حضرت امیر المومنین علی(ع) کی چالیس حدیثیں
1ـ قالَ الاْمامُ علىّ بن أبي طالِب أميرُ الْمُؤْمِنينَ (عَلَيْهِ السلام) :(إغْتَنِمُوا الدُّعاءَ عِنْدَ خَمْسَةِ مَواطِنَ: عِنْدَ قِرائَةِ الْقُرْآنِ، وَ عِنْدَ الاْذانِ، وَ عِنْدَ نُزُولِ الْغَيْثِ، وَ عِنْدَ الْتِقاءِ الصَفَّيْنِ لِلشَّهادَةِ، وَ عِنْدَ دَعْوَةِ الْمَظْلُومِ، فَاِنَّهُ لَيْسَ لَها حِجابٌ دوُنَ الْعَرْشِ .(1
1 ـ پانچ مواقع پر دعا کرنا غنیمت جانو! قرآن کی قرائت کرنے وقت، اذان کے وقت، بارش کے وقت، شھادت کے لئے دو لشکروں کی مڈ بھیڑ کے وقت، مظلوم کی پکار کے وقت، اس لئے کہ ان مواقع پر عرش کے نیچے کوئی چیز قبولیٔ دعا میں حائل نہیں ہوتی۔
2ـ قالَ (عليه السلام): اَلْعِلْمُ وِراثَةٌ كَريمَةٌ، وَ الاْدَبُ حُلَلٌ حِسانٌ، وَ الْفِكْرَةُ مِرآةٌ صافِيَةٌ، وَ الاْعْتِذارُ مُنْذِرٌ ناصِحٌ، وَ كَفى بِكَ أَدَباً تَرْكُكَ ما كَرِهْتَهُ مِنْ غَيْرِكَ .(2
2ـ علم ایک کریم وارثت ہے اور ادب خوبصورت حلے ہیں اور غور وفکر ، صاف شفاف آئینہ ہے اور عذر خواہی دلسوز ڈرانے والی ہے اور تمہارے ادب کے لئے یہی کافی ہے کہ تم جس چیز کو غیروں سے ناپسند کرتے ہو اسے خود ترک کردو۔
3ـ قالَ (عليه السلام): اَلـْحَقُّ جَديدٌ وَ إنْ طالَتِ الاْيّامُ، وَ الْباطِلُ مَخْذُولٌ وَ إنْ نَصَرَهُ أقْوامٌ.( 3
3ـ حق ہمیشہ ترق تازہ رہتا ہے چاہے عرصہ گزر گیا ہو۔ اور باطل ہمیشہ مضمحل ہوتا ہے چاہے قومیں ایک جٹ ہو کر اس کی مدد کیوں نہ کریں۔
4ـ قالَ (عليه السلام): اَلدُّنْيا تُطْلَبُ لِثَلاثَةِ أشْياء: اَلْغِنى، وَ الْعِزِّ، وَ الرّاحَةِ، فَمَنْ زَهِدَ فيها عَزَّ، وَ مَنْ قَنَعَ إسْتَغْنى، وَ مَنْ قَلَّ سَعْيُهُ إسْتَراحَ.( 4
4ـ دنیا کو صرف تین چیزوں کے لئے ہی طلب کیا جا سکتا ہے ۔ بے نیازی و ثروتمندی کے لئے ، عزت و آبرو کے لئے ، سکون و آرام کے لئے، جو اس دنیا میں رہد و پارسائی کرے گا وعزت دار بن جائے گا اور جو قناعت پیشہ ہو جائے گا وہ بے نیاز اور ثروتمند ہو جائے گا اور جو دنیا طلبی میں کم زحمت کرے گا وہ سکون وآرام پائے گا۔
5ـ قالَ (عليه السلام): لَوْ لاَ الدّينُ وَ التُّقى، لَكُنْتُ أدْهَى الْعَرَبِ.( 5
5ـ اگر دینداری اور پرہیزگاری کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں عرب دنیا کا سب سے بڑا سیاست مدار ہوتا۔
6ـ قالَ (عليه السلام): اَلْمُلُوكُ حُكّامٌ عَلَى النّاسِ، وَ الْعِلْمُ حاكِمٌ عَلَيْهِمْ، وَ حَسْبُكَ مِنَ الْعِلْمِ أنْ تَخْشَى اللّهَ، وَ حَسْبُكَ مِنَ الْجَهْلِ أنْ تَعْجِبَ بِعِلْمِكَ.( 6
6ـ بادشاہ لوگوں پر حاکم ہیں اور علم ان کے اوپر حاکم ہے تمہارے علم کے لئے یہ یہی کافی ہے کہ تم خدا سے ڈرو اور تمہاری جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ تم اپنے علم پر ناز کرو۔
7ـ قالَ (عليه السلام): ما مِنْ يَوْم يَمُرُّ عَلَى ابْنِ آدَم إلاّ قالَ لَهُ ذلِكَ الْيَوْمُ: يَابْنَ آدَم أنَا يَوُمٌ جَديدٌ وَ أناَ عَلَيْكَ شَهيدٌ. فَقُلْ فيَّ خَيْراً، وَ اعْمَلْ فيَّ خَيْرَاً، أشْهَدُ لَكَ بِهِ فِى الْقِيامَةِ، فَإنَّكَ لَنْ تَرانى بَعْدَهُ أبَداً.( 7
7ـ فرزندان آدم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جو اس سے نہ کہتا ہوکہ اے فرزند آدم میں ایک نیادن ہوں اور میں تیرے اوپر گواہ ہوں لہٰذا میرے اندر اچھی بات کہو اچھا کام کرو تو میں تمہارے لئے قیامت کے دن گواہی دوں گا اس لئے کہ تم آج کے بعد پھر کبھی مجھے نہیں دیکھ پاؤگے۔
8ـ قالَ (عليه السلام): فِى الْمَرَضِ يُصيبُ الصَبيَّ، كَفّارَةٌ لِوالِدَيْهِ.( 8
8ـ بچے کی بیماری اس کے والدین کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
9ـ قالَ (عليه السلام): الزَّبيبُ يَشُدُّ الْقَلْبِ، وَ يُذْهِبُ بِالْمَرَضِ، وَ يُطْفِىءُ الْحَرارَةَ، وَ يُطيِّبُ النَّفْسَ.( 9
9ـ کشمش دل کو قوی ، بیماری کو ختم، حرارت کو سرد اور طبیعت کو سازگار بنا دیتی ہے۔
10ـ قالَ (عليه السلام): أطْعِمُوا صِبْيانَكُمُ الرُّمانَ، فَإنَّهُ اَسْرَعُ لاِلْسِنَتِهِمْ.( 10
10ـ اپنے بچوں کو انار کھلاؤ کہ وہ ان کی زبان کو جلدی وا کردے گا۔
11ـ قالَ (عليه السلام): أطْرِقُوا أهاليكُمْ فى كُلِّ لَيْلَةِ جُمْعَة بِشَيْء مِنَ الْفاكِهَةِ، كَيْ يَفْرَحُوا بِالْجُمْعَةِ.( 11
11ـ ہر شب جمعہ اپنے اہل وعیال کے پاس پھل لے کر جاؤ تاکہ وہ جمعہ کے دن خوشحال رہیں۔
12ـ قالَ (عليه السلام): كُلُوا ما يَسْقُطُ مِنَ الْخوانِ فَإنَّهُ شِفاءٌ مِنْ كُلِّ داء بِإذْنِ اللّهِ عَزَّوَجَلَّ، لِمَنْ اَرادَ أنْ يَسْتَشْفِيَ بِهِ.( 12
12ـ دستراخوان سے گرنے والے دانوں کو چن کر کھا لیا کرو کہ وہ بحکم خدا ہر مرض کی بیماری سے شفا کا باعث ہے جو اس سے شفا حاصل کرنا چاہے۔
13ـ قالَ (عليه السلام): لا ينبغى للعبد ان يثق بخصلتين: العافية و الغنى، بَيْنا تَراهُ مُعافاً اِذْ سَقُمَ، وَ بَيْنا تَراهُ غنيّاً إذِ افْتَقَرَ.( 13
13ـ بندے کے لئے مناسب نہیں ہے کہ دوصفتوں پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہے صحت اور ثروت ۔ اس لئے کہ دیکھتے دیکھتے صحت مند بیمار ہو جاتا ہے اور ثروتمند فقیر ہو جاتا ہے ۔
14ـ قالَ (عليه السلام): لِلْمُرائى ثَلاثُ عَلامات: يَكْسِلُ إذا كانَ وَحْدَهُ، وَ يَنْشطُ إذاكانَ فِى النّاسِ، وَ يَزيدُ فِى الْعَمَلِ إذا أُثْنِىَ عَلَيْهِ، وَ يَنْقُصُ إذا ذُمَّ.( 14
14ـ ریا کاری کی تین علامتیں ہیں۔ جب تنہا ہوتا ہے تو سستی کرتا ہے جب لوگوں کے درمیان ہوتا ہے تو چاق و چوبند ہوتا ہے جب اس کی تعریف کی جاتی ہے تو عمل میں اضافہ کردیتا ہے اور اگر مذمت کی جاتی ہے تو عمل میں کمی برتنے لگتا ہے ۔
15ـ قالَ (عليه السلام): اَوْحَى اللّهُ تَبارَكَ وَ تَعالى إلى نَبيٍّ مِنَ الاْنْبياءِ: قُلْ لِقَوْمِكَ لا يَلْبِسُوا لِباسَ أعْدائى، وَ لا يَطْعَمُوا مَطاعِمَ أعْدائى، وَ لا يَتَشَكَّلُوا بِمَشاكِلِ أعْدائى، فَيَكُونُوا أعْدائى.( 15
15ـ اللہ نے ایک نبی کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی قوم والوں سے کہو کہ میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنیں میرے دشمنوں کی غذا نہ کھائیں اور میرے دشمنوں کی شکل و صورت اختیار نہ کریں ورنہ وہ بھی میرے دشمن ہوجائیں گے ۔
16ـ قالَ (عليه السلام): اَلْعُقُولُ أئِمَّةُ الأفْكارِ، وَ الاْفْكارُ أئِمَّةُ الْقُلُوبِ، وَ الْقُلُوبُ أئِمَّةُ الْحَواسِّ، وَ الْحَواسُّ أئِمَّةُ الاْعْضاءِ.( 16
16ـ عقلیں فکروں کی رہبر ہیں، فکریں دلوں کی رہبر ہیں ۔ دل احساسات کے رہبر ہیں اور احساسات اعضاء بدن کے رہبر ہیں۔
17ـ قالَ (عليه السلام): تَفَضَّلْ عَلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أميرُهُ، وَ اسْتَغِْنِ عَمَّنْ شِئْتَ فَأنْتَ نَظيرُهُ، وَ افْتَقِرْ إلى مَنْ شِئْتَ فَأنْتَ أسيرُهُ.( 17
17ـ جس پر چاہو احاس کرو کہ تم اس کے رئیس بن جاؤ گے۔ اور جس سے چاہو مدد طلب کرو کہ تم اسی کے ہم مثل ہو ۔ اور جس سے چاہو بھیک مانگو کہ تم اس کے اسیر بن جاؤ گے۔
18ـ قالَ (عليه السلام): أعَزُّ الْعِزِّ الْعِلْمُ، لاِنَّ بِهِ مَعْرِفَةُ الْمَعادِ وَ الْمَعاشِ، وَ أذَلُّ الذُّلِّ الْجَهْلُ، لاِنَّ صاحِبَهُ أصَمُّ، أبْكَمٌ، أعْمى، حَيْرانٌ.( 18
18ـ سب سے بڑی عزت علم ودانش ہے کیونکہ علم کی بدولت معرفت معاد (قیامت) و معاش پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑی ذلت جہل و نادانی ہے کیونکہ جاہل گونگا بہرہ اندھا اور حیران و سر گردان ہوتا ہے۔
19ـ قالَ (عليه السلام): جُلُوسُ ساعَة عِنْدَ الْعُلَماءِ أحَبُّ إلَى اللّهِ مِنْ عِبادَةِ ألْفِ سَنَة، وَ النَّظَرُ إلَى الْعالِمِ أحَبُّ إلَى اللّهِ مِنْ إعْتِكافِ سَنَة فى بَيْتِ اللّهِ، وَ زيارَةُ الْعُلَماءِ أحَبُّ إلَى اللّهِ تَعالى مِنْ سَبْعينَ طَوافاً حَوْلَ الْبَيْتِ، وَ أفْضَلُ مِنْ سَبْعينَ حَجَّة وَ عُمْرَة مَبْرُورَة مَقْبُولَة، وَ رَفَعَ اللّهُ تَعالى لَهُ سَبْعينَ دَرَجَةً، وَ أنْزَلَ اللّهُ عَلَيْهِ الرَّحْمَةَ، وَ شَهِدَتْ لَهُ الْمَلائِكَةُ: أنَّ الْجَنَّةَ وَ جَبَتْ لَهُ.( 19
19ـ علماء کی بزم میں ایک گھڑی بیٹھنا اللہ کو ایک ہزار سال کی عبادت سے زیادہ پیارا ہے ۔ اور اور عالم کی طرف دیکھنا اللہ کو بیت اللہ(کعبہ) میں اعتکاف کرنے سے زیادہ پیارا ہے علماء کی زیارت کو جانا اللہ کو بیت اللہ کے ارد گرد ستر طواف سے زیادہ پیارا ہے اور ستر مقبول حج و عمرہ سے زیادہ افضل ہے اور اللہ اس کے (زائر علماء) ستر درجات بلند کردتیا ہے اس پر اپنی رحمتیں نازل کرتا ہے ملائکہ اس کے گواہ بن جاتے ہیں کہ بہشت اس کے لئے واجب ہو چکی ہے ۔
20ـ قالَ (عليه السلام): يَا ابْنَ آدَم، لا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذى لَمْ يَأتِكَ عَلى يَوْمِكَ الَّذى أنْتَ فيهِ، فَإنْ يَكُنْ بَقِيَ مِنْ أجَلِكَ، فَإنَّ اللّهَ فيهِ يَرْزُقُكَ.( 20
20ـ اے فرزند آدم! جس دن میں زندگی بسر کر رہے ہو اس پر اس دن کے ہم وغم نہ ڈالوں جو ابھی تمہاری زندگی میں داخل نہیں ہوا ہے اگر وہ تمہاری زندگی کا حصہ ہے تو اللہ اس دن تمہارے رزق کو فراہم کرے گا۔
21ـ قالَ (عليه السلام): قَدْرُ الرَّجُلِ عَلى قَدْرِ هِمَّتِهِ، وَ شُجاعَتُهُ عَلى قَدْرِ نَفَقَتِهِ، وَ صِداقَتُهُ عَلى قَدْرِ مُرُوَّتِهِ، وَ عِفَّتُهُ عَلى قَدْرِ غِيْرَتِهِ.( 21
21ـ انسان کی قدر و قیمت اس ہمت کے برابر ہوتی ہے اور اس کی شجاعت اس کے عفو و در گزر کرنے کے برابر ہوتی ہے اور اس کی سچائی اس کی مروت و مردانگی کے برابر ہوتی ہے اور اس کی عفت وپاکدامنی اس کی غیرت و حمیت کے برابر ہوتی ہے۔
22ـ قالَ (عليه السلام): مَنْ شَرِبَ مِنْ سُؤْرِ أخيهِ تَبَرُّكاً بِهِ، خَلَقَ اللّهُ بَيْنَهُما مَلِكاً يَسْتَغْفِرُ لَهُما حَتّى تَقُومَ السّاعَةُ.( 22
22ـ جو شخص اپنے دینی بھائی کو جھوٹا پانی تبرکا پیئے گا تو ان دونوں کے لئے خدا وند متعال ایک فرشتہ خلق فرمائے گا جو قیامت تک ان دونوں کے لئے استغفار کرتا رہے گا۔
23ـ قالَ (عليه السلام): لا خَيْرَ فِى الدُّنْيا إلاّ لِرَجُلَيْنِ: رَجَلٌ يَزْدادُ فى كُلِّ يَوْم إحْساناً، وَ رَجُلٌ يَتَدارَكُ ذَنْبَهُ بِالتَّوْبَةِ، وَ أنّى لَهُ بِالتَّوْبَةِ، وَالله لَوْسَجَدَ حَتّى يَنْقَطِعَ عُنُقُهُ ما قَبِلَ اللهُ مِنْهُ إلاّ بِوِلايَتِنا أهْلِ الْبَيْتِ.( 23
23ـ دنیا صرف دو قسم کے لوگوں کے لئے بھلائی ہے ایک وہ شخص جو ہر روز اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور دوسرے وہ شخص جو اپن گناہوں کا توبہ و استغفار کے ذریعہ تدارک کیا کرتا ہے اور یہ بھی طے ہے کہ کوئی بندہ توبہ کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔ خدا کی قسم اگر کوئی اتنا طولانی سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کی گردن ٹوٹ جائے تب بھی خدا وند متعال ہم اہل بیت(ع) کی ولایت کا اقرار کئے بغیر قبول نہیں کرے گا۔
24ـ قالَ (عليه السلام): عَجِبْتُ لاِبْنِ آدَم، أوَّلُهُ نُطْفَةٌ، وَ آخِرُهُ جيفَةٌ، وَ هُوَ قائِمٌ بَيْنَهُما وِعاءٌ لِلْغائِطِ، ثُمَّ يَتَكَبَّرُ.( 24
24ـ بنی آدم پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اس کی ابتداء نطفہ ہے اور اس کا انجام مردار اور دونوں کے درمیان وہ فضلہ کا برتن لئے کھڑا ہے پھر بھی تکبر کرتا ہے۔
25ـ قالَ (عليه السلام): إيّاكُمْ وَ الدَّيْن، فَإنَّهُ هَمٌّ بِاللَّيْلِ وَ ذُلٌّ بِالنَّهارِ.( 25
25ـ خبردار قرض نہ لو کہ قرض رات میں ہم وغم اور دن میں ذلت و رسوائی کا باعث ہے ۔
26ـ قالَ (عليه السلام): إنَّ الْعالِمَ الْكاتِمَ عِلْمَهُ يُبْعَثُ أنْتَنَ أهْلِ الْقِيامَةِ، تَلْعَنُهُ كُلُّ دابَّة مِنْ دَوابِّ الاْرْضِ الصِّغارِ.( 26
26ـ اپنے علم کو چھپاکے رکھنے والا عالم بروز قیامت بڑا بد بودار اٹھایا جائے گا اور اس پر زمین کے تمام حشرات لعنت کرتے ہیں۔
27ـ قالَ (عليه السلام): يا كُمَيْلُ، قُلِ الْحَقَّ عَلى كُلِّ حال، وَوادِدِ الْمُتَّقينَ، وَاهْجُرِ الفاسِقينَ، وَجانِبِ المُنافِقينَ، وَلاتُصاحِبِ الخائِنينَ.( 27
27ـ اے کمیل! ہر حال میں حق بات کہو۔ اور متقیوں سے خلوص بھری محبت کرو۔ فاسقوں کی ہمراہی چھوڑ دو منافقوں سے دور رہو اور خائنوں کے ساتھ نہ اُٹھو بیٹھو۔
28ـ قالَ (عليه السلام): فى وَصيَّتِهِ لِلْحَسَنِ (عليه السلام): سَلْ عَنِ الرَّفيقِ قَبْلَ الطَّريقِ، وَعَنِ الْجارِ قَبْلَ الدّارِ.( 28
28ـ حضرت امام امیر المومنین (ع) نے حضرت امام حسن علیہ السلام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: سفر سے پہلے ہم سفر کے متعلق معلومات فراہم کرو، اور گھر سے پہلے پڑوسی کے متعلق سوال کرو۔
29ـ قالَ (عليه السلام): اِعْجابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ دَليلٌ عَلى ضَعْفِ عَقْلِهِ.( 29
29ـ انسان کا اپنی ہی ذلت پر تعجب ہونا اس کی کم عقلی کی دلیل ہے ۔
30ـ قالَ (عليه السلام): أيُّهَا النّاسُ، إِيّاكُمْ وُحُبَّ الدُّنْيا، فَإِنَّها رَأْسُ كُلِّ خَطيئَة، وَبابُ كُلِّ بَليَّة، وَداعى كُلِّ رَزِيَّة.( 30
30ـ اے لوگو! دنیا کی محبت سے خبردار اس کہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کا سرمایہ ہر آفت وبلا کا دروازہ اور ہر مصیبت کو کھینچ لانے والی ہے ۔
31ـ قالَ (عليه السلام): السُّكْرُ أرْبَعُ السُّكْراتِ: سُكْرُ الشَّرابِ، وَسُكْرُ الْمالِ، وَسُكْرُ النَّوْمِ، وَسُكْرُ الْمُلْكِ.( 31
31ـ نشہ چار قسم ہوتا ہے ۔شراب کا نشہ ، مال کا نشہ، نیند کا نشہ، جاہ ومقام کا نشہ۔
32ـ قالَ (عليه السلام): أللِّسانُ سَبُعٌ إِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ.( 32
32ـ زبان ایک درندہ ہے جسے چھوڑ دیا جائے تو زخمی کر دے گا۔
33ـ قالَ (عليه السلام): يَوْمُ الْمَظْلُومِ عَلَى الظّالِمِ أشَدُّ مِنْ يَوْمِ الظّالِمِ عَلَى الْمَظْلُومِ.( 33
33ـ ظالم پر مظلوم کے اقتدار کا دن ظالم کے مظلوم کے اوپر اقتدار کے دن سے سخت تر ہے۔
34ـ قالَ (عليه السلام): فِى الْقُرْآنِ نَبَأُ ما قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ ما بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ ما بَيْنِكُمْ.( 34
34ـ قرآن میں تم سے پہلے والوں کی خبریں، اور تمہارے بعد آنے والوں کی خبریں اور تمہارے درمیان پیش آنے والے واقعات کا حکم و دستور موجود ہے۔
35ـ قالَ (عليه السلام): نَزَلَ الْقُرْآنُ أثْلاثاً، ثُلْثٌ فينا وَفى عَدُوِّنا، وَثُلْثٌ سُنَنٌ وَ أمْثالٌ، وَثُلْثٌ فَرائِض وَأحْكامٌ.( 35
35ـ قرآن تین حصوں پر مشتمل ہے ایک تہائی، ہمارے تعریف و تمجید میں ہے اور ہمارے دشمنوں کی سر زنش میں ہے ایک تہائی مثالیں اور سیرت وسنت ہے اور ایک تہائی فرائض واحکام پر مشتمل ہے۔
36ـ قالَ (عليه السلام): ألْمُؤْمِنُ نَفْسُهُ مِنْهُ فى تَعَب، وَالنّاسُ مِنْهُ فى راحَة.( 36
36ـ مومن کا نفس اس سے تھکا ہوا ہوتا ہے اور لوگ اس سے راحت وآرام میں ہوتے ہیں ۔
37ـ قالَ (عليه السلام): كَتَبَ اللّهُ الْجِهادَ عَلَى الرِّجالِ وَالنِّساءِ، فَجِهادُ الرَّجُلِ بَذْلُ مالِهِ وَنَفْسِهِ حَتّى يُقْتَلَ فى سَبيلِ اللّه، وَجِهادُ الْمَرْئَةِ أنْ تَصْبِرَ عَلى ماتَرى مِنْ أذى زَوْجِها وَغِيْرَتِهِ.( 37
37ـ اللہ نے جہاد کو مرد اور عورت دونوں پر واجب کیا ہے مرد کا جہاد جان ومال کی قربانی ہے یہاں تک کہ وہ راہ خدا میں قتل ہو جائے۔ اور عورت کا جہاد اپنے شوہر کی اذیتوں پر صبر کرنا ہے ۔
38ـ قالَ (عليه السلام): فى تَقَلُّبِ الاْحْوالِ عُلِمَ جَواهِرُ الرِّجالِ.( 38
38ـ حالات کی تبدیلی میں لوگوں کے جو ہر کھلتےہیں۔
39ـ قالَ (عليه السلام): إنّ الْيَوْمَ عَمَلٌ وَلا حِسابَ، وَغَداً حِسابٌ وَ لا عَمَل.( 39
39ـ آج عمل کا دن ہے حساب کا نہیں اور کل حساب کا دن ہوگا عمل کا نہیں۔
40ـ قالَ (عليه السلام): إتَّقُوا مَعَاصِيَ اللّهِ فِى الْخَلَواتِ فَإنَّ الشّاهِدَ هُوَ الْحاكِم.( 40
40ـ خلوتوں میں اللہ کی معصیت سے ڈرو اس لئے کہ دیکھنے والا ہی حاکم ہوگا۔
منابع و مآخذ
1ـ أمالى صدوق: ص 97، بحارالأنوار: ج 90، ص 343، ح 1.
2 ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 114 ح 29، بحارالأنوار: ج 1، ص 169، ح 20.
3ـ وسائل الشّيعة: ج 25، ص 434، ح 32292.
4 ـ وافى: ج 4، ص 402، س 3.
5 ـ أعيان الشّيعة: ج 1، ص 350، بحارالأنوار: ج 41، ص 150، ضمن ح 40.
6 ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 55، بحارالأنوار: ج 2، ص 48، ح 7.
7 ـ أمالى صدوق: ص 95، بحارالأنوار: ج 68، ص 181، ح 35.
8 ـ بحار الأنوار: ج 5، ص 317، ح 16، به نقل از ثواب الأعمال.
9 ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 372، بحارالأنوار: ج 63، ص 152، ح 5.
10 ـ أمالى طوسى: ج 1، ص 372، بحارالأنوار: ج 63، ص 155، ح 5.
11 ـ عدّة الدّاعى: ص 85، ص 1، بحارالأنوار: ج 101، ص 73، ح 24.
12 ـ مستدرك الوسائل: ج 16، ص 291، ح 19920.
13 ـ بحارالأنوار: ج 69، ص 68، س 2، ضمن ح 28.
14 ـ محبّة البيضاء: ج 5، ص 144، تنبيه الخواطر: ص 195، س 16.
15 ـ مستدرك الوسائل: ج 3، ص 210، ح 3386.
16 ـ بحارالأنوار: ج 1، ص 96، ح 40.
17 ـ بحارالأنوار: ج 70، ص 13.
18 ـ نزهة الناظر و تنبيه الخاطر حلوانى: ص 70، ح 65.
19 ـ عدّة الدّاعى: ص 75، س 8، بحارالأنوار: ج 1، ص 205، ح 33.
20 ـ نزهة الناظر و تنبيه الخاطر حلوانى: ص 52، ح 26.
21ـ نزهة الناظر و تنبيه الخاطر حلوانى: ص 46، ح 12.
22ـ اختصاص شيخ مفيد: ص 189، س 5.
23۔ وسائل الشيعة: ج 16 ص 76 ح 5.
24 ـ وسائل الشّيعة: ج 1، ص 334، ح 880.
25 ـ وسائل الشّيعة: ج 18، ص 316، ح 23750.
26 ـ وسائل الشّيعة: ج 16، ص 270، ح 21539.
27 ـ تحف العقول: ص 120، بحارالأنوار: ج 77، ص 271، ح 1.
28 ـ بحارالأنوار: ج 76، ص 155، ح 36، و ص 229، ح 10.
29 ـ اصول كافى: ج 1، ص 27، بحارالأنوار: ج 1، ص 161، ح 15.
30 ـ تحف العقول: ص 152، بحارالأنوار: ج 78، ص 54، ح 97.
31 ـ خصال: ج 2، ص 170، بحارالأنوار: ج 73، ص 142، ح 18.
32 ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 3، ص 165.
33 ـ شرح نهج البلاغه فيض الاسلام: ص 1193.
34 ـ شرح نهج البلاغه فيض الاسلام: ص 1235.
35 ـ اصول كافى، ج 2، ص 627، ح2.
36 ـ بحارالأنوار: ج 75، ص 53، ح 10.
37 ـ وسائل الشّيعة: ج 15، ص 23، ح 19934.
38 ـ شرح نهج البلاغه فيض الإسلام: ص 1183.
39 ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 1، ك 41.
40 ـ شرح نهج البلاغه ابن عبده: ج 3، ص
http://aliakbarkarimi.blogfa.com/
Add new comment