سیرت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر ایک نظر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقالہ نگار: سید قمر عباس حسینی حسین آبادی
مقدمہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاآسمان انسانیت آفتاب کی مانند ضو فشاں ہیں کوئی بھی ان سے بلند و برتر نہیں ہے. حضرت صدیقہ طاہرہ(س) کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ ''' انا اعطیناک الکوثر''' کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نہیں ۔اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا ، بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے پر فخر کیا جاتا تھا اور خواتین پر ظلم کو اپنے لئے شرف شمار کیا جاتا تھا ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لئے قرآن مجید نہیں کہتا '' خیر''' بلکہ کہتا ہے کوثر یعنی ''خیر کثیر'' ۔ جناب سیدہ زہرا نے رہتی دنیا تک کے لیے بہترین سیرت چھوڑ گئیں ہم اس مقالے میں سیرت زہرائے مرضیہ سلام اللہ علیہا کومورد بحث قرار دیں گے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کے بعض نمایاں پہلو
حضرت زہرا (علیہا السلام)، حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) سے شادی کے بعد پوری دنیا میں نمونہ خاتون کی حیثیت سے افق عالم پر چمکیں، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی دختر گرامی جس طرح ازدوا ج کے مراحل میں سب کے لئے نمونہ اور اسوہ عمل تھیں اسی طرح اپنے پروردگار کی اطاعت میں بھی نمونہ تھیں۔
جب آپ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی تھیں تو عبادت میں مشغول ہوجاتی تھیں، نماز پڑھتیں،دعا کرتیں،خداکی بارگاہ میں گریہ و زاری کرتیں اور دوسروں کے لئے دعائیں کرتی تھیں، امام صادق(علیہ السلام) اپنے جد امجد حضرت امام حسن بن علی (علیہ السلام) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا: میری والدہ گرامی شب جمعہ کو صبح تک محراب عبادت میں کھڑی رہتی تھیں اور جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتیں تو باایمان مردوں اور عورتوں کے لئے دعا فرماتیں، لیکن اپنے لئے کچھ نہیں کہتی تھیں، ایک روز میں نے سوال کیا: اماں جان ! آپ دوسروں کی طرح اپنے لئے کیوں دعائے خیرنہیں کرتیں؟ آپ نے کہا: میرے بیٹے ! پڑوسیوں کا حق پہلے ہے ۔
عبادت حضرت فاطمہ (علیہا السلام)
حضرت زہرا (علیہا السلام)رات کے ایک حصہ میں عبادت میں مشغول رہتی تھیں، آپ کی نماز شب اس قدرلمبی ہوجاتی تھی کہ آپ کے پاہائے اقدس متورم ہوجاتے تھے ۔ حسن بصری (متوفی ۱۱۰) کہتا ہے: اس امت کے درمیان کوئی بھی زہد و عبادت اور تقوی میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے زیادہ نہیں تھا ۔
حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام)اور حصول علم
حضرت فاطمہ (علیہاالسلام) نے شروع ہی سے وحی الہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا ، جن اسرار و رموز کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) حضرت فاطمہ زہرا (س) کے لئے بیان فرماتے تھے حضرت علی علیہ السلام ان کو تحریر فرماتے اور حضرت فاطمہ (س) ان کو جمع فرماتیں جو مصحف فاطمہ کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع ہوگئی ۔ حضرت زہرا(س) جوانی کے ایام میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اس لیے ان کے علمی آثار بہت کم ہم تک پہونچے ہیں لیکن خوش قسمتی سے انکا ایک طولانی اور مفصل خطاب تاریخ میں ثبت ہوا ہے جسے صرف شیعوں نے ہی نقل نہیں کیا بلکہ بغدادی نے تیسری صدی میں اسے نقل کیا ہے ۔ یہی ایک خطبہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلمان عورت خود کو شرعی حدود میں رکھتے ہوئے اور غیروں کے سامنے خود نمائی کئے بغیر معاشرہ کے مسائل میں کس قدر داخل ہو سکتی ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (علیہا السلام)کا دوسروں کو علم سیکھانا
حضرت فاطمہ (علیہا لسلام) احکام اوراسلامی تعلیمات کے ذریعہ عورتوں کو ان کی ذمہ داری سے آشنا کراتی ۔ آپ کی کنیز اور شاگردہ فضہ بیس سال تک قرآن کی زبان میں کلام کرتی رہی اور جب بھی وہ کوئی بات کہنا چاہتی تو قرآن کی آیت کے ذریعہ اپنی بات کو بیان کرتیں۔
حضرت فاطمہ (علیہ السلام) نہ یہ کہ صرف علم حاصل کرنے سے نہ تھکتی تھیں، بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سکھانے میں حوصلہ ، ہمت اور پیہم کوشش کرتی رہتی تھیں، ایک روز ایک خاتون آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میری والدہ بہت بوڑھی ہیں اور ان سے نماز میں غلطی ہوگئی ہے انہوں نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں آپ سے مسئلہ معلوم کروں۔ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس کے سوال کا جواب دیدیا ، وہ خاتون دوسری اورتیسری مرتبہ پھر سوال کرنے آئی اور اپنا جواب سن کر چلی گئی اس نے تقریبا دس مرتبہ یہ کام انجام دیا اور ہر مرتبہ آپ نے اس کے سوال کا جواب دیا،وہ خاتون بار بار کی رفت و آمد سے شرمندہ ہوگئی اور کہنے لگی: اب میں آپ کو زحمت نہیں دوں گی ،حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے فرمایا: دوبارہ بھی آنا اور اپنے سوالوں کے جواب معلوم کرنا تم جس قدر بھی سوال کروگی میں ناراض نہیں ہوؤں گی ،کیونکہ میں نے اپنے والدماجد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے سنا ہے آپ نے فرمایا: قیامت کے روز علماء ہمارے بعد محشور ہوں گے اور ان کو ان کے علم کے مطابق قیمتی لباس عطاکیے جائیں گے اور ان کا یہ ثواب اس قدر ہوگا جس قدر انہوں نے بندگان الہی کی ہدایت و ارشاد میں کوشش کی ہوگی ۔
اسلام کی خاطرلڑی جانے والی جنگوں میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) کا کردار
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) کی دس سالہ حکومت میں ۲۷ یا ۲۸ غزوہ1 اور ۳۵ سے۹۰ تک سریہ 2تاریخ میں ذکر ہوئے ہیں۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ مشترکہ زندگی کو اکثر و بیشتر میدان جنگ یا تبلیغ میں گذاری اور آپ کی غیر موجودگی میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام)گھر کی ذمہ داری اور بچوں کی تربیت میں مشغول رہتیں، اور آپ اس کام کو اس طرح انجام دیتی تھیں کہ آپ کے مرد مجاہد شوہرنامدار اچھی طرح سے جہاد کی ذمہ داریوں کو انجام دیتے اور پھر آپ اس عرصہ میں شہیدوں کی عورتوں اور بچوں کی مدد فرماتیں، اور ان سے ہمدردی کا اظہار کرتیں اور کبھی کبھی مدد کرنے والی عورتوں کی تشویق کیلئے اور ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلانے کیلئے اپنے محرم افراد کے زخموں کا مداوا کرتیں، جنگ احد میں حضرت فاطمہ (علیہا السلام) عورتوں کے ساتھ احد کے میدان (احد ، مدینہ سے چھ کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے) میں گئیں اس جنگ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) بہت زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے جسم اقدس پر بھی بہت زیادہ زخم لگے تھے ۔ حضرت فاطمہ (علیہا السلام) پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے چہرہ سے خون صاف کرتی تھیں.
حجابِ حضرت فاطمہ زھرا (س)
سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقعہ وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا آپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس جاتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں. ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوء تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر ا س پر پڑے .رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا . کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔
آپ کی سیرت مسلم خواتین کے لئے مشعل راہ ہے، آج کی عورت اگر آپ کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ بنا لے تو اسوقت خواتین جن مشکلات میں گرفتار ہیں وہ برطرف ہو جائیں گی.
آج کے دور میں مسلم خواتین دعویدار ہیں کہ ہم پيرو حضرت زهرا (س) ہیں، اگر حضرت فاطمہ (س) كی پيروکار ہونے کا دعوا كرتی ہیں تو ان كي سيرت پر عمل بھی كرنا چاہیے۔ حضرت زهرا (س) نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی، تبلیغ بھی کی، اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی۔ عورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامي قوانين كو رعايت كرتے هوئے حجاب اسلامی ميں رہ كر معاشرے میں اپنا كردار ادا كرے۔
آجکل باحجاب خواتین کی بھی مختلفCategreisہیں، کچھ وہ کہ جو حجاب واقعی کرتی ہیں، اور ان کا یہ حجاب تمام غیر محرموں سے ہے، اور یہی حجاب اسلام کو مطلوب ہے، کچھ ایسی بھی ہیں جو صرف سر پر اسکارف لینے کو حجاب کامل سمجھ لیتی ہیں، اس کے ساتھ میک اپ بھی ہے، نامحرموں کے ساتھ گپ شپ بھی ہو رہی ہے، شاید اس فارمولے کے تحت کہ "مسلمان سب بہن بھائی ہیں،"یہ وہ جملہ ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت سننے کو ملتا ہے،"حالانکہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں،" عورت کے لئے جسکو خدا نے نا محرم قرار دیا ہے وہ اسکے لئے نا محرم ہے، خدا نے عورت کو نامحرم سے بات کرنے سے منع نہیں کیا لیکن اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کی ہیں۔ روایت میں ملتا یے کہ "عورت کو چاہیے کہ نا محرم سے نرم و زیبا لہجے میں بات نہ کرے"
اميرالمؤمنين علی (ع) پیامبر گرامی(ص) سے نقل کرتے ہیں؛ ايك نابينا شخص نےحضرت زهرا سلام اللہ علیھا كے گھر ميں داخل هونے كے لئے اجازت چاهی تو اس وقت حضرت زهرا سلام اللہ علیھا پردے كے پيچھے چلی گئیں پھر اس کو اندر آنے كي اجازت دی، رسول خدا (ص) نے سوال كيا یا فاطمه، يه نابينا هے اس كو تو كچھ نظر نہيں آتا كيوں پرده كر رہی ہیں؟ تو اس وقت جناب فاطمہ(س) نےجواب میں فرمايا؛ بابا جان وه مجھے نہيں ديكھ سكتا ليكن ميں تو اس كو ديكھ سكتی هوں، مجھے ڈر ہے کہ وہ میری بو استشمام كر لے گا، یہ سن کر پيامبر (ص) بے اختیار شهادت ديتے هوئے فرماتے ہیں:
"فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي" فاطمه ميرے جگر كا ٹكڑا هے۔
عورت کے لئے اسلام ميں حجاب کی بہترين نوع چادر هے، يه چادر حضرت زهرا (س) کی عصمت و عفت کی يادگار هے۔ جس کو آج کی مسلمان عورت نے ایک طرف رکھ دیا ہے، خواتین کو پردے كے بارے ميں امر كرنا مرد پر واجب هے، روایت میں ملتا ہے کہ" قیامت کے روز ھر شخص چار عورتوں کے اعمال کا ذمّہ دار ہے، اور وہ چار عورتیں اس کی بیوی، بیٹی، بہن اور ماں ہیں"۔ آج کی عورت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو فاطمی اصولوں کے تحت گزارے، اس میں ہی اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز یے۔
شادی کے بعد شوہر کے گھر میں آپ کی سیرت
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے شادی کے بعدجس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تما م کام اپنے ہاتھ سے کر تی تھیں۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ توکبھی تیوریوں پر بل پڑے اورنہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی .
جب آپ کی یہ حالت دیکھی تورسول خدا نے بلاطلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسابرتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم ُ عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت ُ بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے حرچ کاسامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھے اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔
ہم مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ازدواج اور شادی جیسے اہم مسئلہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسی ہستی کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دینا چا ہئے تاکہ بہت سارے مفاسد اور اخروی عقاب سے نجات مل سکے.
حضرت زہرا کی سیرت پر چلنے والے مردوں اور عورتوں کے لئے شادی کے موقع پر زہراکی سیرت کو بالائے طاق رکھ کرمو جودہ زمانے کے خرافات کو ازدواج اور شادی کی رسم قرار دینا باعث پشیما نی ہے لہٰذا روایت میں آیا ہے کہ حضرت زہرا(س) کی ایک ہزار سے زیا دہ لوگوں نے خواستگاری کی تھی لیکن پیغمبر اکر م ۖاور حضرت زہرا نے کسی کو قبول نہیں کیا جب کہ دولت، شہرت اور سرما یہ کے حوالے سے حضرت علی سے مقائسہ ہی بے معنی ہے کیو نکہ علی اس زمانے کے فقیر ترین افراد کی مانند زندگی گزار رہے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر کے انتخاب میں ایماندار ی اور امانت داری معیار ہے ۔
حضرت فاطمہ (س) کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زھرا اپنے شوھر حضرت علی (ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کو سوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ (ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گذارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گذرتا تھا ۔
انہوں نے جو کچھ بھی ازدواجی زندگی سے پھلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی سمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے اموراور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں .
فاطمہ زھرا (س) بحیثیت مادر
چونکہ پروردگار عالم کا یہ مصمم ارادہ تھا کہ پیشوائے دین اور خلفائے رسول، صدیقہ طاہرہ کی نسل سے ہوں اسی لئے آپ کی سب سے بڑی اور سخت ذمہ داری تربیت اولاد تھی، تربیت اولادظاہر میں ایک مختصر سا جملہ ہے لیکن اس میں بہت مہم اور وسیع معنی مخفی ہیں۔ تربیت صرف اسی کا نام نہیں ہے کہ اولاد کے لئے لوازم زندگی اور عیش و آرام فراہم کر دئے جائیں اور بس، بلکہ یہ لفظ والدین کو ان کی ایک عظیم ذمہ داری کی یاد آوری قرار دیتا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے اولاد کا کسی عہدہ پر فائز ہونا بھی تربیت والدین کا مرہون منت ہے فاطمہ اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ انھیں اماموں کی پرورش کرنی ہے، فاطمہ (س) ان خواتین میں سے نہیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں بلکہ آپ گھر کے ماحول کو بہت بڑا اور حساس گردانتی تھیں آپ کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ آغوش مادر تھی اس کے بعد گھر کا ماحول اور صحن خانہ بچوں کے لئے عظیم مدرسہ تھا، ایسا نہ ہو ہم خود کو ان کا پیرو شمار کرتے رہیں لیکن ان کی سیرت سے دور دور تک تعلق نہ ہو ان کے احکام و فرامین پس پشت ڈالدیں۔
نتیجہ
سیرت زہرا ئے اطہر کو ملاحظہ کرنے کے بعد ہم صنف نسوان سے تعلق رکھنے والی تمام ماوں اور بہنوں سے میری یہ التماس ہے کہ خود کو نہ صرف زبانی کلامی حد تک سیرت زہرا کے پیروکار بنائیں بلکہ عملی میدان میں بھی سیرت دخت رسول اسلام ہونے کا ثبوت دیں تاکہ بروز محشر آپ علیہا السلام کے سامنے جانے کی اہلیت حاصل ہو جائیں ۔ خدا ہم سب کو سیرت زہرائے مرضیہ پر چلنے کی توفیق دیں ۔ آخر میں ، میں جامعہ روحانیت کے اراکین کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے ہمیں سیرت زہرا کا مطالعہ کرنے اور قلم فرسائی کا موقع فراہم کیا۔ والسلام
منابع: 1۔دیوان اقبال
2۔اقبال در مدح اہلیبیت علیہم السلام
3۔زن در نگاہ اقبال لاہوری
1 . غزوہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ہو.
2 . سریہ اس جنگ کو کہتے ہیں جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آ لہ) نے شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی اور کو اپنی جگہ سپہ سالار بنا کر بھیجا .
Add new comment