حائض کے احکام
بقیہ۔۔۔
(۴۴۸)چند چیزیں حائض پر حرام ہیں:
۱)نماز اور اس جیسی دیگر عبادتیں جنہیں وضو، غسل یا تیمم کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر اس نیت سے انجام دے کہ صحیح عمل انجام دے رہی ہوں، جائز نہیں ہے۔ لیکن ان عبادتوں کے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کے لئے وضو، غسل یا تیمم کرنا ضروری نہیں جیسے نماز میّت۔
۲) وہ تمام چیزیں جو مجنب پر حرام ہیں جن کا ذکر جنابت کے احکام میں آ چکا ہے۔
۳)عورت کی فرج میں جماع کرنا جو مرد اور عورت دونوں کے لئے حرام ہے خواہ دخول صرف سپاری کی حد تک ہی ہو اور منی بھی خارج نہ ہو بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ سپاری سے کم مقدار میں دخول نہ کیا جائے۔ البتہ یہ حکم عورت سے دبر میں مجامعت کے لئے نہیں لیکن دبر میں مجامعت، عورت کے راضی نہ ہونے کی صورت میں احتیاط واجب کی بنا پر جائز نہیں ہے چاہے وہ حائض ہو یا نہ ہو۔
(۴۴۹)ان دنوں میں بھی جماع کرنا حرام ہے جن میں عورت کا حیض یقینی نہ ہو لیکن شرعاً اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو حائض قرار دے۔ پس جس عورت کو دس دن سے زیادہ خون آیا ہو اور اس کے لئے ضروری ہو کہ اس حکم کے مطابق جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا اپنے آپ کو اتنے دن کے لئے حائض قرار دے جتنے دن کی اس کے کنبے کی عورتوں کو عادت ہو تو اس کا شوہر ان دنوں میں مجامعت نہیں کر سکتا۔
(۴۵۰)اگر مرد اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ استغفار کرے اور کفارہ بھی دینا واجب نہیں ہے۔ اگرچہ بہتر ہے کہ کفارہ بھی دے۔
(۴۵۱)حائض سے مجامعت کے علاوہ دوسری لطف اندوزیوں مثلاً بوس وکنار کی ممانعت نہیں ہے۔
(۴۵۲)جیسا کہ طلاق کے حکام میں بتایا جائے گا عورت کو حیض کی حالت میں طلاق دینا باطل ہے۔
(۴۵۳)اگر عورت کہے کہ میں حائض ہوں یا یہ کہے کہ میں حیض سے پاک ہوں اور وہ غلط بیانی نہ کرتی ہو تو اس کی بات قبول کی جائے لیکن اگر غلط بیاں ہو تو اس کی بات قبول کرنے میں اشکال ہے۔
(۴۵۴)اگر کوئی عورت نماز کے دوران حائض ہو جائے تو بنا بر احتیاط واجب اس کی نماز باطل ہے چاہے یہ حیض آخری سجدے کے بعد اور سلام کے آخری حرف سے پہلے ہی آیا ہو۔
(۴۵۵)اگر عورت نماز کے دوران شک کرے کہ حائض ہوئی ہے یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر نماز کے بعد اسے پتا چلے کہ نماز کے دوران حائض ہو گئی تھی تو جیسا کہ پچھلے مسئلے میں بتایا گیا جو نماز اس نے پڑھی ہے وہ باطل ہے۔
(۴۵۶)عورت کے حیض سے پاک ہو جانے کے بعد اس پر واجب ہے کہ نماز اور دوسری عبادات کے لئے جو وضو، غسل یا تیمم کر کے بجا لانا چاہئیں غسل کرے اور اس کا طریقہ غسل جناب کی طرح ہے۔ یہ غسل وضو کی جگہ کافی ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ غسل سے پہلے وضو بھی کرے۔
(۴۵۷)عورت کے حیض سے پاک ہو جانے کے بعد اگرچہ اس نے غسل نہ کیا ہو اسے طلاق دینا صحیح ہے اور اس کا شوہر اس سے جماع بھی کر سکتا ہے لیکن احتیاط لازم یہ ہے کہ جماع شرمگاہ دھونے کے بعد کیا جائے ۔ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے غسل کرنے سے پہلے مرد اس سے جماع نہ کرے۔ البتہ اس کے علاوہ دوسرے کا جو طہارت کی شرط کی وجہ سے اس پر حرام تھے جیسے قرآن کے حروف کو مس کرنا، جب تک غسل نہ کر لے اس پر حلال نہیں ہوتے بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر وہ کام بھی حلال ہوتے بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر وہ کام بھی حلال نہیں ہوتے جن کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ طہارت کی شرط کی وجہ سے حرام تھے جیسے مسجد میں ٹھہرنا۔
(۴۵۸)اگر پانی وضو اور غسل کے لئے کافی نہ ہو اور تقریباً اتنا ہو کہ اس سے غسل کر سکے تو ضروری ہے کہ غسل کرے اور بہتر یہ ہے کہ وضو کے بدلے تیمم کرے اور اگر پانی صرف وضو کے لئے کافی ہو اور اتنا نہ ہو کہ اس سے غسل کیا جا سکتے تو بہتر یہ ہے کہ وضو کرے اور غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے اور اگر دونوں میں سے کسی کے لئے بھی پانی نہ ہو تو غسل کے بدلے تیمم کرنا ضروری ہے اور بہتر یہ ہے کہ وضو کے بدلے بھی تیمم کرے۔
(۴۵۹)جو نمازیں عورت نے حیض کی حالت میں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا نہیں لیکن رمضان کے وہ روزے جو حیض کی حالت میں نہ رکھے ہوں ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے اور اسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر جو روزے منت کی وجہ سے معین دنوں میں واجب ہوئے ہوں اور اس نے حیض کی حالت میں وہ روزے نہ رکھے ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی قضا کرے۔
(۴۶۰)جب نماز کا وقت آ جائے اور عورت کو معلوم ہو کہ اگر وہ نماز پڑھنے میں دیر کرے گی تو حائض ہو جائے گی تو ضروری ہے کہ فوراً نماز پڑھے اور اگر اسے فقط احتمال ہو کہ نماز میں تاخیر کرنے سے وہ حائض ہو جائے گی تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔
(۴۶۱)اگر عورت نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور اول وقت میں سے اتنا وقت گزر جائے جس میں ایک نماز تمام مقدمات جیسے کہ پاک لباس کا انتظام اور وضو، کے ساتھ انجام دی جا سکے اور پھر اسے حیض آ جائے تو اس نماز کی قضا اس عورت پر واجب ہے بلکہ اگر وقت آنے کے بعد اتنا وقت گزرا ہو کہ ایک نماز وضو یا غسل بلکہ تیمم کر کے پڑھ سکتی تھی اور نہ پڑھی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے، چاہے وہ وقت اتنا کم تھا کہ جس میں دوسری شرائط حاصل نہیں کی جا سکتی تھیں۔ لیکن جلدی پڑھنے اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور دوسری باتوں کے بارے میں ضروری ہے کہ اپنی کیفیت کے مطابق نماز پڑھے۔ مثلاً اگر ایک عورت جو سفر میں نہیں ہے اول وقت میں نماز ظہر نہ پڑھے تو اس کی قضا اس پر اس صورت میں واجب ہو گی جبکہ حدث سے طہارت حاصل کرنے کے بعد چار رکعت نماز پڑھنے کے برابر وقت اوّل ظہر سے گزر جائے اور وہ حائض ہو جائے اور اس عورت کے لئے جو سفر میں طہارت حاصل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کے برابر وقت گزر جانا بھی کافی ہے۔
(۴۶۲)اگر ایک عورت نماز کے آخر وقت میں خون سے پاک ہو جائے اور اس کے پاس اندازاً اتنا وقت ہو کہ غسل کر کے ایک یا ایک سے زائد رکعت پڑھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا بجا لائے۔
(۴۶۳)اگر ایک حائض کے پاس (حیض سے پاک ہونے کے بعد) غسل کے لئے وقت نہ ہو لیکن تیمم کر کے نماز وقت کے اندر پڑھ سکتی ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ نماز تیمم کے ساتھ پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو قضا کرے۔ لیکن اگر وقت کی تنگی سے قطع نظر کسی اور وجہ سے اس کا فریضہ ہی تیمم کرنا ہو۔ مثلاً اگر پانی اس کے لئے مضر ہو تو ضروری ہے کہ تیمم کر کے وہ نما پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا کرے۔
(۴۶۴)اگر کسی عورت کو حیض سے پاک ہو جانے کے بعد شک ہو کہ نماز کے لئے وقت باقی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ نماز پڑھ لے۔
(۴۶۵)اگر کوئی عورت اس خیال سے نماز نہ پڑھے کہ حدث سے پاک ہونے کے بعد ایک رکعت نماز پڑھنے کے لئے بھی اس کے پاس وقت نہیں ہے لیکن بعد میں اسے پتا چلے کہ وقت تھا تو اس نماز کی قضا بجا لانا ضروری ہے۔
(۴۶۶)حائض کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے وقت اپنے آپ کو خون سے پاک کرے اور روئی اور کپڑے کا ٹکڑا بدلے اور وضو کرے اور اگر وضو نہ کر سکے تو تیمم کرے اور نماز کی جگہ پر رو بقبلہ بیٹھ کر ذکر ، دعا اور صلوٰت میں مشغول ہو جائے۔
(۴۶۷)حائض کے لئے قرآن مجید کا پڑھنا اور اسے اپنے ساتھ رکھنا اور اپنے بدن کا کوئی حصہ اس کے الفاظ کے درمیانی حصے سے مس کرنا نیز مہندی یا اس جیسی کسی اور چیز سے خضاب کرن بعض فقہاء کے قول کے مطابق مکروہ ہے۔
http://www.shiastudies.com/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=48...
جاری ہے۔۔۔۔
Add new comment