حضرت امام محمد تقی الجواد علیه السلام
نام، کنیت اور القاب
آسمان امامت کے نویں چاند، سلسله عصمت کی گیارھویں کڑی، حضرت امام محمد بن علی التقی علیه السلام هيں که آپ کا اسم گرامی "محمد" کنیت "ابو جعفراور ابو علی"هیں.
کتب سیرت اور تاریخ میں آپ کیلئے متعدد القاب ذکر هوئے هیں "تقی، منتجب، مرتضی، مختار، متوكل، متقي، زكي، قانع، عالم [1]، جواد، صادق، صابر، فاضل، عالم ربانی، قرة عین المؤمنین، غیظ الملحدین اور نور الساطع [2] وغیره هیں جن سے آپ کی همه گیر جامع، علمی، اخلاقی شخصیت کا اندازه هوتا هے.
ولادت باسعادت:
بعض نقل کے مطابق آپ رمضان المبارک[3] سنه 195ھ کو پیدا هوئے[4]۔ دوسرے بعض مؤرخین کے بقول آپ اسی سال کے دهم رجب المرجب کو مدینه منوره میں پیدا هوئے[5]۔ حسین بن روح نے ناحیه مقدسه سے ماه رجب میں پڑھنے کی جو دعا نقل کی هے وه اس دوسرے قول کی تائید کرتی هے "اللهم إني أسألك بالمولودين في رجب : محمد بن علي الثاني ، وابنه علي بن محمد المنتجب. "[6]
مادر گرامی:
آپ کی مادر گرامی ام المؤمنین حضرت ماریه، قبطیه کے قبیله سے تھیں۔ آپ کا نام سبیکه، ریحانه یا درّه تھا۔ حضرت امام رضا علیه السلام نے خیزران نام رکھا تھا۔ آپ ایک پرهیزگار پاکیزه اور باعظمت خاتون تھیں جن کی عظمت کے لئے یہی کافی هے که آپ ایک امام معصوم کی همسر اور دوسرے کی ماں قرار پائیں.
حضرت امام رضا علیه السلام نے اپنے پدر بزرگوار سے،اور انھوں نے پیغمبر اکرم سے نقل کیا که آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا : " بأبي ابن خيرة الإماء ، النوبية ، الطيبة " [7] میرے ماں باپ فدا هو نوبیه کےبهترین اور پاکیزه کنیز کےبیٹے پر.
اور حضرت امام حسن العسکری علیه السلام نے اپنی جده، مادر حضرت امام جواد علیه السلام کے بارے میں فرمایا : خُلقت طاهرة مطهرة .وهی ام ولد تكنى بأُم الجواد ، وأُم الحسن وكانت أفضل نساء زمانها .[8] آپ پاک وپاکیزه پیدا هوئیں۔ آپ ام ولد تھیں، آپ کی کنیت ام الجواد اور ام الحسن تھی اور آپ اپنے زمانے کی تمام عورتوں سے افضل تھیں.
کیفیت ولادت:
جب جناب خیزران کی حمل کا پته چلا تو جناب حکیمه بنت موسی بن جعفرع نے ایک خط کے ذریعه امام رضا علیه السلام کو مطلع کیا۔ امام هشتم علیه السلام نے اس خط کے جواب میں لکھا : " إنها علقت ساعة كذا ، من يوم كذا ، من شهر كذا ، فإذا هي ولدت فالزميها سبعة أيام " . [9] فلاں مهینه کے فلاں تاریخ اور فلاں وقت کو حمل ٹھرا هے جب ولادت هو جائے تو سات دن تک ان کے ساتھ رهنا.
جناب حکیمه کهتی هیں جب ولادت کا وقت قریب پهنچا تو میرے بھائی نے مجھے بلایا اور فرمایا: اے حکیمه، آج کی رات خیزران کے هاں ولادت هونے والی هے لهذا آپ ولادت کے وقت ان کے پاس ٹھریں۔ جب رات هوئی تو دستور دیا قابله کے همراه خیزران کے کمرے میں داخل هو جاؤں۔ آپ علیه السلام نے ایک چراغ جلایا اور دروازه بند کر کے چلے گئے۔ جب درد حمل شروع هوا اور هم نے طشت پر رکھا اتنے میں چراغ گل هوا، هم پریشان اور مضطرب هو گئے۔ اتنے میں ناگهاں هم نے مشاهده کیا که ایک نور الهی سے پورا کمره روشن هوا هے اور حضرت ابو جعفر ( امام محمد تقی) طشت میں آگئے جبکه آپ کے جسم مبارک پر کپڑے کی مانند ایک نازک پرده تھا جس سے نور اس طرح ساطع تھا که هم چراغ سے بے نیاز هو گئے .[10]
جناب حکیمه کهتی هیں میں نےآپ ع کو اپنی گود میں لیا اور اس پردے کو جو آپ ع کے پورے جسم پر موجود تھا اٹھا لیا اور کپڑه پهنایا۔ اتنے میں حضرت امام رضا علیه السلام داخل هو گئے بچے کو مجھ سے لیا اور گهوارے میں رکھ کر مجھ سے فرمایا : يا حكيمة الزمي مهده " اے حکیمه ان کے گهوارے کے ساتھ رهنا .
گهوارے میں تکلم کرنا :
جناب حکیمه کهتی هیں که : جب آپ ع پیدا هوئے تو آپ ع نے "أشهد أن لا إله إلا الله" پڑھا اور ولادت کے تیسرے دن جب آپ ع کو چھینک آئی تو کها : الحمد لله ، وصلى الله على محمد وعلى الأئمة الراشدين .[11] اور بعض دوسرے نقل کے مطابق ولادت کے تیسرے دن آپ علیه السلام نے آنکھیں اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا پھر دائیں اور بائیں طرف دیکھا اور پھر فرمایا : أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا رسول الله ، تو میں جلدی فریاد کرتی هوئی حضرت رضا ع کے پاس آئی اور کها : لقد سمعت من هذا الصبي عجبا میں نے اس بچے سےعجیب چیز سنی، تو امام علیه السلام نے فرمایا : وما ذاك ؟ وه کیا تھی ؟ تو جناب حکیمه کهتی هیں میں نے واقعه سنایا تو امام نے فرمایا : يا حكيمة ما ترون من عجائبه أكثر .اے حکیمه اس مولود سے اس سے کهیں زیاده عجائبات دیکھنے کو مليں گے .[12] شاید اس سے امام علیه السلام کا مقصد کم سنی میں حضرت امام محمد تقی علیه السلام کے منصب امامت پر فائز هو کر کرامات دکھانا مقصود هے.
بابرکت مولود:
حضرت امام جواد علیه السلام کے بارے میں متعدد مقامات پر امام رضا علیه السلام نے یه تعبیر استعمال کی هے که اسلام میں اور شیعوں کے لئے ان سے بابرکت کوئی مولود پیدا نهیں هوا هے.
ابو یحیی صنعانی کهتے هیں که: میں حضرت امام رضا علیه السلام کی خدمت میں تھا اتنے میں آپ ع کے فرزند ابو جعفر کو لایا گیا جو که چھوٹے تھے تو آپ ع نے فرمایا : هَذَا الْمَوْلُودُ الَّذِي لَمْ يُولَدْ مَوْلُودٌ أَعْظَمُ بَرَكَةً عَلَى شِيعَتِنَا مِنْه .[13] یه وه فرزند هے که همارے شیعوں کے لئے ان سے بابرکت کوئی مولود پیدا نهیں هوا هے.
ابن اسباط اور ابو اسماعیل عباد دونوں کهتے هیں که: إنا عند الرضا عليه السلام بمنى إذ جئ بأبي جعفر عليه السلام هم منی میں امام رضا علیه السلام کے خدمت میں حاضر تھے اتنے میں ابو جعفر ( امام محمد تقی ) علیه السلام کو لایا گیا تو هم نے کها : هذا المولود المبارك ؟ کیا مبارک فرزند یهی هیں؟ تو امام علیه السلام نے فرمایا :نعم ، هذا المولود المبارك الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه . [14] هاں یه وهی مولود هے که اسلام میں ان سے بابرکت کوئی مولود پیدا نهیں هوا هے.
اسلام میں مخصوصا شیعوں کے هاں امام جواد علیه السلام کے بابرکت ترین مولود هونے کی متعدد اسباب هو سکتے هیں۔ چونکه شیعوں کو آپ کی ولادت سے زیاده کسی دوسرے امام کی ولادت کا انتظار کرنا نهیں پڑا۔ چونکه حضرت امام رضا علیه السلام کی عمر شریف 45 سال سے بھی زیاده هو چکی تھی لیکن صاحب فرزند نهیں هوئے تھے اس لئے لوگوں کے درمیان ایک شک کی سی کیفیت طاری هو گئی تھی که کهیں حکومت بنی عباس آپ کو صاحب فرزند هونے سے پهلے شهید نه کر دے مخصوصا فرقه واقفیه جو حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کے پرده غیب میں جانے کے معتقد هوئے تھے اور امام رضا علیه السلام کی امامت کے منکر تھے۔ وه اسی مطلب پر زور دیتے هوئے که آپ کے کوئی فرزند نهیں هیں لوگوں میں شک وشبهه ایجاد کر رهے تھے۔ آپ کی ولادت با سعادت نے ان کے تمام تر حربوں کو نقش برآب کردیا اور لوگوں کے سارے شکوک وشبهات دور هو گئے۔ اس سے بڑھ کر مبارک بات اور کیا هو سکتی هے.
امام علیه السلام بزرگوں کے کلام میں:
ویسے تو ایک امام معصوم کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم هے چونکه امام اپنے زمانے کے سب سے عظیم اور انسان کامل هوتے هیں لیکن پھر بھی کامل ، زیبا اور نابغه شخص کو دیکھ کر هر کوئی اپنے سے کوئی تعریف کر دیتا هے۔ آپ ع کی عظمت اور بزرگی کے بارے میں بهت ساروں نے، مخصوصا آپ ع کے همعصر علماء اور شخصیات نے، ایسےکلمات بیان کئے هیں جن سے آپ کی عظیم شخصیت کا اندازه لگا سکتے هیں. هم اختصار کی خاطر چند نمونے ذکر کرتے هیں:
1- حضرت امام رضا علیه السلام نے آپ ع کی ولادت سے پہلے ابن قیاما کے خط کے جواب میں فرمایا : وما علمك أنه لا يكون لي ولد والله لا تمضي الأيام والليالي حتى يرزقني الله ولدا ذكرا يفرق به بين الحق والباطل .[15] تمهیں کهاں سے معلوم که میرے هاں بیٹا نهیں هو گا۔ الله کی قسم کچھ دن رات گزرنے سے پهلے الله تعالی مجھے ایک بیٹا عطا کرے گا جس کے ذریعه حق وباطل کے درمیان فرق ڈالے گا.
2- دوسری روایت میں هے:حتى يولد ذكر من صلبي يقوم مثل مقامي يحيى الحق ، ويمحق الباطل.[16] یهاں تک که میرے صلب سے ایک بیٹا وجود میں آئے گا جو میرے جیسے مقام (امامت) پر فائز هو گا، حق کو زنده کرے گا اور باطل کو مٹا دے گا.
3- حضرت امام رضا علیه السلام کے چچا جناب علی بن جعفر سے نقل هوا هے که محمد بن حسن کهتا هے که حضرت ابو جعفر محمد بن علی (التقی) علیه السلام مسجد النبی ص میں داخل هوئے تو علی بن جعفر ننگے پیر بغیر رداء کے ان کی طرف لپکے اور دونوں هاتھوں کا بوسه لیکر بهت بڑا احترام کیا تو امام جواد نے فرمایا :یا عم اجلس رحمک الله اے چچا بیٹھ جائیں الله آپ پر رحم کرے. تو علی بن جعفر نے کها : يا سيدي ، كيف أجلس ، وأنت قائم ؟ ! اے میرے آقا میں کیسےبیٹھ جاؤں جبکه آپ کھڑے هیں؟ !
اور جب علی بن جعفر اپنے مجلس میں واپس آئے تو ساتھیوں نے ملامت کرنا شروع کر دیا اور کها :أنت عم أبيه ، وأنت تفعل به هذا الفعل ؟ ! آپ تو ان کے باپ کے چچا هو، اس (بچے) کے ساتھ ایسا کرتے هو؟ تو انھوں نے کها : اسكتوا ، إذا كان الله عز وجل - وقبض على لحيته - لم يؤهل هذه الشيبة ، وأهل هذا الفتى ، ووضعه حيث وضعه ، أنكر فضله ؟ !نعوذ بالله مما تقولون ! [17] خاموش هو جاوا ور اپنی داڑھی پکڑ کر کها اگر الله عزوجل اس بوڑھے کو اهل نه سمجھے اور اس جوان کو اهل سمجھے اور اسے اس مقام پر رکھے جهاں اسے رکھا گیا هے تو کیا میں اس کی فضل کا انکار کروں ؟ تمهاری ان باتوں سے میں الله سے پناه مانگتا هوں .
4- سبط ابن جوزی: كان على منهاج أبيه في العلم والتّقى والزّهد والجود . [18] وه ( امام جواد علیه السلام) علم، تقوی، زهد اور سخاوت میں اپنے بابا جیسے تھے .
5- ابن حجر هیثمی : مامون نے آپ ع کو اپنا داماد بنا لیا چونکه کم سنی کے باوجود علم وآگهی اور حلم کے لحاظ سے تمام دانشوروں پر آپ کو برتری حاصل تھی.[19]
6- ابن الصباغ المالکی المتوفی سنئة 855ھ امام جواد کے بارے میں لکھتے هیں:" وهو الامام التاسع ...عرف بابی جعفر الثانی وان کان صغیر السن فهو کبیر القدر رفیع الذکر القائم بالامامة بعد علی بن موسی الرضا ...للنص علیه والاشارةله بها من ابیه کما اخبر بذلک جماعة من الثقات العدول " [20] آپ نویں امام هیں، ابی جعفر ثانی (کی کنیت ) سے معروف هیں۔ اگر چه کمسن تھے لیکن بڑے مقام ، شهره آفاق اور (اپنے بابا) علی بن موسی الرضا ع کے بعد امامت کی ذمه داری اٹھانے والے هیں۔ چونکه آپ ع کے والد بزرگوار کی طرف سے آپ ع کی امامت پر نص اور اشاره موجود هے که جس سے موثق اور عادل ایک گروه نے خبر دی هے .
7- شیخ عبد الله بن عامر شبراوی شافعی متوفی سنه 1154ھ میں اپنی کتاب میں لکھتے هیں: التاسع من الائمة محمد الجواد پھر امام علیه السلام کے نسب اور ولادت کو سنه 195ھ میں بیان کرنے کے بعد کهتے هیں :وکراماته رضی الله عنه کثیرة ومناقبه شهیرة آپ رضی الله تعالی عنه کی کرامات بهت زیاده اور آپ کی فضیلتیں مشهور هیں۔ پھر بعض فضیلتوں کو بیان کرنے کے بعد اس جملے کے ساتھ اپنی باتوں کو ختم کرتے هیں: وهذا من بعض کراماته الجلیلة ومناقبه الجمیلة . یه آپ کے بعض عظیم کرامات اور خوبصورت مناقب میں سے هیں.[21]
اثبات امامت :
مسئله امامت شیعوں کے هاں اصول مذهب اور مسلمات میں سے هے اور باره اماموں اور ان کی امامت میں نص کے قائل هیں۔ اور اگر کوئی شخص باره اماموں میں سے کسی ایک کی بھی امامت میں شک کرے تو وه مسلمان هو سکتا هے لیکن شیعه نهیں۔ یعنی آئمه علیهم السلام کی امامت خدا کی طرف سے هے اور حضور پاک صلی الله علیه وآله وسلم سے بھی متعدد احادیث اس بارے میں موجود هیں۔ اور دوسری طرف کے فریقین سے ثابت هے که آیت تطهیر پنجتن پاک علیهم السلام کے بارے میں نازل هوئی هے جس سے ان کی عصمت اور صدق وسچائی ثابت هوتی هے۔ جب ان هستیوں کی عصمت ثابت هوگئی تو کام اور آسان هوتا هے چونکه انهی هستیوں میں سے هر ایک نے اپنے بعد آنے والے امام کو متعرف کروایا هے اور اپنے بعد والے کو امام معصوم بتایا هے تو ایک طرف بعد والے کی عصمت ثابت هوتی هے اور دوسری طرف ان کی امامت ثابت هوتی هے۔ اسی سلسلہ عصمت وامامت و صداقت کے ذریعه بعد کے اماموں کی امامت اور عصمت اور زیاده نمایاں هو جاتی هے۔ باقی اماموں کی طرح حضرت امام محمد تقی علیه السلام کی امامت پر بھی سینکڑوں روایات موجود هیں جو علم کلام، حدیث ،سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ملاحظه کر سکتے هیں هم نمونے کے طور پر بعض روایات کو یهاں ذکر کریں گے.
1- علی بن عاصم امام محمد جواد علیه السلام کے توسط سے ایک طویل روایت پیغمبر اکرم ص سے نقل کرتے هیں جس میں امام حسین علیه السلام کی نسل سے آنے والے تمام اماموں کے نام اور اوصاف بیان کرتے هوئے حضرت امام محمد تقی علیه السلام کے بارے میں حضورص نے فرمایا : ...محمد بن علي فهو شفيع شيعته ووارث علم جده له علامه بينه وحجه ظاهره إذا ولد يقول : لا اله إلا الله محمد الله ( ص ) ويقول في دعائه :( يا من لا شبيه ولا مثال أنت الله الذي لا اله إلا أنت ولا خالق أنت تفنى المخلوقين وتبقى أنت حلمت عمن عصاك والمغفرة رضاك ) من دعا بهذا الدعاء كان محمد بن علي شفيعه يوم القيامة [22]
الله تعالی نے ان کا نام محمد بن علی رکھا هے۔ وه اپنے شیعوں کی شفاعت کرنے والا اور اور اپنے جد کے علوم کا وارث هے۔ اس کی واضح علامت اور روشن دلیل هے جب پیدا هو جائے تو "لا اله إلا الله محمد الله ( ص ) " کهے گا وه اپنی دعا میں پڑھے گا " يا من لا شبيه ولا مثال أنت الله الذي لا اله إلا أنت ولا خالق الا أنت تفني المخلوقين وتبقي أنت ، حلمت عمن عصاك ، وفي المغفرة رضاك " ( اے وه ذات جس کا کوئی شبیه اور مانند نهیں هے۔ تو وه معبود هے که تیرے سوا کوئی معبود اور خالق نهیں هے۔ تو مخلوقات کو فنا کرتا هے اور باقی رکھتا هے۔ تیری نافرمانی کرنے والوں کے مقابل میں تو حلیم هے اور مغفرت میں تیری رضا هے) جو شخص یه دعا پڑھے گا روز قیامت محمد بن علی اس کی شفاعت کرے گا .
2- معمر بن خلاد کهتے هیں : سَمِعْتُ الرِّضَا ع وذَكَرَ شَيْئاً فَقَالَ مَا حَاجَتُكُمْ إِلَى ذَلِكَ هَذَا أَبُو جَعْفَرٍ قَدْ أَجْلَسْتُه مَجْلِسِي وصَيَّرْتُه مَكَانِي وقَالَ إِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ يَتَوَارَثُ أَصَاغِرُنَا عَنْ أَكَابِرِنَا الْقُذَّةَ بِالْقُذَّةِ.[23] میں نے امام رضا علیه السلام سے سنا که آپ نے (امامت کے بارے میں) کچھ بیان فرمایا پھر فرمایا : تمهیں اس کی کیا ضرورت هے یه ابو جعفر (محمد تقی ) هے جسے میں نے اپنی جگه بٹھایا هے اور اپنا قائم مقام بنایا هے۔ اور پھر فرمایا هم ایسے اهل بیت هیں که همارے چھوٹے همارے بڑوں سے مو بمو ارث لیتے هیں .
3- علی بن اسباط کهتے هیں که ابو جعفر(حضرت امام جوادعلیه السلام) باهر نکلے تو میں نے آپ کے سر مبارک اور پیروں کی طرف دیکھنا شروع کیا تاکه مصروالوں کو آپ کے حلیہ کی توصیف کروں۔ جب آپ ع بیٹھ گئے تو فرمایا: يا علي إن الله احتج في الإمامة بمثل ما احتج في النبوة ، قال الله اتعالى : ( وآتيناه الحكم صبيا ) وقال : ( ولما بلغ أشده ) ( وبلغ أربعين سنة )فقد يجوز أن يؤتى الحكم صبيا ، ويجوز أن يعطى وهو ابن أربعين سنة . [24] اے علی بیشک الله تعالی نے جس طرح نبوت پر حجت قائم کی هے اسی طرح امامت پر بھی حجت قائم کی هے۔ الله تعالی نے (حضرت یحیی علیه السلام کے بارے میں) فرمایا : "اور هم نے انھیں بچپنے میں نبوت عطا کردی" اور فرمایا " اورجب یہ اپنی جوانی کی عمر کو پهنچے" اور جب چالیس برس کے هو گئے " تو یقینا منصب بچگی میں بھی عطا کر سکتا هے اور چالیس سال کی عمر میں بھی عطا کر سکتا هے.
بادشاہان وقت:
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت ۱۹۵ ھ میں ہوئی اس وقت بادشاہ وقت ،امین ابن ہارون رشیدعباسی تھا۔ ۱۹۸ ہجری میں مامون رشید بادشاہ وقت ہوا۔ ۲۱۸ ہجری میں معتصم عباسی خلیفہ وقت مقرر ہوا۔ اسی معتصم نے ۲۲۰ ہجری میں آپع کوزہرسے شہید کرادیا.
حضرت امام محمد تقی علیه السلام کےکرامات :
1- مردے کو زنده کرنا :
احمد بن محمد حضرمی کهتے هیں که حضرت امام جواد علیه السلام حج پر تشریف لے جا رهے تھے که منزل زباله پر ایک ضعیفه کو دیکھا جو راستے کے کنارے پڑےایک مرده گائیں پر رو رهی تھی۔ آپع نے رونے کی علت پوچھی تو کها :اے فرزند رسولص، میں ایک ضعیف عورت هوں که کام کرنے کے لائق نهیں هوں۔ میرا تمام سرمایہ یهی ایک گائیں تھی.
امام علیه السلام نے فرمایا : اگر الله تعالی اس کو دوباره زنده کرے تو کیا کرو گی؟
عورت نے کها : همیشہ شکر گزار رهوں گی.
امام علیه السلام نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی اور پھر اس گائیں کو پیر مارا، اس وقت وه گائیں باذن خدا زنده هو کر کھڑی هوئی .
ضعیفه نے فریاد بلند کی که آپع عیسی بن مریم هیں۔
امام علیه السلام نے فرمایا یہ مت کهو بلکه ہم الله کے مکرّم بندے هیں .[25]
2- بیمار کو شفاء دینا:
ابو سلمه کهتے هیں که میرے کان بہت کم سننے لگے تھے جب میں امام جواد علیه السلام کے پاس پهنچا اور آپع اس سے مطلع هوے تو مجھے بلا کر دست مبارک میرے سر اور کانوں پر پھرایا اور فرمایا : "اسمع وعه سنو اور یاد رکھو ".
وه کهتے هیں : فوالله إني لأسمع الشئ الخفي عن أسماع الناس من بعد دعوته . الله کی قسم ان کی دعا کے بعد ان آهسته آوازوں کو بھی سنتا تھا جسے عام لوگ نهیں سن پاتے تھے .[26]
3- درخت کا پھل دینا :
شیخ مفید نقل کرتے هیں که جب امام جواد علیه السلام ام الفضل کو لے کر بغداد سے مدینه کو واپس آرهے تھے۔ لوگ آپ کی مشایعت کر رهے تھے۔ باب الکوفه کے راستے سے گزرے اور دار مسیب کے مقام پر پهنچے۔ وهاں رکے اور مسجد میں داخل هو گئے۔ مسجد کے صحن میں بیری کا ایک درخت تھا جو پھل نهیں دیتا تھا۔ حضرت ع نے پانی طلب فرما کر اس درخت کے نیچے وضو کیا اور نماز جماعت کے ساتھ ادا کی .
او رجب لوگوں کے ساتھ باهر نکلے لوگوں کے ساتھ اس درخت کی طرف گئے، اس وقت لوگوں نے آپ کی برکت سے بهت عمده قسم کا پھل اس درخت پر مشاهده کیا اور اسے کھایا تو دیکھا بهت میٹھے اور بغیر گھٹلیوں کے هیں. [27]
اصحاب امام جواد علیه السلام:
سید کاظم قزوینی نے اپنی کتاب "الامام الجواد من المهد الی اللحد" نامی کتاب میں امام علیه السلام کےاصحاب میں (275) مردوں اور عورتوں کے نام لئے هیں[28]۔ امام علیه السلام کے بعض خاص اصحاب اور شاگرد یہ هیں:
1- حسین بن سعید اهوازی
2- حسن بن سعید اهوازی
3- احمد بن ابو عبد الله برقی
4- محمد بن اسماعیل
5- علی بن مهزیار ...
آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی چند بیویاں تھیں جن میں ام الفضل بنت مامون رشید عباسی اورسمانہ خاتون یاسری جو حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں نمایاں حیثیت رکھتی تھیں۔ جناب سمانہ خاتون کے علاوہ کسی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ آپ ع کی اولاد کے بارے میں معروف یہی هے که دو بیٹے اوردو بیٹیاں تھیں، جن کے اسماء یہ ہیں
۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام،
۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمة،
۳ ۔ جناب فاطمہ،
۴ ۔ جناب امامہ،
بعض نے حکیمه، خدیجه اور ام کلثوم کے نام لئے هیں اور بعض نے چھے بیٹیوں تک کے نام لئے هیں ابو احمد حسین اور ابوموسی عمران بھی آپ کے بیٹے قرار دئیے گئے هیں.[29]
امام علیه السلام کی شهادت:
مامون عباسي کے بعد اسکا بھائي معتصم برسراقتدار آيا- اس نے مدينہ کے والي عبدالملک ابن زياد کو لکھا کہ امام محمد تقي ع اور ان کی اہليہ ام الفضل کو بغداد بھجوا دے- معتصم عباسي کے اقدامات کے باوجود امام محمد تقي ع کی محبوبيت ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گيا- حکومت کيلئے جو چيز سب سے زيادہ ناگوار تھی وہ يہ کہ امام جواد ع چھوٹي عمر کے باوجود سب کی توجہ کے مرکز بنتے جا رہے تھے اور دوست اور دشمن ان کے علم اور فضيلت کے قائل ہو رہے تھے- اسی طرح بنی عباس کے حکمرانوں کی سازشوں کے باوجود امام محمد تقي ع کے اثر و رسوخ ميں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گيا- معتصم انتہائی پريشان تھا کيونکہ وہ ديکھ رہا تھا کہ امام جواد ع انتہائی عقلمندی سے اس کے تمام منصوبوں پر پانی پھير رہے ہيں- بغداد میں تشریف لانے کے بعد تقریباً ایک سال تک معتصم نے بظاهر آپع کے ساتھ کوئی سختی نهیں کی مگر آپ کا یهاں کا قیام خود هی ایک جبری حیثیت رکھتا تھا جسے نظر بندی کے علاوہ اور کیا کها جاسکتا هے۔ اس کے بعد اسی خاموش حربے سے جو اکثر اس خاندان کے بزرگوں کے خلاف استعمال کیا جاچکا تھا، آپع کی زندگی کاخاتمہ کردیا گیا اور ۲۹ذی القعدہ ۲۲۰ھ میں زهر سے آپع کی شهادت هوئی اور اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظمع کے پاس دفن هوئے.
[1] - طبرسي -تاج المواليد ( المجموعة ) ص52 مكتب آية الله العظمى المرعشي النجفي – قم ط 1406ھ مجلسی بحار الانوار ج50 ص16 تحقيق : محمد الباقر البهبودي دار إحياء التراث العربي - بيروت – لبنان ط الثانیه 1403 - 1983 م
[2] - شاهرودی سید محمد حسینی زنگانی امام جواد ع – ص 23 فیض کاشانی ط اول 1375ش
[3] - الطبري محمد بن جرير ( الشيعي ) دلائل الامامة ص 283 مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة ط الاولی 1413ق
[4] - كليني محمد بن یعقوب اصول کافی ج1 ص292 تحقيق :علي أكبر الغفاري دار الكتب الإسلامية – طهران ط الخامسة 1363 ش
[5] - طبرسي -تاج المواليد ( المجموعة ) ص 51 مكتب آية الله العظمى المرعشي النجفي – قم ط 1406ھ
[6] - مجلسی بحار الانوار ج50 ص14 تحقيق : محمد الباقر البهبودي دار إحياء التراث العربي - بيروت – لبنان ط الثانیه 1403 - 1983 م
[7] - علي بن الإمام جعفر الصادق ع- مسائل علي بن جعفر ص23تحقيق : مؤسسة آل البيت (ع) لإحياء التراث - قم المشرفة ط الاولی ذي القعدة 1409ھ
[8] -لجنة التالیف فی المعاونیة الثقافیة للمجمع العالمی لاهل البیت ع-اعلام الهدایة الامام محمد بن علی الجواد ص51 المجمع العالمی لاهل البیت ع ط الخامسة 1430ھ .
[9] - الطبري محمد بن جرير ( الشيعي ) دلائل الامامة ص384 مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثةط الأولى 1413ھ حكيمة بنت أبي الحسن موسى ( عليه السلام ) ، قالت : كتبت لما علقت أم أبي جعفر ( عليه السلام ) به : " خادمتك قد علقت " . فكتب إلي " إنها علقت ساعة كذا ، من يوم كذا ، من شهر كذا ، فإذا هي ولدت فالزميها سبعة أيام " .
[10] - ابن شهر آشوب ،مناقب آل أبي طالب ص499 مطبعة الحيدرية - النجف الأشرف ط 1376 - 1956 م
[11] - الطبري محمد بن جرير ( الشيعي ) دلائل الامامة ص384 مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثةط الأولى 1413ھ
[12] - ابن شهر آشوب ،مناقب آل أبي طالب ص499 مطبعة الحيدرية - النجف الأشرف ط 1376 - 1956 م
[13] - كليني محمد بن یعقوب اصول کافی ج1 ص321 تحقيق :علي أكبر الغفاري دار الكتب الإسلامية – طهران ط الخامسة 1363 ش أَبِي يَحْيَى الصَّنْعَانِيِّ قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَجِيءَ بِابْنِه أَبِي جَعْفَرٍ ع وهُوَ صَغِيرٌ فَقَالَ هَذَا الْمَوْلُودُ الَّذِي لَمْ يُولَدْ مَوْلُودٌ أَعْظَمُ بَرَكَةً عَلَى شِيعَتِنَا مِنْه
[14] - الراوندی قطب الدين ،الخرائج والجرائح ص385 مؤسسة الإمام المهدي (ع) / بإشراف السيد محمد باقر الموحد الأبطحي مؤسسة الإمام المهدي - قم المقدسة ط الاولی ذي الحجة 1409ھ قال ابن أسباط ، وعباد أبو إسماعيل : إنا عند الرضا عليه السلام بمنى إذ جئ بأبي جعفر عليه السلام قلنا : هذا المولود المبارك ؟ قال : نعم ، هذا المولود المبارك الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه .
[15] - كليني محمد بن یعقوب اصول کافی ج1 ص 320 تحقيق :علي أكبر الغفاري دار الكتب الإسلامية – طهران ط الخامسة 1363 ش
[16]- القرشي باقر شريف حياة الإمام الرضا ( ع )ج2 ص112 انتشارات سعيد بن جبير – قم ط 1372 ش
[17] - علي بن الإمام جعفر الصادق،مسائل علي بن جعفر ص 23 تحقيق : مؤسسة آل البيت (ع) لإحياء التراث - قم المشرفة، المؤتمر العالمي للإمام الرضا (ع) - مشهد المقدسة ط الأولى ذي القعدة 1409ھ
[18] - العاملي السيد جعفر مرتضى ،الحياة السياسية للإمام الجواد ( ع )ص 89 المركز الإسلامي للدراسات ط الاولی 1405 - 1985 م
[19] - شاهرودی سید محمد حسینی زنگانی امام جواد ع – ص 91 فیض کاشانی ط اول 1375ش
[20] -المالكي ( ابن الصباغ )علي بن محمد أحمد ، الفصول المهمة في معرفة الأئمة ص1035 دار الحديث للطباعة والنشر ط الأولى 1422
[21] -لجنة التالیف فی المعاونیة الثقافیة للمجمع العالمی لاهل البیت ع-اعلام الهدایة الامام محمد بن علی الجواد ص 24 المجمع العالمی لاهل البیت ع ط الخامسة 1430ھ .
[22] - الصدوق ،كمال الدين وتمام النعمة ص 267تحقيق : تصحيح وتعليق : علي أكبر الغفاري مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة محرم الحرام 1405 - 1363 ،صدوق شیخ ،عيون أخبار الرضا ( ع ) ج1ص64 تحقيق : تصحيح وتعليق وتقديم : الشيخ حسين الأعلمي للمطبوعات - بيروت – لبنان 1404 - 1984 م
[23] - كليني محمد بن یعقوب اصول کافی ج1 ص 320 تحقيق :علي أكبر الغفاري دار الكتب الإسلامية – طهران ط الخامسة 1363 ش
[24] - الراوندی قطب الدين ،الخرائج والجرائح ص385 مؤسسة الإمام المهدي (ع) / بإشراف السيد محمد باقر الموحد الأبطحي مؤسسة الإمام المهدي - قم المقدسة ط الاولی ذي الحجة 1409ھ
[25] - البحراني السيد هاشم ،مدينة المعاجز ج7 ص392 تحقيق : لجنة التحقيق برئاسة الشيخ عباد الله الطهراني الميانجي مؤسسة المعارف الإسلامية - قم – ايران ط الأولى 1415ھ
[26] - المجلسی بحار الانوار ج50 ص 57 تحقيق : محمد الباقر البهبودي دار إحياء التراث العربي - بيروت – لبنان ط الثانیه 1403 - 1983 م
[27] - المفید ، الارشاد ج2 ص 289 تحقيق : مؤسسة آل البيت (ع) لتحقيق التراث دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت – لبنان ط الثانية 1414 - 1993 م
[28] --لجنة التالیف فی المعاونیة الثقافیة للمجمع العالمی لاهل البیت ع-اعلام الهدایة الامام محمد بن علی الجواد ص 209 المجمع العالمی لاهل البیت ع ط الخامسة 1430ھ .
[29] -- شاهرودی سید محمد حسینی زنگانی امام جواد ع – ص 29 فیض کاشانی ط اول 1375ش
Add new comment