جناب سیدہ کی شھادت
حضرت فاطمہ علیھا السلام پیغمبر اسلام(ص) کے بعد نوے دن یا پچھتر دن زندہ رہ سکیں۔ اور اس عرصے میں کسی نے ان کو خوش نہیں دیکھا، کہتے ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری روز اپنے معمولی سے بستر پر دراز ہوئیں تو کئی گھنٹوں تک سوتی رہیں، اس دوران میں اپنے والد گرامی کو خواب میں فرماتے سنا، اے پیاری بیٹی میری طرف آؤ میں تجھ سے ملنے کا مشتاق ہوں۔ تو میں نے عرض کی کہ میں آپ کے دیدار کیلئے بہت زیادہ مشتاق ہوں، تو پھر پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا تو آج رات میرے پاس ہو گی، حضرت زہرا جب نیند سے بیدار ہوئیں، اور آنکھیں کھولیں تو طبیعت میں تازگی لوٹ آئی، گویا آپ کیلئے بہترین زندگی موت سے کچھ دیر پہلے تھی، وہ اس وجہ سے کہ بہت جلد غموں اور دنیا کے دکھوں سے نجات پا کر اپنے والد گرامی سے ملاقات میں خوشی کا احساس کر رہی تھی، تو دوسری جانب ان کے دل کو آگ لگی تھی کہ انتہائی مہربان اور شفیق شوہر کو چھوڑنے والی ہیں۔ وہ شوہر جو دشمنوں اور قسادتوں سے بھری دنیا میں سوائے خدا کے اور حضرت زہرا کے کوئی ہمدم و غمگسار نہیں رکھتا تھا، ان سنگین حالات میں حضرت زہرا مرضیہ ان کی حامی و ناصر اور دفاع کرنے والی تھیں، آج اگر وہ دنیا سے چلی جائیں تو ان کی جگہ کون لے گا؟ اپنی چھوٹی چھوٹی اولاد کا مسئلہ ذہن میں تھا، آپ کے ناموں میں ایک نام "حانیہ" ہے کیونکہ آپ اپنے شوہر اور اولاد کے متعلق بہت مہربان اور شفیق ہے اور وہ بہت جلدی اپنے دل کے ٹکڑوں سے علیحدہ ہونے والی ہیں۔ اور اس کی رضاعت کے ساتھ راضی تھیں۔
وہ اب قریب المرگ تھیں لیکن کینہ پرور لوگوں کے کینے، حسد، قسادتوں اور سنگدلیوں سے خصوصاً وہ لوگ جو منافقانہ انداز میں کہ دائرہ ایمان میں داخل ہوئے اور اسلام پر پشت سے خنجر گھونپنے والوں سے دل پارہ پارہ ہو چکا تھا۔
وہ زہرا جو صبر و بردباری کا مجسمہ ہیں آج موت کی آرزو کر رہی ہیں، اور لقاء اللہ کی امید لئے بیٹھی ہیں، انہوں نے اپنے باپ کی رحلت کے بعد ایک بھی خوشی کا لمحہ نہیں دیکھا، بلکہ جب سے پیغمبر اسلام(ص) بستر بیماری پر تھے، آنحضرت(ص) نے دیو سیرت انسان نما چہروں کو دیکھا تھا جن کے خیالات سے خیانت جھلک رہی تھی کہ وہ پیغمبر اسلام(ص) کی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق وصیتوں کو روندتے ہوئے اسلام کو اپنے صحیح راستے سے منحرف کردیں گے۔ ان کا دل اس بات سے بوجھل تھا کہ مسلمانوں نے اپنی بیٹی اور داماد کی حمایت میں آواز بلند نہیں کی، وہ بستر بیماری پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں جو اپنے وقت کے امام اور شوہر اور بیٹیوں کی حمایت میں آرہی ہے۔ اور وہ ایسی موت کا استقبال کر رہی ہیں جو پیغمبر اسلام(ص) کی فریاد قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربی کے مقابل میں مسلمان اپنے ربہر اور مقتداء کو کیسے جواب دتیے ہیں، ہاں وہ وراثت جو پیغمبر اپنے بدن کے ٹکڑے کے لئے چھوڑتے ہیں غصب کر لیتے ہیں، اور اہل بیت کے گھر کو آگ لگا دیتے ہیں اور حضر ت زہرا کو دروازے اور دیوار کے درمیان دبا دیتے ہیں، حتی کہ چھ ماہ کے محسن کی موت کا سبب بنتے ہیں، اس بے کسی کی حالت میں اپنی کنیز حضرت فضہ کو اپنی پناہ گاہ سمجھ کر کہتی ہیں اے فضہ مجھے اٹھاؤ میرا محسن شہید ہو گیا ہے۔
وہ بستر پر ایسی موت کے استقبال میں ہیں، جو ایسے لوگوں کی طرف سے آرہی تھی جنہوں نے اپنے دونوں کانوں سے پیغمبر کی زبانی سن رکھا تھا جس نے فاطمہ کو اذیت دی گویا اس نے مجھے اذیت دی اور حضرت زہرا کی ناراضگی گویا خدا کی ناراضگی ہے۔
وہ لوگ جن کی آنکھوں کو دنیا کی چند روزہ زندگی نے پر کر رکھا تھا اور دنیاوی مقام و منصب سے عشق نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھ، گویا اپنے رب کو بھی بھول گئے، وہ لوگ اپنے آپ کو مسلمانوں کے امور کا ناخدا سمجھ بیٹھے ہیں حقیقت میں ابھی تک کفر کی زنجیر ان کی گردونوں میں آویزاں ہے۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین الہی کو ایسے لوگوں کے حوالے کیا جائے جو کفر و بت کی پرستی کے گرداب میں غوطہ زن رہے ہوں، اور پتھروں اور لکڑی سے بنے بتوں کے سامنے سر بسجود رہے ہوں، اور ان کا اعمال نامہ ہر قسم کی نجاست اور غلط کاریوں سے پر ہو؟
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دین خدا کو ایسے لوگوں کے حوالے کردیا جائے جن کی پوری زندگی میں روشنی کا نشان تک نہ ہو؟ پردے کے پیچھے تو عورتیں بھی اپنے آپ کو دانا سمجھتی ہیں، جنگوں میں انتہائی ذلت کے ساتھ فرار کرتے تھے اور اپنے پیغمبر پر انتہائی ناروا کاموں کی وجہ سے الزام لگاتے تھے اور معارف قرآن سے ناواقف تھے گویا قرآن پڑھا ہی نہیں ہے۔
وہ ایسی موت کے استقبال میں ہیں کہ گویا اپنے شوہر نامدار اور اپنی پیاری اولاد سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔ جیسے ہی اٹھنے کی سکت ختم ہوتی نظر آئی، تو اپنے بستر بیماری سے اٹھتی ہیں اور گھر کے کام کاج میں مشغول ہوجاتی ہیں، اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السلام گھر میں آتے ہیں اور کام کرنے کی وجہ پوچھتے ہیں۔ بی بی اپنا خواب نقل کردیتی ہیں۔
اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بی بی تمام مدت سے دل میں رکھے ان تمام واقعات سے اپنے شوہر نامدار کو آگاہ کریں اور اپنی وصیتیں کریں۔ حضرت امام علی سب کو کمرے سے باہر بھیج دیتے ہیں اور خود اپنی شفیق رفیقہ حیات کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں۔ اے چچا کے بیٹے پوری زندگی میں مجھ سے جھوٹ اور خیات نہیں دیکھی ہو گی اور مزید یہ کہ اس عرصے میں کسی بھی وقت آپ کی مخالفت نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا آپ اس سے کہیں زیادہ دانا، متقی اور عزت دار ہیں کہ میں آپ کو اپنی مخالفت کرنے پر سرزنش کروں۔ آپ سے جدائی میرے لئے بہت سخت اور دشوار ہو گی لیکن کیاکریں کہ موت سے کسی کو گریز نہیں۔ خدا کی قسم آپ کے جانے سے رسول خدا کی مصیبت دوبارہ زندہ ہوجائے گی۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ اس مصیبت میں کوئی مددگار نہیں ہے اور ایسا غم ہے جو اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا، میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے جنازے میں جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا شریک نہ ہوں۔ ہرگز ایسے لوگوں میں سے کوئی مجھ پر نماز جنازہ نہ پڑھے۔ مجھے آدھی رات میں جب آنکھیں بند ہوجائیں اور لوگ سو جائیں دفن کرنا۔
بعض روایات سے یوں استفادہ ہوتا ہے کہ وقت احتضار میں امیر المومنین گھر میں نہیں تھے۔ فقط حضرت اسماء گھر میں تھیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد امام حسن اور امام حسین علیھما السلام گھر میں آئے۔ اور حضرت اسماء سے کہتے ہیں کہ ہماری ماں پہلے تو اس وقت میں نہیں سوتی تھیں۔ وہ جواب دیتی ہیں اے فرزندان رسول خدا آپ کی ماں سوئی نہیں بلکہ دنیا سے جا چکی ہیں۔
یہ بات سنتے ہی بچوں نے فریاد بلندکی اور ماں کے جنازے پر گر پڑے۔ اور اپنی ماں سے گفتگو کی۔ اتنے میں حضرت اسماء بچوں سے امیر المومنین کو مسجد سے بلانے کے لئے کہتی ہیں۔ حضرت امام علی اپنی وفادار رفیقہ حیات کے پاس بیٹھ کر کہتے ہیں کہ آج کے بعد کس سے دل کی بات کروں گا؟ پیغمبر اسلام(ص) کی وفات کی طرح آج پھر مدینہ کے لوگوں نے رونے اور بینوں کی آوازیں سنیں، لوگ اس انتظار مییں تھے کہ تشیع جنازہ میں شریک ہوکر نماز جنازہ پڑھیں گے۔ لیکن امیر المومنین نے تشیع جنازہ میں تاخیر کردی تاکہ وصیت کے مطابق عمل کیا جائے۔
جب مدینے والے سو گئے اور خاموشی چھا گئی۔ امام علیہ السلام نے اس نحیف سے بدن کو جو چاند کی طرح کمرخمیدہ تھیں غسل و کفن دیا۔ اور پیغمبر اسلام(ص) کے دیئے ہوئے بہشتی حنوط سے حنوط کیا۔ ان مراحل کے بعد امیر المومنین نے اپنی اولاد کو آواز دی اے حسن، حسین، اے زینب، اے کلثوم، آؤ اور اپنی ماں سے الوداع کر لو کیونکہ جدائی کا وقت آن پہنچا ہے پھر اس کے بعد جنت میں ان سے ملاقات کرو گے۔ بچے گویا اسی انتظار میں تھے جلدی سے آئے اور خود کو ماں کے جنازے پر گرادیا۔ پھر آہستہ آہستہ رونا شروع کیا یہاں تک کہ ماں کے کفن کو آنسوؤں سے تر کردیا۔
بہرحال حضرت زہرا کے لئے قبر تیار کی گئی جس کی جگہ کسی کو بھی معلوم نہیں۔ اور ایسے ہی امام زمانہ عجل اللہ کے ظہور تک مخفی رہے گی۔ فضائل و مناقب کے مجموعہ کو دفنانے کے بعد امیر المومنین یوں گویا ہوئے۔ اے زمین اپنی امانت تیرے حوالے کی۔ یہ رسول خدا کی بیٹی ہے۔ اے فاطمہ تجھے اس کے حوالے کرتا ہوں جو مجھ سے زیادہ شائستہ اور حق دار ہے۔ اور جس سے خدا راضی ہوتا ہے۔ میں بھی اسی سے راضی ہوں۔
امیر المومنین اپنی زندگی کے سخت ترین دور سے گذر رہے تھے۔ کیونکہ اپنی زندگی کی شروعات میں ہی قیمتی ترین متاع اپنے ہاتھ سے دے چکے تھے۔ ان دکھ بھرے لمحات میں حضرت امام علی قبر سے مٹی کو ہاتھ میں اس انداز میں مسل رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور کہہ رہے ہیں۔
السلام علیک یا رسول اللّٰہ عنی، السلام علیک عن ابتک وزائرتک ولبائتة فی الثری یقعتک، والمختارہ اللّٰہ لھا سرعة اللحاق بک، قل یا رسول اللّٰہ عن صفیتک صبری، وعفا عن سیدہ نساء العالمین تجلدی……،
بلی و فی کتاب اللّٰہ یی انعم القبول، ان للّٰہ وانا الیہ راجعون، قد استرجعت الودیعۃ واخذت الرھینۃ واختلست الزہراء، فمااقبح الخضراء والغبراء یا رسول اللّٰہ اما حزنی فسرمد، اما یسلی فمسھد وھم لا یبرح من قلبی، اویختار اللّٰہ لی دارک التی انت فیھا مقیم کمد مقیح و ھم مھیح، سرعان مافزق اللّٰہ بیننا، الی اللّٰہ اشکو وستنبئک ابنتک بتضافر امتک علی، وعلی ھضمھا حقھا، فاحفھا السؤال واستخبرھا الحال فکم عن غلیل متعلج بصدرھا لم تجد الی بثہ سبیلاً، وستقول و یحکم اللّٰہ وھو خیر الحاکمین، والسلام علیکما یا رسول اللّٰہ سلام مودع لا ولا قال، فان انصرف فلا عن ملالۃ، وان اقم فلا عن سوء ظن بما وعند اللّٰہ الصابرین، واھا واھا، والصبر ایمن واجمل، ولو لا غلبۃ المستولین علینا لجعلت المقام عند قبرک الزاماً، والتلبت عندہ عکونا ولا عولت اعوال الثکلی علی جلیل الرزیۃ، فبعین اللّٰہ تدفن ابنتک سرا، ویھتضم حقھا قھراً بیمنع ارثھا جھراً، ولم یطل منک العھد، ولم یخلق منک الذکر فالی اللّٰہ یا رسول اللّٰہ المشتکی، وفیک یا رسول اللّٰہ اجمل العزاء فصلوات اللّٰہ علیہا وعلیک ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔
ترجمہ: کلام امیر المومنین علیہ السلام
اے رسول خدا آپ پر سلام، آپ کی بیٹی اور آپ کی زیارت کرنے والی کی طرف سے سلام، جو آپ کی مقدس بارگاہ میں منوں مٹی تلے پر سکون سو رہی ہے۔ وہ جس کو خدا نے آپ سے ملاقات کے لئے سب سے پہلے چن لیا، ہم اس بات پر صابر ہیں کہ آپ کی محبوبہ حضرت زہرا کی آپ سے جدائی کم ہوگئی ہے لیکن سیدہ نساء العالمین کے فراق میں ہماری قوت برداشت ختم ہو رہی ہے۔
جی ہاں تقدیر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کئے بغیر چارہ نہیں جب ہی تو کہہ رہے ہیں، ان لللّٰہ وانا الیہ راجعون، پس امانت لوٹالی گئی اور گروی شدہ چیز واپس لے لی گئی اور حضرت زہرا ان دکھوں سے نجات پا گئی۔
اے رسول خدا مجھے نیلا آسمان اور خاکی زمین بہت پست نظر آرہے ہیں میرے دکھ ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور میری راتیں بیداری میں گزریں گی، اور غموں نے میرے دل میں آشیانہ بنا لیا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے لئے وہ گھر منتخب کر لے جس میں آپ مقیم ہیں گہرے دکھوں نے دل خون کردیا، اور ایسے غموں میں مبتلا ہوں جو ابل رہے ہیں، کتنی جلدی خدا نے ہمارے درمیان جدائی ڈال دی اور میں بارگاہ ایزدی میں اس کی شکایت کرتا ہوں۔
عنقریب آپ کی بیٹی آپ کو بتائیں گی کہ آپ کی امت میرے خلاف جمع ہو گئی ہے، اور فدک کے غصب ہونے کے متعلق پوچھنا، اور اپنی بیٹی سے بار بار پوچھنا کہ حالات سے پردہ اٹھائے۔
کیونکہ بعض دکھ ان کے سینے میں آگ کی طرح بھڑک رہے تھے جنہیں دنیا میں کسی سے بیان نہیں کر سکیں لیکن وہ جلد کہیں گی اور خدا فیصلہ کرے گا کیونکہ وہ بہترین قضاوت کرنے والا ہے،
اے رسول خدا آپ دونوں پر سلام، اس الوداع کہنے والے کو سلام جو نہ پریشان ہے اور نہ ناراض ہے، اور اگر یہاں سے چلاجاؤں تو یہ پریشانی کی وجہ سے نہیں، یا یہاں پر رک جاؤں تو اس وجہ سے نہیں کہ خدا کے صبر کرنے والوں سے کئے گئے وعدے سے بدگمان ہوں۔
صبر اور بردبادی مبارک اور سب سے پسندیدہ ہیں، اور اگر دشمنوں کے مخالف آجانے کا خوف نہ ہوتا تو آپ کی قبر کے پاس ہی اپنی قیام گاہ بنا لیتا اور بڑے سکون سے اعتکاف بیٹھنے والوں کی طرح یہی رک جاتا، اور اس ماں کی طرح بین کرتا رہت اجو اپنے جوان بیٹے کی موت پر بین کرتی ہے،
جی ہاں، پیغمبر آپ کی بیٹی خدا کے حضور میں رات کی تاریکی میں دفن کی گئی، جبراً اس کا حق چھینا گیا، واضح طور پر اس کو اپنی وراثت سے محروم کردیا گیا، حالانکہ آپ کے دنیا سے چلے جانے سے زیادہ عرصہ بھی نہ گذرا تھا، اور آپ کا نام بھی ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا،
پس رسول خدا میری شکایت فقط بارگاہ ایزدی سے ہے اور آپ بہترین دل جوئی کرنے والے ہیں، پس خداوند تبارک و تعالیٰ کا درود و سلام ہو رحمتیں اور برکتیں ہوں آپ پر اور حضرت فاطمہ پر۔
http://shiastudies.net/library/Subpage/Book_Matn.php?syslang=4&id=342&id...
Add new comment