طالبان کی پالیسیاں احمقانہ ہیں۔حزب اسلامی افغانستان

ٹی وی شیعہ[انٹرنیشنل میڈیا،کرنٹ افئرز ڈیسک]سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس وقت بھی افغانستان کے انتخابی کمیشن کے پاس 57 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ اگر افغانستان میں سیاسی عمل اسی طرح جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ یہاں بھی جمہوری نظام مضبوط ہو کیونکہ پانچ اپریل کے انتخابات میں نوجوانوں نے زیادہ تعداد میں حصہ لیا۔ 35 فیصد خواتین نے بھی ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیا۔افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار کی قیادت میں غیرملکی افواج کے خلاف لڑنے والی ایک بڑی مزاحمتی تحریک حزب اسلامی نے طالبان سے کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے احمقانہ  اور ظالمانہ قرار دیدیاہے۔۔ جنگ سے تباہ حال ملک کی تاریخ کے شاید سب سے اہم انتنخابات میں حصہ لیکر حزب اسلامی نے مستقبل میں اپنے لئے ممکنہ سیاسی کردار کیلئے ایک اچھی بنیاد رکھی ہے۔ حزب اسلامی کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار قطب الدین ہلال اہم امیدواروں میں شامل نہیں۔ تاہم غیرملکی افواج کے خلاف جنگ ختم نہ کرتے ہوئے بھی جمہوری عمل میں حصہ لیکر اس جماعت نے سب کو حیران کردیا ہے۔ یاد رہے کہ حکمت یار نے 2001ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد دو صدارتی انتخابات میں اس دلیل کی بنیاد پر حصہ نہیں لیا تھا کہ غیرملکی افواج کی موجودگی میں شفاف انتخابات ممکن نہیں۔ حزب اسلامی کی سیاسی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر غیرت بحیر کاکہنا ہے کہ انتخابات میں اس بار حصہ لینے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا تاکہ سیاسی میدان دوسروں کیلئے نہ چھوڑا جائے۔ انتخابات میں حصہ لینے سے حزب اسلامی کا سیاسی رخ بھی سامنے آیا ہے اور پانچ اپریل کے صدارتی اور صوبائی کونسلوں کے انتخابات میں لوگوں کی شرکت نے ثابت کر دیا کہ افغانستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن ہے۔ افغانستان میں سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکمت یار نے بہت دیر سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور شاید یہ بھی اس جماعت کی اس مرتبہ زیادہ ناکامی کی وجہ سے ہوا‘ لیکن اس فیصلے سے یہ مسلح گروہ سیاسی میدان میں داخل ہوا اور اب صرف طالبان میدان میں ایک مزاحمتی گروہ رہ گیا ہے۔

Add new comment