امام خمینی ؒ غیروں کی نگاہ میں
تحریر: سید رضا نقوی
خدا اس بندہ پر رحمت نازل كرے، جسے يہ معلوم ہو كہ وہ كہاں سے آيا ہے، كہاں ہے اور كہاں جائے گا؟ امام علي عليہ السلام
كيا اپني پوري زندگي ميں اس قول جاودانی كو عملي جامہ پہنانے كي كوشش كرنے والے شخص كے لئے حال سے ناداني اور اس كے بارے ميں شك اور مستقبل كے لئے اضطراب اور غم كي كوئي حيثيت رہ جاتي ہے۔؟ كيا اس انسان كے لئے تشويش و پريشاني كي كوئي صورت ہوتي ہے جو عظيم الشان اسلامي تصور كائنات كي بنياد پر يہ سمجھتا ہے كہ وہ خدائے حكيم كي جانب سے اس كائنات كا منتخب ستارہ ہے اور اس دنيا ميں مختصر مدت كے لئے اپني صلاحيتوں اور ناقابل شمار نعمتوں كا امين ہے، اور وہ آزادي و اختيار سے انجام دئيے گئے اپنے اعمال كے مطابق منصفانہ طور پر خدا كي بارگاہ ميں حاضر ہوگا؟ يا وہ شخص جو نيك اعمال انجام دينے كے لئے تيزي سے آگے بڑھتا ہے، تاكہ توشہ سفر کے ہمراہ اوليائے خدا كے ساتھ رضائے الہي كا مستحق قرار پائے؟
اس نوراني حديث كے جملہ اور ’’وہ يہ جانتا ہو كہ كہاں ہے‘‘ كي روشني ميں يہ جاننا ہم سب كا فريضہ ہے كہ ہم كس دنيا ميں زندگي گزار رہے ہيں، يہ دنيا كائنات رنگ و بو ہو يا انساني معاشرہ اور تاريخي، سياسي اور اجتماعي حالات۔ صحيح اور حقيقت پسندانہ طرز پر بالخصوص فرض شناس، باخبر اور متدين علماء كے ذريعہ اس آگاہي كا حصول انسان كے لئے بصريت، اطمينان، ارتقاء اور فرض شناسي كا سبب بنتا ہے اور اسی وجہ سے یہ مطالعات اور آگہی سبب بنتی ہے کہ ہم بیسویں صدی میں ایسے واقعات کے چشم دید گواہ بنتے ہیں کہ جن کا وقوع پذیر ہونا خود ایک معجزہ تھا۔
امام خمینی (رہ) کی ذات گرامی مولا علی علیہ السلام کے اس قول کے مصداق تھی، انہیں پتہ تھا کہ کہاں سے آئے ہیں، کیا کرنا ہے، اور کہاں جانا ہے، خمینی (رہ) بت شکن نے دنیا کو شجاعت، استقامت، جوانمردی، استقلال کے معنی بتا دیئے۔
رہبر معظم بانی انقلاب امام امت خمینی (رہ) بت شکن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ؛
’’قرآنی نقطہ نگاہ سے حقیقی اور کامل عزت اللہ اور اس شخص کے لئے ہے جو الہی محاذ میں شامل ہو ۔۔۔۔۔۔ جب کسی شخص یا معاشرے کو حقیقی معنی میں عزت نفس مل جاتی ہے تو وہ عزت نفس مستحکم حصار کی مانند دشمن کے نفوذ، ہجوم اور تخریبی کوششوں سے معاشرے کی حفاظت کرتی ہے ۔۔۔۔۔ عزت نفس، معاشرے اور افراد کے باطن میں جتنی گہرائی تک اتر جاتی ہے، اس کا تحفظ اتنا ہی نمایاں ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ انسان اور معاشرہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ سب سے بڑے دشمن یعنی شیطان کی دست برد سے بھی بالاتر ہو جاتا ہے۔
امام خمینی رہ، اپنی پوری زندگی کے دوران، تعلیم و تدریس کے دور میں بھی، انقلابی تحریک کے دور میں بھی اور حکومت و انتظامی امور کی انجام دہی کے دور میں بھی، خدائے عزیز و رحیم کی ذات پر توکل کے حقیقی مصداق تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایسے عظیم کام جنہیں لوگ ناممکن اور محال گردانتے تھے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ذات اقدس کی بدولت ممکن نظر آنے لگے اور سد راہ بن جانے والی ناقابل تسخیر دیواریں امام خمینی رہ کے آتے ہی لرزنے لگیں۔ ۔۔۔۔۔ امام خمینی (رہ) قومی عزت نفس کے احیاء کے عمل میں کبھی بھی غرور اور مبالغہ آرائی کی روش اختیار نہیں کرتے تھے، بلکہ ہمیشہ قوم کے اندرونی ڈھانچے کی تقویت پر زور دیتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس عظیم سرزمین میں قومی عزت نفس آج زندگی کی حرارت پھیلا رہی ہے۔‘‘
روس کے پروفيسر ميخائيل لمشف کہتا ہے كہ امام خميني (رہ) نے سياست كو دين كا جزو لاينفك قرار ديا اور اپنے ديني اور الہي ارادہ كے ساتھ ظلم كے مقابلہ ميں کھڑے ہوگئے۔ وہ کہتے ہيں كہ امام راحل نے معاشرہ كي سماجي اور سياسي زندگي كے مختلف حصوں ميں اسلام كو انقلابي تبديليوں ميں ايك بنيادي سبب اور انساني اقدار كا حامي قرار ديا۔ انهوں نے اس نكتہ كي طرف اشارہ كرتے ہوئے کہا كہ امام خميني (رہ) كي پہلی كوشش يہ تھی كہ بيگانہ افكار سے دوري اختيار كريں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امام خميني (رہ) ہميشہ، انسان اور خدا كے نہ ٹوٹنے والے رابطہ پر تاكيد كرتے تھے، آپ نے جوانوں كو عقل اور جذبات كے منبع كے عنوان سے حقيقي اسلام سے جوڑا اور ان كو انحراف سے نجات دي۔
ميخائيل لمشف كہتا ہے كہ بين الاقوامي نقطہ نظر سے امام كي فكر عالم اسلام پرچھا گئي اور آپ اسلام كے سخت دشمن اسرائيل اور امريكا كے مقابلہ ميں کھڑے ہوگئے اور آپ نے ثابت كر ديا كے ايران كا اسلامي انقلاب روس اور فرانس كے انقلاب سے الگ ہے۔ اس نے تاكيد كي كہ امام خميني(رہ) نے اسلام كي جاودانہ تعليمات اور اقدار كي پيروي كرتے ہوئے لوگوں كو ان كي سماجي موقعيت كو مدنظر نہ رکھتے ہوئے برابر سمجھا اور ان كے درميان صلح و برابري اور ان كي آسائش كو اپنا ہدف قرار ديا۔
وہ خوش نصیب افراد کہ جنہوں نے امام خمینی (رہ) سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے وہ اس بات کا اظہار برملا کرتے ہیں کہ امام (رہ) کی شخصیت میں ایسی جاذبیت تھی کہ جسکا اثر روح تک سرایت کر جاتا تھا، بالکل ایسا ہی تاثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے محضر میں تشریف فرما ہوں۔ روبن وڈ امام خميني (رہ) سے اپنے ملاقات كي تفصيل بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:’’جس وقت امام خميني (رہ) دروازہ سے داخل ہو رہے تھے مجھے محسوس ہو رہا تھا كہ معنوي قوتوں كا ايك تيز جھونكا چل رہا ہے۔ گويا اس كتھئي رنگ كي قبا، كالے عمامے اور سفيد ڈاڑھی كے پیچھے روح حيات تھی، جس نے سارے حاضرين كو اپني جانب متوجہ كرليا۔
مجھے اس وقت محسوس ہوا كہ انكے سامنے ہم سب بہت چھوٹے ہوگئے ہيں اور گويا ہال ميں انكے علاوہ كوئي اور نہيں ہے۔ جي ہاں! وہ گويا نور كا ايك جھونكا تھے، جو تمام حاضرين كے روح و دل ميں اتر چكے تھے۔ ميں نے اپنے تئيں انكي شخصيت سمجھنے اور پرکھنے كے لئے جتنے معيار بنائے تھے انہوں نے چشم زدن ميں ان سب كو ناكارہ بنا ديا۔ انكے وجود نے مجھ پر اتنا اثر كيا كہ مجھے محسوس ہوا كہ وہ ميرے جسم و روح ميں سرايت كرچكے ہيں۔
جب و ہ كرسي پربیٹھے، مجھے محسوس ہوا كہ انكے وجود سے نور كي كرنيں پھوٹ رہي ہيں؛ ايسي كرنيں جو طوفان كي مانند ہوں اور اگر ان ميں غور كيا جائے تو محسوس ہوگا كہ ان ميں مكمل اطمينان پوشيدہ ہے۔ كيونكہ امام خميني (رہ) بہت سنجيدہ، مستحكم اور موثر شخصيت كے مالك ہيں۔ درعين حال آپ انہيں انتہائي خاموش اور مطمئن پائيں گے كہ گويا انكے وجود ميں كوئي عظيم قوت كارفرما ہے اور يہي وہ قوت ہے جس نے گذشتہ حكومت كا تختہ پلٹ ديا۔ ايسي شخصيت كسي معمولي انسان كي نہيں ہوسكتي ہے؟ ميں نے آج تك كسي بھی عظيم اور مشہور شخصيت كو ان سے بہتر يا انكے جيسا نہيں پایا۔ ۔۔۔۔ ميں بس اتنا كہہ سكتا ہوں كہ گويا وہ گذشتہ انبياء ميں سے ہيں۔ وہ موسٰی زمان ہيں، جو فرعون وقت كو اسكي سرزمين سے باہر نكالنے آئے ہيں۔‘‘
امام خميني (رہ) كي مسحور كن شخصيت، انكے عظيم افكار اور انكي پاكيزہ زندگي كے بےبہا اثرات ديكھ كر بيروني ممالك كے بہت سے دانشوروں كو كہنا پڑا كہ: ايراني عوام كے لئے امام خميني (رہ) كي آواز خدا كي آواز تھی، كروڑوں فرزندان توحيد كي نظر ميں وہ زمين پر دست خدا تھے اور خاك نشينوں كے لئے آسماني اور ملكوتي تحفہ تھے۔ معنوي اقدار سے لبريز انكا طرز حيات اور شرعي احكام اور اہل بيت علیہم السلام عصمت و طہارت كي تعليمات كي بے چون و چرا پيروي ہر انصاف پسند مسلمان كو اس بات كي يقين دہاني كراتي ہے كہ: گويا وہ صدر اسلام كي ايك عظيم شخصيت ہيں، جو معجزہ كے ذريعہ دنيا ميں واپس لوٹ آئے ہيں، تاكہ امويوں كي كاميابي اور اہل بيت علیہم السلام كے شہيدوں كے خاك و خون ميں غلطاں ہونےكے بعد لشكر خدا كي قيادت كريں۔
امام خميني (رہ) كي الہي شخصيت اور معنوي پيغام نے بہت سے اديان و مذاہب كے پيرووں كو بے حد متاثر كيا، يہاں تك كہ بعض عيسائي مفكروں كے بقول: وہ عيسٰی عصر اور عيسٰي بن مريم كي ظلم مخالف نوراني سيرت كا ايك پرتو تھے اور بعض عيسائيوں نے امام خميني (رہ) كي عظيم شخصيت كے مختلف پہلووں سے بے انتہا متاثر ہونے اور پہلي ہي ملاقات ميں انكے ايك خدائي تحفہ ہونے كے احساس كا تذكرہ كيا۔
اخبار ہیرالڈ بھی امام خميني (رہ) كي عظمت كا اعتراف كرتا نظر آتا ہے۔ وہ لکھتا ہے: آيت اللہ خميني ايك ثابت قدم اور مستقل مزاج انقلابي تھے جو اپني آخري سانسوں تك ايران ميں ايك اسلامي حكومت كے قيام اور اسلامي معاشرہ بنانے كي خواہش پر باقي رہے۔ آيت اللہ خميني كے دل ميں اپنے آبائي وطن كے لئے جو بھی خواہشات تھیں ان سے انہوں نے ايك لمحہ كے لئے بھی منہ نہيں موڑا۔ وہ خود كو اس بات كا ذمہ دارسمجھتے تھے كہ ايران كو مغربي پستيوں اور خرابيوں سے پاك كريں اور اپني قوم ميں اسلامي روح واپس لوٹا ديں۔
امام خمینی (رہ) نے استعمار کی سازشوں کی بدولت دین سے دوری اور دین کو غیر ضروری شے قرار دیئے جانے کو ناکام بنایا اور کچھ اس طرح سے دین کو زندہ کیا کہ مسلمان تو مسلمان، عیسائی، یہودی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی دین کی طرف پلٹنے لگے اور دین کو اپنی زندگی کا لازم و ملزوم حصہ سمجھنے پر مجبور ہوئے ۔۔۔۔۔ وہ قومیں جو ظلم و استبداد کی چکی میں پس پس کر بالکل ناامید ہو چکی تھیں، امام خمینی (رہ) کی ذات اقدس نے ان قوموں کو زندگی عطا کی اور بہار کی نوید دی۔
ایران عراق جنگ کے دوران شہید ہونے والے جوانوں کے وصیت ناموں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام خمینی (رہ) کی ذات نے ان جوانوں پر ایسے نقوش چھوڑے تھے کہ وہ عشق خمینی (رہ) کی آخری حدوں کو پہنچے ہوئے تھے، اگر یہ کہیں کہ انہوں نے خدا رب العزت کی بارگاہ میں مقرب ہونے کا راستہ امام خمینی (رہ) کے وسیلے سے درک کیا تو بے جا نہ ہوگا۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے امام خمینی (رہ) کی ذات سے نکلنے والے نور سے استفادہ کیا، خدا کا کرم تھا ان لوگوں پر جنہوں نے اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے امام خمینی (رہ) کی ذات اقدس کی زیارت کی، انہیں سنا اور انکی باتوں پر عمل کیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر تم خدا کی کونسی کونسی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔؟
Add new comment