سورہ کوثر اور حضرت فاطمہؑ

 

 

بسمہ تعالیٰ

''اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ٭ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ٭ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ''

(سورہ کوثر)

کوثر کا مفہوم:

قرآنِ مجید میں خداوند تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے

''اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ'' (سورہ کوثر، آیت ١)

اے رسولۖ! ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے۔ کوثر خداوند متعال کی برکتوں، حکمتوں اور علوم کا خزانہ ہے اور خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ اگر ہم نے اپنی حکمت کی ایک جھلک بھی کسی کو عطا کی ہے تو اُسے خیر ِکثیر دیا ہے۔

''وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا'' (سورہ بقرہ، آیت ٢٦٩)

رسولِ خاتم ۖکو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے رسولۖ! ہم نے آپ کو وہ خرانۂ حکمت سارے کا سارا عطا کردیا ہے جس کانام کوثر ہے۔

عقیدت و حقیقتِ معصومین:

ہم آئمہ اطہار ٪ کے بارے میں عقیدت تو رکھتے ہیں لیکن ایک چیز جو ہماری عقیدتوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے وہ معصومین ٪ کی حقیقت ہے جو خدا نے پنہاں رکھی ہوئی ہے۔ انبیاء کرام ٪کی ایک حقیقت ہے، آئمہ اطہار ٪ کی ایک حقیقت ہے اور یہ اسوے جو خداوند تبارک وتعالیٰ نے مقرر کئے ہیں انکے اندر خدا نے ایک حقیقت ودیت کی ہے اور انکے اندر تمام بشریت کیلئے امانت رکھی ہے۔ درحقیقت حضرت زہراء کی ہستی اور وجود خداوند تبارک و تعالیٰ کی طرف سے تمام بشریت کیلئے حاملِ امانت ہے۔

جنابِ زہراء ، رازِ نظمِ ہستی:

جس طرح ہم جب بارگاہِ خدا میں دعا کرتے ہیں اور حضرت سیدہ کا واسطہ پیش کرتے ہیں کہ

''اللھم بحق فاطمہ وابیھا وبعلھا وبنیھا وسرالمستودع فیھا''

یعنی اے خدا! تجھے فاطمہ کا واسطہ، تجھے فاطمہ کے والد کا واسطہ، تجھے فاطمہ کے زوجِ محترم کا واسطہ اور تجھے فاطمہ کے بیٹوں کا واسطہ اور اے خدا! تجھے اُس راز کا واسطہ جو تو نے فاطمہ کی ذات کے اندر رکھا ہے۔ یہ واسطہ جب ہم بارگاہِ خدا میں پیش کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے وہ سرِ مستودع، وہ ودیّت شدہ امانت جو خداوند متعال نے ذاتِ گرامی حضرت زہراء میں پنہاں رکھی ہے وہ کیا ہے؟ دراصل پیروکاروں کاکام جہاں پر عقیدتوں کا اظہار کرنا ہے وہاں پیشوائوں کی ذات کے اندر موجود حقیقت کا انکشاف کرنا بھی ہے۔ ہم اپنے طور پر عقیدتیں تو ادا کرتے ہیں لیکن وہ حقیقتیں جو خدا نے ان معصومین ٪کے اندر رکھی ہیں، جو ہماری اور تمام بشریت کی سعادت اور نجات کا ذریعہ ہیں، ان حقیقتوں کیطرف توجہ ہی نہیں کرتے۔

تمام معصومین بحیثیت اسوۂ حسنہ:

قرآن مجید میں خداوند تعالیٰ نے رسول اللہ ۖ کو بطوراسوۂ حسنہ متعارف کروایا ہے اور مؤمنین کو خطاب کیا ہے کہ

''لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَة'' حَسَنَة'''' (سورہ احزاب، آیت ٢١)

آپۖ کی ذاتِ گرامی تمام مؤمنین، مسلمین اورتمام انسانوں کیلئے اسوۂ حسنہ ہے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقام پر حضرت ابراہیم کو اسوہ قرار دیاگیا کہ ابراہیم کی ذات میں تمہارے لئے اسوہ موجود ہے۔تمام معصومین ٪کے بارے میںیہ روایات موجود ہیں۔ سید الشہداء ـ فرماتے ہیں:

''لکم فینا اسوہ''

اے لوگو! میں تمہارے لئے اسوہ ہوں، امیرالمومنین کی ذات ہمارے لئے اسوہ ہے، آئمہ اطہار ٪میں سے ہر ہستی و ہر ذاتِ مقدس ہمارے لئے اسوہ ہیں اور امامِ زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف فرماتے ہیں کہ ہم اہلبیت ٪ مؤمنین اور تمام انسانوں کیلئے اسوہ ہیں اورہماری جدہ و ہماری مادرِ گرامی حضرت زہراء ہم معصومین کیلئے اسوہ ہیں۔

اسوہ کا مفہوم:

اسوہ سے مراد محض ایک مقدس ہستی نہیں ہے۔ اسوہ رسول کو نہیں کہتے، اسوہ امام کو نہیں کہتے اور اسوہ معصوم کو بھی نہیں کہتے، اسوہ کا معنی اگر سادہ اور عام بول چال کی زبان میں بیان کیا جائے تو اسوہ سے مراد وہ رول ماڈل یا وہ عملی نمونہ ہے جسکو خداوند متعال نے اسلئے سنوارا ہے تاکہ تمام انسانیت اس نمونے کو دیکھے اور اس جیسا طرزِ زندگی اپنا ئے۔وہ رول ماڈل اور نمونۂ عملی کہ جسکے اندر خداوند متعال نے تمام اوصافِ حمیدہ اور فضیلتیں رکھ دی ہوں اور تمام دین کو مجسم کردیا ہے اُس ہستی کانام اسوہ ہے۔ حضرت سیدہ تمام بشریت کیلئے اسوہ ہیں۔ پس اسوہ سے مراد وہ رول ماڈل ہے جسکو دیکھ کر انسان نے اپنی زندگی بسر کرنی ہے۔

میڈ یا کا بنایا ہوا اسوہ یا رول ماڈل:

آج ہر ایک شخص خصوصاًخواتین، خواہ وہ گھریلو خواتین ہوںیا معاشرتی، سب کیلئے کوئی نہ کوئی اسوہ یار ول ماڈل ضرورہے۔ آج ہمارے پاس اسوہ اور رول ماڈل کا منبع میڈیا اور ٹیلی ویژن چینل ہیں جنہیں دیکھ کر ہم اپنی زندگی بناتے ہیں مثلاً آج خواتین جو لباس پہنتی ہیں یہ انکے اپنے ذہن کی خلاقیت نہیں بلکہ کسی ماڈل سے لیا گیا ہوتاہے۔ جسطرح اپنا گھر بنایا ہوتاہے یہ بھی کسی ماڈل سے لیا ہوتا ہے، جو کھاناپکتا ہے وہ بھی کسی ماڈل سے لیا ہوتا ہے، گھروں کے ماحول، شخصیت اور اپنی ذات کیلئے جو کچھ حلیہ بنایا ہوا ہے یہ حلیہ درحقیقت کسی کی نقالی ہے۔ ممکن ہے یہ نقالی کسی فلم، ڈرامے، پروگرام، کسی ٹی وی میزبان یا کسی اداکارکو دیکھ کر کی گئی ہواوربہت کچھ آلودگی جو اس معاشرے کے اندر موجود ہے اور جسے ہم صبح شام دیکھتے ہیں، اس سے کچھ نہ کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ عموماً خواتین میں تقلید کی ایک بڑی خوبی اور اچھی صفت پائی جاتی ہے کہ جس چیز کو دیکھتی ہیں فوراً اُسکو کاپی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر وہ کسی کے گھر، شادی بیاہ یا مجلس میں جائیں توساتھ بیٹھی ہوئی خواتین اُنکے لباس اور اسکی رنگت کو دیکھیںگی، اُنکے دوپٹوں، پوشاک، جوتوں اور اُنکے باقی تمام حلیے کو دیکھیں گی اور اُس میں سے ممکن ہے کسی ایک چیز کو کاپی کرکے اپنا لیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اسوے انتخاب کرلیے ہیں۔ آج کوئی بھی خاتون ایسی نہیں ہے کہ جو یہ کہے کہ میں نے زندگی میں کسی سے کچھ بھی نہیں اپنایا، میں نے جو کچھ بھی کیاہے اپنی ہی خلاقیت سے کیا ہے، یہ کائنات کا سب سے بڑا جھوٹ ہوگا۔ یقینا ہم نے کسی نہ کسی سے کچھ سیکھا ہے۔

کوثر، ہر زمانے کے لئے ذریعۂ ہدایت:

خداوند متعال نے پیامبراکرم ۖ کو کوثر عطا کی۔ کوثر نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ تمام بشریت اور قیامت تک آنیوالی ساری نسلیں، جدید دور کی عورتیں خواہ وہ پڑھی لکھی عورتیں ہوں یا ان پڑھ، دیہات کی عورتیںہوں یا شہر کی، سیاسی عورتیں ہوں یا معمولی، پرانے زمانے کی عورتیں یا زرعی و صنعتی زمانے کی، یورپی عورتیں ہوں یا مشرقی، مسلمان عورتیں ہوں یا غیر مسلمان، غرض عورت جتنی بھی تعلیم یافتہ اور پڑھی لکھی کیوں نہ ہو، کوثروہ خزانہ ہے کہ جس میں ہر دور کی خواتین کیلئے ہدایت موجود ہے۔

اسوہ حسنہ بمقابلہ اسوہ سیئہ:

ہر زمانے کی عورت حضرت زہراء کی زندگی سے الہام لے سکتی ہے۔ آج خواتین جس ماڈل کو تلاش کرتی ہیں،جن سے اسوہ لیتی ہیں اورجن سے طرزِ زندگی سیکھتی ہیں وہ اسوۂ حسنہ نہیں بلکہ اسوۂ سیئہ ہیں یعنی وہ بُرا اسوہ ہیں جو ہمارے گھروں میں گھس آیا ہے۔ ٹی وی، میڈیا، ڈراموںاور بہت ساری دیگر چیزوں نے ناپاک ترین اسووں کو اُٹھا کر ہمارے گھروں میں پیش کر دیا ہے اور انکو دیکھ کر ہم اپنی زندگیاں بنارہے ہیں لیکن جو اسوہ خدا نے مقرر کیا ہے اور جسکو دیکھ کر ہم نے اپنی زندگی بنانی ہیں، اُسکے بارے میں ہم فقط اپنی عقیدت کا اظہار کردیتے ہیں۔ اُسے فقط خدا کی بارگاہ میں اپنی دُعائیں منظور کرانے کیلئے پیش کرتے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کو فقط اپنی حاجات کی برآوری کیلئے حضرت زہراء کا واسطہ پیش کرتے ہیں تو خدا کا جواب یہ ہوتا ہے کہ جو واسطہ تم مجھے اپنی دُعا کی قبولیت کیلئے پیش کررہی ہو اس واسطے کو میں نے اسلئے نہیں بھیجا تھا کہ تم فقط اپنی خواہشات منوانے کیلئے اسے میرے سامنے پیش کرو بلکہ اسے اسلئے بھیجا تھا کہ زہراء تمہیں ہر آلودگی سے نجات دے، تمہیں ہر قسم کی پستی سے نکالے اور ہر قسم کے اُس ادنیٰ پن سے بچائے جو تمہارے شایانِ شان نہیں ہے۔

فقط عقیدت پر اکتفاء نہ کریں:

خواتین کی ذمہ داری اوررسالت بہت عظیم ہے۔ فقط یہ فریضہ نہیں کہ ہم اپنی عقیدتوں کا اظہار کریں، شہادتِ فاطمہ پر روئیں اور ولادتِ فاطمہ پر اکٹھے ہوکر جشن منا ئیں اورکوئی منقبت سن کر گھر چلے جائیں۔ یہ ہمارااظہارِ ادب ضرور ہے، اگرچہ ہمارے لئے یہ عقیدت رکھنا واجب ہے اور چاہے کتنی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں ہم نے اُس عقیدت کا اظہار بھی لازماً کرنا ہے لیکن یہ نہ ہو کہ فقط عقیدتوں پر اکتفاء کرلیں اور وہ حقیقتیں جو ان ہستیوں کے اندر موجود ہیں وہ ہمارے لئے پوشیدہ ہی رہ جائیں۔

خواتین کی عظیم ذمہ داری:

آج خواتین کی رسالت و ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ وہ تمام ذمہ داری جو حضرت سیدہ نے اپنی زندگی میں ہر مرد و عورت کو بتائی اسے اپنی زندگیوں میں نبھایا جائے۔ حضرت زہراء نے بتایا کہ جب اُمت کو نامناسب اور غلط رول ماڈل، غلط اسووں اور غلط نظام کے ذریعے گمراہ کیا جارہاہو تو اُسوقت ہر فرد کا فریضہ ہے کہ وہ میدان میں آئے اور دین ِ خدا، دین ِالٰہی اور ہدایت ِ الٰہی کوبرملا کرے۔

دنیا، د ینِ فاطمی کی محتاج:

آج ہمیں دین ِفاطمی کی ضرورت ہے۔ امام خمینی نے اُسوقت اعلان کیا تھا کہ آج مسلمانوں کے پاس اسلام تو موجود ہے لیکن یہ اسلام ِفاطمی، اسلام ِ حسینی اور اسلام ِمحمدی نہیں بلکہ یہ وہ اسلام ہے جو پیشہ وروں نے بتایا ہے اور اسلام دشمنوں کے کام آتا ہے، یہ وہ اسلام ہے جسے لوگ اسلام سے دور کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں، اسلئے امام نے فرمایااسلامِ نابِ محمدیۖ نجات کا ذریعہ ہے۔ امام خمینی نے آکر اُس اسلام کو زندہ کیا اوردرحقیقت حضرت زہراء کو ہی اپنا رول ماڈل بنایا۔

جنابِ زہراء پوری بشریت کے لئے اسوہ:

عموماً ہم ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ حضرت زہراء کو فقط خواتین کیلئے اسوہ کے طور پیش کرتے ہیں۔ حضرت زہراء فقط خواتین کیلئے نہیں بلکہ پوری بشریت اور خصوصاً علماء کیلئے اسوہ ہیں۔ امامِ زمانہ فرماتے ہیں کہ حضرت زہراء ہم معصومین کیلئے اسوہ ہیں۔ امام خمینی نے حضرت زہراء کی زندگی سے یہ سیکھا کہ رسول اللہ ۖ کی رحلت کے بعد جب اُمت کو دن دہاڑے راہِ رسول اللہ ۖ سے ہٹا دیا گیا، دین کے نام پر دین ِ الٰہی سے دور کردیاگیا، اسلام کے نام پر اسلام سے دور کردیا گیا، جانشینی رسولۖ کے نام پر جانشین ِرسول اللہ ۖ سے دور کردیاگیاتو اُسوقت ایک بابصیرت ہستی مدینے کے اندر موجود تھی۔بڑے بڑے صحابی اور فقہاء و علماء بھی موجود تھے، بڑے بڑے جنگجو و مجاہد بھی موجود تھے لیکن اُس دن جس ہستی کی بصیرت اسلام کے کام آئی، جس ہستی کی بصیرت نے دین کو نجات دی اُس ہستی کانام حضرت زہراء ہے، اُس ہستی کانام حضرت فاطمہ ہے، خدا نے اسی لئے رسول اللہ ۖ کو یہ کوثر عطا کی۔ کوثر کا کام یہ ہے کہ تیرے سارے دشمنوں کو ابتر کردے گی۔

''اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ ٭ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ٭ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ'' (سورہ کوثر)

خطِ جنابِ زہراء سے دشمن کی نابودی:

شان عربی زبان میں دشمن کو کہتے ہیں۔ دشمن رسول اللہ ۖ کو طعنہ دیتا تھا کہ اس رسولۖ کاکوئی وارث نہیں ہے، اس رسولۖ کے بعد اسکی کوئی نسل نہیں ہے لیکن خداوند تعالیٰ نے کوثر کا تحفہ دے کر فرمایا کہ اس کوثر کے ذریعے سے تیرا دشمن ہی ابتر ہوجائے گا یعنی اگرچہ زہراء تنہا ہوگی لیکن راہِ زہراء ، دین ِزہراء ، عمل ِزہراء اور خط ِزہراء قیامت تک زندہ ہوجائے گا اور آج یہ جو اکٹھے ہوکر زہراء سے ہٹ کر الگ سے اپنا راستہ طے کرنا چاہتے ہیں ان کا راستہ بھی کٹ جائے گا۔

ابتر کا مفہوم:

ابتر اُس جانور کو کہتے ہیں جسکی دُم کٹی ہوئی ہو، جسکے پیچھے کوئی نہ ہو اُس کو دُم کٹا کہتے ہیں۔ یہ لوگ رسول اللہ ۖ کو کہتے تھے کہ رسولۖ کی نسل نہیں ہے جبکہ انکے مقابلے میں اللہ نے فرمایا کہ اس رسول ۖ کی نسل بھی ہوگی اور رسول ۖکا سلسلہ بھی قائم رہے گا، رسول ۖ کا دین اور نظام بھی جاری رہے گا اور رسولۖ کی اُمت بھی قائم رہے گی اور اسکا سلسلۂ نسب بھی جاری رہے گا جبکہ انکے دشمنوں کا نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔

مقصدِ قیامِ حضرتِ زہراء :

حضرت زہراء نے رحلت ِرسول اللہ ۖکے بعدحکومت ِوقت کیخلاف قیام کیا۔ ہمیںمنبروں سے یہ بتایا گیا ہے کہ سارا جھگڑا جائیداد کا تھا یعنی حضرت زہراء کا ہم وغم ایک کھجوروں کا باغ تھا جو ان سے چھین لیا گیا اور جسکا ان کو بڑا دکھ تھالہٰذا اُس باغ کے حصول کیلئے حضرت زہراء میدان میں آئیں، مسجد میں خطبے دئیے لیکن اُسکے بعد بھی حضرت زہراء کو وہ باغ نہیں ملا جس کی وجہ سے وہ دکھ میں مبتلا ہوئیں اور اُسی دکھ کے باعث دُنیا سے چلی گئیں۔ یہ جنابِ زہراء کی فضیلت نہیں ہے جو بیان کی گئی ہے۔

اگرچہ فدک کا تنازعہ اپنی جگہ موجود تھا اور حضرت زہراء نے خطبہ میں کہا کہ فدک میرا حق ہے جو مجھ سے چھین لیا گیا ہے لیکن اصل میں حضرت زہراء اُس جائیداد، باغ یا کھجور کے درختوں کیلئے نہیں گئیں چونکہ زہراء وہ ہستی ہیں کہ حضرت جبرائیل ایک دن رسول اللہ ۖ پر نازل ہوئے اور آکر کہا کہ اے اللہ کے رسول ۖ! آج میں آپکی خدمت میں کوئی حکمِ شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ فقط اسلئے آیا ہوں کہ اللہ کا فرمانا ہے اے جبرائیل !جائو اور میرے رسول ۖ سے کہو کہ زہراء سے پوچھیں کہ آج زہراء کو کیا چاہیے؟ آج جو کچھ زہراء چاہے گی خدا اُسکو عطا کر دے گا۔

اگر زہراء مانگتیں تو ایک کھجوروں کا باغ ہی نہیں بلکہ پوری زمین اور کائنات بھی مانگتیں تو خدا وہ بھی دے دیتا لیکن جناب ِزہراء نے فرمایا کہ یارسول اللہ ۖ! میری تین خواہشیں ہیں جو میں خدا سے مانگنا چاہتی ہوں: پہلی یہ کہ میں جب تک زندہ ہوں مجھے تلاوتِ قرآن کی توفیق نصیب رہے، دوسری یہ کہ میں جب تک زندہ ہوں مجھے زیارتِ چہرۂ رسول اللہ ۖنصیب رہے اور تیسری یہ کہ مجھے راہِ خدا میں خرچ کرنے کا بڑا شوق ہے، مجھے اللہ اتنی توفیق دے کہ میں اپنا سب کچھ راہِ خدا میں انفاق کردوں۔ خدا نے یہ تینوں خواہشات فوراً قبول فرما لیں۔اسی لئے حضرت زہراء قرآن پڑھتے ہوئے ہی دُنیا سے گئیں اور علی ـ کو وصیت کی، یاعلی ! میری وصیتوں میں سے ایک وصیت یہ ہے کہ جب موقع ملے تو میری قبر پر آکر میرے لئے قرآن پڑھنا اور امیر المومنین نے جسطرح دیگر وصیتوں پر عمل کیا، اس وصیت پر بھی عمل کرتے رہے۔

حضرت زہراء کی دوسری خواہش بھی اللہ نے پوری کی جو زیارتِ چہرۂ رسول اللہ ۖ تھی۔ رسول اللہ ۖ کی وفات حضرت زہراء کی آغوشِ اقدس میں ہوئی اور جب وقت ِرحلت قریب آیا تو جنابِ زہراء رونے لگیں، اُسوقت رسول اللہ ۖ نے بشارت دی کہ اے زہراء میرے جانے کے بعد میری سب سے پہلی زیارت بھی تجھے ہی نصیب ہوگی تو اُسوقت بی بی کے چہرے پر تبسم آگیا۔ اسی طرح جنابِ زہراء کاانفاق بھی اللہ نے قبول کیا اور زہراء کی ساری نسل دین ِخدا کیخاطر قربا ن ہوگئی۔ جو سرمایہ اللہ نے اس کوثر کو دیا تھا وہ سب کچھ اس کوثر نے دین ِخدا میں دے دیا حتیٰ اپنی جان تک بھی راہِ خدا میں دے دی۔

اسوہ فاطمیہ:

جب لوگ دین ِخدا سے رُخ موڑ لیں اور دین ِ خدا کے نام پر جعلی دین آ جائیں اور جب لوگ روحِ دین، نظام ِدین اور بنیادِ دین سے دور ہو جائیں، اُسوقت جو اس انحراف کے مقابلے میں میدان میں آئے وہ پیروکارِ زہراء کہلاتا ہے اور یہی اسوۂ فاطمیہ ہے۔فرزند ِزہراء امام خمینی نے حضرت زہراء سے یہی سیکھا کہ جب سب لوگ مدرسوں، مسجدوں، منبروں اور گھروں میں بیٹھے اپنا اپنا دین لے کر اُس پر عمل کررہے تھے اور اصل دین کی طرف متوجہ ہی نہیں تھے جبکہ یزیدیت، شہنشاہیت، شیاطین اور طاغوتوں کی حکمرانی تھی تو اُسوقت اس فرزند ِزہراء نے تنہا اپنی جدہ کی طرح میدان میں آکر لوگوں کو بتایا کہ یہ جو لوگوں کو دین کے نام پر دین سے دور کررہے ہو یہ رسول اللہ ۖ کا راستہ نہیں ہے، رسول اللہ ۖ کا راستہ وہ ہے جو دُختر رسول اللہ ۖ نے رحلت ِرسول ۖکے بعد لوگوں کو بتایا۔

اُس مختصر خطبۂ فدک میںحضرت زہراء نے ا صحاب رسولۖ کو دین کا پورا نصاب پڑھایا۔جو لوگ جانشینی ٔرسول اللہ ۖ کا دعویٰ کررہے تھے، اُنہیں بتایا کہ تم جانشین ِرسولۖ تو بن رہے ہو لیکن تمہیں دین ِرسول ۖ سمجھ میں نہیں آیا۔ آئو میں تمہیں بتاتی ہوں، میں دختر نبوت، دختر نبی، دختر ِ قرآن، دختر وحی تمہیں ایک پیامِ ِوحی سناتی ہوں، میں تمہیں بتاتی ہوں کہ قرآن کا کیا پیغام ہے؟ قرآن کا پیغام یہ ہے کہ وہ نظام جو خدا نے تمہارے لئے مقرر کیا ہے اُس نظام سے نہ تو لوگوں کو نہ ہٹائو اور نہ ہی خود دور ہٹو۔ اللہ کا نظام، نظامِ ولایت و امامت ہے۔ جنابِ سیدہ ایک باغ یا جائیداد کے جھگڑے کو لے کر دنیا کو یہ بتانا چاہتی تھیں کہ اے لوگو! سنو، یہ صرف جائیداد کا جھگڑا نہیں بلکہ امامت و ولایت کی بحث ہے اور آج میں محافظِ ولایت، مبلغ ِولایت اور مبلغ ِنظامِ امامت بن کر آپ صحابیوں، مفسروں، قاریانِ قرآن، کاتبینِ وحی، اہلِ مدینہ اور قیامت تک آنیوالوں کو بتا رہی ہوں کہ اگر آپ نے راستہ چلنا ہی ہے تو نظامِ امامت و نظامِ ولایت تمہارا دین ہے۔ اُس دن ولایت کے دفاع میں کوئی بھی حاضر نہیں ہوا، یا تو خاموش بیٹھے تھے یا اُس غاصب گروہ اور اُن سیاسی پارٹیوں کے حامی بن گئے تھے۔

امام علی ـ نے اپنا دفاع کیوں نہیں کیا؟

عام طور پر سوال کیا جاتا ہے کہ جب لوگ حضرت علی ـکے دروازے پر آئے اور درِ زہراء جلایا تو علی ـ باہرکیوں نہیں آئے اور جنابِ زہراء کو کیوںباہر آنا پڑا؟ اس مغالطے کا جواب یہ ہے کہ لوگ دروازے پر جنابِ فاطمہ کو نہیں بلکہ علی ـکو لینے آئے تھے لیکن علی ـاس وقت تنہا تھے، علی ـ نے اٹھنا چاہا، باہر آنا چاہا لیکن جنابِ سیدہ نے روک دیا اور کہا یا علی ! آپ نے اپنے میدانوں میں حق ادا کیا، آپ بدر میں لڑے، خندق میں لڑے، خیبر میں لڑے، حنین میں لڑے، سارے معرکے آپ نے سر کئے، اپنا قرض ادا کیا، دین ِخدا کو بچایا، رسول اللہ ۖکا ساتھ دیا لیکن آج یہ معرکہ آپ کا میدان نہیں، یہ زہراء کا میدان ہے۔آج زہراء زوجہ بن کر دروازے کے پیچھے نہیں آئیں بلکہ اپنے امام اور ولی کی پیروکار بن کر میدان میں آئیں، دروازے کے پیچھے یہ بتانے کیلئے آئیں کہ جب بھی ولایت اور امامت پر آنچ آتی ہے تو پیروکارِ ولایت کو ہی میدان میں آنا چاہئے، جنابِ زہراء نے یہ سنت قائم کی ہے کہ جب ولایت پر آنچ آتی ہے تو پیروکارِ ولایت یہ نہ سوچے کہ ولی اپنا دفاع خود کرے۔ پیروکارِ ولایت میدان میں آئے اگرچہ اس راہ میں اسکو اپنی جان بھی دینی پڑجائے۔ جنابِ سیدہ کو معلوم تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور انہوں نے بتا بھی دیا کہ اگر آپ در نہیں کھولیں گے تو ہم در کو جلا دیں گے۔ بی بی نے کہا جلادو، انہوں نے دروازے کو جلایا، بی بی پیچھے نہیں ہٹیں چونکہ بی بی کومعلوم تھا کہ یہ کیا کررہے ہیں اور کس طرف جانا چاہتے ہیں، یہ اسوۂ زہراء و اسوۂ فاطمیہ ہے۔

پاکستان کو اسوہِ فاطمی کی ضرورت:

آج کے زمانے میں پاکستان کی سرزمین پر جہاں گمراہی،کرپشن، لوٹ مار، فساد و فحشا، خرافات، گمراہیاں، لڑائی جھگڑے، فرقہ واریت، قتل و غارت، نفرت اور ہر چیز دین و مذہب کے نام پر ہورہی ہے ایسے میں پاکستان کی سب سے بڑی ضرورت دین ِفاطمی اور اسوۂ فاطمیہ ہے، اسلئے کہ اس وقت حضرتِ زہراء نے جان دے دی لیکن دین ِرسول ۖبچا لیا۔ یہ بات ایک بہت بڑے جید عالمِ دین، مرجعٔ تقلید اور فیلسوف نے کی ہے کہ اگر اُس دن زہراء میدان میں نہ آتیں تو آج شیعہ کا کوئی وجود نہ ہوتا۔ اصل میں تفکر ِشیعہ کو جنابِ سیدہ نے باقی رکھا ہے ورنہ ممکن نہیں تھا۔جس طرح آئمہ ٪ و اولادِ زہراء کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا، اسی طرح یہ راہ بھی ختم ہوجاتی لیکن بی بی نے اپنی زندگی میں ایسے اقدامات کیے کہ اس راہ کو ہمیشہ کیلئے زندہ کردیا اور دوسروں کو بھی یہ راستہ بتا دیا۔

خواتینِ انصار سے خطاب:

خطبۂ فدکیہ کے علاوہ جنابِ سیدہ کا ایک اور خطبہ بھی ہے جو آپ نے حالت ِبیماری میں انصار کی خواتین کے سامنے ارشاد فرمایا جب وہ عیادت کیلئے آئیں۔ یہ حضرت زہراء کا خطبۂ دوم ہے۔ جب حضرت زہراء زخمی ہونے کے بعد چند روز بستر ِبیماری پر تھیں اور کسی سے نہیں مل رہی تھیں۔ پہلے تو حضرت ان کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دے رہی تھیں پھر آخرکار انکے اصرار پر حضرت نے ان کو اجازت دی اور انصار کی خواتین (انصار وہ لوگ تھے جو مدینہ کے اوس و خزرج کے رہنے والے تھے اور مکہ سے ہجرت کرکے نہیں آئے تھے ) عیادت کیلئے آئیں۔اسکے بعد جنابِ سیدہ نے انکے سامنے ایک مفصل خطبہ بیان کیا جسکے بعد یہ عورتیں روتی، کہرام مچاتی، چہروں کو پیٹتی اور آہ و فریاد و واویلا کرتی ہوئیں حضرت سیدہ کے گھر سے باہر نکل کر مدینے میں پھیل گئیں اور مدینے کے ہر مرد کو پکڑ کر ملامت کرتیں اور کہتیں کہ ننگ ہو تم پر، تمہیں شرم آنی چاہئے کہ آج زہراء نے ہمیں اصل حقیقت بتائی ہے جبکہ تم کچھ اور بتا رہے تھے۔

خواتین کا فریضہ:

جنابِ سیدہ نے اُن خواتین کا فریضہ مقرر کیا اور فرمایا کہ اے خواتینِ انصار! اے دخترانِ اسلام! اے مستوراتِ اسلام! اے مخدراتِ دین! کوثر کا خطبہ سنو، درحقیقت یہ ہر زمانے کی خواتین سے خطاب ہے۔ خواتین کا کام فقط یہ نہیں کہ گھروں میں بیٹھی گھریلو کام کرتی رہیں، ٹی وی چینلوں سے فاسد انڈین اسوے دیکھتی رہیں،اداکاروں کی زندگیاں اپنے گھروں میں منتقل کرکے اداکاروں جیسا لباس پہننا اور اداکاروں جیسا گھر سنوارنا شروع کردیں۔ جنابِ زہراء نے فرمایا کہ وہ دین جو رسول اللہ ۖ لائے تھے یعنی خالص قرآنی دین، اس سے یہ لوگ ہٹ گئے ہیں اور یہ تمہارا فریضہ ہے کہ لوگوں کو اُس دین کی طرف دعوت دو۔ جنابِ فاطمہ کی طرف سے خواتین کو یہ وصیت ہے۔

ہم خواتین کو چار ذمہ داریاں بتا دیتے ہیں کہ پردہ کرے، گھر کا کام کرے، برتن دھوئے اور جھاڑو دے لیکن جنابِ زہراء نے اس سے بڑا فریضہ مقرر کیا۔ جنابِ زہراء فرماتی ہیں کہ جب مرد دین کا میدان چھوڑ جائیں تو خواتین دین کے میدان میں آئیں۔ جب مرد خوف یا مصلحتوں کی وجہ سے دین ِخدا کو چھوڑ جائیں تو خواتین میدان میں آجائیں اور اُن مردوں کو شرمندہ و شرمسار کریں۔

آج پاکستان کے اندر اسوۂ فاطمیہ کی ضرورت ہے۔ آج شیعہ قوم اور پھر پاکستانی قوم کے اندر جو مشکلات و مسائل ہیں یہ سب کے سب اسوۂ فاطمیہ سے حل ہوسکتے ہیں کہ جب یہ نسائِ اسلام و نسائِ دین اسوۂ فاطمیہ پر عمل کرکے اپنے دین کی حقیقت کو خود سمجھیں۔

دینِ فاطمی کو سمجھیں:

وہ دین جو فقط رسومات، عبادات اور چند احکامات رکھتا ہے لیکن جس میں نظام نہیں ہے، وہ فاطمہ کا دین نہیں ہے۔ لوگ اُسوقت جنابِ سیدہ کو عملاً یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اپنی نمازیں پڑھیں، روزے رکھیں، حج کریں اور اپنی رسومات انجام دیں، ہمارا کیا تعلق کہ حکمران کون ہے؟ سیاست میں کیا ہو رہا ہے اور نظام کس قسم کا ہے؟ جنابِ سیدہ نے فرمایا کہ یہی تمہاری سب سے بڑی گمراہی ہے۔ اگر یہ عبادتیں دین ِخدا اور نظامِ ولایت کے سائے میں انجام نہ پا رہی ہوں توانکا کوئی فائدہ نہیں، اگر یہ حج بھی نظامِ امامت و ولایت کے سائے میں نہ ہو تو اس حج کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔

امام حسین نے احرامِ حج کیوں اتار دیا؟

فرزند ِزہراء ، سید الشہداء ـنے یہ بتانے کیلئے احرام ِحج اتار دیا کہ آپ حج کیلئے زمین تو دیکھ رہے ہو کہ زمین کعبہ کی ہے لیکن اوپر نظامِ سیاسی کو نہیں دیکھ رہے کہ تم پر یزید کا سایہ ہے۔ جسطرح زمین پاک ہونی چاہئے اسی طرح نظام بھی پاک ہونا چاہئے اور اسکے بعد فرزند ِفاطمہ نے احرام کھول کر کربلا کا رخ کیا اور فرمایا کہ میں تمہارے سروں پر موجود منحوس سائے کو ختم کرنے جارہا ہوں۔

تماش بینوں کا رونا:

وہ حج جو نظامِ ستم کے تحت انجام پا رہا ہو یہ حج ِابراہیمی نہیں بلکہ ایک کاروبار ہے۔ آج ہم عزاداری کرکے خوش ہوتے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ عزاداری کس نظام کے سائے میں ہورہی ہے؟ آیا فاطمہ زہراء صرف ہمارے آنسوؤں اور نعروں کو دیکھیں گی؟ اگر آنسو دیکھنے ہوتے تو دختر ِ زہراء جب بازارِ کوفہ میں گئیں تو وہاں موجود اُن لوگوں کو دعا دیتی لیکن دختر ِ زہراء ، ثانیِ زہراء ، عصمت ِصغریٰ ، زینبِ عُلیا نے اُن لوگوں کو روتا دیکھ کر بددعا دی کہ تم ہمیں دیکھ کر روتے ہو، اگر تمہیں رونا تھا تو کربلا کیوں نہیں آئے؟ اگر تمہیں رونا تھا تو میرے ساتھ کیوں نہیں ہو؟ اگر تمہیں رونا تھا تو میری طرح رسیوں میں اسیر کیوں نہیں ہو؟ اگر تمہیں رونا تھا تو تمہارے عزیزوں کے سر نوکِ سناں پر کیوں نہیں ہیں؟ اگر تمہیں رونا تھا تو تم بھوکے پیاسے کیوں نہیں ہو؟ اسطرح تماشائیوں کے رونے سے نہ زہراء خوش ہوتی ہیں، نہ دختر زہراء اور نہ ہی فرزند ِزہراء خوش ہوتے ہیں۔

خطبات کی علّت:

ان مقدس ہستیوں نے کیوںقیام کیا اور کیوں یہ خطبے دیئے؟کبھی مسجد النبیۖ میں، کبھی نسائِ اسلام و انصار کے سامنے اور کبھی بازاروں اور درباروں میں خطبے دے رہی ہیں۔ اسلئے کہ لوگوں کو بتائیں کہ حقیقی دین کا راستہ کیا ہے؟ آج ہمیں فقط چند احکامات، چند رسومات اور چند دوسری چیزیں بتا دی جاتی ہیں اور ہم اُنہی پر عمل کرکے اپنی باقی زندگی بغیر زہراء کے بسر کرتے ہیں۔

احسانِ فاطمہ کی قدر دانی:

آیاآج ہم نظامِ زہراء کے تحت ہیں؟ آیا ہم فرائض کا ادراک اور بصیرتِ فاطمی رکھتے ہیں؟ اگر زندگی میں ایک گھنٹہ فاطمہ کیلئے دے کر اور فاطمہ کیلئے روکر ہم یہ کہیں کہ فاطمہ پر بڑا احسان کردیاہے، یہ ہماری غلط فہمی اور جہالت ہے۔ فاطمہ کا ہمارے اوپر احسان ہے کہ جس نے ہمیں کم از کم اس قابل بنایا کہ آج ہم اپنے آپکو مسلمان اور شیعہ کہہ سکتے ہیں۔ ہم اگر ہزار سال بھی روتے رہیں تو اُس ایک ضربت کا اجر نہیں دے سکتے جو فاطمہ کے تن ِپاک پر لگی، ہم فاطمہ کی آنکھوں سے گرنے والے ایک آنسو کا صلہ نہیں دے سکتے۔ فاطمہ کا احسان اس قدر عظیم ہے۔ وہ کوثرِ عظمیٰ ہے۔ اس کوثرِ عظمیٰ نے ہم پر جو احسان کیا اسکی قدردانی فقط ایک صورت میں ہوسکتی ہے کہ خواتین عزم و ہمت سے کام لیں اور اپنے آپکو اس آلودگی سے بچائیںجو اس میڈیا، نام نہاد آزادیِ نسواں کی تحریک، معاشرتی آلودگی، سیکولرازم، لبرل ازم اور اس جمہوریت کے گوسالے کے ذریعے ہم تک پہنچائی جا رہی ہے۔

موجودہ معاشرے میں خاتون کی حیثیت:

موجودہ معاشرے میں خاتون کی حالت یہ ہے کہ اسے متاعِ بازار بنادیا گیا ہے۔ خواتین کو اشتہاروں اور بازاروں میں شرمناک انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ تجارت اور بزنس کرسکیں۔ اگر کسی کو ٹائر بیچنا ہے تو بھی ساتھ خاتون کی تصویر لگی ہوتی ہے، اگر کسی کو گاڑی بیچنی ہے تو بھی تصویر خاتون کی ہوتی ہے، اگر کسی کو گریس بیچنی ہے تو بھی ساتھ خاتون کی تصویر ہوتی ہے۔ ہمیں خواتین کو اس ذلت سے نکالنا ہے۔ آج صرف فاطمہ کی پیروکار ہی خواتین کو اس ذلت سے نکال سکتی ہے۔

جنابِ زہراء حقیقی کی پیروکار؟

زہراء کی پیروکار وہ نہیں ہے کہ جو آلودہ ماحول میں ایک ڈگری لے اور پھر آلودہ ماحول میں جاکر نوکری کرتی رہے اور زہراء کی پیروکار وہ بھی نہیں ہے جو ساری عمر گھر سے نہ نکلے اور کچن میں برتن مانجھتی رہے اور جھاڑو دیتی رہے بلکہ حقیقی پیروکارِ زہراء وہ ہے جو اپنی معاشرتی اور دینی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہے۔

آج خواتین کو اس پستی سے نکال کر ان کی عزت و آبرو بچانا یہ خواتین کی ذمہ داری اور اسوۂ فاطمیہ ہے۔ آج دین کو اس انحراف سے نکال کر لوگوں کو بتانا ہے کہ اصلِ دین کیا ہے اور نظامِ دین کیا ہے؟ یہ فاطمی ذمہ داری ہے جو ہم سب پر عائد ہوتی ہے اور جب خواتین میدان میں آجائیں تو یہ کام ہو سکتا ہے۔ جنابِ سیدہ نے اس عالم میں جب کوئی ساتھ دینے والا نہیں تھا، تنہا آکر لوگوں کو نظامِ دین سمجھایا۔

تشیعِ فاطمی:

الحمد للہ! آج ہمارے پاس مکتب ِفاطمی، دین ِفاطمی، راہِ فاطمی، اسلامِ فاطمی اور تشیع ِفاطمی موجود ہے۔ تشیع ِفاطمی وہی ہے جو امام خمینی نے پیش کیا۔ جسطرح رسول اللہ ۖ کے بعد کئی اسلام سامنے رکھے گئے جبکہ فاطمہ کا اسلام الگ تھا یہ وہی اسلام تھا جو اللہ نے قرآن میں اتارا اور رسول اللہ ۖ نے بیان کیا۔جنابِ سیدہ نے خطبۂ فدکیہ میں اسی خالص اسلام کی تشریح کی، اس میں مسلمانوں کو توحید، رسالت، قیامت، نبوت اور امامت سمجھائی۔ جنابِ سیدہ نے اسوقت یہ بیان کیا کہ امامت ایک عقیدہ یا فقط ایک ذہنی تصور و نظریہ نہیں بلکہ امامت ایک مکمل نظام ہے، اسی خطبہ کے اندر جنابِ سیدہ نے بتایا کہ اے اُمت

''این تذہب''

تم کہاں جارہے ہو؟ امامت و ولایت کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟ یہ ایک خاتون ہیں، کوثر ہیں جو مردوں اور صحابیوں کو بٹھا کر اسلام سمجھا رہی ہیں اور اُن کو خطبۂ رسول اللہ ۖ دے رہی ہیں۔ وہی خطبے جو نہج البلاغہ میں ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ خطبہ اتنا عظیم ہے کہ ممکن نہیں ایک عورت ایسا خطبہ دے سکے۔ یہ یقینا علی ـکا خطبہ ہے جو انہوں نے جنابِ زہراء کو سکھایا تھا۔ انہیں معلوم نہیں کہ اسی لئے خداوند تعالیٰ نے علی ـکو زہراء کا اور زہراء کو علی ـکا کُفو بنایا، یہ کُفو فقط عقد و زوجیت و ہمسری کیلئے نہیں بلکہ یہ کُفو اسلام کی قیادت کیلئے بھی تھا کہ ایک قیادت علی ـنے اور دوسری قیادت زہراء نے کرنی تھی۔ اسلئے جنابِ سیدہ نے اتنا عالی مقام و عالیشان خطبہ دیا کہ آج بڑے بڑے علماء اسکی تفسیر، اسکو سمجھنے اور اسکے الفاظ کے معانی کرنے سے عاجز ہیں اور یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ اس خطبے کے اندر بی بی نے پورا دین سمجھا دیا۔ اگر دین سمجھنا ہے تو سیدہ سے سمجھو۔

جنابِ سیدہ نے اُن لوگوں کو تمام نظام ِ اسلامی اور حقیقت ِاسلام سمجھائی کہ تمہارا اصلی انحراف کہاں ہے؟ جنابِ سیدہ نے اس خطبے میں توحید سے لے کر آخر تک اسلام کی حقیقت سمجھائی ہے۔

ایک غلط روش:

ہمارے ہاں جو ایک غلط روش عام ہوچکی ہے وہ یہ کہ ہم چونکہ آئمہ و معصومین ٪ کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی تقریر، شعر، نعت، رُباعی اور ہر ممکنہ طریقے سے عقیدتوں کا بھرپور اظہار کریں جسطرح اکثر مجالس ِ امام حسین ـمیں خطباء و ذاکرین بیان کرتے ہیں کہ مجلس میں مولا آئے ہوئے ہیں یا بی بی آئی ہوئی ہیں۔ اگر اس مجلس میں جنابِ سیدہ آئی ہوئی ہیں تو کیا مجھے حق بنتا ہے کہ میں سیدہ کی موجودگی میں زبان درازی کروں؟ جہاں سیدہ ، مولا علی ـاور امام حسین ـموجود ہوں وہاں کسی اور کو بولنے کا حق نہیں بنتا۔ چاہے وہ کتنا بڑا خطیب اور ذاکر ہی کیوں نہ ہو، جب ذاتِ حسین ـ آجائے تو وہ چپ ہوجائے، جب رسول اللہ ۖ آجائیں تو وہ چپ ہوجائے لیکن ہمارا شوق یہ ہے کہ علی ـ بیٹھیں، میں رُباعیاں اور قصیدے پڑھوں اور علی ـ سنیں۔ حسین ـ بیٹھیں، میں مصائب پڑھوں اور حسین ـ سنیں۔ زہراء بیٹھیں، میں مصائب پڑھوں اور زہراء سنیں۔ یہ بے ادبی ہے، کیونکہ اگر میں نے درست بھی پڑھا تو زیادہ سے زیادہ اپنی عقیدت بیان کروںگا۔ میں جو بھی بیان کروں، تقریر کروں، قصیدہ پڑھوں، رُباعی پڑھوں، مجلس پڑھوں، میں اپنی عقیدت بیان کروں گا لیکن اگر میں چپ ہوجاؤں اور موقع دوں کہ علی ـ، حسین اور مادرِ حسین ـ بولیں تو وہ حقیقت بیان کریں گی۔

عقیدت و حقیقت:

الحمدللہ! آج ہمارے پاس عقیدتیں بھرپور ہیں اور بڑھنی بھی چاہئیں لیکن انکا استعمال حقیقتوں کو چھپانے کیلئے نہیں ہونا چاہئے۔ عقیدتوں کو حقیقتوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنانا چاہئے بلکہ حقیقتیں بیان کرنیوالوں کو موقع دینا چاہئے کہ وہ حقیقت بیان کریں۔ خطبۂ جنابِ سیدہ میں حقائق بیان کئے جارہے ہیں۔ کیا بہتر ہوتا کہ ہر مجلس ِفاطمی میں خطبۂ فاطمیہ پڑھا جاتا۔جنابِ سیدہ نے اُس دربار میںحقیقت بیان کی لیکن لوگوں نے نہ سنی اور اس حقیقت کیطرف نہیں آئے بلکہ آج تک نہیں آئے۔ جنابِ زہراء نے اس خطبے کے اندر جو حقیقت بیان کی تھی آج چودہ سو سال بعدامام خمینی نے وہ حقیقت سن لی۔ چونکہ امام خمینی آئمہ ٪ کے بہت باادب شاگرد ہیں۔ امام خمینی وہ شاگرد نہیں کہ جو حسین ـ کو بٹھا کر مجلس سنانا چاہیں بلکہ امام خمینی وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ حسین ـ خطبے دیں اور خمینی سنے۔ علی ـ خطبے دیں اور خمینی سنے۔ زہراء خطبہ دیں اور خمینی سنے اور جنابِ زہراء نے اپنے خطبوں کے ذریعے سے ہی امام خمینی سے کلام کیا۔ امام خمینی کو بھی یہ سمجھ میں آگیا کہ امامت محض ایک تصور اورعقیدے کا نام نہیں بلکہ ایک نظام کا نام ہے۔ تعجب ہے کہ رسول اللہ ۖ کی آنکھ بند ہوتے ہی لوگ نظامِ امامت کیخلاف کھڑے ہوگئے اور آج تک نظامِ امامت سے دور چلے آرہے ہیں۔ آج جو بھی میدان میں اترے گا وہ اسوۂ زہراء پر عمل کررہا ہے۔ امام خمینی نے آکر پرچم ِ ولایت وامامت کواس عصرِ غیبت میں بلند کیا ہے۔

امامِ زمانہ منتظر ہیں:

ہمارے امام پردۂ غیبت میں منتظر بیٹھے ہیں۔ وہ زلزلوں، آندھیوں، خرافات کے ظاہر ہونے اور ایسے کاموں کے منتظر نہیں بیٹھے ہوئے کہ جن میں آجکل ہمیں لگایا جارہا ہے بلکہ امام زمانہ اس بات کے منتظر ہیں کہ مجھے ماننے والے امامت کو نظام سمجھتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ میں نے تو انکے اوپر نظامِ امامت نافذ کرنا ہے جبکہ یہ امامت کو نظام ہی نہیں سمجھتے تو پھر میں کس طرح سے آؤں اور ان کے اوپر امامت نافذ کروں؟:

[استاد سید جواد نقوی صاحب قبلہ]

Add new comment