حضرت زینب کبریٰ علیہا السلام
ڈاکٹر سیّد محمد صادق رضوی
حضرت زینب کبریٰؑ وہ تاریخ ساز ہستی ہےں جس نے شہداءکربلا کے پیام رساں کی حیثیت سے انتہائی نامساعد حالات میں، زنجیروں میں اسیر، کوفہ و شام کے بازاروں میں ،ظالم وجابر درباریوں کے روبروکسی خوف وہراس کے بغیر جرات و استقامت کے ساتھ فصیح و بلیغ خطبے اور انتہائی خوش اسلوبی سے دوست اور بدترین دشمن کے سامنے اس طرح حق پیش کیا کہ ہر سننے والا اور دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔اپنی مظلومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وقار وعظمت وجلالت کے ساتھ اور بیان کی روانی کا ایک ایسا سنگم تھاکہ دشمنانِ اسلام نے جس محنت اورسازشی طریقوں سے اپنا خاندانی راج قائم کرنے کا خواب دیکھا تھا وہ واقعہ کربلا کے بعد صرف تین سال کے اندر اندر ریزہ ریزہ ہوکر ختم ہوا۔
آپ حضرت نبی برحق کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ جو عالم اسلا م میں خاتونِ جنت کے نام سے مشہور ہیں، کی پیاری بیٹی ، حضرت علی ؑ شیرخدا کی نورنظر ، جوانان بہشت حضرت حسن ؑوحسین ؑ کی ہمرازوہمشیرہ،حضرت امام زین العابدین ؑ اور حضرت امام باقر ؑ کی محافظہ ، خاندان نبوت کے اسیروں کی سالار اورواقعہ کربلا کی چشم دید گواہ ہیں۔ ان کی ولادت 5ھ کو ہوئی اور ان کا نام خود نبی برحق نے تجویز کیا اور جب تک فانی دنیا میں رہے ان کی تعلیم وتربیت میں خاصی دلچسپی رکھی ۔ علم تفسیر قرآن وعلم عرفان انہوں نے سرچشمہ عرفان حضرت علی ؑ سے سیکھا۔ وہ بچپن سے ہی عرفانی اور حماسی رازوں سے اچھی طرح واقف ہوکر بھرپور محنت وریاضت کرتی تھیں ۔ اس کا عملی مظاہرہ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کیا ۔خاص کر شہداءکربلا کے پیام رساں کی حیثیت سے دوست اور دشمن پر اپنی عظمت وجلالت کا سکہ بٹھادیا ۔یزیدی دربار میں اس نے حسینی پیغام جوحق اور سچائی پر مبنی تھا کا اس طرح محکم قرانی اور عقلی دلیلوں سے پیش کیا کہ درباری تو کیا خود یزید پورے واقعہ کی ذمہ داری عبداللہ ابن زیاد پر ڈالنے کی ترکیبیں ڈھونڈنے لگا ۔
واقعہ کربلا کو جو مقبولیت ملی ، انقلابی آہنگ ملا یا سوز وگداز ملا سب حضرت زینبؑ کا مرہون منت ہے ۔ آپؑ تقدس اور روحانیت کا سورج ، عرفان وحماسہ کا سنگم ہیں ۔ آپ ؑ کی استقامت اور دماغی کاوشوں نے واقعہ کربلا کو دامن ِ فنا سے بچایا ۔ مجلسوں کا سارا سوز و گداز ان ہی کاورثہ ہے ۔ انہوں نے ایسے پاکیزہ نقوش قدم چھوڑے کہ آج تک ظلم واستبداد کے خلاف مظلوم انسانوں کی آواز بلند ہے ۔ آپؑ کی یاد آج بھی مظلوم قوموں کا پیغام ہے ۔ انہوں نے حسینی پیغام کو زندہ جاوید بنا دیا ۔ دین اسلام کی حفاظت کا جذبہ دلوں میں تروتازہ رکھا ۔ عورتوں کے لئے خوداعتمادی ، جوان مردی، باطل کے سامنے سرنہ جھکانے سے ان کا حوصلہ باقی رکھا۔
آپؑ نے غلام اور ستم رسیدہ لوگوں کے لئے تاریخی پیغام چھوڑا ۔ آپؑ کے خطبے جو بازارِ کوفہ ، دربارِ ابن زیاد اور دربارِ یزید میں دیئے فصاحت وبلاغت کے شاہکار
ہیں ۔
آ پ کی یاد دلوں میں معرفت الٰہی کی روشنی پیدا کرتی ہے ،ذہنوں کوسکون واطمینان عطا کر رہی ہے ۔ آپؑ کی شخصیت معرفت الٰہی کا مظہرہے ۔
واقعہ عاشورہ کے بعد کارواںِ اسیراں کی سالار کی حیثیت سے اسیری کی حالت میں جب میدانِ کربلا میںخون میں لت پت اپنے عزیز ترین ساتھیوں جن میں آپ ؑ کے بھائی ، اولاد ،بھتیجے اور اصحاب شامل تھے ، پراپنی الوداعی نگاہ ڈالی اور اپنی ساری توجہ رب جلیل کی طرف موڑ کرفرمایا: میرے رب ہماری یہ قلیل قربانی قبول کرنا ۔
اللہ اللہ یہ آپؑ کی عرفانی اور حماسی زندگی کا معراج ہے ۔ سچے وصادق عارف کی صرف یہی تمنا ہوتی ہے کہ پروردگار اس سے ہرحال میں راضی رہے ۔خوشی ہویا غم ، صحت ہو یابیماری ، امیری ہوکہ ناداری ، مصیبت ہوکہ شادمانی ہو یا رات ہرحال میں اس کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ رب جلیل اس سے راضی وخوش رہے ۔ جب ہم حضرت زینت ؑ کے اس وقت کے حالات کو یاد کرکے اور ان کی مناجات پڑھتے ہیں تو یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ دنیا میں ایک حقیقی ، حماسی اورعرفانی شخصیت کی اس سے بہتر مثال پیش نہیں کی جاسکتی ہے یا جب دربار یزید میں آپؑ کو طنزاً کہا دیکھ لیا خدا نے تیرے بھائی اور تیرے ساتھ کیا کیا؟ تو کربلا کی شیر دل خاتون عرفان وحماسہ کی شہزاد انتہائی متانت وبلاخوف وتذبذب کمالِ اطمینان وسکون سے جواب دیتی ہے کہ ہم نے کربلا میں خدا کی جانب سے خوبصورتی اور زیبائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔دراصل عاشورہ عشق ، عرفان وحماسہ کا وہ معرکہ تھاکہ ایک طرف اس کی ساری توجہ بطرفِ اللہ رب جلیل اور دوسری طرف اس کی پوری توجہ اجتماعی طور خلق اللہ کی طرف تھا ۔ بقول اقبال
صدق خلیل ؑبھی ہے عشق صبر حسینؑ بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر وحنین بھی ہے عشق
Add new comment