نکاح متعہ

بقلم آیت اللہ مکارم شیرازی؛ ترجمہ:ف۔ح۔مہدوی

 

تمام علمائے اسلام اس بات کے قائل ہیں کہ نکاح مُوَقَّتْ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں رائج تھا؛ ایک گروہ کی رائے ہے کہ خلیفہ ثانی نے اپنے دور خلافت میں اس عمل کو منع کیا اور بعض دوسروں کا خیال ہے کہ یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے زمانے میں ہی حرام قرار دیا تھا؛ اور ہم پیروان اہل بیت (علیہم السلام) کا عقیدہ ہے کہ نکاح مُوَقَّتْ کبھی بھی حرام قرار نہیں دیا گیا اور یہ نکاح پوری قوت کے ساتھ باقی ہے، (تاہم یہ حکم اپنی خاص شرائط کی بنا پر باقی ہے)۔

اس عقیدے میں اہل سنت کا ایک چھوٹا سا گروہ ہم سے اتفاق کرتا ہے اور اکثریت مخالف ہے اور مخالفین اس مسئلے کو طعنے کے عنوان سے اچھالتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں۔ حالانکہ اس میں نہ صرف کوئی اعتراض کا پہلو نہیں ہے بلکہ بہت سے سماجی مسائل کے حال ایک قوی ذریعہ ہے۔

اس موضوع کی شرح آنے والے صفحات میں پیش خدمت ہے

1۔ ضروریات و احتیاجات

بہت سے لوگوں ـ بالخصوص نوجوانوں ـ کو دائمی ازدواج پر دسترس حاصل نہیں ہے، کیونکہ دائمی نکاح عام طور پر تمہیدات فراہم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں اور شادی کرنے والوں کو متعدد ذمہ داریاں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور ان سے مسائل کے لئے تیاری بعض لوگوں کے لئے ممکن نہیں ہے۔

مثال کے طور پر:

1۔ بہت سے نوجوان طالبعلمی کے زمانے میں ـ بالخصوص ہمارے اس دور میں کہ طالبعلمی کا زمانہ کافی طویل ہے ـ دائمی ازدواج پر قدرت نہیں رکھتے، کیونکہ نہ تو وہ برسر روزگار ہوتے ہیں، نہ ان کے پاس مناسب گھر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ بھاری اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔ وہ اس زمانے میں شادی کی رسم جتنا بھی سادگی سے منانا چاہیں، پھر بھی ضروری وسائل میسر نہیں ہوتے۔

2۔ ایسے افراد بھی جو اگرچہ شادی شدہ ہیں لیکن وہ طویل عرصے تک بیرونی ممالک میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بیرون ممالک میں شدید جنسی محرومیت سے دوچار ہوتے ہیں؛ وہ نہ تو اپنی بیویوں کو بیرون ملک لے کر جاسکتے ہیں اور نہ ہی ان ممالک میں دوسری دائمی شادی کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

3۔ ایسے افراد کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جن کی بیویاں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہیں اور اپنے شوہروں کے جنسی احتیاجات پورے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔

4۔ مسلح افواج کے ایسے سپاہی اور اہلکار بھی ہیں جو طویل عرصے تک سرحدوں کی حفاظت پر مأمور ہوتے ہیں یا کہیں دور افتادہ علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے ہیں اور اپنے خاندانوں سے دور ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ بھی جنسی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ـ اور جیسا کہ ہم آنے والی سطروں میں دیکھیں گے ـ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں بہت سے مسلمان سپاہیوں کو ان مسائل کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ وقتی ازدواج کا حکم نافذ ہو۔

5۔ کبھی حمل کے ایام یا ان مخصوص ایام اور حالات میں، مرد اپنی بیویوں سے جنسی ارتباط برقرار نہیں کرسکتا اور یہ نوجوان آدمی جنسی محرومیت کا سامنا کرتا ہے۔

اس طرح کی سماجی و معاشرتی مشکلات ہمیشہ سے ہیں اور رہیں گی اور صرف عصر نبوی (ص) کے لئے مختص نہیں تھیں بلکہ ہمارے اس دور میں یہ مشکلات ـ جنسی ترغیات و تشویقات کے وسائل کی بھرمار کی وجہ سے ـ کئی گنا شدید ہوچکی ہیں۔ ایسے مواقع پر یہ افراد دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں یا تو (معاذاللہ) فحشاء اور گناہ کا سہارا لیں یا پھر سادہ اور وقتی نکاح کی اسلامی سہولت سے استفادہ کریں؛ جس میں دائمی ازدواج جتنی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور وقتی طور پر جنسی احتیاجات کا جواب بھی فراہم ہوجاتا ہے۔

زہد و پارسائی اور دونوں ـ متعہ اور گناہ ـ سے پرہیز کی تجویز، اچھی تجویز ہے مگر یہ بہت سے لوگوں کے لئے قابل عمل نہیں ہے اور کم از کم بعض لوگوں کے لئے یہ تجویز خیال و گماں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

ازدواج مسیار (زواج المسیار)!

دلچسپ امر یہ ہے کہ وقتی ازدواج اور متعہ کے مخالفین (اہل سنت کی اکثریت) نے جب نوجوانوں اور دیگر محروم طبقوں کا دباؤ محسوس کیا تو انھوں نے تدریجی انداز میں ازدواج مُوَقَّتْ کے مشابہ ازدواج کے فروغ پر رضامندی ظاہر کی (1) جس کو انھوں نے ازدواج مسیار کا نام دیا۔

گو کہ وہ اس قسم کے ازدواج کو متعہ یا ازدواج مُوَقَّتْ کا نام نہیں دیتے لیکن عملی طور پر ازدواج مُوَقَّتْ سے مختلف نہیں ہے۔

یہ لوگ شادی کے حاجتمند افراد کو اجازت دیتے ہیں کہ کسی خاتون سے دائمی نکاح کرلیں اس نیت سے کہ ایک معینہ مدت کے بعد انہیں طلاق دیں گے!۔ یہ شخص اس خاتون کے ساتھ یہ شرط طے کرے گا کہ جب تک یہ ازدواج جاری ہے، نہ تو وہ (اس وقتی) بیوی کا خرچہ (نان و نفقہ) دے گا، نہ ہی راتوں کو اس کے ساتھ سونے کا پابند ہوگا اور نہ ہی اس (شوہر کے ترکے میں اس کا کوئی حق ہوگا! اور یہ سب ازدواج مُوَقَّتْ میں بھی موجود ہیں۔ یعنی ازدواج مسیار اور ازدواج مسیار میں کوئی فرق نہيں ہے صرف ایک فرق ہے کہ ازدواج مسیار میں میاں بیوی طلاق کے ذریعے ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں اور ازدواج مُوَقَّتْ میں یا تو شوہر باقیماندہ مدت بیوی کو بخش دیتا ہے یا پھر مدت پوری ہونے پر میاں بیوی میں جدائی واقع ہوجاتی ہے۔ (اور دونوں صورتوں میں بیوی کو عدت رکھنی پڑتی ہے)۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض سنی نوجوان ـ جو شادی کے ضرورتمند ہیں ـ انٹرنیٹ پر ہم سے رابطہ کرکے پوچھتے ہیں کہ "اگر ہم وقتی ازدواج کے مسئلے میں شیعہ فتاوی کی پیروی کریں تو اس میں کوئی حرج اور رکاوٹ تو نہیں ہے؟" اور ہم بھی جواب دیتے ہیں کہ کوئی شرعی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔

وہ لوگ جو ازدواج مُوَقَّتْ یا متعہ کا تو انکار کرتے ہیں مگر ازدواج مسیار کا سہارا لیتے ہیں، درحقیقت ازدواج مُوَقَّتْ کا نام نہیں لیتے مگر اس پر عمل ضرور کرتے ہیں۔

جی ہاں! ضرورتیں بالآخر انسان کو حقائق قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہیں خواہ اس ان حقائق کا نام نہ بھی لیں!۔

چنانچہ ہم یوں نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جو لوگ ازدواج مُوَقَّتْ کے انکار پر اصرار کررہے ہیں، دانستہ یا نادانستہ طور پر فحشاء اور منکرات کے لئے راستہ ہموار کررہے ہیں، مگر یہ کہ وہ ازدواج مُوَقَّتْ کے مشابہ یعنی ازدواج مسیار کی تجویز پیش کریں۔ اسی وجہ سے اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں وارد ہوا ہے کہ "اگر ازدواج مُوَقَّتْ کے اسلامی حکم کی مخالفت نہ کی جاتی، کوئی بھی شخص زنا جیسے قبیح فعل کا ارتکاب نہ کرتا۔ (2)

اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے ازدواج مُوَقَّتْ سے ناجائز فائدہ اٹھایا ـ جو درحقیقت محروم افراد کی حقیقی ضروریات و احتیاجات کے لئے وضع ہوا ہے ـ اور اس کو ہوس کی آگ بجھانے کا ذریعہ بنایا اور ازدواج مُوَقَّتْ کی نہایت بھونڈی تصویر پیش کی اور ان لوگوں نے اسلامی معاشروں میں زنا کے قبیح فعل کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا ہے چنانچہ یہ لوگ بھی آلودہ افراد کے گناہ میں برابر کے شریک ہیں، کیونکہ ان (دونوں گروہوں کے) لوگوں نے عملی میدان میں ازدواج مُوَقَّتْ کے صحیح استعمال کے لئے رکاوٹیں کھڑی کردیں۔

بہرحال اسلام جو ایک الہی قانون ہے اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور اس نے انسان کے تمام مسائل و امور کے لئے راہ حل کا تعین کیا ہے۔ اس بات کا امکان ہی موجود نہیں موجود نہیں ہے کہ اس نے ازدواج مُوَقَّتْ جیسے اہم قانون کو اپنے قوانین و ضوابط میں جگہ دی ہو اور جیسے کہ قارئین آنے والے صفحات میں مشاہدہ کریں گے کہ ازدواج مُوَقَّتْ قرآن مجید کے متن میں موجود ہے اور احادیث نبوی (ص) سمیت صحابہ کے عمل میں بھی پایا جاتا ہے۔

ہاں مگر بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ حکم بعد میں منسوخ ہوا مگر ہم دیکھیں گے کہ منسوخی کے لئے ان کے پاس کوئی قابل قبول دلیل نہیں پائی جاتی۔

ازدواج مُوَقَّتْ یا متعہ کیا ہے؟

بعض نادان اور نا آگاہ لوگوں نے ازدواج مُوَقَّتْ کا چہرہ اتنا کریہ و قبیح رسم کیا ہے کہ گویا یہ عمل فحشاء، منکرات اور جنسی آزادی کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے!۔

اگر یہ لوگ سارے عوام میں سے ہوتے تو کوئی بات نہ ہوتی لیکن ان میں سے بعض افراد ایسے ہیں جو اہل سنت کے بڑے اور نامور علماء سمجھے جاتے ہیں اور یہی ناروا تہمتیں وہ بھی لگا رہے ہیں۔

یقیناً اندھادھند مذہبی تعصبات نے انہیں ازدواج مُوَقَّتْ کے طرفداروں کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے روکے رکھا ہے۔ شاید ان میں سے بعض حتی اس موضوع پر شیعہ پر شیعہ کتب کی ایک سطر تک کا مطالعہ نہیں کیا اور یہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ (3)

بہرحال ہم اس مختصر رسالے میں ازدواج مُوَقَّتْ کی شرائط اور ازدواج دائم و مُوَقَّتْ میں فرق کو وضاحت سے بیان کریں گے تا کہ پڑھنے والوں پر خدا کی حجت تمام ہو:

1۔ میاں بیوی کی رضا و رغبت سے، ایک دوسرے کو مجبور کئے بغیر، ایک دوسرے کا میاں اور بیوی کی حیثیت سے انتخاب کریں۔

2۔ عقد و نکاح کا صیغہ لفظ "نکاح"، "ازدواج" یا "متعہ" کے ساتھ جاری ہونا چاہئے کیونکہ دوسرے الفاظ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

3۔ اگر زوجہ باکرہ ہے تو ولی (والد کا شرعی سرپرست) کی اجازت ضروری ہے اور اگر باکرہ نہ ہو تو ضروری نہیں ہے۔

4۔ نکاح کی مدت اور حق مہر کا دقیق تعین ہونا چاہئے۔ اگر نکاح کا صیغہ جاری کرتے وقت انسان "مدت" کا ذکر بھول جائے تو اکثر فقہاء کے نزدیک یہ عقد مُوَقَّتْ عقد دائم میں تبدیل ہوگا۔ اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح کی یہ دونوں قسمیں ماہیت (اور شکل و ہیئت اور بنیادی احکام) کے لحاظ سے ایک جیسی ہیں۔ (توجہ فرمائیں)۔

5۔ مدت کا خاتمہ طلاق کا حکم رکھتا ہے اور مدت ختم ہوتے ہی خاتون عدت کے ایام میں داخل ہوتی ہے، (بشرطیکہ مجامعت واقع ہوئی ہو)۔

6۔ عقد دائم کی عدت (بصورت طلاق) تین بار ماہواری دیکھنا یا تین مہینے کی مدت، کے براہر ہے اور عقد مُوَقَّتْ کی عدت دو بار ماہواری دیکھنے یا دو مہینے کے برابر ہے۔

7۔ عقد مُوَقَّتْ سے متولد ہونے والے بچے شرعی اولاد ہیں اور اس کے شرعی احکام ـ بلا استثنی ـ عقد دائم سے متولد ہونے والے بچوں کے احکام ہیں اور ماں، باپ، بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کا وارث ہے (اور ان کے ترکے میں ان کا حصہ ہے جو قرآن مجید نے معین کیا ہے) اور حقوق و امتیازات اور ارث و میراث میں اولاد کے ان دو گروہوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

ازدواج مُوَقَّتْ کے فرزندوں کو ماں باپ کی کفالت میں ہونا چاہئے (باپ) کو ان کے تمام اخراجات اور نان و نفقہ ـ عقد دائم کے فرزندوں کی مانند ـ ادا کرنا پڑتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ ان باتوں سے بعض لوگ حیرت زدہ ہوجائیں۔ ہم ان حیرت زدہ لوگوں کو حق بجانب سمجھتے ہیں؛ کیونکہ عقد مُوَقَّتْ یا وقتی یا میعادی ازدواج ان کی ذہنیت غیر صحیح اور کلی طور پر سادہ اندیشانہ ذہنیت ہے اور حتی یہ لوگ اسے غیر قانونی، ادھورا، اور ضوابط کے دائرے سے خارج ـ یا بالاختصار ـ مشابہِ زنا عمل سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

اور ہاں! عقد دائم اور عقد مُوَقَّتْ کے درمیان (بلحاظ زوج و زوجہ) ضرور پایا جاتا ہے۔ اصولی طور پر عقد مُوَقَّتْ میں میاں بیوی کے فرائض ایک دوسرے کی نسبت عقد دائم کی ذمہ داریوں سے بہت کم ہیں؛ کیونکہ ازدواج مُوَقَّتْ کا مقصد یہ ہے کہ شرعی ارتباط میں سہولت ہو اور فریقین (مرد اور عورت) کو پیچیدہ ضوابط میں نہ الجھنا پڑے؛ مثال کے طور پر:

1۔ بیوی ازدواج مُوَقَّتْ میں شوہر سے نفقہ کا تقاضا نہیں کرسکتی اور شوہر کے ارث میں حصہ دار نہیں ہے؛ مگر فقہاء کے گروہ نے کہا ہے کہ یہ اس صورت میں ہے کہ میاں بیوی قبل از نکاح "نفقہ اور ارث" کی شرط نہ رکھیں او اگر شرط کریں تو اس پر عمل کرنا پڑے گا۔

2۔ عورت کو عقد مُوَقَّتْ کے دوران یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ گھر سے باہر اپنے لئے روزگار کا انتظام کرے اور اس کے لئے میاں کی اجازت شرط نہیں ہے مگر یہ آزادی اس وقت تک ہے کہ بیوی کا بیرون خانہ روزگار شوہر کے حقیق کی تضئیع کا سبب نہ ہے جبکہ عقد دائم میں بیوی کو بیرون خانہ روزگار کا اختیار نہیں رکھتی۔

3۔ مرد پر لازم نہیں ہے کہ راتوں کو اپنی مُوَقَّتْ بیوی کے پاس رہے۔

اگر مندرجہ بالا احکام میں تھوڑا سے غور کیا جائے تو بہت سے سوالات، ظالمانہ فیصلوں اور قضاوتوں اور شبہات، تہمتوں اور افترائات کا جواب بآسانی مل جائے گا اور اس مقدس اور حکیمانہ اسلامی حکم کے حوالے سے جھوٹی، غلط اور بے بنیاد ذہنیات، وہمیات اور شبہات افترائات کا بخوبی ازالہ ہوگا۔ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ ازدواج مُوَقَّتْ، زنا، اور عفت و پاکدامنی کے منافی اعمال سے کوئی نسبت نہیں رکھتا اور جو لوگ ان دو کو ایک دوسرے سے قیاس کرتے ہیں وہ قطعی طور پر ناآگاہ اور نادان ہیں جو نکاح موقت کی ماہیت اور اس کی شرائط سے مکمل طور پر ناواقف ہیں۔

ناجائز فائدے

مثبت امور سے ناجائز فائدے اٹھانا اور ان کو غلط انداز سے بروئے کار لانا، ایسے مسائل ہیں جو ان مثبت امور کے سلسلے میں مخالفین اور معاندین کی زبان کھولتے ہیں اور بہانہ ڈھونڈنے والوں کو بہانہ فراہم کرتے ہیں تا کہ وہ (مخالفین) ان (کے اعمال) کو دستاویز بنا کر ان مثبت امور پر یلغار کرکے ان کا مثبت چہرہ مخدوش کردیں۔

ازدواج مُوَقَّتْ اسی قسم کے مثبت امور کا روشن مصداق ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض ہوسبازوں نے ازدواج موقت کو ـ جو در اصل ضرورتوں کی گِرِہ کھولنے اور سماجی پیچیدگیاں حل کرنے کی خاطر "تشریع" (4) ہوا ہے ـ ہوا ہے، بازیچۂ ہوس بنایا اور نادان اور بے خبر لوگوں کی نظروں میں اس کی صورت بگاڑ کر مخالفین اور معاندین کو دستاویز فراہم کردی اور آج وہ اس حکیمانہ حکم خداوندی پر اعتراضات اور انتقادات کی بوچھاڑ کرتے نظر آرہے ہیں۔

تاہم ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ کونسا حکم خداوندی ہے جس سے لوگوں نے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا ہو اور وہ کونسا عمدہ اور نفیس سرمایہ ہے جس سے نااہلوں نے غلط استفادہ نہ کیا ہو؟ (5)

اگر کسی دن کسی نے جھوٹ اور مکر و فریب سے قرآنوں کو نیزوں پر چڑھایا تا کہ ظالموں اور آمروں کی شخصی حکومت کے لئے جواز فراہم کیا جائے تو کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمیں قرآن کو ترک کردینا چاہئے؟

یا اگر کسی دن بعض منافقوں نے "مسجد ضرار" تعمیر کی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو جلانے یا منہدم کرنے کا حکم صادر فرمایا تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم مساجد سے کلی طور پر اجتناب و احتراز کریں؟

کچھ لوگوں نے اس حکیمانہ شرعی حکم سے غلط فائدہ اٹھایا ہے [جیسا کہ بہت سوں نے ازدواج دائم سے غلط فائدہ اٹھایا ہے اور اٹھا رہے ہیں]، لیکن کیا کچھ بے نماز لوگوں کی خاطور مساجد کا دروازہ بند کردینا چاہئے؟ یا ایک رومال کی خاطر قیصریہ کو نذر آتش کرنا چاہئے (6)

صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم ہوس بازوں کا راستہ بند کریں اور ان کے غلط اقدامات کا سد باب کریں اور ازدواج کے لئے صحیح منصوبہ بندی کریں۔ خاص طور پر ہمارے اس زمانے میں اس حکم کا صحیح نفاذ صحیح اور باریک بینانہ منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء، دانشوروں اور مفکرین کا ایک گروہ قابل عمل، قابل نفاذ اور کار آمد لائحۂ قانون کی تدوین کے تاکہ شیاطین کے ہاتھ کاٹے جاسکیں اور اس حکیمانہ الہی حکم کا خوبصورت چہرہ آشکار کیا جاسکے اور دو گروہوں کا راستہ روکا جاسکے:

ہوسباز لوگ اور

کینہ پرور معترضین

ازدواج مُوَقَّتْ کتاب اللہ، سنت نبوی اور اجماع امت کی روشنی میں

کتاب اللہ میں ازدواج مُوَقَّتْ کا حکم بعنوان "متعہ" سورہ نساء کی آیت 24 میں مذکور ہے؛ فرمان خداوندی ہے:

"فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً"۔ (7)

ترجمہ: ان میں سے جس کے ساتھ تم متعہ کرو تو ان کی اجرتیں بطور فریضہ ادا کردو۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بکثرت نقل ہونے والی روایات میں "متعہ" سے مراد "ازدواج مُوَقَّتْ" ہی ہے (اور آنے والے صفحات پر ان میں سے بہت سی روایات قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی)۔

اس کے علاوہ اسلام کے تمام فقہاء ـ خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی ـ کی کتابوں میں ازدواج مُوَقَّتْ کو "متعہ" سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس مسئلے کا انکار بدیہیات اور مسلماتِ دین کا انکار ہے۔ (آنے والے صفحات میں کلامِ فقہاء کے بعض اقتباسات بھی پیش کئے جائیں گے)۔

اس کے باوجود بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ آیت کریمہ میں "استمتاع" سے مراد "لذت لینا" اور "مجامعت" کرنا ہے۔ ان کے بقول اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ "جب تک تم عورتوں سے جنسی استفادہ کرو ان کا مہر بھی ادا کرو!"۔

اس تأویل پر دو اعتراضات وارد ہیں:

اولاً: مہر کا وجود عقد و نکاح کا تقاضا ہے یعنی عقد نکاح جاری ہوتے ہی عورت اپنے پورے مہر کا مطالبہ کرسکتی ہے؛ حتی اگر مجامعت تو کیا ملاعبہ (8) تک انجام نہ پایا ہو۔ (ہاں اگر عقد نکاح کے بعد اور مجامعت سے قبل طلاق واقع ہوجائے تو بعد از طلاق مہر کی رقم نصف ہوجائے گی؛ توجہ فرمائیں)۔

ثانیاً: "متعہ" کی اصطلاح ـ جیسا کہ ہم نے کہا ـ عرفِ شرع، شیعہ و سنی علماء کے کلمات اور احادیث و روایات کی زبان میں "ازدواج مُوَقَّتْ" کے معنی میں استعمال ہوئی ہے اور آپ اس کے مآخذ و منابع پوری طرح سے دیکھ لیں گے۔

مشہور و معروف مفسر امين الاسلام أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي تفسیر "مجمع البیان" میں اس آیت (سورہ نساء کی آیت 24) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: اس آیت کی تفسیر میں دو قسم کی آراء ہیں:

ایک رائے ان لوگوں کی ہے جنہوں نے "استمتاع" سے "التذاذ" (حصول لذت) مراد لیا ہے جن میں بعض صحابہ اور تابعین وغیرہ شامل ہیں۔

دوسری رائے ان لوگوں کی ہے جو "استمتاع" سے "عقد متعہ" اور "ازدواج مُوَقَّتْ" مراد لیتے ہیں اور ان لوگوں میں عبداللہ بن عباس، "سُدَیْ" اور "ابن مسعود" تابعین کا ایک گروہ بھی شامل ہے۔

طبرسی آگے چل کر لکھتے ہیں: دوسری رائے زیاد صریح ہے کیونکہ شرع کے عرف میں "متعہ اور استمتاع" سے مراد "ازدواج مُوَقَّتْ" ہے اور یہ بھی بالکل وا‏ضح و نمایاں ہے کہ عورتوں کے مہر کا وجوب لذت سے مشروط نہیں ہے۔ (9)

قرطبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے: جمہور (10) کے عقیدے کے مطابق اس آیت سے مراد "نکاح مُوَقَّتْ" ہے جو ابتدائے طلوع اسلام میں رائج تھا۔ (11)

"السیوطی" نے "الدر المنثور" میں اور "ابو حیان"، "ابن کثیر" اور "الثعالبی" نے اپنی تفاسیر میں اسی معنی پر تأکید کی ہے۔

یہ مسئلہ تمام علمائے اسلام ـ شیعہ اور سنی علماء ـ کے نزدیک یہ امر مسلم ہے کہ ازدواج مُوَقَّتْ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں رائج تھا تا ہم اہل سنت کے بہت سے فقہاء کا خیال ہے کہ یہ حکم بعد می منسوخ ہوا ہے۔ اب یہ حکم کب منسوخ ہوا ہے؟ اس میں بہت زیادہ اختلاف ہے اور یہ اختلاف بذات خود قابل غور و تأمل ہے۔

مثال کے طور پر معروف سنی عالم "محيى الدين النووي نے "شرح صحیح مسلم" میں لکھا ہے:

1۔ ازدواج مُوَقَّتْ غزوہ خیبر کی ابتداء میں حلال ہوا اور بعد میں حرام قرار دیا گیا۔

2۔ صرف عمرةالقضاء میں حلال تھا۔

3۔ فتح مکہ کے روز ابتداء میں حلال ہوا اور بعد میں حرام ہوا۔

4۔ سنہ 9 ہجری میں غزوہ تبوک میں حرام قرار دیا گیا۔

5۔ صرف "جنگ اوطاس" (سنہ 8 ہجری) میں مباح قرار دیا گیا۔

6۔ حجۃالوداع میں حلال قرار پایا۔ (12)

اور دلچسپ امر یہ ہے کہ اس سلسلے میں متعارض اور متضاد روایات نقل ہوئی ہیں؛ بالخصوص خیبر میں متعہ کی تحریم اور حجۃ الوداع میں اس کی تجویز (اور حلال قرار دینے) کی روایات میں کلی طور پر تضاد پایا جاتا ہے اور مشہور ہے کہ فقہائے اہل سنت ان روایات کو متحد و ہمآہنگ کرنے کے سلسلے میں مشقت سے دوچار ہوئے ہیں تا ہم وہ اس مشکل کا کوئی حل پیش نہیں کرسکے ہیں۔ (13)

اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ یہ عبارت ہے:

"لا أعلم شيئاً أحل الله ثمّ حرّمه ثمّ أحلّه ثمّ حرّمه إلاّ المتعة"۔ (14)

ترجمہ: میں ایسی کسی چیز کو نہیں جانتا جس کو اللہ نے حلال کیا، پھر حرام کیا اور پھر حلال کیا اورپھر حرام کیا سوائے "متعہ" کے!۔ (15)

حالانکہ "ابن حجر السہیلی" کا کہنا ہے کہ روز خیبر متعہ کی تحریم کی روایت، ایسی روایت ہے جس کو نہ تو کسی راوی نے نقل کیا ہے اور نہ ہی کسی مؤرخ نے۔ (15)

7۔ ایک رائے یہ ہے کہ متعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں حلال تھا اور پھر عمر نے اپنی خلافت کے دور میں مسلمانوں کو متعہ سے منع کیا۔ جیسا کہ اہل سنت برادران کے نزدیک معتبر ترین کتاب حدیث "صحیح مسلم" ميں منقول ہے کہ: ابن ابی نضرہ کا کہنا ہے کہ میں جابر ابن عبداللہ انصاری کی خدمت میں حاضر تھا؛ میں نے کہا: "متعۃالنساء" اور "متعۃالحج" کے سلسلے میں عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان اختلاف ہے۔ (آپ اس بارے میں کیا کہتے ہيں؟)

جابر نے کہا: ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں متعۃالنساء (عورتوں سے متعہ) بھی کیا کرتے تھے اور متعۃالحج بھی یعنی (حج تمتع، تا کہ عمرہ اور حج کے درمیان فاصلہ ہو)؛ حتی کہ عمر نے ہمیں دونوں سے منع کیا اور ہم نے بھی اجتناب کیا۔

اس صحیح اور واضح نصّ کے باوجود ـ جو صحیح مسلم میں منقول ہے ـ کیا پھر بھی یہ کہنے کا جواز ہے کہ متعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں حرام قرار پایا تھا؟

کس نے متعہ کو حرام قرار دیا؟

مذکورہ بالا روایت جو ہم نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کی ہے، اس معروف حدیث کی طرف اشارہ ہے جس کو اہل سنت کے بہت سے محدثین، مفسرین اور فقہاء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے: حدیث کا متن کچھ یوں ہے:

"متعتان كانتا مشروعتين فى عهد رسول الله(صلى الله عليه وآله) و أنا أنهى عنهما متعة الحجّ و متعة النساء"۔ (16)

ترجمہ: (عمر نے کہا:) دوقسم کے متعے عہد رسالت (ص) میں جائز اور مشروع تھے اور میں ان سے نہی کرتا ہوں حج تمتع اور ازدواج مُوَقَّتْ۔

اسی حدیث کے بعض سلسلوں نے روایت کی ہے کہ عمر نے مزید کہا: "و اعاقب عليهما"، یعنی یہ دو اعمال انجام دینے والوں کو سزا دوں گا۔

متعۃالحج سے مراد یہ ہے کہ حجاج ابتداء میں عمرہ بجا لاتے ہیں اور احرام سے فارغ ہوجاتے ہیں اور پھر قلیل یا طویل مدت کے بعد حج کے لئے احرام باندھتے ہیں۔

یہ حدیث مشہور روایات میں سے ہے جو مختصر تبدیلی کے ساتھ عمر سے نقل ہوئی ہے اور یہ حدیث منبر پر بیٹھ کر مجمع کے سامنے بیان کی۔ ذیل میں ہم حدیث، فقہ اور تفسیر کے سنی منابع میں سے سات منابع کا حوالہ دیتے ہیں (جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے:

1۔ مسند احمد، جلد 3، صفحه 325۔

2۔ سنن بيهقى، جلد 7، صفحه 206۔

3۔ المبسوط سرخسى، جلد 4، صفحه 27۔

4۔ المغنى ابن قدامه، جلد 7، صفحه 571۔

5۔ محلى ابن حزم، جلد 7، صفحه 107۔

6۔ كنزالعمّال، متقی الهندی جلد 16، صفحه 521۔

7۔ تفسير كبير فخر رازى، جلد 10، صفحه 52۔

یہ حدیث متعدد حقائق سے پردہ اٹھاتی ہے؛ ملاحظہ فرمائیں:

الف: خلیفۂ اول کے دور میں متعہ حلال تھا:

متعہ (ازدواج مُوَقَّتْ) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پورے دوران حیات حتی کہ خلیفہ اول کے پورے دوران خلافت میں مباح اور حلال تھا اور خلیفۂ ثانی نے اس سے نہی کردی۔

ب: نصّ کی موجودگی میں اجتہاد

خلیفہ ثانی نے اپنے آپ کو مجاز قرار دیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسلمہ نصّ کے مقابلے میں "قانون" وضع کیا (اور پیغمبر اکرم (ص) کا قانون منسوخ کردیا) حالانکہ قرآن مجید کا فرمان ہے:

"وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"۔ (17)

ترجمہ: اور جو رسول عطا کریں اسے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز آؤ۔

کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا کسی کو احکام الہی میں تصرف کرنے کا حق حاصل ہے؟

کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کیا ہے لیکن میں یہ نہیں کرتا اور وہ کرتا ہوں؟

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصّ کے مقابلے میں اجتہاد جائز ہے جبکہ نصِّ رسول (ص) اللہ تعالی سے مأخوذ ہے۔ (18)

حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کو اتنے واضح اور آشکار انداز سے معطل اور منسوخ کرنا، واقعی حیرت انگیز ہے۔ (19)

مزیدبرآں اگر نص کے مقابلے میں اجتہاد کا دروازہ کھول دیا جائے تو کیا کوئی وجہ کوئی ضمانت ہے کہ دوسرے لوگ نصّ کے مقابلے میں اجتہاد کی روش نہ اپنائیں گے؟

کیا اجتہاد ایک فرد کے لئے مختص تھا اور دوسرے لوگ مجتہد نہیں ہیں؟

کہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے کیونکہ نصّ کے مقابلے میں اجتہاد کا دروازہ کھلتے ہی کوئی بھی حکم خداوندی محفوظ نہیں رہ سکے گا؛ اسلام کے ابدی احکام میں عجیب و غریب افراتفری کا ساماں ہوگا اور حقیقتاً اسلام کے تمام احکام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

ج: عمر کی مخالفت کا سبب

عمر نے ان دو احکام کی مخالفت کیوں کی؟

حج کے بارے میں ان کا تصور یہ تھا کہ جو مسلمان حج کے لئے آتے ہیں ان کو حج اور عمرہ مکمل کرلینا چاہئے اور تب جاکر احرام سے خارج ہونا چاہئے اور اس کے بعد ہی مثال کے طور پر اپنی بیویوں سے مجامعت کی طرف جانا چاہئے۔

ان کا تصور یہ تھا کہ یہ اچھا عمل نہیں ہے کہ لوگ عمرہ بجا لانے کے بعد احرام سے خارج ہوجائیں اور پھر حج کے لئے دوبارہ احرام باندھیں؛ ان کا خیال تھا کہ یہ عمل حج کی روح سے ہم آہنگ نہیں ہے!۔ (20)

حالانکہ یہ ایک نادرست خیال ہے کیونکہ حج اور عمرہ دو الگ الگ اعمال ہیں اور ممکن ہے کہ ان دو کے درمیان ایک مہینے کا فاصلہ ہو۔

مسلمان ماہ شوال المکرم یا ماہ ذوالقعدةالحرام میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے ہیں اور عمرہ بجا لاتے ہیں اور احرام سے نکل کر ذوالحجۃالحرام کی آٹھویں تاریخ تک آزاد ہوتے ہیں اور پھر حج کی بجاآوری کے لئے احرام باندھتے اور عرفات چلے جاتے ہیں۔ اس میں کون سی برائی ہے کہ انھوں نے اس کے مقابلے میں اتنی حساسیت دکھائی؟

متعۃالنساء کے بارے میں ـ بعض راویوں کے بزعم ـ عمر کا تصور یہ تھا کہ اگر ازدواج مُوَقَّتْ جائز رہے تو نکاح اور زنا کے درمیان تمیز مشکل ہوجائے گی اور عین ممکن ہے کہ کوئی بھی شخص کسی عورت کے ساتھ دکھائی دے اور دعوی کرے کہ اس نے اس عورت کے ساتھ ازدواج مُوَقَّتْ کررکھا ہے! اور یوں زنا کا دائرہ وسیع ہوجائے!۔

یہ گماں اول الذکر خیالسے بھی زيادہ سست اور بے بنیاد ہے کیونکہ اس خیال کے برعکس، عقد متعہ کی ممانعت زنا اور بے حیائی کا دائرہ وسیع ہونے کا باعث بنتی ہے کیونکہ مذکورہ بالا سطور میں بیان ہوچکا ہے کہ بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو دائمی ازدواج پر قدرت نہیں رکھتے اور ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی بیویوں سے دور ہیں اور ازدواج مُوَقَّتْ اور زنا کے دوراہے پر کھڑے ہیں؛ امر مسلم ہے کہ صحیح منصوبہ بندی سے انجام پانے والے ازدواج مُوَقَّتْ کو ممنوع قرار دیئے جانے سے یہ لوگ زنا اور بےحیائی کے اندھے کنویں میں گرجائیں گے۔

اسی بنا پر ایک معروف حدیث میں علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ "لولا أنّ عُمَر نهى عنها عمر ما زنى إلاّ شقىّ" (21)

ترجمہ: اگر عمر نے متہ سے نہی نہ کی ہوتی تو کوئی بھی شخص ـ سوائے شقی، بدبخت اور بے راہروی کا شکار افراد کے ـ زنا سے آلودہ نہ ہوتا۔

د: متعہ کی تحریم کے زمانے کے بارے میں اختلافات کی انتہا:

عبداللہ بن عمر نے والد کی بات نہ مانی

مذکورہ بالا روایت ـ جو محدثین، مفسرین اور فقہاء کے ایک بڑے گروہ نے نقل کی ہے ـ سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ متعہ کی تحریم عمر کی زمانے میں ہوئی نہ کہ عصر رسالت میں۔ اور ان ہی منابع میں منقولہ متعدد دیگر روایات بھی اسی امر کی تصدیق کرتی ہیں۔ بعنوان مثال:

محدث ترمذی نے روایت کی ہے کہ ایک شامی مرد نے عبداللہ بن عمر سے متعۃالنساء کے بارے میں سوال کیا تو عبداللہ نے کہا: حلال ہے

سائل نے کہا: آپ کے والد نے متعۃ النساء سے نہی کی ہے!

عبداللہ نے کہا:

"أرأيت إن كان أبي قد نهى عنها و قد سنّها رسول الله، أنترك السنّة و نتبع قول أبي؟!"۔ (22)

ترجمہ: کیا تمہاری رائے کہ اگر میرے والد نے متعہ سے نہی کی ہے جبکہ رسول اللہ نے اس کو سنت قرار دیا ہے، تو ہم سنت کو ترک کرکے میرے والد کے قول کی پیروی کریں؟۔

2۔ ایک حدیث (صحیح مسلم میں) جابر بن عبداللہ الانصاری سے نقل ہوئی ہے کہ انھوں نے کہا: ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں مختصر سا آٹا اور کھجوریں بطور مہر ادا کرکے کچھ دنوں کے لئے متعہ کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ ابوبکر کے زمانے میں جاری رہا حتی کہ "عَمرْوْ بن جریح" کے واقعے کی وجہ سے لوگوں کو متعہ سے منع کیا۔ (23)

3۔ صحیح مسلم میں مروی ہے کہ متعۃالنساء اور متعۃالحج کے موضوع پر عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان اختلاف تھا (متعہ کے بارے میں حکم سنانے کی درخواست کی گئی تو) جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں دونوں پر عمل کیا کرتے تھے، عمر نے ہمیں روکا اور ہم نے اجتناب کیا۔ (24)

عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب جو اہل سنت کے ہاں "حبرالامۃ" (مسلم امت کے عالم و دانشور) کے لقب سے پہچانے جاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں حکم متعہ کی عدم منسوخی کے قائل ہیں اور اس امر کی تصدیق اس بحث سے ہوتی ہے جو عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیر کے درمیان چھڑ گئی تھی اور صحیح مسلم نے مجادلہ نقل کیا ہے:

عبداللہ بن زبیر [امویوں کے خوف سے] مکہ میں مقیم ہوگئے تھے۔ ایک دن انھوں نے لوگوں کے ایک اجتماع میں ـ جس میں عبداللہ بن عباس بھی حاضر تھے ـ کہا کہ بعض لوگ جن کے دل کی آنکھیں بھی سر کی آنکھوں کی مانند اندھی ہیں، متعہ کے جواز کا فتوی دیتے ہیں۔ ابن زبیر نے در حقیقت ابن عباس کو اپنی تندزبانی کا نشانہ بنایا تھا جو اس وقت نابینا تھے۔ ابن عباس نے ابن زبیر کی بات سنی اور کہا: تم ای بے تہذیب اور نادان شخص ہو، میری جان کی قسم! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں یہ عمل انجام دیا کرتے تھے۔

ابن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام مبارک کا اعتنا نہ کرتے ہوئے کہا: تم ایک بار آزما کر دیکھو، خدا کی قسم! میں تمہیں سنگسار کروں گا۔ (25) گویا ابن زبیر نے دھمکی اور طاقت کی زبان میں ابن عباس کا جواب دیا

احتمالاً یہ روایت اس زمانے سے تعلق رکھتی ہے جب عبداللہ بن زبیر حجاز مقدس میں اقتدار پر قابض تھے اور شاید اسی بنا پر وہ عبداللہ بن عباس جیسے عالم و دانشمند شخصیت سے اس لہجے میں بات کرنے کی جرأت کررہے تھے۔ حالانکہ عبداللہ بن عباس عبداللہ بن زبیر کے والد زبیر کے ہم عمر تھے اور ابن زبیر علم و دانش کے حوالے سے بھی ابن عباس سے قابل قیاس نہ تھے؛ اور اگر فرض کریں کہ ابن زبیر علم کے حوالے سے ابن عباس کے برابر تھے پھر بھی ان کو اس لہجے میں بات کرنے کا حق حاصل نہیں تھا کیونکہ اگر کوئی مجتہد کسی موضوع میں اپنے فتوے پر عمل کرے جو بالفرض اشتباہ بھی ہو، تو فقہ کی اصطلاح میں "وطی بالشبہہ" (حالت اشتباہ میں مجامعت) کے زمرے میں آتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وطی بالشبہہ کی صورت میں شرعی حد (سنگسار وغیرہ) کے نفاذ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چنانچہ سنگسار کی دھمکی بالکل مہمل اور جاہلانہ تھی گوکہ عبداللہ بن زبیر جیسے نادان نوجوان سے اس طرح کی بھونڈی حرکت بعید نہ تھی۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ (عبداللہ بن زبیر متعہ کی اولاد تھے اور) راغب اصفہانی نے اپنی کتاب "المحاضرات" میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن زبیر نے ملامت لہجے میں عبداللہ بن عباس سے کہا: تم متعہ کو حلال کیوں سمجھتے ہو؟

ابن عباس نے کہا: جاؤ اپنی ماں سے پوچھو۔

ابن زبیر اپنی والدہ کے پاس پہنچے اور مسئلہ ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا:

"ما ولدتك الا فى المتعة"۔

ترجمہ: میں نے تمہیں متعہ ہی میں جنم دیا ہے۔ (یا یہ وہ زمانہ تھا جب میں تمہارے باپ زبیر کے متعے میں تھی)۔ (26)

5۔ مسند احمد بن حنبل میں منقول ہے کہ "عمران ابن حصین" کہتا ہے: متعہ کی آیت کتاب خدا میں نازل ہوئی اور ہم نے اس پر عمل کیا اور اس کو منسوخ کرنے والی آیت نازل نہیں ہوئی حتی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس سے نہیں نہیں فرمائی حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئے (اور نزول آیات کا سلسلہ ختم ہوا) (27) یہ ان روایات کے نمونے ہیں جو پوری صراحت اور وضاحت سے متعہ کے حکم کی عدم منسوخی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

ان لوگوں نے ان روایات کے مقابلے میں دوسری روایات نقل کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حکم متعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ہی منسوخ ہوا تھا۔ مگر کاش! کہ یہ ساری روایات ہم آہنگ اور متفق القول ہوتیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ (جتنے راوی ہیں اتنی ہی حدیثیں ہیں اور) ہر راوی نے تنسیخ کے وقت کے تعین میں دوسرے راویوں سے اختلاف کیا ہے:

1۔ بعض روایات میں ہے کہ حکم متعہ کی تحریم کا حکم (سنہ 7 ہجری میں) جنگ خیبر کے دن جاری ہوا۔ (28)

2۔ بعض دیگر روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عام الفتح (فتح مکہ یعنی سنہ 10 ہجری) کو مکہ معظمہ میں متعہ کی اجازت دی اور تھوڑا عرصہ بعد، اسی سال، اس سے نہی فرمائی۔ (29)

3۔ دوسری روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (فتح مکہ کے بعد مکہ کے قریب) سرزمین "ہوازن" میں غزوہ اوطاس کے دوران تین دن تک متعہ کی اجازت دی اور پھر اس سے نہی فرمائی۔ (30)

لیکن اگر ہم اس بحث میں مختلف اقوال کا جائزہ لینے کا حوصلہ رکھتے ہوں تو یہ مسئلہ اس سے بھی آگے جاتا ہے کیونکہ اہل سنت کے مشہور و معروف فقیہ "النووي" نے صحیح مسلم کی شرح میں اس مسئلے میں چھ اقوال بیان کئے ہیں اور ہر قول کسی ایک روایت سے ہم آہنگ ہے:

1۔ متعہ جنگ خیبر میں حلال ہوا اور اس کے بعد (چند ہی روز بعد) حرام قرار دیا گیا۔

2۔ عمرةالقضاء میں حلال ہوا (اس کے بعد حرام قرار دیا گیا)۔

3۔ فتح مکہ کے روز حلال ہوا اور بعد میں حرام قرار دیا گیا۔

4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو جنگ تبوک میں حرام قرار دیا۔

5۔ جنگ اوطاس اور سرزمین ہوازن میں حرام قرار دیا گیا۔

6۔ حجۃالوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کے آخری برس میں حلال ہوا۔ (31)

اور سب سے حیرت انگیز قول محمد بن ادریس شافعی کا ہے جنھوں نے کہا: میں نے کوئی چیز نہيں دیکھی جس کو خدا حلال کرے، پھر حرام کرے، پھر حلال کرے اور پھر حرام کرے سوائے متعہ کے!۔ (32)

ہر باریک بین محقق ان متضاد روایات کو دیکھ کر ان کے موضوع اور مجعول ہونے کا یقین کرلیتا ہے (33) اور اس مسئلے کو ایک سیاسی حرکت و عمل کا نتیجہ سمجھتا ہے۔

بہترین راہ حل:

سچ تو یہ ہے کہ یہ متعارض اور متضاد اقوال ہر شخص کو سنجیدہ مطالعہ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ آخر ایسا کون سا حادثہ رونما ہوا ہے کہ اس مسئلے میں روایات اس قدر متضاد ہیں؟ اور ہر محدث اور ہر فقیہ نے اپنے لئے الگ راستہ کیوں چنا ہے؟

ان متضاد روایات کو کیونکر جمع کیا جاسکتا ہے (اور ان سے ایک واحد اور معقول نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے؟)۔

کیا اتنا سارا اختلاف اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہاں کوئی حساس سیاسی مسئلہ پیش آیا تھا جس نے واضعین اور جاعلین کو روایات جعل کرنے پر مجبور کیا اور ان جاعلین اور واضعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اصحاب رسول (ص) کے ناموں سے ناجائز فائدہ اٹھایا؟ اور پھر اصحاب کو ہی (اپنی مجعولہ اور موضوعہ روایات کی) نسبت دے کر کہہ دیا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یوں اور یوں روایت کی ہے۔

یہ سیاسی مسئلہ صرف یہی تھا کہ خلیفۂ ثانی نے ایک بات کہہ دی کہ "دو چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سم کے دور میں حلال تھیں اور میں انہیں حرام کردیتا ہوں، ان میں سے ایک "متعۃالنساء" ہے"۔

اس ایک جملے نے نہایت منفی اثرات مرتب کردیئے وہ یوں کہ اگر امت کے افراد یا خلفاء احکام اعلانیہ طور پر احکام اسلام کو دگرگوں اور تبدیل کرسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ عمل صرف خلیفۂ ثانی کے لئے مخصوص ہو اور ایسی صورت میں دوسروں کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ نصّ کے مقابلے میں اجتہاد کریں۔ ایسی صورت میں اسلامی احکام اور واجبات و محرمات عجیب افراتفری کا شکار ہونگے اور وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اسلام میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔

اب ہوا یوں کہ ایک گروہ اس "جدید حکم" کے منفی اثرات مٹانے کے لئے سرگرم ہوا اور اس گروہ کے افراد کہنے لگے کہ متعہ کی تحریم اور منسوخی کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ہی جاری ہوا تھا۔ ہر کسی نے کوئی حدیث وضع کرکے اصحاب رسول (ص) سے منسوب کردی اور چونکہ کوئی بھی حدیث حقیقت پر مبنی نہ تھی لہذا تمام موضوعہ احادیث شدید تضادات کا شکار ہوئیں؛ ورنہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ اتنی ساری روایات متناقض اور متضاد ہوں اور حتی ان میں سے ایک حدیث بھی دوسری سے ہم آہنگ نہ ہو اور یہ تضادات و تناقضات کا یہ سلسلہ بعض فقہاء کو یہ کہنے پر مجبور کردے کہ: متعہ کسی زمانے میں مباح تھا، پھر حرام ہوا، پھر مباح ہوا اور پھر بھی حرام ہوا؟

کیا اللہ کے احکام بازیچۂ اطفال ہیں؟!

علاوہ ازیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں متعہ کا مباح ہوجانا قطعی طور پر ایک ضرورت کی بنا پر تھا جو بعد کے زمانوں میں بھی پیش آسکتی ہے خاص طور پر ہمارے اس زمانے میں یہ ضرورت نوجوانوں اور طویل عرصے تک سفر کرنے والے مغربی ممالک کے مسافرین کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ شدید ہے، پس یہ حرام کیوں ہو؟

اس زمانے میں اسلامی معاشرے میں (جنسی) عوامل اور محرکات اتنے زیادہ نہیں تھے، اتنی بےپردہ ور بےجاب و بدحجاب عورتیں نہیں تھیں، اتنی ساری فلموں، برائی سکھانے والے پروگراموں، ٹیلی ویژن چینلوں، انٹرنیٹ، سیٹلائٹ چینلوں، فساد انگیز محفلوں اور برائی پھیلانے والے رسائل و جرائد کا وجود تک نہیں تھا جو ہمارے دور میں لوگوں کو گناہ کی دعوت دے رہے ہیں۔

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں متعہ ایک ضرورت کے تحت جائز قرار دیا گیا اور پھر ابد تک حرام قرار دیا گیا؟ کیا یہ بات قابل قبول ہے؟ کیا یہ دعوی قابل قبول ہیں؟

اگر ہم ان سارے مسائل کو نظر انداز کریں اور فرض کریں کہ فقہائے اسلام کی کثیر تعداد متعہ کو حرام سمجھتی ہے لیکن ایک گروہ نے اس کو حلال اور مجاز قرار دیا ہے مختصر یہ کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے؛ پس اس کے باوجود یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ متعہ کے جواز کے حامی لوگ متعہ کے مخالفین پر اسلامی احکام کی عدم پابندی کا الزام لگائیں یا متعہ کی حرمت کے قائل لوگ ـ خدا نخواستہ ـ معاذاللہ ـ متعہ کو حلال سمجھنے والوں پر زنا کی حمایت و ترویج کا الزام لگائیں۔ یہ لوگ قیامت کے دن خدا کی بارگاہ میں جوابدہ ہونگے۔

پس یہ زیادہ سے زیادہ ایک اجتہادی اختلاف ہے۔ فخر رازی جو اس قسم کے مسائل میں خاص قسم کا تعصب رکھتے ہیں، اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"ذهب السواد الأعظم من الأمّة إلى أنّها صارت منسوخة و قال السواد منهم أنّها بقيت كما كانت"۔ (34)

ترجمہ: امت کی اکثریت اس حکم کی منسوخی کی قائل ہے لیکن ایک گروہ نے کہا ہے کہ متعہ کا جواز پہلے کی طرح باقی ہے... یعنی یہ کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔

یہاں ہم ازدواج مُوَقَّتْ کی بحث کو ختم کردیتے ہیں۔ توقع ہے کہ پیشگی فیصلوں اور غلط و بے جا الزامات و بہتان تراشیوں کے بغیر۔ ایک پھر اس بحث میں غور کریں اور اس کے بعد فیصلہ کریں یقیناً انہیں اطمینان حاصل ہوجائے گا کہ متعہ آج بھی حکم الہی ہے اور اگر اس کی شرائط کو ملحوظ رکھا جائے تو بہت سے مشکلات کا بہترین راہ حل پیش کرسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات و توضیحات

1۔ اس قسم کے ازدواج کے لئے کوئی دینی و شرعی سند موجود نہیں ہے بلکہ اجتہاد کے مخالفین

نے اجتہاد کرکے اس قسم کے ازدواج کے فروغ پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔/مترجم

2۔ امام صادق (عليہ السلام) فرماتے ہیں: "لولا ما نهى عنها عمر ما زنى إلاّ شقىّ"، اگر عمر نے مسلمانوں کو اس (متعہ) سے منع نہ کیا ہوتا تو اشقیاء اور بدبختوں کے سوا کوئی بھی زنا کا ارتکاب نہ کرتا (وسائل الشيعه، جلد 14، صفحه 440، حديث 24). اہل سنت کی کتب میں یہ حدیث علی علیہ السلام سے وسیع سطح پر نقل ہوئی ہے: قال علي (ع): لو لا ان عمر نهى عن المتعة ما زنى الاّ شقيٌّ» (تفسير طبرى، جلد 5، صفحه 119; تفسير درالمنثور، جلد 2، صفحه 140 و تفسير قرطبى، جلد 5، صفحه 130۔ ثعلبی نے اپنی تفسیر کی جلد 3 صفحه 286 طبع اول مطبوعه بيروت دار إحياء التراث العربي میں یہ حدیث علی علیہ السلام سے نقل کی جو کچھ یوں ہے: "لولا أن عمر نهى عن المتعة ما زنی إلا شقي"۔ اگر عمر نے متعہ سے منع نہ کیا ہوتا تو اشقیاء کے سوا کوئی بھی زنا نہ کرتا۔

3۔ 14 صدیوں سے شیعہ مخالفین یہی شبہات اور یہی اعتراضات اچھالتے رہے ہیں اور شیعہ علماء بھی جواب دیتے رہے ہیں لیکن انھوں نے گویا کبھی بھی ان جوابات کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ وہ یہی سوالات مسلسل نہ دہراتے رہتے۔/مترجم

4۔ تشریع قانون سازی کے مترادف لفظ ہے کسی موضوع پر حکم صادر کرتے اور نافذ کرتے ہیں تو اس کو تشریع کہتے ہیں۔ / مترجم

5۔ اخبارات و جرائد اور کتب و رسائل میں شائع ہونے والی خواتین کی سچی کہانیوں اور ظلم و ستم کا شکار ہونے والی خواتین کی خودنوشت داستانوں سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہبہت سے بے غیرت مرد خواتین سے (بظاہر) شادیاں رچاتے ہیں اور پھر انہیں فساد و فحشاء کی منڈیوں میں بیچتے ہیں یا پھر اپنی منکوحہ بیوی کو ـ جس کو اس نے قانون اور شرع کے مطابق بیاہا ہوا ہے ـ کسی دور کے شہر میں پہنچا کر خود فساد اور برائی کا اڈا کھول دیتے ہیں۔ ہر روز کے اخبارات میں کئی سرخیاں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کسی شخص نے شادی کے بہانے کسی خاتون کی عزت لوٹی ہے یعنی یہ کہ شادی سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا اس بہانے شادی کے مقدس رشتے کو جرام قرار دینا چاہئے؟۔ /مترجم

6۔ یہ ضرب المثل اس وقت بروئے کار لائی جاتی ہے جب کوئی اپنے ذاتی مفاد اور نہایت ناچیز و بے وقعت فائدے کی خاطر دوسروں کو یا سماج کو بے انتہا نقصان پہنچاتا ہے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے ایک رومال کی خاطر قیصریہ کو جلا دیا۔/مترجم

7۔ سورہ نساء آیت 24۔

8۔ ملاعبہ "لعب" سے مشتق ہے اور اس کے معنی کھیلنے کودنے کے ہیں۔/مترجم

9۔ مجمع البيان، جلد 3، صفحه 60۔

10۔ جمہور سے مراد ایک عصر کے تمام علماء ہیں۔/مترجم

11۔ قرطبى، جلد 5، صفحه 120 و فتح القدير، جلد 1، صفحه 449۔

12۔ شرح صحيح مسلم، جلد 9، صفحه 191. 1، صفحه 449۔

13۔ شرح صحيح مسلم، جلد 9، صفحه 191۔

14۔ المغنى ابن قدامة، جلد 7، صفحه 572۔

15۔ ابن ادریس شافعی سے منقول ہے کہ سورہ نساء کی آیت 24 متعہ اور ازدواج موقت کے بارے میں نازل ہو‏ئی تھی لیکن یہ آیت سورہ مؤمنون کی آیات 5 تا 7 کے نزول کے ساتھ ہی منسوخ ہوئی جن میں ارشاد ہوا: جو اپنے پوشیدہ اعضا کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ سوا اپنی بیویوں کے یا جو ان کی ملکیت میں کنیزیں ہیں کہ اس پر وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ مگر جو اس کے آگے جانا چاہیں تو یہ لوگ تجاوز کرنے والے قرار پائیں گے۔ (القرآں) لیکن شافعی کی یہ بات دو دلیلوں کی اساس پر ناقابل قبول ہے: پہلی دلیل یہ ہے کہ جو عورت عقد موقت میں ہوتی ہے وہ زوجہ ہی ہے گوکہ اس کے احکام اور عقد دائم کے احکام کے درمیان مختصر سا اختلاف ضرور ہے۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ جس آیت کو ناسخ فرض کیا گیا وہ سورہ مؤمنون میں ہے اور سورہ مؤمنوں مکمیل طور پر مکی سورت ہے اور کسی مفسر نے بھی نہیں کہا ہے کہ اس مکی سورت کی یہ تین آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی ہیں! اور قاعدہ بھی ہے اور عقل کا تقاضا بھی کہ ناسخ کو منسوخ کے بعد آنا چاہئے، یہ بات استاد زرقانی نے بھی نقل کی ہے؛ (محمد عبدالعظيم الزرقانى , مناهل العرفان , ج1 , ص 195) یعنی یہ ممکن نہیں ہے کہ مکی آیات (جو ابتدائے طلوع اسلام میں نازل ہوئی ہیں) مدنی آیات کو (جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہیں) منسوخ کرسکتی ہیں۔/مترجم

16۔ فتح البارى، جلد 9، صفحه 138۔

17۔ سوره حشر، آيه 7

18۔ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ٭ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى۔ اور وہ (رسول اللہ (ص)) نفسانی خواہشوں سے بات نہیں کیا کرتے ٭ نہیں ہوتی (آپ (ص) کی بات) وہ مگر وحی جو بھیجی جاتی ہے۔

19۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ "رسول اللہ (ص) کے صحابہ" آپ (ص) کے احکام کی اس اعلانیہ منسوخی پر خاموش رہے۔/مترجم

20۔ واضح رہے کہ عمر نے اپنے اس حکم کے لئے قرآن اور سنت سے کوئی دلیل پیش نہیں کی ہے۔/مترجم

21۔ تفسير كبير فخر رازى، جلد 10، صفحه 50۔

22۔ یہ حدیث سنن ترمذی کے اس نسخے میں اس صورت میں موجود نہیں ہے جو ہماری دسترس میں ہے بلکہ اس نسخے میں متعۃالنساء کی بجائے متعۃ الحج کے لئے یہی حکم بیان ہوا ہے لیکن شیخ زین الدین المعروف شہید ثانی نے "اللمعۃالدمشقیۃ" میں اور ساتویں صدی ہجری کے عالم رضي الدين أبي القاسم علي بن موسى ابن طاؤس الحلي نے اپنی کتاب " الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف" میں یہ حدیث سنن ترمذی کے اس زمانے کے نسخے سے نقل کی ہے۔ گویا سنن ترمذی کے پرانے اور اصلی نسخوں میں حدیث اسی صورت میں تھی لیکن بعد کے زمانوں میں طبع شدہ نسخوں میں "معلوم وجوہات کی بنا پر" اس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ (کتنی کثیر ہیں اس عمل کی مثالیں۔ و كم له من نظير).

23۔ صحيح مسلم، جلد2، صفحه 131۔

24۔ صحيح مسلم، جلد 2، صفحه 131۔

25۔ صحيح مسلم، جلد 4، صفحه 59، حديث 3307، چاپ دارالفكر.

26۔ محاضرات، جلد 2، صفحه 214 و شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد، جلد 20، صفحه 130 .

27۔ مسند احمد، جلد 4، صفحه 436۔ عن ابى رجاء عن عمران بن صين قال: "نزلت آية المتعة فى كتاب الله و عملنا بها مع رسول الله فلم ينزل آية تنسخها و لم ينه عنها النبى (ص ) حتى مات"۔ بخاری نے اپنی صحیح میں یہ روایت یوں نقل کی ہے: نزلت آية المتعة فى كتاب الله ففعلناهما مع رسول الله (ص) و لم ینزل قرآن يحرمها و لم ينه عنها حتى مات قال رجل برأيه ماشاء (صحيح البخارى ج 5/ 158) آیت متعہ کتاب اللہ میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اس پر عمل کرتے رہے اور کوئی بھی آیت نازل نہیں ہوئی جو متعہ کو حرام قرار دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس سے منع نہیں کیا حتی کہ دنیا سے رخصت ہوئی اور "مرد" نے جو چاہا رسول اللہ (ص) کی زبان سے کہہ دیا۔/مترجم

28۔ درّ المنثور، السيوطي جلد 2، صفحه 486۔

29۔ صحيح مسلم، جلد 4، صفحه 133۔

30۔ صحيح مسلم، جلد 4، صفحه 131۔

31۔ شرح صحيح مسلم، از نووى، جلد 9، صفحه 191۔

32۔ المغنى ابن قدامه، جلد7، صفحه 572۔

33۔ جب چھ "متضاد" روایات ایک موضوع کے بارے میں نقل ہوتی ہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ بیشتر روایات جھوٹی ہیں اور افسوسناک امر یہ ہے کہ خدا کے حکم کو مخدوش کرنے اور ایک صحابی کو حکم خدا کی منسوخی اور خدا کے حلال کو حرام قرار دینے سے بری الذمہ قرار دینے کے لئے اتنی وسعت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جھوٹ باندھا گیا ہے اور جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھئے کہ کون لوگ ہیں؟۔/مترجم

34۔ تفسير كبير فخر رازى، جلد 10، صفحه 49۔
http://www.shiaarticles.com/index.php/2011-11-13-13-41-30/2011-11-19-10-...

Add new comment