احکام کفن

بقیہ:::::::::

(۵۵۹)مسلمان میت کو تین کپڑوں کا کفن دینا ضروری ہے جنہیں لنگ، کرتہ اور چادر کہا جاتا ہے۔
(۵۶۰)احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ لنگ ایسی ہو جو ناف سے گھٹنوں تک بدن کی اطراف کو ڈھانپ لے اور بہتر یہ ہے کہ سینے سے پاؤں تک پہنچے اور کُرتہ احتیاط واجب کی بنا پر ایسا ہو کہ کندھوں کے سروں سے آدھی پنڈلیوں تک تمام بدن کو ڈھانپے اور بہتر یہ ہے کہ پاؤں تک پہنچے اور چادر کی لمبائی اتنی ہونی چاہئے کہ پورے بدن کو ڈھانپ دے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ چادر کی لمبائی اتنی ہو کہ میت کے پاؤں اور سر کی طرف سے گرہ دے سکیں اور اس کی چوڑائی اتنی ہو کہ اس کا ایک کنارہ دوسرے کنارے کے اوپر آ سکے۔
(۵۶۱)واجب مقدار کی حد تک کفن جس کا ذکر سابقہ مسئلہ میں ہو چکا ہے میت کے اصل مال سے لیا جائے بلکہ کفن کی مستحب مقدار کو بھی میت کی شان اور عرف عام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میت کے اصل مال سے لیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ واجب مقدار سے زائد کفن ان وارثوں کے حصے سے نہ لیا جائے جو ابھی بالغ نہ ہوئے ہوں۔
(۵۶۲)اگر کسی شخص نے وصیت کی ہو کہ مستحب کفن کی مقدار اس کے ایک تہائی مال سے لی جائے یا یہ وصیّت کی ہو کہ اس کا تہائی مال خود اس پر خرچ کیا جائے لیکن اس کے مصرّف کا تعین نہ کیا ہو یا صرف اس کے کچھ حصے کے مصرف کا تعین کیا ہو تو مستحب کفن کی مقدار جو چاہے عرف عام سے بڑھ کر ہو اس کے تہائی مال سے لی جا سکتی ہے۔
(۵۶۳)اگر مرنے والے نے یہ وصیت نہ کی ہو کہ کفن اس کے تہائی مال سے لیا جائے اور متعلقہ اشخاص چاہیں کہ اس کے اصل مال سے لیں تو جو بیان مسئلہ ۵۶۱ میں گزر چکا ہے اس سے زیادہ نہ لیں۔ مثلاً وہ مستحب کام جو کہ معمولاً انجام نہ دئیے جاتے ہوں اور جو میت کی شان کے مطابق بھی نہ ہوں تو ان کی ادائیگی کے لئے ہر گز اصل مال سے نہ لیں اور بالکل اسی طرح اگر کفن کی قیمت معمول سے زیادہ ہو تو اضافی رقم کو میت کے اصل مال سے نہیں لیا جا سکتا لیکن جو ورثاء بالغ ہیں تو ان کے حصے سے ان کی اجازت سے لیا جا سکتا ہے۔
(۵۶۴)عورت کے کفن کی ذمہ داری شوہر پر ہے خواہ عورت اپنا مال بھی رکھتی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو اس تفصیل کے مطابق جو طلاق کے احکام میں آئے گی طلاق رجعی دی گئی ہو اور وہ عدت ختم ہونے سے پہلے مَر جائے تو شوہر کے لئے ضروری ہے کہ اسے کفن دے۔ اگر شوہر بالغ نہ ہو یا دیوانہ ہو تو شوہر کے ولی کو چاہئے کہ اس کے مال سے عورت کو کفن دے۔
(۵۶۵)میت کو کفن دینا اس کے قرابتداروں پر واجب نہیں، گوا اس کی زندگی میں اخراجات کی کفالت ان پر واجب رہی ہو۔
(۵۶۶)اگر میت کے پاس کفن کا انتظام کرنے کے لئے کوئی مال نہ ہو تو اسے برہنہ دفن کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بنا بر احتیاط مسلمانوں پر واجب ہے کہ اسے کفن پہنائیں۔ یہ جائز ہے کہ اس کے اخراجات کو زکات کی بابت میں حساب کر لیا جائے۔
(۵۶۷)احتیاط یہ ہے کہ کفن کے تینوں کپڑوں میں سے ہر کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ میت کا بدن اس کے نیچے سے نظر آئے لیکن اگر اس طرح ہو کہ تینوں کپڑوں کو ملا کر میت کا بدن اس کے نیچے سے نظر نہ آئے تو کافی ہے۔
(۵۶۸)غصب کی ہوئی چیز کا کفن دینا خواہ کوئی دوسری چیز میّسر نہ ہو تب بھی جائز نہیں ہے۔ پس اگر میت کا کفن غصبی ہو اور اس کا مالک راضی نہ ہو تو وہ کفن اس کے بدن سے اُتار لینا چاہئے خواہ اس کو دفن بھی کیا جا چکا ہو لیکن بعض صورتوں میں (اس کے بدن سے کفن اُتارنا جائز نہیں) جس کی تفصیل کی گنجائش اس مقام پر نہیں ہے۔
(۵۶۹)میت کو نجس چیز یا خالص ریشمی کپڑے کا کفن دینا اور احتیاط کی بنا پر سونے کے پانی سے کام کئے ہوئے کپڑے کا کفن دینا جائز نہیں لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۵۷۰)میت کو نجس مُردار کی کھال کا کفن دینا اختیاری حالت میں جائز نہیں ہے بلکہ پاک مُردار کی کھال کا کفن دینا بھی جائز نہیں ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر کسی ایسے کپڑے کا کفن دینا جو حرام گوشت جانور کے اون یا بالوں سے تیار کیا گیا ہو اختیاری حالت میں جائز نہیں ہے لیکن اگر کفن حلال گوشت جانور کے بال یا اون کا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کا بھی کفن نہ دیا جائے۔
(۵۷۱)اگر میت کا کفن اس کی اپنی نجاست یا کسی دوسری نجاست سے نجس ہو جائے اور اگر ایسا کرنے سے کفن ضائع نہ ہوتا ہو تو جتنا حصہ نجس ہوا سے دھونا یا کاٹنا ضروری ہے خواہ میت کو قبر میں ہی کیوں نہ اُتارا جا چکا ہو۔ اگر اس کا دھونا یا کاٹنا ممکن نہ ہو لیکن بدل لینا ممکن ہو تو ضروری ہے کہ بدل دیں۔
(۵۷۲)اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس نے حج یا عمرے کا احرام باندھ رکھا ہو تو اسے دوسروں کی طرح کفن پہنانا ضروری ہے اور اس کا سر اور چہرہ ڈھانپ دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
(۵۷۳)انسان کے لئے اپنی زندگی میں کفن، بیری اور کافور کا تیار رکھنا مستحب ہے۔

حنوط کے احکام
(۵۷۴)غسل دینے کے بعد واجب ہے کہ میت کو حنوط کیا جائے یعنی اس کی پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹھوں پر کافور اس طرح لگائیں کہ کچھ کافور اس پر باقی رہے چاہے اسے ملایا نہ بھی گیا ہو اور مستحب یہ ہے کہ میت کی ناک پر بھی کافور ملایا جائے۔ ضروری ہے کہ کافور پسا ہوا، تازہ، پاک اور مباح (غیر غصبی)ہو اور اگر پرانا ہونے کی وجہ سے اس کی خوشبو زائل ہو گئی ہو تو کافی نہیں۔
(۵۷۵)احتیاط مستحب یہ ہے کہ کافور پہلے میت کی پیشانی پر ملا جائے لیکن دوسرے مقامات پر ملنے میں ترتیب ضروری نہیں ہے۔
(۵۷۶)بہتر یہ ہے کہ میت کو کفن پہنانے سے پہلے حنوط کیا جائے۔ اگرچہ کفن پہنانے کے دوران یا اس کے بعد بھی حنوط کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۵۷۷)اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جس نے حج یا عمرے کے لئے احرام باندھ رکھا ہو تو اسے حنوط کرنا جائز نہیں ہے مگر ان دو صورتوں میں جن کا ذکر مسئلہ ۵۴۲ میں گزر چکا ہے۔
(۵۷۸)اعتکاف میں بیٹھے ہوئے شخص اور ایسی عورت جس کا شوہر مَر گیا ہو اور ابھی اس کی عدّت باقی ہو اگرچہ خوشبو لگانا اس کے لئے حرام ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی مَر جائے تو اسے حنوط کرنا واجب ہے۔
(۵۷۹)احتیاط مستحب یہ ہے کہ میت کو مشک، عنبر، عود اور دوسری خوشبوئیں نہ لگائیں اور انہیں کافور کے ساتھ بھی نہ ملایا جائے۔
(۵۸۰)مستحب ہے کہ سیّد الشہداء امام حسین - کی قبر مبارک کی مٹی کی کچھ مقدار کافور میں ملالی جائے لیکن اس کافور کو ایسے مقامات پر نہیں لگانا چاہیے جہاں لگانے سے خاکِ شفا کی بے حرمتی ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ خاکِ شفا اتنی زیادہ نہ ہو کہ جب وہ کافور کے ساتھ مل جائے تو اسے کافور نہ کہا جا سکے۔
(۵۸۱)اگر کافور نہ مل سکے یا فقط غسل کے لئے کافی ہو تو حنوط کرنا ضروری نہیں اور اگر غسل کی ضرورت سے زیادہ ہو لیکن تمام سات اعضاء کے لئے کافی نہ ہو تو احتیاط مستحب کی بنا پر چاہئے کہ پہلے پیشانی پر اور اگر بچ جائے تو دوسرے مقامات پر مَلا جائے۔
(۵۸۲)مستحب ہے کہ دو تروتازہ ٹہنیاں میت کے ساتھ قبر میں رکھی جائیں۔

http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=48...

Add new comment