میرے رسول[ص]کے اجداد

پیر سید علی عباس شاہ
سجّادہ نشین آستانۂ عالیہ کندھانوالہ شریف، ضلع منڈی بہاؤ الدین۔

اُم ّ ِ ختم ُ الرّسل ، سیدہ آمنہ شان ِ آیۂ قُل ، سیدہ آمنہ
جن کی مرقد نے ابوا ء معلیٰ کیا باعث فخر کُل ، سیدہ آمنہ

آج کے انتہائی ترقی یافتہ دور میں جب کہ علوم و فنون اپنی معراج کو چھو رہے ہیں اور جینیاتی سائنس ، Genetics کمال ارتقا پر ہے کسی ذی ہوش سے ، Genetic codings اور انتقالِ موروثیت، Heriditary characteristics کی اصطلاحات مخفی نہیں ہیں۔ کم سنِ بچہ بھی یہ جانتا ہے کہ نومولود کی شکل و صورت، رنگ روغن، عادات واطوار، خصائل اور گفتاروکردار میں نسب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہر انسان نصف خصائل، باپ سے اور نصف ماں سے حاصل کرتا ہے اور ان موروثی خصوصیات کے سائے میں حسبی کمالات اجاگر ہوتے ہیں۔
مادہ پرستی کے سیلاب میں غرق معاشرہ جہاں اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں سے حقائق و معارف سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے وہیں ہر دور کے شیاطین کو بھی عوام کی سادگی اور جہالت سے کھل کر کھیلنے اور ورغلانے کے مواقع وافر مقدار میں نصیب ہوتے رہے ہیں اور بدبخت لوگ ان کا فائدہ اٹھاکر آتشِ جہنم کا ایندھن تیار کرتے رہے ہیں۔
ُُخدا کی لعنت:
قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی سورہ ء مبارکہ احزاب کی آیت نمبر 57میں اللہ ربُّ العزت کا فرمان ِعالیشان ہے،
۔ "بے شک جو لوگ خدُا اور اس کےرسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر خدا نے دنیا اور آخرت دونوں میں لعنت کی ہے اور ان کے لئے رسوائی کا عذاب تیار کر رکھا ہے"۔
محقق و فقیہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی اپنے تحقیقی رسالے "السُبُل الجلیّہ" کے صفحہ نمبر 18 پر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ کے لئے اس سے زیادہ ایذا دینے والی کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی کہ ان کے اجدادِ اطہار کے متعلق سوئِ ظن رکھا جائے۔ آپ نے عظمت ِآبائے رسول کے موضوع پر چھ گرانقدر رسالے تالیف فرمائے۔ جو حضرات نبی کریم کے آبائے طاہرین کے متعلق کفریہ عقیدہ رکھتے ہیں وہ قرآنِ مجید کی آیتِمبارکہ کی رو سے اللہ رب العزّت کی لعنت کے حقدار ہیں۔
اسلام دشمن عناصر کی ہمیشہ یہ کوشش اور فرضِ اوّلین رہا ہے کہ حضور نبی کریم کی عظمت اور شان و سربلندی کو ہر ممکن ضرب لگائی جائے تاکہ آپ کا پیغامِ صلح و آشتی اور خدا پرستی کی تعلیمات کو مسخ کیا جا سکے ۔ اسی مزموم مقصد کی خاطر خود ساختہ مفروضے ،خانوادئہ باعثِتخلیقِ کائنات سے منسوب کر کے آسمانِ عظمت کی جانب تھوکنے کی سیاہ حرکات صفحاتِ تاریخ میں نقش ہوتی رہی ہیں۔
ظرف و مظروف:
ظرف اور مظروف، لازم و ملزوم ہیں۔ ظرف پاک ہو گا تو مظروف کی پاکی کا اطمینان ہو گا۔ اگر ظرف کو ہی ناپاک کر دیا جائے تو مظروف کیسے پاک کہلائے گا۔ مظروف، ظرف کا آئینہ دار ہے اور ظرف، مظروف کا۔ جیسا ظرف ویسا مظروف۔ اگر مظروف نورِسیّدالمرسلین ہے تو ظرف کیا ہونا چائیے؟ ۔۔۔۔۔۔؟؟۔
اپنے ظروف کی شان بیان کرتے ہوئے سرکار ختمیئِ مرتبت فرماتے ہیں، " اللہ جلِّ شانہ نے مجھے ہمیشہ پاک اصلاب سے ارحام طِاہرہ میں منتقل فرمایا"۔ ’’اوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُورِی‘‘ کا فرمانِعالیشان، باعثِتخلیقِ کائنات کی ابتدا ہے اور پہلوئے آمنہ سے جلوہ فرمائی اس انتقالِبے مثال کی انتہا ہے۔
اس ابتدا اور انتہا کے درمیان لباسِ بشریت میں نورانی وجود اللہ رب العزّت کی بزرگ ترین مخلوق اور معزز ترین قبیلہ ہے جسے اولادِآدم میں سے آلِ ابراہیم، اولادِ اسمٰعیل، قریش، بنی ہاشم، بنی عبدالمُطّلب اور پھر آلِ محمد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ہر نماز میں اِن پر درودو سلام بھیجا جاتا ہے۔
چور مچائے شور:
اِن مقدّس و معطّر، منوّر و مطہّر ہستیوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے گداگر جب خلافتِرسول پر قابض ہوتے ہیں تو اپنے باپ دادا اور ماں نانی کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کے لئے شانِ رسالت اور عظمتِ آبائےرسول کے متعلق ہرزہ سرائی شروع ہو جاتی ہے۔ اپنی گداگری چھپانے کے لئے اِن کی غربت کے قصےّ گھڑے جاتے ہیں۔ اپنے کفّار آباء واجداد کو جہنم کا ایندھن بنا دیکھ کر ان کے متعلق بدگفتاریاں کی جاتی ہیں۔ اپنی جہالت چھپانے کے لئے مُعلّمِ کائنات کو ان پڑھ قرار دیا جاتا ہے۔
مفروضئہ افلاس:
اُمَّ القریٰ، مکّہ کو آباد کرنے والے پیغمبرِ اکرم کے آبائے طاہرین عرب کے رئیس اور امیر ترین افراد تھے۔ یہ مقدّس گھرانہ عرب کا مقبول ترین اور رئیس گھرانہ تھا اور ان کے ذاتی تعلقات تاریخِ عالم میں اس وقت کی چار بڑی طاقتوں سے قائم تھے۔ ایک طرف قیصرِ روم تھا، دوسری طرف کسریٰ شاہِ فارس، تیسری طرف تُبعَانِ یمن اور چوتھی طرف حبشہ کے نجاشی۔ ان چار بڑی طاقتوں کے طفیلی بادشاہ بھی سیدنا عبدالمطلب کووسیلہ بنا کر حکومتیں لیتے تھے جن میں عراق کے منا ذرہ اور عرب و شام کے مشارفہ، حضرت کی خدمتگاری پر فخر کرتے تھے۔ تبُعانِ یمن کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیف بن ذی یزان کو یمن کی حکومت دلانے کا سہرا بھی سیدنا عبدالمُطّلِب کے سر ہے۔
سیّدنا سعد، جنہیں تاریخ ہاشم کے نام سے یاد کرتی ہے عرب کے رئیس الرّؤسا تھے۔ جب پورے عرب کو قحط نے بری طرح سے لپیٹ میں لے لیا اور بڑے بڑے رئیس دو وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے تو اس کڑے وقت میں روزانہ ہزاروں اُونٹ ذبح کر کے ان کے شوربے میں روٹیاں توڑ کر ڈال دیتے تھے اور لاکھوں قحط ذدہ افراد کو کھانا کھلاتے تھے اور انہیں ایک نئی زندگی عطا فرماتے تھے۔ اسی وقت عربوں نے آپ کو ’’ہاشم ‘‘ کا لقب دیا۔ ہاشم اس سخی کو کہتے ہیں جو اونٹ کے شوربے میں روٹیاں توڑ کر کھلائے۔
اسی طرح یمن، شام اور حجاز میں اس خانوادے کی جائیدادیں اور ان کے متعلق صفحاتِتاریخ میں نقش وصیتیں وہ اہم دستاویزات ہیں جو دشمنانِاسلام کا یہ مذموم پروپیگنڈا توڑ ڈالتی ہیں کہ سرورِ کائنات کے آبائے طاہرین مفلس و تنگدست اور غربت کا شکار رہے۔ یہ عظیم ہستیاں تو کائنات کو رزق تقسیم کرنے والی ہیں اور ان ہی کا صدقہ جملہ مخلوقات کو تقسیم کیا جاتا ہے۔
رئیس ِبطحا سیدنا عمران بن عبدالمُطّلب المعروف حضرت ابوطالب کو ان دشمنان ِرسالت نے غربت کا شکار بیان کیا اور اسی غربت کے باعث مولائے کائنات ،اسدُ اللہ الغالب، علی ابن ابی طالب کو آغوشِ رسالت کے سپرد کرنے کا سبب قرار دیا اور "اَنا و عَلیِِِِ منِ نُورِ وَاحد" کی حدیثِ مبارکہ بھلا دی گئی۔ اگر سیدنا ابوطالب غریب تھے تو حضرت جعفر طیاراور بعد ازاں عبداللہ بن جعفر طیار کو منتقل ہونے والی شام ولبنان اور یمن کے باغات کی وراثت کہاں سے آگئی؟۔
عرش سے نور چلا اور حرم تک پہنچنا:
مقدّس جبینوں، پاکیزہ اصلاب، پاک ارحام سے ہوتا نورِ محمدی، "اِنَّکَ لَمِنَ المُرسَلِین" کے مصداق اجدادِ اطہار کو خراجِ عقیدت دیتا، جبینِعبدالمُطّلب کے بعد دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ نصف نور سیدنا عبداللہ اور نصف سیدنا ابوطالب کو منتقل ہوا۔
سےّسیدناعبداللہ، سےّسیدناابو طالب عمران بن عبدالمُطّلِب سے پانچ برس صغیر السن تھے اور 545عیسوی میں دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کی والدہ معظمہ سیدہ فاطمہ بنتِ عمروبن عائذبن عمران بن مخزوم تھیں۔
سیدنا عبداللہ کے متعلق کتبِتاریخ کے الفاظ ہیں،
۔۔۔" آپ نہایت متین، سنجیدہ و شریف طبیعت کے انسان تھے اور نہ صرف جلالتِنسب بلکہ مکارمِ اخلاق کی وجہ سے تمام جو انانِ قریش میں امتیاز کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے۔ محاسن ِاخلاق اور شمائل مطبوع میں منفرد تھے۔ حرکات موزوں اور لطف و گفتار میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے"۔
آپ کے فدیہ میں سیّدنا عبدالمُطّلب نے سو اونٹ قربان کئے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فخرِ موجودات نے فرمایا، " انا اِبنُ الذ ّبِیحَین " میںدو ذبیحوں، یعنی سیّدنا اسمٰعیل ذبیح ُ اللہ اور سےّدنا عبداللہ ذبیح ُ اللہ کا بیٹاہوں۔
عربی زبان میں تثنیہ کا صیغہ برابری کے لئے استعما ل ہوتاہے۔ فرمان ِرسالت کی روشنی میں حضرت عبداللہ ذبیح ُ اللہ کا مقام و مرتبہ ملاحظہ فرمائیے۔
مرج البحرین :
بحکم ِایزدی سیّدنا عبداللہ کا عقد مبارک بنی زہرہ کے سردار، حضرت وہب بن عبد مناف کی دختر سیّدہ آمنہ سے ہوا۔ اس ذی وقار تقریب کے متعلق طبقات ابن سعد کے الفاظ ہیں،
’’ سیدتنا آمنہ بنت وہب اپنے چچا وہیب ابن عبد مناف ابن زہرہ ابن کلاب کی کفالت میں تھیں۔ حضرت عبدالمطلب حضرت عبداللہ کو لے کر بنی زہرہ کی قیام گاہ پر گئے اور حضرت آمنہ کا خطبہ نکاح اپنے صاحبزادے عبداللہ پدر جناب رسالتمآب سے پڑھا اور آمنہ کو عبداللہ سے بیاہ دیا اور وہیب کی بیٹی ہالہ سے خود خطبہ نکاح پڑھ کر شادی کر لی اور یہ دونوں نکاح ایک ہی مجلس میں بیک وقت واقع ہوئے۔
جنابہ ہالہ کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے ہاں حضرت حمزہ پیدا ہوئے۔
دُرِ ّ یتیم:
عقد مبارک کے آٹھ ماہ بعد ایک قافلہ تجارت کیساتھ واپس آتے ہوئے مدینہ کے قریب علیل ہوئے اور داعیِاجل کو لبیک کہا ۔ وقت انتقال آپ کی عمر مبارک 25 برس تھی۔ سیّدناعبداللہ کی جواں سال موت نے بنی ہاشم کے گھرانے میں کہرام برپا کر دیا۔ سیّدنا عبدالمُطّلب کو پیرانہ سالی میں اپنے جوان، عزیزازجان صاحبزادے کی موت کا شدید صدمہ برداشت کرنا پڑا جس کے باعث آپ کی آنکھوں کی دنیا تاریک ہو گئی۔
سیدتنا آمنہ کا مرثیہ:
سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا نے اس المناک موقع پر جو مرثیہ کہا اس کے چند اشعار کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔
1۔ فرزندِہاشم کی وفات کے باعث کنارہ بطحاکا نام و نشان تک مٹ گیا۔ نوحہ و بکا و گریہ و غوغا کے غیر متمیّز شور میں باہر نکل کے وہ ایک لحد کے مجاور ہو گئے۔
2۔ موت نے انہیں دعوت دی اور انہوں نے وہ دعوت قبول کر لی۔ انسانوں میں کسی ایک کو بھی موت نے ایسا نہ چھوڑا جو فرزندِہاشم جیسا ہوتا۔
3۔ شب میں ان کاتابوت اٹھا کے چلے تو ان کے ساتھیوں نے انبوہ میں تابوتِ اقدس کو دست بدست کیا۔
4۔ اگر آپ فوت ہو گئے تو آپ کے آثارِ خیر تو زندہ ہیں۔ آپ نہایت درجہ فیاض اور بہت رحم دل تھے۔
احمد اور محمد:
امام زہری لکھتے ہیں کہ جب سرکار دو جہاں دنیا میں ظاہر ہوئے تو سیّدہ آمنہ کے پاس ایک فرشتہ آیا اور انتہائی ادب و احترام سے عرض کیا کہ " نو مولود کا اسمِ گرامی احمد ہے" سیدنا احمد کو آپ کے محترم تایا سیّدنا ابوطالب کی آغوش میں دیا گیا تو آپ نے کمال ِمحبت سے دیکھتے ہوئے فرمایا۔" میرا بھتیجا محمدہے" یہ اسمِ گرامی ذات قدرت کو اتنا پسند آیا کہ اسے کلمئہ اسلام بنا دیا گیا۔
جب سے کلمہ اسلام رائج ہے اور جب تک رہے گا تا قیامت " محمدُ رَسول اللہ" اور " اللّٰھُمَ صَلِّ علیٰ سیّدنا و مولانا محمد" پڑھنے والوں کا اجر و ثواب سیّدنا ابوطالب کی بارگاہِ اقدس میں پیش ہوتارہے گا۔
حضرت عبدالمُطّلب کی دعا:
سیدنا عبدالمُطّلب حضور نبی کریم کو لے کر خانہ کعبہ گئے اور اللہ ربُّ العزت سے دعا کرنے لگے اور اس کی بخشش و نعمت پر اس کا شکر ادا کرنے لگے۔ اس پرُ مسرت موقع پر آپ نے یہ اشعارِ متبرکہ ارشاد فرمائے۔
1سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ کو یہ پاک و پاکیزہ اور خوبصورت بچہ عطا فرمایا۔

2مہد میں ہی انہیں دوسرے بچوں پر شرف حاصل ہے میں انہیں اللہ کے گھر کی پناہ میں دیتا ہوں۔
3یہاں تک کہ میں انہیں جوان دیکھوں میں ان کے لئے ہر بغض رکھنے والے اور حسد کرنے والے کے شر سے خدا کی پناہ میں رہنے کی دعا کرتا ہوں۔
ضوابطِ مُطّلَبی:
سیّدنا عبدالمُطّلب نے اپنی عقل و فراست اور ہمت و پامردی سے اہلِعرب میں رائج خرافات و بدعات کو دور کرنے کے لئے " اصول و قواعد" اور ضابطۂ حیات مرتب کیا جنہیں تاریخ میں " ضوابطِ ُُمطلبی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان ضوابط کو قرآنِ مجید اور سنتِنبوی نے بحال رکھا اور آج تک یہ اصلاحات اہل ِاسلام میں رائج ہیں۔
1۔ایفائے نذر۔ 2۔دیت یعنی خون بہا۔ 3۔محرم عورتوں سے نکاح کی ممانعت۔ 4۔گھروں میں صرف دروازے سے داخل ہونا۔ 5۔چور کا ہاتھ کاٹنا۔ 6۔لڑکی پیدا ہونے پر قتل نہ کرنا۔ 7۔مباہلہ کرنا۔ 8۔شراب کو حرام قرار دینا۔
9۔زنا کو حرام قرار دینا۔ 10۔حدِ زنا یعنی زنا کی سزا۔ 11۔قرعہ ڈالنا۔ 12۔برہنہ حالت میں طوافِکعبہ کی ممانعت۔ 13۔پاک کمائی سے حج کرنا۔ 14۔حرمت کے مہینوں میں فساد و قتال سے گریز۔ 15۔فاحشہ عورتوں کو مکّہ سے خارج کرنا۔
سیرتِ عبدالمُطّلب کے اہم گوشے:
سیدنا عبدالمُطّلب کی سیرتِ مبارکہ، طیبہ طاہرہ، بلا شبہ سنتِرسول ہے اور آپ کی حیاتِ مبارکہ کے چند اہم کارہائے نمایاںیہ رہے۔
1۔ ایفائے عہد کرتے ہوئے اللہ کی راہ میںمحبوب ترین صاحبزادے حضرت عبداللہ کی قربانی، جو کہ سنتِ ابراہیم خلیل اللہ ہے۔
2۔ چاہِ زمزم کی دوبارہ کھدائی کرنا اور اس دوران نعرۂ تکبیر بلند کرتے رہنا۔
3۔ اللہ رب العزت کا آپ کی دعا کے بعد ابابیلوںکی فوج بھیج کر کعبہ اللہ کی حفاظت کرنا اور ابرہہ کے لشکر کو برباد کر دینا۔اس اہم واقعہ کو قرآنِ پاک میںسورہ الفیل میں بیان کیا گیا ہے۔
4۔ آپ کی دعائے استسقاء کی برکت سے اہلِ عرب کی طویل قحط سالی سے نجات۔
5۔ آپ کی اونٹنی کے پیروں کے نیچے بن جانے والے گڑھے میںچشمۂ آب نمودار ہونا اور لق دق صحرا میں بھٹکے ہوے ہزاروں لوگوں کی جانوں کا بچ جانااور اس معجزے کے باعث آپ کو چاہِ زمزم کا مالک تسلیم کر لیا جانا۔
6۔ آپ کے نافذکردہ احکامات ’’ضوابطِ مُطّلبی‘‘ کااسلام میں قرآن و حدیث مبارکہ کے ذریعے برقرار رہنا۔
وفاتِ عبدالمُطّلب:
حضرت عبدالمُطّلب علیہ الصلاۃوالسلام جب عالمِ فنا سے دارالبقا تشریف لے کر جانے لگے تو عزیز از جان یتیم پوتے کی کفالت و حفاظت کی فکر دامن گیر ہوئی۔کافی غور و فکر کے بعددوشِ ابوطالب کا انتخاب ہوا اور انہیںہدایت فرمائی۔
’’۔دیکھو! اِن کی حفاظت کرنا۔انہوں نے نہ باپ کا لطف دیکھا ہے نہ ماں کی مامتا۔یہ آپ کے جگر کی مانند ہیں۔میں نے اپنی تمام اولاد میں آپ کا انتخاب کیا ہے۔اِس لئے کہ آپ اِن کے والد کے حقیقی بھائی ہیں۔
سیدنا ابو طالب نے پدر بزرگوار کی ہدایت پر عمل کرنے کا عہد فرمایا،جس پر حضرت عبدالمُطّلب نے فرمایا، ’’اب موت آسان ہو گئی‘‘۔
یہ عظیم المرتبت سعادت حضرت عبدالمطلب کے بعد سیدنا ابو طالب کو نصیب ہوئی۔حضرت ابو طالب کو زمہ داری سونپنے کے بعد سیدنا عبدالمُطّلب کی زبانِ اقدس سے یہ اشعار وارد ہوئے۔
1۔ میں نے ابوطالب جیسے تجربہ کارودانا کو وصی بنایاہے۔
2۔ اُن کے صاحبزادے کا جو مجھے انتہائی عزیز و محبوب تھااور اب جن کے واپس آنے کی کوئی امید نہیںہے۔
سیدنا عبدالمُطّلب،قریش کے سردار کی حیثیت سے صنعاء،یمن گئے اور سیف بن زوالیظن کو اس کی تخت نشینی کی مبارکباددی۔یمن سے واپسی کے چند ہی دن بعد 579 ء میں 140برس کی عمر مبارک میں آپ نے مکّہ معظمہ میں انتقال فرمایا اور اپنے آبائی قبرستان ’’ حجون‘‘ میں دفن کئے گئے جو ’’جنت المُعلّٰی ‘‘ ہے۔
حضرت عبدالمُطّلب خاندانی وجاہت و عظمت کا نشان،امارت و صولت کا مرکز،زمزم و کعبہ کے متولی،غارِحرا کے عابد،عظمتِ رسالت کے محافظ،مصیبت زدوں کے غمگسار،اپاہجوں کے مددگار، شرافت کا نشان،مجیب الدعوٰۃ، قبولیتِ دعا کا ذریعہ،لواء کے مالک،اللہ رب العزّت کی وحدانیت کے داعی، مُبَلِّغ،قائدِملّت و حاکمِ وقت تھے۔
ُُنورِرسالت اورآغوشِ ابوطالب:
حضرت عبدالمُطّلب کے انتقالِ پرملال کے بعدنورِرسالت کی حفاظت کے لئے سےسیدناابو طالب کمربستہ ہوگئے اور ہر محاز پر کفّارِ مکہ اور جہلائِ عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔حضور نبی کریم کو اپنی اولاد سے بڑھ کر شفقت و پیار دیااور بچپن ہی سے اپنے صاحبزادوں سیدنا طالب و عقیل و رجعفروعلی کو ناموسِ رسالت پر مر مٹنے اور کٹ جانے کا سبق دیا۔
مقاطعۂ قریش میں حصارِ رسالت کے لئے شعبِ ابی طالب سے کون واقف نہیں اور اس دوران پیارے مصطفی کے بستر پر علی مرتضٰی شیرِخُدا اور جعفرطیار کو ُسلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے ابو طالب کے علاوہ اور کون ہیں۔
حضرت ابو طالب اور آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسدسلام اللہ علیہانے حضور نبی کریم کی اسطرح حفاظت و غمگساری فرمائی کہ آپ ان مقدس ہستیوں کو یاد کر کے اکثرآبدیدہ ہو جاتے اور اِن کے لئے دعا فرماتے تھے۔حضرت فاطمہ بنتِ اسد کی وفات پر حضور نبی کریم نے اپنا کرتہ مبارک آپ کے کفن کے لئے بھیجااور ان کی قبرِاقدس میں لیٹ گئے اور گریہ زاری فرمائی۔
تاریخ گواہ ہے ، جب بھی اسلام نازک دور سے گزرا ہے اولادِ ابوطالب نے اپنا خُون مبارک دے کر اس کی آبیاری فرمائی ہے۔حضرت ابوطالب پہلے نعت گو ہیں او ر ’’دیوانِ ابوطالب‘‘ حمد و نعت سے لبریز ہے۔آپ فرمایا کرتے تھے،
’’میرے بھتیجے!یہ کفُارِ مکہ ہر گز آپ تک نہیں پہنچ پائیںگے،یہاں تک کہ مجھے مٹی میںدفن کر دیں اور میری قبر سے گزر کر آئیں‘‘۔
کفاّرِ مکہ نے منصوبہ سازی کی ۔ابوطالب کے جانے کاانتظار کرتے ہیں،جب ابوطالب دنیا سے جائیں گے تو محمد جانیں اور ہم۔ابو طالب دنیا سے چلے گئے۔کفارِ مکہ اکٹھے ہو کر شمعِ رسالت گُل کرنے آئے۔پیغمبرِاکرم نے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ قرار دیا۔کفار مکہ کے حملے روکنے کے لئے ابوطالب کے صاحبزادے علی مرتضیٰ شیرِخدا،جعفرطیار،عقیل اور طالب نے حصارِ رسالت کر لیا۔کفار کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
ابو طالب کے جلیل القدربیٹے علی نے اسلام کو اپنے یدُاللّٰہی بازوؤں کے حصار میں لے لیا۔دعوتِ ذوالعشیرہ سے لے کر بدر و احد،خندق و خیبر،اور فتحِ مکہ کے معرکے ابوطالب کے لختِ جگرنے سر کر لئے۔کفارِ مکہ مزیدانتظار میں پڑ گئے۔ابو طالب کا بیٹا معاملات الجھا رہا ہے۔انتظار کرو، ایک دن یہ بھی دنیا سے جائے گا۔پیغامِ محمدجانے اور ہم۔ابو طالب کا صاحبزادہ شہید ہو کر شہادت کو سرُخرو کر گیا۔ کفارِمکہ اکٹھے ہوئے۔شمعِ رسالت گُل کرنے کا منصوبہ بنا۔ابوطالب کا پوتا اسلام کا محافظ بن گیا۔
حقّاکہ بنائے لا الٰہ است حسین، سےّدنا حسین ابنِ علی کی لازوال قربانی، اسلام کی ابدی بقا بن گئی۔ابوطالب کے بغض میںآپ کے پوتے کو خاک و خون میںغلطاں دیکھ کرکفّارِ مکہ جو اب منافقین کا روپ دھار چکے تھے،و حشیانہ رقص کرنے لگے۔ آپ کے جسدِاطہر کو گھو ڑوں کے سموں تلے پامال کر دیا گیا۔ریت کے ذرّے اور حسین کا گوشت یکجا ن ہو گئے۔کفّارِ مکّہ کے لئے بظاہر راہ ہموار ہو گئی ۔ ’’محمدجانیں اور ہم‘‘ ابوطالب کا پوتا حفاظتِ محمدی میں سرخرو ہوا تو ابو طالب کی پوتی نے بڑھ کر حصارِ محمدی کا منصب سنبھال لیا۔
ابوطالب کی پوتی ،سیدہ زینب بنتِ علی پیغامِ محمد کی ترجمان بن گئیں۔
۔ٔ۔اے مؤرخ، وقت کے مغرور کرداروں سے پوچھ
پوچھ، تاریخِ عرب کے سب ستمگاروں سے پوچھ
کربلا کی ٹوٹتی ، بے لو چ تلواروں سے پوچھ
شام کی گلیوںسے،چوراہوںسے، بازاروں سے پوچھ
ذرّےّت کس کی یزیدی حوصلوں پہ چھا گئی
کس کی پوتی ، ظلم و استبداد سے ٹکرا گئی
جس نے بخشی تھی تجھے توقیرِ عرفاں ، یاد کر
اے بنی آدم ، ابو طالب کے احساں ، یاد کر
بلا شبہ ،اسلام مقروض ہے سےّدنا ابوطالب کے احسانات کااور آپ کی ذرّیتِ طیبہ کے احسانات کا۔اِن احسانات کا بدلہ یوں چکایا گیا ہے کہ تا قیامِ قیامت آنے والی نسلِ رسول،اولادِ ابوطالب ہے۔پیغمبرِاکرم اور سےّدنا ابو طالب باہمی الفت و محبت ’’مَرجَالبَحرَینِ ےَلتَقِیان‘‘ کی صورت میں آئی ہے۔
سےّدنا محمد کی اکلوتی دختر نیک اختر اور سےّدنا ابو طالب کے مولودِ کعبہ صاحبزادے کا عقد،اسلام کی بقا و سربلندی اور حفاظت کا ایسا مضبوط حصار ہے جسے وقت کے کئی یزیدتوڑنے کی ناکام کوششیں کر چکے ہیں۔یہ حصار آج بھی قائم ہے اور سادات بنی فاطمہ،اولادِابوطالب اِس حصار پہ پہرا دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔
تاجدارِ انبیائ اور زیارتِ سےّسیدنا عبداللہ :
جب حضور نبی کریم کا دنیوی سنِ اقدس چھ برس ہواتو آپ کی والدۂ معظمہ،سےّدہ،طاہرہ، سیدہ آمنہ صلوٰۃُاللہ و سلامُہُ علیہا، آپ کو لے کر اپنے تاجدار،سےّدنا و مولانا حضرت عبداللہ کی قبرِ اطہر کی زیارت کے لئے مکّہ معظمہ سے مدینہ منورہ ،بنی عدی النجار کے قبیلے میں تشریف لائیں۔قبرِ سےّدنا عبداللہ کی زیارت فرمائی اور حضور کی آپ کے ننھیالی رشتہ داروںاور اعزّا و اقارب کو زیارت کرائی ۔
زیارتِ قبرِ سیدنا عبداللہ سے واپسی پر ’’ابواء شریف‘‘ کے مقدس مقام پر سےّدہ آمنہ بنتِ وہب نے دنیائے فانی سے انتقال فرمایا، اور حضور سرورِ کائنات شفقتِ پدری کے بعد آغوشِ مادری سے بھی جدا ہو گئے۔سےّدہ آمنہ کی کنیز ،اُمّ ِایمن آپ کے ہمراہ تھیں۔والدۂ معظمہ کو ’’ابواء شریف ‘‘ کی بہشت میں سپردِخُدا فرمانے کے بعدآپ کچھ روز وہیں قیام پذیراور خاکِ ابواء پہ آنسوؤںکا نذرانۂ عقیدت پیش فرماتے رہے۔اُمّ ِایمن کی انگلی تھامے تاجدارِکائنات،والدۂ معظمہ کی قبرِ اطہر سے رخصت ہوئے تو زار وقطار روتے ،باربار مُڑ کر امّی جان کی قبر کو دیکھتے جاتے تھے اور آپ کی شفقت و محبت سے محرومی کو محسوس کرتے تھے۔
سےسیدہ آمنہ کے آخری اشعار۔:
جب سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہا،دنیا سے تشریف لے جانے لگیںتو فخرِ موجودات آپ کے سرہانے کھڑے تھے۔یکایک آپ نے اُن کے چہرۂ اقدس کی زیارت کی اور یہ اشعار ارشاد فرمائے۔
1۔ اے صاحبزادے! خُدا آپ کو بابرکت کرے۔اے اُس عظیم الشان باپ کے فرزندجو سردار اور رئیسِ قوم تھا۔
2۔ جس نے خُدائے برتر و اعلیٰ اور صاحبِ جودوسخاکی مدد سے نجات پائی اور جن کے لئے اُس روز صبح تیروں سے قرعہ اندازی ہوئی۔
3۔ جن کے لئے ایک سو شریف النسل اونٹ فدیہ کئے گئے۔اور جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا ہے۔
4۔ آپ، خُدا وندِ ذوالجلال والاِکرام کی جانب سے اہلِ عالم کے لئے نبی مبعوث ہوں گے۔
5۔ آپ، حلال و حرام میں نبی مبعوث ہوں گے اور با لتحقیق آپ ،پیغمبرِاسلام ہوں گے۔
6۔ آپ، اپنے جد کے ابراہیم کے دین میں نبی ہوں گے اور اللہ آپ کوبتوں کے شر سے بچائے گااور آپ اقوامِ عرب سے اصنام پرستی میںدوستی و موالات نہیں رکھیں گے۔
یہ اشعار پڑھ کرآپ سلام اللہ علیہا نے فرمایا،
’’ ہر ذی روح کو مرنا ہے اور ناپید ہونا ہے۔میں ضرور مر رہی ہوںلیکن میرا ذکر باقی رہے گاکیونکہ میں خیرمحض کو چھوڑے جا رہی ہوں،جنہیں میں نے طیب و طاہر پیدا کیا ہے‘‘۔
حیاتِ دنیا میںتجلیّا تِ نبوی:
دنیا میںآمد کے سات روز بعد ۔۔۔۔۔ وحیء الٰہی کے مطابق والدۂ معظمہ نے اسمِ گرامی احمد رکھا اور چچا ابوطالب نے محمد۔
سن ِ اقدس چھ برس ۔۔۔۔۔ والدۂ معظمہ کے ساتھ مدینہ منورہ کا سفر کیا اور والدبزرگوارکی قبرِاطہر کی زیارت کی۔واپسی پر ابواء شریف میں والدہ صاحبہ کا انتقال پرملال ہو گیا۔ دادا حضور سیدنا عبدالمُطّلب کی کفالت کا آغاز ہوا۔
سن ِاقدس آٹھ برس ۔۔۔۔۔ دادا حضورکا انتقال ہو گیا۔چچا ابوطالب کی خدمات کا آغاز ہوا۔
سن ِاقدس بارہ برس ۔۔۔۔۔ چچا ابوطالب کے ہمراہ شام کا پہلا تجارتی سفر۔
سن ِاقدس بیس برس ۔۔۔۔۔ حرب الفُجّار میںشرکت۔امن و امان کی بحالی اور انسانی خدمت پر مبنی حلف الفضول میں شرکت۔
سن ِاقدس پچیس برس ۔۔۔۔۔ صادق اور امین کے لقب سے شہرت اور اُمّ الموء منین سےّدہ خدیجہ الکُبرٰی صلوٰۃُاللہ و سلامُہُ علیہا سے پہلا عقد مبارک۔بوقتِ عقد سےّدہ ،طاہرہ کی عمر مبارک اٹھائیس برس تھی اور یہ آپکا پہلاعقد تھا۔
سن ِاقدس پینتیس برس ۔۔۔۔۔ خانۂ کعبہ کی تعمیرِنو اور حضورکے دستِ مبارک سے حجرِ اسود کی تنصیب۔
سن ِاقدس چالیس برس ۔۔۔۔۔ اعلانِ رسالت ۔مالکِ کائنات کی طرف سے عالمین کے لئے خاتم ُالمرسلین مبعوث ہوئے۔
سن ِاقدس ترتالیس برس ۔۔۔۔۔ فیضانِ الکوثر،سےّدہ فاطمہ الزہرا صلوٰۃُاللہ و سلامُہُ علیہا کی عطائے الٰہی۔
سن ِ اقدس چوالیس برس ۔۔۔۔۔ علی الاعلان تبلیغِ دین۔
سن ِاقدس پینتالیس برس ۔۔۔۔۔ مشرکینِ مکہ کے ظلم وستم کے باعث حضرت جعفر طیار کی زیر ِقیادت گیارہ مرد اور چار عورتوںکی حبشہ کو ہجرت۔
سن ِاقدس چھیالیس برس ۔۔۔۔۔ دارِارقم میں تبلیغی امور،حضرت امیر حمزہ سےّدالشہداء کا اعلانِ اسلام۔
سن ِاقدس سینتالیس برس ۔۔۔۔۔ مقاطعۂ قریش، شعبِ ابی طالب میںمحصوری۔
سن ِ اقدس اڑتالیس برس ۔۔۔۔۔ معجزۂ شقُّ ا لقمر۔
سن ِاقدس اُنچاس برس ۔۔۔۔۔ شعبِابی طالب میں محصور رہے اور سختیاں برداشت فرماتے رہے۔
سن ِ اقدس پچاس برس ۔۔۔۔۔ سماجی مقاطعہ کی دستاویز کو حکمِ خُدا وندی سے دیمک نے چاٹ لیااور اِس میں صرف اللہ رب العزت کانام باقی رہ گیا۔اسطرح مقاطعۂ قریش ختم ہوا اور بنی ھاشم اپنے گھروں کو واپس آ گئے۔ اسی سال پہلے آپ کے عزیز از جان تایامحترم سےّدنا ابوطالب اور کچھ ہی دن بعد عدیم المثال رفیقۂ حیات، سےّدہ خدیجہ الکُبرٰی کا وصال پُرملال ہوا۔حضورنے اس سال کو ’’عامُ الحزن‘‘ قرار دیا۔
سن ِ اقدس اکیاون برس ۔۔۔۔۔ یثرب سے آنے والے چھ افراد نے اسلام قبول کیا۔
سن ِ اقدس باون برس ۔۔۔۔۔ معراج ُالنبی۔حضورحرمِ کعبہ سے سےّدہ اُمّ ِہانی بنتِ ابی طالب کے گھر اور پھر وہاں سے مسجدِاقصیٰ اور عرشِ مُعًلّٰی کو تشریف لے گئے۔
سن ِاقدس تریپن برس ۔۔۔۔۔ مدینہ منوّرہ کے تہتر مرد اور دو عورتیںمشرّف بہ اسلام ہوئیں، اور آپ کومدینہ میں اپنامرکزِ دعوت بنانے کی پیشکش کی۔
سن ِاقدس چوّن برس ۔۔۔۔۔ ہجرتِ مدینہ۔مولائے کائنات امام علی کو بستر پر لٹا کر حضورعازم ِ مدینہ ہوئے۔اسی موقع سے اسلامی قمری تقویم کا آغازہوا۔
سن ِاقدس پچپن برس ۔۔۔۔۔ اکلوتی صاحبزادی سےّدہ فاطمۃُ الزھراکی رخصتی۔جنگِ بدر پیش آئی۔
سن ِاقدس چھپنّ برس ۔۔۔۔۔ غزوۂ اُحد۔عزیز چچا سےّدنا امیر حمزہ سےّدالشہداء کی شہادت۔نواسۂ رسول ، سےّدنا اما م حسن مجتبیٰ علیہ التحیتہ والثناء کی آمد۔
سن ِاقدس ستاون برس ۔۔۔۔۔ نواسۂ رسول ، سےّدنا اما م حسین شہیدِکربلا کی آمد۔
سن ِاقدس اٹھاون برس ۔۔۔۔۔ غزوۂ خندق۔
سن ِ اقدس انسٹھ برس ۔۔۔۔۔ صلحِ حدیبیہ۔
سن ِاقدس ساٹھ برس ۔۔۔۔۔ غزوۂ خیبر۔حضرت جعفر طیارکی قیادت میںمہاجرین ِحبشہ کی واپسی۔حضور کااظہارِمسرّت۔
سن ِاقدس باسٹھ برس ۔۔۔۔۔ حجۃ ُالوِداع۔غدیرِخُم کے مقام پر اعلان ِ خلیفۂ راشد۔تیسرے نواسے سےّدنا محسن کی آمد۔حج سے واپسی پر تغےّرِصحت۔
سن ِ اقدس تریسٹھ برس ۔۔۔۔۔ انّالِلّٰہ و اِنّا الَیہ راجعُون۔

شان ِوحدت پہ نثار ، آبا ء و اجدادِرسول
عظمتوں کے کوہسار ، آباء و اجدادِ رسول
شان ِوحدت پہ نثار ، آبا ء و اجدادِ رسول
یہ خُدا کے برگزیدہ ، پاک ، پیارے ، عبد ہیں
ذی حشم او ر ذی وقار ، آباء واجداد رسول
خانۂ کعبہ کے متولّی رہے ہر دور میں
ہیں صفا مروہ کا ہار ، آباء واجداد رسول
آل ِ ابراہیم ہیں ، سےّد ، قریشی ، ہاشمی
حق نُما ، حق کی پکار ، آباء واجداد رسول
یہ ذبیح ُاللہ کے لختِجگر ، پیارے نبی
ہاجرہ کا ہیں سنگھار ، آباء واجداد رسول
پاک صلبوں ، پاک پشتوں اور پاک ارحام سے
گزرے احمد بار بار ، آباء واجداد ِرسول
یہ ابو طالب و عبدالمُطَّلِب کا خانداں
یہ ہیں عبداللہ کا پیار ، آباء واجداد رسول
جن کا ہر اِک نامور شخص ِ عظیم المرتبت
ہے مقرّبِ کردگار ، آباء واجداد ِرسول
بخشوا دیں گے یہ ایماں ہے علی عبّاس کا
روزِ محشر میں او یار ، آباء واجداد ِرسول

Add new comment