب تن کرکے ایک ھزار ماہ تک اس لباس کو نھیں اتارا اور مسلسل جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ﴿اور آمادہ﴾ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے یہ سن کر تعجب کیا اور اظھار تمنا کی کہ کاش اسی قسم کی سعادت انھیں بھی میسر ھوتی! اس کے بعد مذکورہ آیہ شریفہ نازل ھوئی اور اس میں بیان ھوا کہ:" شب قدر ھزار ماہ سے برتر ھے۔"
ایک دوسری حدیث میں آیا ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی اسرائیل کے چار افراد کا ذکر کیا جنھوں نے گناہ کے بغیر اسی سال تک خدا کی عبادت کی تھی، اصحاب نے سن کر تمنا کی کہ کاش انھیں بھی ایسی توفیق حاصل ھوتی! تو اس سلسلہ میں مذکورہ آیہ شریفہ نازل ھوئی۔ تفسیر نمونہ، ج ۲۷، ص۱۸۳۔
[3] ۔ تفسیر نمونہ ، ج۲۷، ص ۱۹۰، دار الکتب الاسلامیہ، طبع تھران، سال ۱۳۷۴ ش، طبع اول۔
[4]۔ مزید آگاھی کے لئے ملاحظہ ھو: سوال 3118﴿سایٹ: 3391﴾، عنوان: تعدد شب قدر۔
[5] ۔ مائدہ، ۱۹۔
[6] ۔ نھج البلاغہ ﴿فیض اسلام﴾، کلمات قصار، حکمت ۱۳۹۔
[7] ۔ صدوق،محمد بن علی، عیون اخبارالرضا﴿ع﴾، ج ۲، ش ۱۲۱، انتشارات جھان، ۱۳۷۸ ہ۔ ش۔
[8] ۔ طبرانی، المعجم الکبیر، ج۶، ص ۲۲۱، دار احیاء الترات العربی، ۱۴۰۴ ہ ش۔
[9] ۔مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج ۵۲، س ۵۱، طبع اول موسسہ الوفاء، لبنان، ۱۴۰۴ ہ ق۔
[10] ۔آل عمران، ۴۹۔
[11] .مزید آگاھی کے لئےملاحظہ ھو: سوال 3470﴿سایت:3736﴾، عنوان: تعریف شرک و
قسام آن؛ سوال ۱۵۹۴﴿سایٹ:۱۵۸۹﴾، عنوان: توحید و استمداد از غیر خدا
منبع : اسلام کوئسٹ ڈاٹ نٹ
Add new comment