آئمہ[ع] کی امامت کو ثابت کرنے کے طریقے
گزشتہ سے پیوستہ
پہلا طریقہ:
ان احادیث کے ذریعہ جن کی تعداد بہت زیادہ اور بہت مشهور ھیں جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
”انتما الامامان ولامکما الشفاعة “ [17]
(تم دونوں امام هو اور دونوں شفاعت کرنے والے هو)
اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
”ہذا امام ، ابن امام اخو امام، ابو الائمة “[18]
(یہ خود بھی امام ھیں اور امام کے بیٹے ، امام کے بھائی او رنو اماموںکے باپ ھیں)
اور اس طرح بہت سی روایات موجود ھیں جن سے کتب حدیث وتاریخ بھری پڑی ھیں اور ان میں امامت کی بحث تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھے۔
دوسرا طریقہ:
گذشتہ امام کے ذریعہ آنے والے امام کا بیان، اورچونکہ گذشتہ امام کا بیان ،حجت اور دلیل هوتاھے اور اس پر یقین رکھناضروری ھے جبکہ ھم گذشتہ امام کی امامت پر ایمان رکھتے ھیں اور ان کو صادق اور امین جانتے ھیں۔[19]
اب رھا ائمہ (ع) کا بارہ هونا نہ کم نہ زیادہ تو اس سلسلہ میں بھی بہت سی روایات موجود ھیں[20] اور ھمارے لئے یھی کافی ھے کہ اس مشهور ومعروف حدیث نبوی کو مشهور ومعروف شیوخ نے بیان کیا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ارشاد فرمایا:”لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش“ [21]
(دین اسلام قیامت تک باقی رھے گا او رتمھارے بارہ خلیفہ هوں گے جو سب کے سب قریش سے هوں گے)
ایک دوسری حدیث میں اس طرح ھے:
”ان ہذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیہ اثنا عشر“[22]
(بتحقیق یہ امر (دین) ختم نھیں هوگا یھاں تک کہ اس میں بارہ (خلیفہ) هوں گے)
اور اگر ھم اس حدیث شریف میں غور وفکر کریں (جبکہ اس حدیث کو تمام مسلمانوںنے صحیح مانا ھے) تو یہ حدیث دو چیزوں کی طرف واضح اشارہ کررھی ھے:
۱۔دین کا قیامت تک باقی رہنا۔
۲۔قیامت تک فقط بارہ خلیفہ ھی هوں گے جو اسلام ومسلمانوں کے امور کے ذمہ دار هوں گے۔
اور یہ بات واضح ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا بارہ خلیفہ سے وہ حکّام مراد نھیں ھیں جو شروع کی چار صدیوں میں هوئے ھیں کیونکہ ان کی تعداد بارہ کے کئی برابر ھے اور ان میں سے اکثر کتاب وسنت رسول کے تابع نھیں تھے لہٰذا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے حقیقی خلیفہ نھیں هوسکتے۔
تو پھر انکے علاوہ هونے چاہئیں،اور وہ حضرت علی (ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی نھیں، یہ وہ ائمہ ھیں جن سے لوگ محبت کیا کرتے تھے او ران کا اکرام کیا کرتے تھے اور انھیں سے اپنے دینی احکام حاصل کیا کرتے تھے، نیز اپنی فقھی مشکلات میں انھیں کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب بھی کوئی مشکل پڑتی تھی اس کے حل کے لئے انھیں ائمہ(ع) کے پاس جایا کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں احادیث نبوی اور ان کے عدد کے بارے میں مزید اطلاع حاصل کرنا چاھے تو اس کو چاہئے کہ مخصوص مفصل کتابوں کا مطالعہ کرے۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی رحمة اللہ علیہ، عبقات الانوار سید حامد حسین طاب ثراہ وغیرہ)
[1] سورہ شعراء آیت ۲۱۴۔
[2] اس روایت کو خلاصہ کرکے نقل کیا ھے، تاریخ طبری ج۲ص ۳۱۹،۳۲۱۔ مطبوع دار المعارف، مصر ۱۹۶۱ء ۔ اور جیسا کہ ڈاکٹر محمد حسین ھیکل نے اپنی کتاب ”حیاة محمد“ ص۱۰۴ کے پھلے ایڈیشن میں اس حدیث کو نقل کیا لیکن دوسرے ایڈیشن میں اس حدیث کوحذف کردیا، قارئین کرام اس حدیث کے مصادر اور سندوں کو کتاب الغدیر ج۲ ص ۲۵۲تا ۲۶۰ پر ملاحظہ فرمائیں۔
[3] صحیح مسلم ج۷ص ۱۲۰، اس حدیث کی سند اور منابع کے سلسلہ میں کتاب الغدیر جلد اول ص۴۸تا ۴۹ وج۳ص ۱۷۲تا ۱۷۶ ملاحظہ فرمائیں۔
[4] سورہ طٰہ آیت ۲۹۔
[5] سورہ طٰہ آیت ۳۰۔
[6] سورہ طٰہ آیت ۳۲۔
[7] سورہ اعراف آیت۲ ۱۴۔
[8] نظریة الامامة ص ۲۲۹۔
[9] ان صحابہ، تابعین علماء ،حفاظ اور رایوں کے اسماء گرامی نیز منابع حدیث کے بارے میں کتاب الغدیر جلد اول مکمل طور پر ملاحظہ فرمائیں۔
[10] سورہ مائدہ آیت ۳
[11]سورہ مائدہ آیت ۶۷، اس آیت کی شان نزول کے بارے میں تفسیر ”الدر المنثور“ ج۲ص ۲۸۹، فتح الغدیر جلد اول ص ۶۰ اور کتاب الغدیر جلد اول ص ۱۹۶ تا ۲۰۹ میں ذکر شدہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔
[12] سد الغابہ ج ۴ص۲۸، البدایة والنھایة ج۵ص ۲۰۹، ۲۱۳، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[13] سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۴۳ ، البدایة والنھایة ج۵ص۰ ۲۱، وفیات الاعیان ج۴ص ۳۱۸ ، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[14] اس آیت(سورہ مائدہ آیت۳) کی شان نزول کے بارے میں تاریخ بغداد ج۸ ص ۲۹۰، الدر المنثور ج۲ ص ۲۵۹، اور الغدیر کی پھلی جلدص۱۲۰تا ۲۱۷ میں بیان شدہ کتابیں۔
[15] تاریخ بغداد جلد ۸ص ۲۹۰، البدایہ والنھایة ج۵ ص ۲۱۰، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[16] نظریة الامامة ص ۲۲۱۔
[17] نزھة المجالس ج۲ص۴۷۲۔
[18] منھاج السنة ج۴ص۲۱۰۔
[19] تعیین امامت کے سلسلہ میں حدیث نبوت کوگذشتہ حوالوں کے علاوہ ارشاد مفید، المناقب شھر آشوب السروی، فصول المھمہ، ابن صباغ مالکی ،مطالب السوٴال ابن طلحہ شافعی، ینابیع المودة قندوزی حنفی وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
[20]شیخ قندوزی وغیرہ نے پیغمبر اکرم سے روایت کی ھے کہ آپ نے فرمایا:
”انا سید النبیین وعلی سید الوصیین وان اوصیاي بعدي اثنا عشر“اس حدیث اور حدیث اثنا عشر کے بارے میں کتاب ینابیع المودة ص ۴۴۷، ۴۸۶،۴۸۷، ۴۸۸، ۴۹۲، ۴۹۳ ملاحظہ فرمائیں۔
[21] صحیح بخاری ج۹ ص ۱۰۱، صحیح مسلم ج۶ص ۳، سنن ترمذی ج۴ ص ۵۰۱، وسنن ابی داوٴد ج۲ص ۴۲۱، وجامع الاصول ج۴ص ۴۴۰تا ۴۴۲۔
اس حدیث کے طُرق کے بارے میں حافظ قندوزی کہتے ھیں: صحیح بخاری میں اس حدیث کو تین طریقوں سے بیان کیا گیا ھے اور صحیح مسلم میں نو طریقوں سے، سنن ابی داؤد میں دو طریقوں سے، سنن ترمذی میں ایک طریقہ سے اور حمیدی میں تین طریقوں سے بیان کیا گیا ھے، رجوع فرمائیں ینابیع المودة ص ۴۴۴۔
یھاں پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ایک ایک حدیث نقل کردینا بہتر ھے تاکہ قارئین کرام ان دونوں حضرات کی نقل کو بھی دیکھ لیں:
,,…عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرہ ؛قال: سمعت النبی یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعھا،فقال ابی: انہ قال: کلھم من قریش“
صحیح بخاری جلد ۹، کتاب الاحکام، باب۵۲ ”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم جلد۶، کتاب الامارہ، باب۱۱ ” الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش“ حدیث۱۸۲۱۔
ترجمہ :۔…عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ھے کہ: میں نے رسول خدا سے سنا کہ آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ هوں گے، جابر کہتے ھیں کہ: دوسرا کلمہ میں نے صحیح سے نھیں سنا جس میں آنحضرت نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے هوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کھا کہ: وہ جملہ جو اس نے نھیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے هوں گے۔
مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ھے، اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آیا ھے:
”جابر بن سمرہ؛ قال: انطلقتُ الی رسول اللّٰہ ومعی ابی، فسمعتہ، یقول: لایَزَالُ ہذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْہَا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلھم من قریش“ ، صحیح مسلم جلد ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱ حدیث۱۸۲۱،کتاب الامارہ کی حدیث نمبر۹۔
ترجمہ:۔…جابر بن سمرہ کہتے ھیں کہ: ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خدا سے مشرف هوا تو میں نے رسول سے سنا کہ آپ فرما رھے تھے کہ: یہ دین الٰھی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رھے گا ، اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حائل هوگئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کھا :وہ جملہ یہ تھا کہ: تمام یہ بارہ خلفاء قریش سے هوں گے۔ (مترجم)۔
[22] صحیح مسلم ج۶ص۴۔
Add new comment