نکاح متعہ کا شرعی جواز
نکاح متعہ کی مشروعیت اور شرعی جواز قرآن مجید کے سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں ثابت ہو چکاہے اور شیعہ اس کے بارے میں اہل سنّت کی مخالفت پر اعتنا نہیں کرتے ، کیونکہ یہ عمل قرآن مجید میں ثابت ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پو ری زندگی میں ،خلیفہ اول کی خلافت کے دوران اور خلیفہ دوم کی خلافت میں بھی ایک مدت تک معمول کے مطابق رائج تھا اور اس کے بعد خلیفۂ دوم نے اس کو منع کیا اور واضح ہے کہ قرآن مجید کے حکم کو صرف قرآن مجید ہی تنسیخ کر سکتا ہے اور اسلامی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ موزون (شریعت کے)قوانین کے بارے میں اظہار نظر کرے ۔
نکاح متعہ کا مقصود ،موقت ازدواج ہے اور اسلام کی نظر میں اس کی مشروعیت وشرعی جواز مذکورہ بیانات کے مطابق ناقابل انکار ہے ۔فلسفہ احکام کے نقطہ نظر کے مطابق طلاق کی مشروعیت وشرعی جوازاس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ازدواج،موقت بھی انجام دیا جاسکتا ہے ،اس صورت میں کہ موقّت ازدواج آثار کے لحاظ سے اس طرح مرتب ہو جائے کہ نقصانات اور مضر نتائج کا سبب نہ بنے ،تو اس کو ممنوع کر نے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
اور یہ جو کہا گیا ہے کہ’’یہ عمل عورت کو ایک ایسی چیزبنا دیتی ہے جس سے مردآسانی کے ساتھ ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے ‘‘ ایک زبردستی اور ظلم ہے ،کیو نکہ عورت اس عمل کو اپنے اختیار سے قبول کرتی ہے نہ جبر واکراہ سے اور اس عمل میں جو مقاصد مرد کے لئے فرض کئے جا سکتے ہیں اور وہ مقاصد اگر مصاحبت ،لذت ،اولاد پید اکرنا اور زندگی کے دوسرے فوائد ہیں تو یہ دونوں طرف موجود ہیں ،اس لئے کوئی دلیل نہیں ہے کہ دو میں سے کسی ایک کو دوسرے کا کھلو نا شمار کیا جائے ۔
اس کے علاوہ اگر آپ عالم بشریت پر عام اور وسیع نظر ڈال کر سنجیدگی سے غور کریں گے تو واضح طور پر مشاہدہ کریں گے کہ انسانی معاشرہ کی جنسی آمیزش کو نکاح اور دائمی ازدواج تک محدود کر کے ہر قسم کی دوسری آمیزش کو غیر قانونی شمار نہیں کیا جاسکتا ہے اور ازدواج دائمی کا رواج ہر گز اس جنسی جبلّت کو پورا کر کے مناسب جو اب نہیں دے سکتا ہے ۔
مہذب دنیا کے کسی بھی ملک میں قانونی حکومتیں کسی بھی ذریعہ سے مو قت آمیزشوں کے پھیلاؤ پر کنٹرول نہیں کر سکی ہیں اور تمام بڑے اور مرکزی شہروں میں آشکار یا مخفیانہ صورت میں یہ عمل انجام پاتا ہے ۔اس صورت میں جو مذہب جنسی آمیزش کو ازدواج تک محدود کر کے مکمل طور پر زنا کو روکنا چاہے ،تو اس کے لئے ناگزیر ہے کہ موقت ازدواج کو زنا کے مفاسد کو رفع کر نے کے خاص شرائط سے قانون میں جگہ دے تاکہ اس عمومی جبلّت کا خاطر خواہ طریقہ سے کنٹرول کر سکے ۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ’’اگر خلیفہ دوم اس نکاح متعہ(موقعت ازدواج) کو ممنوع نہ کرتے تو صرف وہ لوگ زنا میں گرفتار ہو تے جو گمراہی سے ہلا کت تک پہنچ گئے ہوں )اور یہاں پر واضح ہو تا ہے کہ اس امر کو انسانی قوانین کے خلاف شمار کرنا کس قدر حقیقت سے دوری ہے ۔
البتہ انسانی قوانین کا مقصود قبل از اسلام قدیم قوانین ،جیسے قدیم رومی اور حمورابی کے قوانین نہیں ہیں،کیو نکہ ان قوانین میں عورت سے حیوانوں یا اسیروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا ،بلکہ ان سے مراد مغربی قوانین ہیں اسی عالم غرب کو انسانی دنیا، مغربی معاشرے کو انسانی معاشرہ اور غریبوں کو انسان جانتے ہیں اور ہر قسم کے اوامر سے متاثر ہو کر (حقیقت ذہنی ،تلقین ،تقلید ،تبلیغ،خطا)فی الحال یہی فکر کسی قید وشرط کے بغیر ہمارے ذہنوں پر حکمراں ہے ۔لیکن دیکھنا چاہئے کہ ان فخر کر نے والے انسانوں نے ازدواج کے ماحول سے باہر ،عمومی اور مخلوط معاشرتوں میں اس (انسانی قوانین کے خلاف )کی جگہ پر کیا رکھا ہے اور مہذّب ممالک خاص کر سب سے مہذب ممالک میں مردوں اوعورتوں ،لڑکوں اور کنواری لڑکیوں اور خود مردوں اور جوانوں کے درمیان کیا گزر رہی ہے ؟اور دائمی ازدواج کی راہ سے جو کمی واقع ہو رہی ہے اسے کس طریقہ سے پو را کرتے ہیں ؟اور اس سلسلہ میں شائع ہو نے والے حیرت انگیز اعداد وشمار کس بات کی غماّزی کرتے ہیں ؟
http://www.shiaarticles.com/index.php/2011-11-13-13-41-30/2011-11-19-10-...
Add new comment