اہلبیتؑ کو بنو امیہ کی گالیاں،ثبوت12
ثبوت نمبر 12:
ابن کثیر کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں [آنلائن لنک]:
ومروان كان أكبر الأسباب في حصار عثمان لأنه زور على لسانه كتاباً إلى مصر بقتل أولئك الوفد، ولما كان متولياً على المدينة لمعاوية كان يسب علياً كل جمعة على المنبر.وقال له الحسن بن علي: لقد لعن الله أباك الحكم وأنت في صلبه على لسان نبيه فقال: لعن الله الحكم وما ولد والله أعلم. (ج/ص: 8/285)
ترجمہ:
جب مروان مدینے کا گورنر تھا تو وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعے کی نماز کے بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر مبارک پر چڑھ کر سب [برا کہنا، گالیاں دینا] کیا کرتا تھا۔
حافظ سیوطی نے تاریخ الخلفاء، صفحہ 199 پر اسی چیز کا ذکر عمیر ابن اسحق سے کیا ہے کہ:
"عمیر ابن اسحق سے مروی ہے: مروان ہم پر امیر تھا اور وہ علی ابن ابی طالب پر ہر جمعہ کی نماز کے بعد منبر رسول ص سے سب کرتا تھا، جبکہ حسن اسے سن رہے ہوتے تھے مگر کوئی جواب نہ دیتے تھے۔"
اور امام الذھبی تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288 پر یہی بات لکھ رہے ہیں:
"مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد علی ابن ابنی طالب پر سب کیا کرتا تھا"
اور مروان کی اس سنت کو اسکے خاندان والوں نے جاری رکھا:
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ
6382 - حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، - يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ - عَنْ أَبِي، حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ - قَالَ - فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا - قَالَ - فَأَبَى سَهْلٌ فَقَالَ لَهُ أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ فَقُلْ لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ . فَقَالَ سَهْلٌ مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا . فَقَالَ لَهُ أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ " أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ " . فَقَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَىْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لإِنْسَانٍ " انْظُرْ أَيْنَ هُوَ " . فَجَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ . فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَيَقُولُ " قُمْ أَبَا التُّرَابِ قُمْ أَبَا التُّرَابِ "
ترجمہ:
سہل روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں مروان کے خاندان میں سے ایک شخص حاکم ہوا اور اس نے سہل کو بلایا اورحکم دیا[فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا]کہ وہ علی ابن ابی طالب کو گالی دے۔ سہل نے انکار کیا۔ اس پر آوہ حاکم بولا کہ اگر تو گالی دینے سے انکار کرتا ہے تو کہہ لعنت ہو اللہ کی ابو تراب پر۔ ۔۔۔۔۔
امام ابن حجر مکی یہ صحیح روایت نقل کرتے ہیں:
عربی عبارت کے لیے آنلائن لنک:
ترجمہ:
بزاز کی روایت میں ہے کہ اللہ نے حکم [والد مروان] اور اسکے بیٹے پر لعنت کی لسان نبوی کے ذریعے سے۔اور ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ مروی ہےکہ جب مروان کو مدینے کا گورنر بنایا گیا تو وہ منبر پر ہر جمعے میں علی ابن ابی طالب پر سب و شتم کرتا تھا۔پھر اسکے بعد حضرت سعید بن عاص گورنر بنے تو وہ علی پر سب نہیں کرتے تھے۔ پھر مروان کو دوبارہ گورنر بنایا گیا تو اس نے پھر سب و شتم شروع کر دیا۔ امام حسن کو اس بات کا علم تھا مگر آپ خاموش رہتے تھے اور مسجد نبوی میں عین اقامت کے وقت داخل ہوتے تھے[تاکہ اپنے والد ماجد کی بدگوئی نہ سن سکیں]مگر مروان اس پر بھی راضی نہ ہوا یہاں تک کہ اس نے حضرت حسن کے گھر میں ایلچی کے ذریعے ان کو اور حضرت علی کو گالیاں دلوا بھیجیں۔ ان ہفوات میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ"تیری مثال میرے نزدیک خچر کی سی ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ تیر باپ کون ہے تو وہ کہے کہ میری ماں گھوڑی ہے۔" حضرت حسن نے یہ سن کر قاصد سے کہا کہ تو اسکے پاس جا اور اُس سے کہہ دے کہ خدا کی قسم میں تجھے گالی دے کر تیرا گناہ ہلکا نہیں کرنا چاہتا۔ میری اور تیری ملاقات اللہ کے ہاں ہو گی۔ اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ اللہ نے میرے نانا جان [صل اللہ علیہ و آلہ وسلم] کو جو شرف بخشا ہے وہ اس سے بلند و برتر ہے کہ میری مثال خچر کی سی ہو۔" ایلچی نکلا تو امام حسین سے اسکی ملاقات ہو گئی اور انہیں بِ اس نے گالیوں کے متعلق بتایا۔ حضرت حسین نے اسے پہلے تو دھمکی دی کہ خبردار جو تم نے میری بات بھی مروان تک نہ پہنچائی اور پھر فرمایا کہ:"اے مروان تو ذرا اپنے باپ اور اسکی قوم کی حیثیت پر بھی غور کر۔ تیرا مجھ سے کیا شروکار تو اپنے کندھوں پر اپنے اس لڑکے کو اٹھاتا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت کی ہے۔۔۔۔۔۔ اور عمدہ سند کے ساتھ یہ بھی مروی ہے کہ مروان نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تو وہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں یہ آیت اتری:"جس نے کہا اپنے والدین سے کہ تم پر اُف ہے۔"۔۔۔۔ عبدالرحمن کہنے لگے: "تو نے جھوٹ کہا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تیرے والد پر لعنت کی تھی۔"
نوٹ: مروان کی بدزبانی کا یہ پورا واقعہ علاوہ دیگر مورخین کے امام جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں بھی نقل کیا ہے اور متعدد دوسرے علماء نے اس کو بیان کا ہے۔
سوال:مروان کافر کیوں نہیں بنا جبکہ وہ صحابی علی ابن ابی طالب اور صحابی حسن و حسین کو گالیاں دے رہا ہے؟
معاویہ و بنی امیہ کے حامی نواصب اب یہ بتائیں کہ کیا علی ابن ابی طالب صحابی نہ تھے؟ کیا حسن و حسین علیہم السلام صحابی رسول نہ تھے؟ کیا دختر رسول، سیدۃ نساء العالمین، بتول و زہراء ، جگر گوشہ رسول صحابیہ نہ تھیں کہ انہیں معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مروان بن حکم ایسے گالیاں دے؟
آپ کو ان نواصب کا مکروہ اصلی چہرہ دیکھنا ہے تو دیکھئے سپاہ صحابہ کہ ویب سائیٹ پر "براۃ عثمان" نامی کتاب جہاں یہ مروان بن حکم کو کافر کہنے کی بجائے "رضی اللہ عنہ" اور "فقیہ مدینہ" کہہ رہے ہیں اور اس سے مروی روایات انکی کتابوں میں بھری ہوئی ہیں۔
تو بجائے مروان کو کافر بنانے کے انہوں نے اسے نہ صرف "رضی اللہ عنہ" بنا لیا بلکہ اپنا خلیفہ راشد اور "امیر المومنین" بنا دیا۔
نوٹ:
کیا آپ کو کو علم ہے کہ صحابی طلحہ کو کس نے مارا تھا؟ آپ کو حیرت ہو گی کہ طلحہ کو تیر مار کر ہلاک کرنے والا کوئی اور شخص نہیں بلکہ یہی مروان بن حکم ہے ۔ یقین نہیں آتا ہے کہ پھر بھی یہ لوگ اسے "امیر المومنین" بنائے بیٹھے ہیں۔ یہ اللہ کی ان پر لعنت ہے جو یہ اپنے ہی کبار صحابہ کے قاتلوں کو "رضی اللہ عنہ" اور اپنا خلیفہ و امیر المومنین بنائے بیٹھے ہیں۔
اہل سنت کی معتبر کتب میں یحیی ابن سعید سے روایت ہے:
" ۔ جب طلحہ نے میدان جنگ سے پسپا ہونا شروع کیا تو اس وقت طلحہ کے لشکر کی صفوں میں مروان بن حکم بھی موجود تھا۔ مروان بن حکم اور بنی امیہ، طلحہ کو عثمان کا قاتل سمجھتے تھے۔ مروان نے طلحہ پر ایک تیر کھینچ کر چلایا، جس سے وہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ پھر اس نے ابان سے کہا (جو عثمان کا بیٹا تھا)، "میں نے تمہیں تمہارے باپ کے ایک قاتل سے نجات دلا دی ہے۔" طلحہ کو بصرہ میں ایک اجڑے ہوۓ گھر میں منتقل کر دیا گیا جہاں اس کا انتقال ہوا۔"
سنی حوالے:
1. طبقات ابن سعد، ج 3، ص 159
2. ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ج3، ص 532
3. تاریخ ابن اثیر، ج3، ص244
4. اسد الغابہ، ج3، ص87
5. ابن عبد البر، الاستیعاب، ج2،ص766
Add new comment