حضرت فاطمہ ؑبنت اسد کا تعارف

 

حضرت علیؑ کی ماں قبیلہ قریش بن ہاشم کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ خاندان جزیرة العرب کا نجیب ترین اور با اخلاق خاندان تھا۔ فاطمہ بنت اسد کے کئی مناقب اور فضائل ہیں۔ اس نے اپنے شوہر ابوطالب کے گھر میں رسول خدا ۖ کی سرپرستی کی اور اسی طرح حضرت علی کی تربیت اسی ماں کی گود سے ہوئی ۔اس نے بعثت رسول کے بعد رسول خدا ۖ کا بہت ساتھ دیا

نام ونسب :حضرت امیر کی والدہ کا نام فاطمہ ہیں، جو کہ اسد بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی کی بیٹی ہیں۔ ان کی ماں کا نام فاطمہ تھا کہ ہرم بن رواحہ بن ہجر بن عبداللہ بن معز بن وہب بن ثعلبہ بن فہر کی بیٹی تھیں۔ فاطمہ کی اولاد میں یہ تھے : طالب کہ جس کی کوئی اولاد باقی نہ رہی۔ عقیل، ابی جعفرو حضرت علی ،جمانہ فاختہ (ام ہانی کے نام سے مشہور تھیں )۔حضرت امیر کی والدہ نے چار ہجری قمری میں ٦٥ یا ٦٠ سال کی عمر میں وفات پائی اور آپ کومدینہ کے قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا ۔

شادی :حضرت ابوطالب جوانی میں شادی کی فکر میں تھا، اور وہ ایسی عورت کی تلاش میں تھے۔ جو دین دار اور دین حنیف کی پیروکار ہو۔ ابوطالب اپنے چچا اسدکے پاس جاتے ہیں اور ان کی بیٹی فاطمہ کا رشتہ مانگتے ہیں۔ اس کے چچا نے مثبت جواب دیا ۔عبدالمطلب کے بیٹے ابوطالب ،اسدکی بیٹی فاطمہ پہلے ہاشمی میاں بیوی تھے۔ ان کا نکاح لوگوں کے اجتماع میں پڑھا گیااور ابوطالب نے اسد سے مخاطب ہو کر یوں خطبہ پڑھا۔ حمد اس خدا کی جو عالمین کا رب ہے، عرش کا مالک ہے، وہ خدا جس نے ہمیں خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے منتخب کیا اور ہمیں عزت وشرف عطا کیا خدا نے ہمیں شک اور عیب سے پاس کیا اور ہمیں دوسرے قبائل پر برتری دی اور ہمارے خاندان کو حضرت ابراہیم واسماعیل کی اولاد سے قرار دیا. میں فاطمہ بنت اسد کا نکاح اپنے ساتھ کررہا ہوں، اس کے بعد حق مہر دیا۔ پھر اسد سے پوچھتے ہیں کہ آپ گواہی دیں اسد نے کہا :ہم بھی تیرے ساتھ فاطمہ کی شادی پر راضی ہیں۔ اس کے بعد لوگوں کو کھانا کھلایا گیا جشن منایا گیا۔اب آپ کو بعثت سے کئی سال پہلے پڑھا جانے والے خطبے سے معلوم ہوگیاہے کہ وہ موحد اور خدا پرست تھے ۔

حضرت فاطمہ کا خواب : ایک رات فاطمہ بنت اسد ایک عجیب خواب دیکھتی ہیں اور اس خواب کو ایک کاہن کے پاس جا کر بیان کیا۔ اب فاطمہ کا خواب اور اس کی تعبیر ان کی اپنی زبانی کچھ اس طرح بیان ہوئی ہے ۔میں نے خواب میں دیکھا کہ شام کے پہاڑ مکہ کی طرف حرکت کررہے تھے اور مکہ کی طرف آرہے تھے۔ان سے آگ کی چنگاریاں نکل رہی تھیں، لوگ چیخ وپکار رہے تھے۔ ایک خوف ناک ماحول تھا جو بھی دیکھتا تھا ڈر جاتا تھا۔ اسی وقت مکہ کے پہاڑ ان کی طرف جا رہے تھے اور ایک جنگی ماحول تھا ،کچھ جنگی ہتھیار گرے پڑے اور لوگ انھیں اٹھا رہے تھے ۔میں نے بھی کچھ تلواریں اٹھائیں ،لیکن اچانک میرے ہاتھ سے ایک تلوار نیچے گر گئی، جو پھر آسمان کی طرف چلی گئی، پھر میرے ہاتھ سے دوسری تلوار چھوٹی جو ہوا میں معلق ہوگئی ،ایک اور تلوار گر کر ٹوٹ گئی۔صرف ایک تلوار میرے پاس باقی رہ گئی جو کہ آہستہ آہستہ بڑا شیر بن گئی ۔شام کے پہاڑوں پر بجلی گری اور اتنا خوف ناک منظر تھا کہ لوگ دیکھ کر فرار کرنے لگے۔ اسی دوران میرا بیٹا محمد ۖ (یعنی رسول اسلام ۖ جنہیں فاطمہ بنت اسد نے اپنا بیٹا کہا ) آئے اور اپنا ہاتھ اس شیر پر رکھا اور پکڑ لیا ۔اس کے بعد میں خواب سے بیدار ہوئی اور(( ابو کرز ))کاہن کے پاس گئی اور اس کے بعد قبیلہ بنی تمیم کا ایک(( جمیل ))نامی شخص بیٹھا تھا ۔میں نے تھوڑی دیر انتظار کی تاکہ وہ چلا جائے ۔(( جمیل ))میری طرف دیکھ کر ہنسا اور کہنے لگا کیا تم انتظار کررہی ہو کہ میں چلا جائوں تاکہ تو اپنے خواب کی تعبیر معلوم کرے۔ میں نے کہا اگر سچ پوچھتے ہو تو ایسا ہی ہے تمہیں میرے خواب کے متعلق کیسے معلوم ہوا ؟ (( جمیل )) نامی شخص نے چند شعر پڑے جس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ میرے خواب سے با خبر ہیں۔ میں نے کہا کہ جب تو میرا خواب جانتا ہے تو اس کی تعبیر بھی بتا دو ۔کاہن نے کہا چار تلواروں سے مراد چار بیٹے۔ جن میں سے ایک آسمان کی طرف پرواز کرگیا۔اس سے مراد طالب ہے جو کہ چند ہی دن میں فوت ہو جائیں گے اوران میں ایک تلوار تھی جس سے مراد ہے کہ عقیل کی عمر طولانی ہوگی اور حضرت علی کے بعد وفات پائیں گے ۔ اور جوتلوار ٹوٹ گئی تھی اس سے مراد جعفر ہے جو کہ جنگ موتہ میں شہید ہوں گے اور جو تلوار شیر کی شکل اختیار کر گئی تھی اس سے مراد حضرت علی ہیں ۔

حضرت علی ماں کے شکم میں :دس (١٠) ذی الحج کو حضرت علی کا نور فاطمہ بنت اسد کے رحم میں ٹھہرا ۔ فاطمہ کا چہرہ نورانی تھا۔فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں: جب میرے شکم میں حضرت علی تھے اور میں بتوں کے نزدیک سے گزرتی تو میرا بیٹا شکم میں فشار دیتا تھا ۔ یعنی مجھے بتوں سے جلد گزرنے کے بارے میں کہتا تھا۔ حضرت ۖ نے فرمایا :میں اور علی ایک نورہیں جو حضرت آدم کی صلب میں اور پھر دوسری پاک صلبوں سے پاک رحم میں منتقل ہوتا رہا اور آخر میں عبدالمطلب کی صلب میں تھا ۔اب یہ نور دوحصوں میں تقسیم ہوگیا ۔ایک حصہ سے عبداللہ اور دوسرے حصے سے ابوطالب پیدا ہوئے ہیں۔ عبداللہ سے محمداور علی ابوطالب سے پیدا ہوئے ۔

نور کی ولادت :فاطمہ بنت اسد کی انتظار ختم ہوگئی گھر سے خارج ہوئیں اور مکہ کی طرف تشریف لے گئیں ۔یزید بن قعنب کہتا ہے :میں ،عباس بن عبدالمطلب اور قریش کے کچھ افراد کعبہ کے کنارے بیٹھے تھے اور ہم نے دیکھا فاطمہ بنت اسد آئیں اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگتی ہیں۔ اے خدا !میں تجھ پر ، تیرے انبیاء پر اور تمام آسمانی کتب پر ایمان رکھتی ہوں ۔ میں تصدیق کرتی ہوں ابراہیم جو کہ ہمارے جد ہیں اور بتوں کو توڑنے والے ہیں۔ اس خانہ کعبہ کے واسطے مجھ پر آسانی فرما چونکہ میرے شکم میں میرا بچہ مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میں اس سے مانوس ہوں۔ پس اس بچے کی ولادت کو آسان فرما ۔ یزید بن قعنب کہتا ہے: کہ میں نے کعبہ کی دیوار کو شگافتہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ فاطمہ اندر گئیں اور دیوار کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ خانہ کعبہ کی چابی آئی جس سے تالہ کھولنا چاہا لیکن نہ کھلا ۔ہم جانتے تھے کہ یہ خدا کا معجزہ ہے۔ فاطمہ تین دن تک خانہ کعبہ کے اندر رہیں۔ یہ واقعہ مکہ کے لوگوں کے درمیان مشہور ہوگیا ۔فاطمہ بنت اسد کا کعبہ کے کنارے دعا کرنا۔ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ایک نیک سیرت آخرت پر ایمان رکھنے والی اور دین حنیف پر تھیں ۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں میں نے حضرت علی کے بارے میں رسول خدا ۖسے سوال کیا تو آپ نے فرمایا اے جابر میرے بعد بہترین مولود حضرت عیسیٰ کی سنت پر پیدا ہوا ہے بے شک خداوند عالم نے مجھے اور علی کو ایک نور سے خلق کیا ۔

ملکوتی آواز :خانہ کعبہ میں خوشحالی کا ماحول تھا۔ کیونکہ ایک دن اسی بچے نے بتوں کو گرانا تھا۔ فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں: جب میں خانہ کعبہ سے خارج ہونا چاہتی تھی تو ایک منادی نے ندا دی۔ اے فاطمہ! اپنے بیٹے کا نام علی رکھو کہ خدا وند اعلیٰ ہے میں نے اس کا نام اپنے نام پر رکھا اور علم سے نوازا ۔یہ وہ ہستی ہے جو کہ کعبہ میں بتوں کو توڑے گاکعبہ پر اذان دی جائے گی اور میری تسبیح کرے گا ۔

فضیلت حضرت فاطمہ:فاطمہ پہلی ماں ہے کہ جس کے بچے کی ولادت کعبہ میں ہوئی ۔جو کہ ایک بہترین اور باعظمت مقام ہے ۔ خدا کے حکم سے دیوار میں شگاف ہوئیں اور تین دن اور رات وہاں رہیں۔ اب سوچیں تین دن رات غذا کہاں سے کھائی؟دایہ کون تھی ؟صرف خدا ہی جانتا ہے، ابوطالب خانہ کعبہ کے باہر منتظر ہیں ۔فاطمہ تین دن کے بعد کعبہ سے باہر آئیں۔ ابوطالب نے فاطمہ اور بچے کا استقبال کیا۔ جب فاطمہ نے ابوطالب کو دیکھا تو کہا مجھے اپنے سے پہلے عورتوں پر برتری حاصل ہے ۔ کیونکہ آسیہ بنت مزاحم چھپ کر خدا کی عبادت ایسے مکان میں کرتی تھیں۔ جو صرف حالت اضطراری میں جائز ہوتا ہے ،مریم بنت عمران اپنے بچے کی ولادت کے وقت کھجور کو ہلایا اور اس سے تناول فرمایا۔ لیکن میں خانہ خدا میں داخل ہوئی اور جنتی پھلوں اور دوسرے لذیزکھانوں کو کھایا.

عظمت ولادت حضرت امام علی:۱۔ شیخ مفید: حضرت علی عام الفیل کے تیسویں (٣٠) سال مکہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ نہ اس سے پہلے کوئی بچہ خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور نہ ہی ہوگا ۔ یہ آپ کی عظمت کی دلیل ہے ۔(٢)ابن صباغ مالکی: حضرت علی کی ولادت مکہ میں بیت الحرام میں ہوئی،جمعہ کا دن اور تیرہ (١٣) رجب تھی ۔یہ صرف آپ کو شرف حاصل ہے کہ مکہ میں پیدا ہوئے ۔کیونکہ اس سے پہلے خانہ کعبہ کے اندر کسی کی ولادت نہیں ہوئی ۔(٣)اربلی: حضرت علی جمعہ کے دن تیرہ رجب کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ خانہ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی ۔یہ فضیلت خداوند عالم نے آپ کو دی ۔(۴)شیخ عباس قمی: آپ کی یہ ایک فضیلت ہے کہ مکہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے علاوہ خانہ کعبہ میں کسی اور کی ولادت نہیں ہوئی ۔ آپ بہترین دن جمعہ، محترم مہینے رجب میں پیدا ہوئے ۔

محدثہ :فاطمہ بنت اسد محدثہ بھی ہیں یعنی احادیث کو نقل کرنے والی ہیں۔ انہوں نے رسول خدا ۖ سے چھیالیس احادیث نقل کی ہیں۔ جن میں سے کچھ احادیث کتب احادیث ہیں اور متفق علیہ بھی ہیں۔ یہ روایات بھی آپ سے نقل ہوئی ہے :عبدالمطلب نے آخری عمر میں اپنی اولاد کو جمع کیا اور ان سے فرمایا :تم میں سے کون ہے جو محمد ۖ کی کفالت کرے ۔عبدالمطلب کے بیٹوں نے کہا محمد ۖ بہت ہی دانا ہیں ۔پس آپ خود ان سے کہیں کہ وہ جس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں انتخاب کریں۔ حضرت عبدالمطلب نے نواسے سے فرمایا: تیرا داد دنیاسے جانے والا ہے ،تم کس کے ساتھ رہنا پسند کروگے۔ حضرت محمد ۖ اپنے چچائوں کو دیکھ کر رونے لگے اور ابوطالب کو انتخاب کیا۔ عبدالمطلب نے ابوطالب سے کہا: میں تیری دیانت اورامانت سے آگاہ ہوں۔ اپنے بھائی کے بیٹے پر مہربانی کرنا ،جس طرح میں اس پر مہربان تھا۔ عبدالمطلب کی وفات کے بعد ابوطالب محمد ۖکو اپنے گھر لے آئے ۔فاطمہ بنت اسد کہتیں ہیں: میں نے اس کی بہت خدمت کی اور وہ مجھے ماں کہہ کر پکارتے تھے۔

حضرت محمد ۖکی خدمت : عبدالمطلب کی رحلت کے بعد ابوطالب باپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے بھائی کے بیٹے کو گھر لے آئے اور اپنی بیوی فاطمہ بنت اسد کو فرمایا :کہ تم جانتی ہو کہ یہ میرے بھائی کی یادگار ہے۔ یہ مجھے میری جان ومال سے زیادہ عزیز ہے ۔ میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسے کوئی شخص تکلیف نہ دے اور اس کی خدمت کرنا۔ فاطمہ ہنس کر فرماتی ہیں: میرے اپنے بیٹے محمد ۖ کے بارے میں مجھے نصیحت کرتے ہو ! میں اسے اپنی اولاد سے زیادہ دوست رکھتی ہوں۔

بچپن کے معجزات :فاطمہ فرماتی ہیں: ہمارے گھر میں کھجور کے چند درخت تھے ،درختوں پر تازہ پھل تھا۔ تقریباً چالیس (٤٠) بچے محمد ۖ کی عمر کے آئے اور درختوں سے نیچے گرا ہوا پھل جمع کرنے لگے ،یہ بچے کھجوریں کھا بھی رہے ہیں اور ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ لیکن میں نے دیکھا رسول خدا ۖ نے کسی سے نہیں چھینا جو کچھ سامنے تھا اسی کو اٹھاتے تھے۔ میں اکثر محمد ۖ کیلئے کچھ کھجوریں جمع کرکے رکھتی تھیں۔ ایک دن میں کھجوریں رکھنا بھول گئیں۔ جب حضرت محمد ۖ گھر آئے تو ہم نے کہا آج کھجوریں نہیں۔ حضرت محمد ۖ درختوں کی طرف جاتے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں ۔کھجور کا درخت جھک جاتا ہے اور رسول خدا ۖ کچھ کھجوریں توڑ لیتے ہیں۔ اس کے بعد کھجور کے پتے اپنی جگہ واپس چلے جاتے ہیں۔ جب میں نے یہ معجزہ دیکھا تو ڈر گئی ۔تو میں نے یہ ماجرا ابوطالب کو سنایا تو انہوں نے کہا صبر کرو،یہ ماجرا دوسروں سے نہ کہنا۔میں نے کہا خدا کی قسم، میں حالت بیداری میں تھی نہ کہ خواب میں۔

اسلام میں سبقت: امام جعفر صادق فرماتے ہیں:جب رسول خدا ۖ کو نبوت ملی تو جزیرة العرب کے بہت کم لوگوں نے آپ کی رسالت کی تصدیق کی۔ یہ لوگ اسلام میں سبقت کرنے والے مشہور ہیں . شیخ عباس قمی لکھتے ہیں: فاطمہ بنت اسد اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں میں سے ہے۔ ابھی دس افراد نے اسلام قبول کیا تھا اور آپ گیارہواں فرد تھیں۔ رسول خدا ۖ نے آپ کا بہت اکرام کیا اور ماں کہہ کرپکارا ۔ابن ابی الحدید کہتا ہے: اسلام قبول کرنے والوں میں سے گیارہویں شخصیت فاطمہ بنت اسد ہیں اور خدیجہ کے بعد پیغمبرۖ کی بیعت کرنے والی پہلی خاتون ہیں ۔زبیر کہتا ہے: فاطمہ عورتوں میں سے سب سے پہلے بیعت کرنے والی تھیں جب یہ آیت نازل ہوئی : یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ اے پیغمبر! جب مومن عورتیں تیرے پاس آئیں اور تجھ سے ان شرائط پر بیعت کریں. تو عورتوں نے آنحضرت ۖ کی بیعت کی، فاطمہ بنت اسد نے سب سے پہلے بیعت کی ۔ رسول خدا ۖ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد کچھ مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا تھا ۔خداوند عالم نے پہلے ہجرت کرنے والوں کو یہ بشارت دی : وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍلارَّضِیَ اﷲُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًاطذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْم.مہاجرین و انصاری میںسے پیش قدمی کرنے والوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے خدا خوش ہے اور وہ (بھی) خدا سے راضی ہیں اور اس نے ان کے لئے جنت میںباغات فراہم کئے ہیں کہ جن کے (درختوں کے) نیچے نہریں جاری ہیں وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور یہ عظیم کامیابی ہے۔فاطمہ بنت اسد پہلی ہجرت کرنے والی خاتون ہیں، جو اپنے فرزند حضرت علی کے ساتھ مکہ سے مدینہ گئیں ۔ پس مذکورہ بالا آیات کے مطابق فاطمہ بنت اسد سے خدا راضی تھا اور وہ خدا سے راضی تھیں اور خدا نے انہیں ہمیشہ رہنے والا گھر جنت دی ۔

فاطمہ دانشمندوں کی نظر میں : (١) ابن صباغ مالکی: فاطمہ بنت اسد مسلمان تھیں انہوں نے ہجرت کی اور اسلام میں سبقت کرنے والوں میں سے ہیں۔ جب دنیا سے رخصت ہوئیں تو رسول خدا ۖ نے اپنی قمیض سے کفن دیا اور اپنے ہاتھ سے قبر کی مٹی نکالی اور ان کے لیے دعا کی ۔(٢) احمد بن حنبل : فاطمہ بنت اسد رسول خدا ۖ پر ایمان لے آئیں تھیں۔ آنحضرت نے انہیں دیکھا جب فاطمہ نے وفات پائی تو آنحضرت نے اپنی قمیص سے کفن دیا ۔(٣) شیخ مفید: فاطمہ بنت اسد رسول خدا ۖ کی ایک مہربان ماں کے نزدیک تھیں۔ فاطمہ آنحضرت کو اپنے بچوں سے زیادہ محبت کرتی تھیں۔ رسول خدا ۖ نے بھی ان کی خدمات کی قدر دانی کی، اس خاتون نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت بھی کی۔ جب دار فانی سے رخصت ہوئی تو رسول خدا ۖ نے اپنی قمیص کا کفن دیا ۔(٤) ابن سعد :فاطمہ بنت اسد اسلام لے آئیں تھیں، وہ ایک صالح خاتون تھیں۔انہوں نے رسول خدا ۖکی زیارت بھی کی اور رسول خدا ۖ ان کے گھر جاکر آرام فرماتے ہیں ۔(٥) اربلی :فاطمہ بنت اسد حضرت علی کی ماں رسول خدا ۖ کی ماں کی مانند تھیں۔ انہوں نے آنحضرت کی خود خدمت کی اور رسول خدا ۖ پر ایمان لانے والوں میں سے یہ خاتون تھیں۔ انہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور اپنی قمیص میں کفن دیا ،تاکہ قبر کے حشرات سے محفوظ رہیں۔ آنحضرت ان کی قبر کے اندر لیٹے تاکہ فشار قبر سے امان ہو۔ ٦۔ ابو جوزی :فاطمہ بنت اسد وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور سب سے پہلے رسول خدا کی بیعت کی اور پہلی ہاشمی خاتون ہیں ۔جس سے ہاشمی خلیفہ کی ولادت ہوئی کوئی دوسرا ایسا خلیفہ نہیں،جس کی ماں حضرت فاطمہ ہو سوائے حضرت علی کے ۔(١)

فاطمہ بنت اسد کا گریہ :

مومن کی ایک علامت یہ ہے کہ دنیا اس کیلئے زندان کی مانند ہے۔ دل میں خوف خدا ہوتا ہے اور آخرت کے زاد راہ کیلئے کوشش کرتا ہے ۔حضرت علی فرماتے ہیں : ((اکثرو ذکر الموت ویوما خروجکم من القبور وقیامکم بین ید اللہ عز وجل یھونا علیکم المصائب))موت اور قبر سے نکلنے اور قیامت کے دن کے حساب کے بارے میں زیادہ فکر کرو تاکہ تمہارے اس دنیا کے مصائب آسان ہوجائیں ۔ حضرت علی کی ماں فاطمہ بنت اسد قبر اور قیامت کے خوف سے روتی تھیں ۔امام جعفر صادق ـنے فرمایا: کہ جب فاطمہ نے رسول خدا ۖ سے یہ سنا کہ قیامت کے دن لوگ برہنہ محشور ہونگے توآپ یہ سن کر بہت روئیں اور فرمایا :کتنی رسوائی ہے۔ جب بھی رسول خدا ۖ قبر کی سختی کے بارے میں کچھ فرماتے تو فاطمہ بلند آواز سے روتیں اور فرماتی افسوس! وہ دن کتنا سخت ہوگا ۔ رسول خدا ۖ نے اس سے فرمایا :میں خدا سے درخواست کروں گا کہ تمہیں فشار قبر سے محفوظ رکھے گا ۔جس کا جتنا ایمان زیادہ ہو وہ قیامت اور قبر کی سختی سے خوف میں رہتا ہے۔ لہذا فاطمہ بنت اسد قیامت اور قبر کو یاد کرکے روتی تھیں۔
http://shiaarticles.com/index.php/2013-03-09-06-21-03/2676-2013-03-09-05...

Add new comment