علیؑ سے ہماری سچی وابستگی

 

ہمیں چاہئے کہ امام علیؑ کے پیش کردہ اقدار اور اُن کو عزیز اصولوں کی پابندی کے سااتھ' اُن سے وابستگی اختیار کریں۔اِس بارے میں اُن کا ارشاد ہے کہ: انَّ اولی الناس بالا نبیاء اعلمھم بما جاء وا( انبیا سے سب سے زیادہ قریب لوگ وہ ہوتے ہیں جو اُن کی لائی ہوئی تعلیمات سے سب سے زیادہ باخبر ہوں۔ نہج البلاغہ ۔ کلمات قصار ١٩٦) یہ کہہ کر آپ نے اس آیۂ شریفہ کی تلاوت فرمائی کہ: اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا (یقینا ابراہیم سے قریب تر لوگ وہ ہیںجواُن کی پیروی کرتے ہیں اوریہ لوگ پیغمبر اور صاحبانِ ایمان ہیں ۔سورئہ آلِ عمران ٣۔ آیت ٦٨)
قربت اوردوستی کا تعلق خاندان اور رشتے داری سے نہیں ہوتا ۔بلکہ یہ مکتب اور علم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس بنیاد پر کسی شخص کے دوست اور قریبی افراد 'اسکے بیوی بچے اور عزیز رشتے دار نہیں ہوتے 'بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اسکی پیروی کرتے ہیں۔لہٰذا آپ نے اسی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ان ولی محمد (ص) من اطاع اﷲ وان بعدت لحمتہ' وان عدو محمد من عصی اﷲ وان قربت قرابتہ (بے شک پیغمبر کا دوست وہ ہے جو ان کا اطاعت گزار ہے 'چاہے وہ رشتے کے لحاظ سے اُن سے کتنا ہی دور ہو۔ اور آ پ کا دشمن وہ ہے جو آپ کا نافرمان ہو 'چاہے وہ قرابت داری کے اعتبار سے آپ سے کتناہی نزدیک ہو۔ نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار ٩٦)
حضرت نوحعلیہ السلام نے خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کیا: وَ نَاداٰای نُوْح رَّبَّہ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ۔ قَالَ یَانُوْحُ اِنَّہ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَج اِنَّہ عَمَل غَیْرُ صَالِحٍ(بارِالٰہا ! میرا فرزند میرے اہل میں سے ہے اور اہل کو بچانے کے بارے میں تیرا وعدہ برحق ہے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ارشاد ہوا کہ اے نوح! یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے' یہ عملِ غیر صالح ہے۔ سورئہ ہود ١١۔آیت ٤٥' ٤٦)
شاعر کہتا ہے :
کانت مودہ سلمان لھم رحما
ولم یکن بین نوح وابنہ رحم
''اہلِ بیت سے سلمان کی محبت 'اِس بات کا سبب بنی کہ وہ اُن کے اہل شمار کئے گئے لیکن نوح کا بیٹا اُن کا اہل نہ ہوسکا۔''
اِس بنیاد پر پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی قربت کے معنی ہیں اُن کے مشن سے قرابت' اُن کی دکھائی ہوئی راہ سے تعلق اور اُن کے کردار سے رشتہ۔ اور اگر کوئی اپنے آپ کو رسول اﷲ ' حضرت علی اور اہلِ بیت کا پیروکار کہلوانا چاہتا ہے' تو اُسے چاہئے کہ تقویٰ 'اسلام کی راہ میںجہاد' پاکدامنی اور نیکوکاری میں اُن کی پیروی کرے۔
لہٰذا ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے کہ کیا ہم نے خدا اور اسکے رسول کے دین سے وابستگی کے لئے سعی و کاوش کی ہے؟ کیا پاکدامنی' حرام کاموں سے دوری' افکار و نظریات پیش کرنے میں صداقت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کے قیام کے سلسلے میں کوشش کی ہے؟ خداوند عالم فرماتا ہے : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّ لااَا تَفَرَّقُوْا (اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔ سورئہ آلِ عمران ٣۔ آیت ١٠٣)
بعض افراد دینی' سیاسی اور اجتماعی امورمیں موثر کردارکے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن اہلِ بیت سے دوری اور اُن کے ساتھ کمزور وابستگی کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد ' خودمکتب ِ اہل بیت کے پیرو کاروں کے درمیان اخوت' بلکہ پورے اسلام اور تشیع کو خود اپنے ہاتھوں نقصان پہنچاتے ہیں ۔ایسے افراد تشیع' اسلام اور اہلِ بیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں لیکن اس بات کو نہیں جانتے کہ اہلِ بیت ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ اہلِ بیت ہم سے خدا ترسی اور اطاعت ِ الٰہی کا تقاضا کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم صادق و امین بنیں' خدا کے راستے پر چلیں ۔جیسا کہ خدا وند عالم نے اِس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُج وَ لاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن (اور یہ ہمارا سیدھا راستہ ہے' اِس کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جائو' کیونکہ اس طرح راہِ خدا سے الگ ہو جائو گے۔ اسی بات کی پروردگار نے تمہیں ہدایت کی ہے کہ شاید اس طرح تم متقی اور پرہیز گار بن جائو۔ سورئہ انعام ٦۔ آیت ١٥٣)

http://www.balaghah.net/nahj-htm/urdo/id/maq/16.htm

Add new comment