فدک کی شناخت
مدینہ کے اطراف میں ایک علاقہ ہے جس کا نام فدک ہے۔ مدینہ سے وہاں تک دو دن کا راستہ ہے ۔ یہ علاقہ زمانہ قدیم میں بہت آباد اور سرسبز اور درختوں سے پر تھا ۔ صاحب معجم البلدان لکھتے ہیں کہ اس علاقہ میں خرمے کے بہت درخت تھے اور اس میں پانی کے چشمے تھے کہ جس سے پانی ابلتا تھا یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ فدک کوئی معمولی اور بے ارزش علاقہ نہ تھا بلکہ آباد اور قابل توجہ جگہ تھی ۔ یہ علاقہ یہودیوں کے ہاتھ میں تھا جب 7 ھجری کو خیبر کا علاقہ فتح ہوگیا تو فدک کے یہودیوں نے مرعوب ہوکر کسی آدمی کو پیغمبر(ص) کے پاس روانہ کیا اور آپ سے صلح کرنے کی خواہش کی ۔
ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے محیصہ بن مسعود کو ان یہودیوں کے پاس بھیجا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی لیکن انھوں نے اسلام قبول نہ کیا البتہ صلح کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ جناب رسول خدا(ص) نے ان کی اس خواہش کو قبول فرمایا اور ان سے ایک صلح نامہ تحریر کیا۔ اس صلح نامہ کی وجہ سے فدک کے یہودی اسلام کی حفاظت اور حمایت میں آگۓ۔
صاحب فتوح البلدان لکھتے ہیں کہ یہودیوں نے اس صلح میں فدک کی آدھی زمین پیغمبر(ص) کے حوالے کردی، صاحب معجم البلدان لکھتے ہیں کہ فدک کے تمام باغات اور اموال اور زمین کا نصف پیغمبر(ص)کو دیدیا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس صلح کی قرار داد کی رو سے جو فدک کے یہودیوں اور پیغمبر(ص) کے درمیان قرار پائی تھی تمام آراضی اور باغات اور اموال کا آدھا یہودیوں نے پیغمبر(ص)کو دیدیا، یعنی یہ مال خالص پیغمبر(ص)کی ذات کا ہوگیا اور یہ علاقہ بغیر جنگ کۓ پیغمبر(ص) کے ہاتھ آ گیا۔ اسلام کے قانون کی رو سے جو علاقہ بھی بغیر جنگ کۓ فتح ہوجاۓ وہ رسول(ص)کا خالص مال ہوا کرتا ہے ۔ یہ قانون اسلام کے مسلمہ قوانین میں سے ایک ہے اور قرآن مجید بھی یہی حکم دیتا ہے ۔ جیسے خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے ۔
وما افاء اللہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر، ما افاء اللہ علی رسولہ من اھل القوی وللرسول۔(سورہ حشر 7 ۔ 6)
""یعنی وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص)کو دلوایا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑاۓ لیکن اللہ اپنے پیغمبر(ص)کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور خدا تمام چیزوں پر قادر ہے ۔ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے لۓ مخصوص ہیں۔ ""
حضرت زہرا(س)
لہذا اس میں کسی کو شک بھی نہیں ہونا چاہۓ کہ فدک پیغمبر(ص) کےخالص اموال میں سے ایک تھا یہ بغیر لڑائی کے پیغمبر(ص)کو ملا تھا اور پیغمبر(ص)اس کے خرچ کرنے میں تمام اختیارات رکھتے تھے آپ حق رکھتے تھے کہ جس جگہ بھی مصلحت دیکھیں فدک کے مال کو خرچ کریں ۔ آپ اس مال کو حکومت چلانے پر بھی خرچ کرتے تھے اور اگر کبھی اسلام کے اعلی مصالح اور حکومت اسلامی کے مصالح اقتضا کرتے تو آپ کو حق تھا کہ فدک میں سے کچھ حصہ کسی کو بخش دیں تاکہ وہ اس کے منافع اور آمدنی سے فائدہ اٹھاتا رہے۔ آپ کو حق تھا کہ فدک کے آباد کرنے کے عوض کسی کو بلا عوض یا معاوضہ پر بھی دے دیں اور آپ یہ بھی کرسکتے تھے کہ کسی کی اسلامی خدمات کے عوض اس سے کچھ مال اسے بخش دیں اور یہ بھی کرسکتے تھے کہ فدک کی آمدنی سے کچھ حکومت اسلامی اور عمومی ضروریات پر خرچ کردیں اور یہ بھی حق رکھتے تھے کہ اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے لۓ فدک کا کچھ حصہ مخصوص قرار دیدیں ۔ بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے فدک کو اپنے اور اپنے خاندان کے معاش اور ضروریات زندگی کے لۓ مخصوص کر رکھا تھا۔ آپ نے فدک کی بعض غیر آباد زمین کو اپنے دست مبارک سے آباد کیا اور اس میں خرمے کے درخت لگاۓ۔
ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ جب متوکل عباسی نے فدک عبداللہ بن عمر باز یار کو بخش دیا تو اس میں اس وقت تک گیارہ خرمے کے وہ درخت موجود تھے جو جناب رسول خدا(ص)نے اپنے دست مبارک سے اس میں لگاۓ تھے۔ جب کبھی فدک جناب فاطمہ(ع)کی اولاد کے ہاتھ میں آجاتا تھا تو وہ ان درختوں کے خرمے حاجیوں کو ہدیہ کردیتے تھے ۔ جب یہی عبداللہ فدک پر مسلط ہوا تو اس نے بشران بن امیہ کو حکم دیا کہ وہ تمام درخت کاٹ دے جب وہ درخت کاٹے گۓ اور کاٹنے والا بصرہ لوٹ آیا تو اسے فالج ہوگیا تھا۔(شرح ابن ابی الحدید، ج 16،ص217)
پیغمبر(ص)کی عادت یہ تھی کہ فدک کی آمدنی سے اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مطابق لے لیتے تھے اور جو باقی بچ جاتا تھا وہ بنی ہاشم کے فقراء اور ابن سبیل کو دیدیا کرتے تھے اور بنی ہاشم کے فقراء کی شادی کرانے کے اسباب بھی اسی سے مہیا کرتے تھے۔
Add new comment