وہابی دہشت گرد نئے ٹھکانوں کی تلاش میں سرگرداں ہیں

ٹی وی شیعہ[نیوز پینل]ایک جانب حکومت کی مذاکراتی ٹیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ایک اور ملاقات کے لیے تیار ہے، تو دوسری جانب شمالی وزیرستان میں اور اس کے اردگرد موجود بہت سے غیر ملکی عسکریت پسند اپنا مستقبل محفوظ نہیں سمجھتے، انہیں اپنے میزبانوں کی یقین دہانی بھی درکار ہے۔ یہ خبریں بھی ہیں کہ وہ وزیرستان میں ہونے والے آپریشن کی وجہ سے علاقے میں پاکستانی فوج کے مکمل کنٹرول کی وجہ سے دوسرے ملکوں خصوصاً شام کی جانب منتقل ہو جائیں۔ وزیرستان شدت پسندوں کی جنت تھا اور وہاں کسی دہشت گرد سے رابطہ محال تھا، لیکن اب صورتحال بدل رہی ہے۔ ایک موقئر اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں مقیم انہوں نے ملک کے سب سے زیادہ مطلوب مفرورں تک رسائی حاصل کی ہے۔

کچھ شدت پسند سمجھتے ہیں کہ انہیں محدود کیا جا رہا ہے جیسا کہ وزیرستان میں مقیم اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کے ایک سینئر رکن عظام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ’’ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکیں گے، لیکن دونوں فریقین کچھ لو اور دو پر رضامند ہو جاتے ہیں تو پھر ہمیں خوف ہے کہ حکومت ہمیں الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرے گی اور ہمارے میزبانوں نے مذاکرات شروع کرنے سے قبل ہمیں اعتماد میں نہیں لیا تھا، اب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت انہیں ایسی تنگ گلی میں لے جائے گی، جہاں ان کے اختیارات محدود ہو جائیں گے۔‘‘ بعض کا خیال ہے کہ انہیں وزیرستان سے جتنا جلد ہو سکے رخت سفر باندھنا چاہیئے۔ سعودی شہری شیخ عبدالسلام کا کہنا تھا ’’جہاد کسی ایک سرزمین پر محدود نہیں ہے، ہمیں جہاد کے لیے کہیں بھی جانے کی آزادی ہے، زیادہ تر بھائیوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت شام اعلیٰ ترین جہادی محاذوں میں سے ایک ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’شام کی مقدس سرزمین پر جنگ میں مصروف مخالف طاقتوں میں سے ایک ایران ہے، اور اس کا اگلا قدم پاکستان ہے۔‘‘ انکے خیال میں شام میں برسر پیکار دشمن کو کمزور کرنے کا بہترین حربہ یہ ہے کہ ایران کو پاکستان کے ساتھ براہ راست تصادم میں گھسیٹنے کی کوشش کی جائے۔

وزیرستان میں قیام پذیر جنگجووں کو کسی دوسری جگہ منتقلی کے لیے رکاوٹوں کا سامنا ہے، وزیرستان کے علاقے میر علی بازار میں رہنے والے ایک عرب جنگجو کا کہنا ہے کہ وہ شام منتقل ہونے میں دلچسپی رکھتے تھے، لیکن وہ اپنے بڑے خاندان کے ساتھ منتقلی کے انتظامات نہیں کر پائے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میری والدہ کی حالت نے میرے لیے دشوار گذار زمینی راستے سے سفر کرنا مشکل بنا دیا ہے، شاید مذاکرات کے ایک حصے کے طور پر پاکستان کی حکومت ہمیں محفوظ راستہ فراہم کر دے، تب میری جیسی صورتحال سے دوچار لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں سے پرواز کر جائے گی۔‘‘ حکومت کیساتھ مذاکرات کرنے والی کالعدم تحریک طالبان کی سیاسی شوریٰ کے ایک رکن نے دعویٰ کیا ہے کہ غیرملکی عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد پہلے یہاں سے جا چکی ہے، میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ آٹھ ہزار مجاہدین، جن میں زیادہ تر عرب، چیچن اور ازبک تھے، شام منتقل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ ان میں سے زیادہ تر عسکریت پسندوں نے زمینی راستے کو اختیار کیا تھا، جبکہ ایران کے راستے فرار ہونے والوں میں سے ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان اعدادوشمار کی تصدیق کرنا مشکل ہے، اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اس وقت غیرملکی عسکریت پسند شمالی وزیرستان اور قبائلی علاقوں کے دیگر حصوں میں کس قدر تعداد میں موجود ہیں۔

مذاکرات شروع ہونے سے قبل جب وزیرستان سے دہشت گردوں کی شام منتقلی کے حوالے سے خبریں آئی تھیں تو ٹی ٹی پی نے یہ موقف اپنایا تھا کہ ہمارے صرف ستر ساتھی شام گئے ہیں۔ البتہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ شام میں کتنے لوگ درکار ہیں اور وہ کیا کیا کاروائیاں کریں گے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس وقت دہشت گردوں کے پاس منتقلی کے لیے افغانستان کہیں زیادہ موزوں مقام ہو سکتا ہے، لیکن بہت سے غیر ملکی جنگجو اپنی نگاہ شام کی جانب مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ شاید ٹی ٹی پی کی بھی یہی خواہش ہے کہ انکے غیر ملکی مہمان خطے سے باہر چلے جائیں۔ پاکستانی طالبان کی جانب سے غیر ملکیوں کو شام جانے کی مسلسل ترغیب دی جا رہی ہے، جیسا کہ ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ کے سربراہ خالد سیف المہاجر کا کہنا تھا کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بہت سی احادیث میں شام کے حوالے سے فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ فطری طور پر زیادہ تر مجاہد اس جانب دیکھ رہے ہیں۔

وزیرستان میں مخدوش مستقبل کی وجہ سے اپنے خاندانوں کو کسی اور جگہ منتقل کرنے والے غیر ملکی شام کے بارے تذبذب کا شکار ہیں۔ سعودی شہری شیخ عبدالسلام نے اسی پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کس سرزمین کے بارے میں کہا گیا، یہ دریافت کرنا ہمارے لیے آسان نہیں، ہمیں اس کی جانب حکمت عملی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے، مسلمانوں کی بہت سی سرزمینوں پر اگلی بڑی جنگ ہمارے اور روافض کے درمیان ہو گی۔ واضح رہے کہ روافض کی اشتعال انگیز اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے شیعوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ شیعہ دشمنی کی بدولت ان غیرملکی جنگجوؤں کے لیے پاکستان میں قیام کے فیصلے پر انہیں تکفیری قاتل گروہ لشکرِ جھنگوی کی مدد مل سکتی ہے۔ لشکرِ جھنگوی کے سب سے زیادہ مطلوب عسکریت پسند کا کہنا ہے کہ ان تمام ہی لوگوں نے اپنی سرزمین کو جہاد کے لیے چھوڑا ہے، ہم ان کے ساتھ بدعہدی نہیں کر سکتے، اگر حکومت ان مجاہدین کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کرے گی تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

افغانستان اور بعد میں پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بہت سے اسلامی ممالک سے آئے ہوئے جنگجو قبائلی علاقوں سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ان میں عرب، چیچن، تاجک، جرمن، برٹش، فرنچ، امریکی اور ترک شامل ہیں۔ جس سے جنوبی ایشیا میں موجود شورش جلد مشرق وسطیٰ، افریقہ، وسطی ایشیائی ریاستوں، چین اور مشرقی یورپ سمیت دنیا کے بڑے خطوں تک پہنچ سکتی ہے۔ حال ہی میں پاکستانی حکومت نے چین کے صوبے سنکیانگ میں سرگرم 3 عسکری تنظیموں پر پابندی عائد کرنے اور انہیں کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ایسٹ ترکمانستان اسلامی موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف اُزبکستان اور اسلامک جہاد یونین نامی تنظیموں نے قبائلی علاقوں کے علاوہ اسکردو اور پاک چین سرحدی علاقوں میں خفیہ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں، جہاں سے وہ چین میں شدت پسندی کی کارروائیاں کرنے کی منصوبہ بندی کے علاوہ وہاں کے لوگوں کو حکومت کے خلاف اُکسا رہے ہیں۔ تینوں تنظیموں کا براہ راست تعلق القاعدہ سے ہے، یہ تنظیمیں صرف چین ہی میں نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان میں بھی دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔ ان تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 50 سے زائد انتہائی مطلوب افراد کی فہرستوں میں 10 خواتین بھی شامل ہیں جو خودکش بمباروں کی ذہنی اور عسکری تربیت کرتی ہیں، انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل عبدالرحمان یلدروف اور ثریا اسرنوف کا تعلق بھی انہی تنظیموں سے ہے، جبکہ اسلامک جہاد یونین میں چیچن، آزربائیجان اور سوڈانی باشندے شامل ہیں۔

اسی طرح مشرق بعید کے ممالک، انڈونیشیا اور فلپائین میں الجماعة الإسلامية، بنگال میں جماعت المجاہدین، عراق اور شام میں الدولة الاسلامية في العراق والشام (Islamic State of Iraq and the Levant)، یمن میں القاعدہ، مصر میں الجماعة الإسلامية، افریقہ میں الشباب، ترکی میں Great Eastern Islamic Raiders' Front، ایران میں جندالله اور لبنان میں فتح الإسلام جیسے گروپوں کا وزیرستان میں دہشت گردی کے مراکز سے گہرا تعلق ہے۔ وزیرستان میں طالبان کے ساتھ جہاد میں شامل ہونے کے لیے آنے والے ترک، حقانی نیٹ ورک سے منسلک رہے ہیں۔ ترک گروپ عائفتہ المنصورہ (فاتح گروپ) کے لیڈر ابوذر نے کا کہنا ہے کہ ان کا گروپ گزشتہ 15 برس سے شمالی قفقاز (کاکیشیا) میں برسرپیکار تھا، لیکن 2009ء کے اوائل میں یہ افغانستان منتقل ہو گیا، جہاں اسے مقامی مددگار (انصار) دیے گئے، وہ اب وہیں مقیم ہیں۔ اور امریکی انخلا اور وزیرستان میں آپریشن کی وجہ سے کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان گروپوں کے درمیان آپریشنل رابطوں سے القاعدہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی اور نیا نیٹ ورک ترکی اور یورپ میں حملوں میں معاون ثابت ہو گا۔

‎امریکہ کے ایک تحقیقاتی ادارے کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغانستان سے دسمبر 2014ء تک بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد ملک دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔ افغان طالبان پر عسکری دباؤ کم ہونے کی صورت میں وہ پاکستان کے اندر اپنی محفوظ پناہ گاہوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی طاقت بحال کریں گے، لیکن وزیرستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں موجود کئی شدت پسند گروپ مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان میں ازبکستان کی اسلامی تحریک، افغان طالبان، پنجابی طالبان، لشکر طیبہ، اسلامی جہاد نامی سبھی تنظیمیں شامل ہیں۔ اسکے باوجود خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو طاقت دینے کے لیے قبائلی علاقوں میں انہیں ٹھکانے فراہم کرتا رہے گا، ایسی صورت میں یہ امکان بھی برقرار رہے گا کہ پوری دنیا سے آنے والے دہشت گردوں کو مستقل قیام نہ سہی لیکن ٹریننگ اور عارضی پناہ کی سہولت میسر رہے گی۔

رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

Add new comment